حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ’’بعض لوگوں نے قربانیاں کرنے کے لیے یہ طریق بھی اختیار کیا ہوا ہے کہ مالی قربانیوں کے لیے ایک ڈبہ بنا لیتے ہیں جس میں ہر سال یا ہر وقت جو بھی آمد ہو جب بھی جہاں سے کوئی پیسے آتے ہیں اس میں ڈالتے رہتے ہیں اور اس طرح سال کے آخر میں جمع کر لیتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب تحریکِ جدید کی تحریک جاری فرمائی تو آپؓ نے سادہ زندگی کا مطالبہ کیا تھا اور آپؓ نے فرمایا تھا کہ سادہ زندگی کر کے اپنے پیسے جوڑو اور اس کے حساب سے خرچ کرو اور اس کے نتیجہ میں بعض لوگ ایسے ہیں جو خود سادہ سے سادہ زندگی گزارتے ہیں اور بڑی بڑی رقمیں دیتے ہیں۔ بظاہر اُن کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اتنی بڑی رقم نہیں دے سکتے لیکن ہزاروں ڈالروں یا ہزاروں پاؤنڈوں میں یا ہزاروں یورو میں قربانیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ اس مادی دنیا میں اِن ملکوں میں رہ کر اتنی قربانی کرنا بہت بڑی بات ہے اور جو غریب ممالک ہیں، پاکستان ہے، ہندوستان ہے یا افریقہ کے ممالک ہیں وہاں تو احمدیوں کے ذرائع بہت کم ہیں اور بڑی مشکل سے لوگوں کے گزارے ہوتے ہیں پھر بھی قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے چُھپ کر بھی اور ظاہری طور پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ کوشش یہ ہوتی ہے اور ہر وقت اسی فکر میں رہتے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا ایک جگہ کہ اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب (نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 434) پس یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی مومن ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہیں جب کوئی بھی تحریک کی جائے یا جب تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کا اعلان ہوتا ہے تو قرض لے کر بھی رقم ادا کر دیتے ہیں حالانکہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ قرض لے کر ادا کریں۔ اور کوئی خوف نہیں اُن کو ہوتا۔ اُن کو پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کررہے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود ہی پورا بھی کر دے گا۔ پس جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے بڑے قربانی کرنے والے عطا فرمائے ہوئے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ 8؍ نومبر 2024ء)