عصر کے بعد سب باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ آسمان پر بارش کے بعد ایک خوبصورت دھنک (قوسِ قزح) نظر آ رہی تھی۔ گڑیا: (اشارہ کرتے ہوئے) دادی جان! دیکھیں نا ںکتنا خوبصورت رنگوں والا پُل بن گیا ہے آسمان پر۔ محمود: اسے قوسِ قزح کہتے ہیں ناں؟ دادی جان: (مسکرا کر) ہاں، لوگ تو یہی کہتے ہیں… مگر ایک بار میں نے بھی یہی لفظ کہا تھا، اور پھر کبھی نہ کہا۔ احمد: کیوں دادی جان ؟ کیا ہوا تھا؟ دادی جان: بیٹا، یہ قصہ حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ کے بچپن کا ہے۔ آپؓ اور دوسرے بچے ایک شام آسمان پر ہلکے ہلکے بادلوں میں خوب صورت رنگ کی دھنک دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ اس وقت صحن میں ٹہل رہے تھے۔ آپؓ نے حضرت اقدسؑ سے پوچھا کہ یہ جو کمان ہے اس کو سب لوگ (پنجابی میں) مائی بڈھی کی پینگ کہتے ہیں۔ اس کو عربی میں کیا کہتے ہیں؟ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: اس کو عربی میں قوس قزح کہتے ہیں مگر تم اس کو ’’قوسُ اللہ‘‘ کہو قوس قزح کے معنی شیطان کی کمان ہیں۔ گڑیا: اوہ! تو قوسُ اللہ کہنا چاہیے نا ںدادی جان ؟ دادی جان: ہاں بیٹی، یہی تو ادب سکھایا تھا۔ محمود: حضرت مسیح موعودؑ کبھی ڈانٹتے نہیں تھے کیا؟ دادی جان: (پیار سے) نہیں بیٹا، وہ ڈانٹنے کی بجائے محبت سے سمجھاتے تھے۔ ایک دن نواب مبارکہ بیگمؓ نے “Look and Laugh” نام کا کھلونا دکھایا۔ جس سے دوسروں کے چہرے مضحکہ خیز نظر آتے۔ حضورؑ نے دیکھا، مسکرائے، اور سمجھایا کہ اب جاؤ دیکھو اور ہنسو کھیلو مگر دیکھو یاد رکھنا میری جانب ہرگز نہ دیکھنا۔ احمد: تو کیا حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ نے دیکھا؟ دادی جان: نہیں، انہوں نے ادب قائم رکھا اور وعدہ نبھایا۔ گڑیا: دادی، وہ قینچی والا واقعہ بھی سنائیں نا، احمد ہمیشہ قینچی اُلٹی پکڑتا ہے۔ احمد: (جلدی سے) ارے میں اب ٹھیک پکڑتا ہوں! دادی جان: (ہنستے ہوئے) حضرت مبارکہ بیگمؓ بھی ایک دن اپنے بھائی مبارک احمد کے ساتھ قینچی سے کھیل رہی تھیں۔ قینچی کی نوک اُن کے بھائی کی طرف تھی۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے دیکھا اور فوراً فرمایا کہ کبھی کوئی تیز قینچی یاچھری چاقو اس کے تیز رُخ سے کسی کی طرف نہ پکڑاؤ اچانک لگ سکتی ہے۔ کسی کی آنکھ میں لگ جائے کوئی نقصان پہنچے تو اپنے دل کو بھی ہمیشہ پچھتاوا رہے گا اور دوسرے کو تکلیف ہو گی۔ احمد: (گمبھیر لہجے میں) دادی جان، یہ تو ہمارے لیے بھی سبق ہے۔ دادی جان: بالکل بیٹا۔ یہ صرف جسمانی احتیاط نہیں تھی، یہ دل کی نرمی سکھانے کا انداز تھا۔ دادی جان: میں تمہیں ایک بہت پیارا واقعہ سناتی ہوں ایک دفعہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ اُن کے بھائی صاحبزادہ مرزا مبارک احمد (مرحوم) اُن سے ناراض ہوگئے ہیں اور کسی طرح راضی نہیں ہو رہے۔ حضورؑ نے جو اس وقت ایک کتاب تصنیف فرما رہے تھے مندرجہ ذیل اشعار لکھ کر دئیے جو حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ نے صاحبزادہ صاحب کے سامنے پڑھ دیے تو وہ خوش ہو گئے۔؎ مبارک کو مَیں نے ستایا نہیں کبھی میرے دل میں یہ آیا نہیں میں بھائی کو کیونکر ستا سکتی ہوں وُہ کیا میری اَمّاں کا جایا نہیں الٰہی خطا کر دے میری معاف کہ تجھ بِن تو رَبّ البرایا نہیں! احمد: دادی جان … کتنی پیاری نظم ہے۔ گڑیا: (محویت سے) اور وہ نظم سن کر بھائی صاحب تو راضی ہو گئے ہوں گے ناں؟ دادی جان: ہاں بیٹی، بس نظم سنی اور مسکرا دیے۔ محمود: (ہنستے ہوئے) دادی جان اگر آپ بھی میرے لیے نظم لکھ دیں تو میں بھی کبھی نہیں روٹھوں گا! دادی جان: (ہنستے ہوئے) تو پھر تمہیں بھی ’’امّاں کا جایا‘‘ کہہ کر منانا پڑے گا؟ یہ سن کر سب ہنس پڑے۔ احمد: دادی جان، آپ نے بتایاتھا کہ کوئی ڈبل روٹی والا واقعہ بھی ہے۔ دادی جان: ہاں بیٹا، وہ بھی بہت ہی محبت والا واقعہ ہے۔ قادیان میں اُس زمانے میں ڈبل روٹی کہاں ہوتی تھی؟ بس کبھی لاہور سے کوئی لاتا تو سب کے لیے خاص دن ہوتا۔ ایک صبح حضرت مسیح موعود ؑ سیر پر گئے ہوئے تھے۔ حضرت مبارکہ بیگمؓ نے باورچی خانے میں جا کر کہا کہ مجھے توس تَل کر دو، مجھے تلے ہوئے توس پسند ہیں۔ باورچن مصروف تھیں، اور حضرت اماں جانؓ نے بھی فرمایا کہ “ابھی بہت کام ہیں، بعد میں تَل دیں گے، ابھی ایسے ہی کھالو۔” آپؓ چپ ہو کر چلی گئیں اور روٹھ کر کھڑکی کے پاس بیٹھ گئیں۔ گڑیا: (بے تاب ہو کر) پھر کیا ہوا دادی جان؟ دادی جان: حضورؑ سیر سے واپس تشریف لائے۔ کونے میں خاموش بیٹھا دیکھ کر جان گئے کہ بیٹی روٹھی ہے۔ خاموشی سے باہر گئے، تھوڑی دیر بعد خود اپنے ہاتھوں سے توس تَل کر لائے اور پلیٹ میں رکھ کر اُن کے سامنے رکھی۔ اور فرمایا کہ “لو، اب کھاؤ”۔ احمد: اتنی مصروفیت کے باوجود؟ دادی جان: ہاں بیٹا، حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ فرمایا کرتی تھیں کہ جب بھی تلے ہوئے توس کھاتی ہوں، وہ منظر یاد آجاتا ہے کہ حضورؑ نے کیسے محبت سے ان کے لیے توس بنائے۔ محمود: (دودھ کا گلاس سامنے رکھتے ہوئے) دادی جان۔ پچھلے دنوں بچوں کے الفضل کے یاد کرنے کی باتیں والے سیگمنٹ میں ایک الہام بھی آیا تھا کہ تُنَشَّأُ فِی الْحِلْیَۃِ۔ یعنی زیور میں نشوونما پائے گی۔ اور لکھا تھا کہ یہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے متعلق تھا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ دادی جان: جی ہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماً خبر دی تھی۔ اس سے مراد یہ تھی کہ اُن کو اللہ تعالیٰ وافر دولت سے نوازےگا۔ اور آپ جب بڑی ہوئیں تو آپ کی شادی نواب خاندان میں طے پائی۔ بچپن سے ہی حضرت مسیح موعودؑ نے بھی آپ کے خوب لاڈ اٹھائے۔ آپ کو مٹھائیوں کے ڈبے کی چابیاں ہی پکڑا دیتے تھے۔ محمود: حضورؑ کے پاس مٹھائیوں کا ڈبہ ہوتا تھا؟ دادی جان: (ہنستے ہوئے) ہاں بیٹا، دو لکڑی کے بکس حضورؑ کے سرہانے رکھے ہوتے تھے۔ حضورؑ چابی دے دیتے۔ مٹھائی یا بسکٹ جو اُس میں ہوتے تھے جس قدر ضرورت ہوتی وہ نکال لیتیں، کھانے والی دو تھیں مگروہ تین یاچار یا چھ کے اندازہ کا نکال لیتیں اور حضورؑ کو دکھا دیتیں تو حضور ؑ نے کبھی نہیں کہا کہ زیادہ ہے اتنا کیا کروگی۔ محمود: (شریر انداز میں) دادی جان، اگر میں ہوتا تو ساری مٹھائی کھا جاتا! دادی جان: (ہنستے ہوئے) بیٹا، حضورؑ نے بھی یہی سکھایا کہ ادب اجازت سے بڑھ کر چیز ہے۔ دیکھو ناں، مٹھائی مانگنا بھی ایک تربیت کا حصہ بن گیا۔ احمد: (سوچتے ہوئے) دادی، کتنا عجیب ہے بظاہر چھوٹی سی بات میں بھی روحانی سبق چھپا ہے۔ دادی جان: (نرمی سے) یہی تو تربیت ہے بیٹا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے بچوں کو بہترین اخلاق سکھائے تھے۔ جو اَب ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ چلیں اب مغرب کا وقت ہونے والا ہے چل کر وضو کرلیں اور نماز کی تیاری کریں۔ بچے : جی دادی جان ٹھیک ہے۔ اور وضو کرنے اندر بھاگ جاتے ہیں۔ (درثمین احمد۔ جرمنی)