حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’چندے کی ابتدا اِس سلسلہ سے ہی نہیں ہے بلکہ مالی ضرورتوں کے وقت نبیوں کے زمانہ میں بھی چندے جمع کیے گئے تھے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ ذرا چندے کا اشارہ ہوا تو تمام گھر کا مال لا کر سامنے رکھ دیا۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسبِ مقدورکچھ دینا چاہیے اور آپؐ کی منشاء تھی کہ دیکھا جاوے کہ کون کس قدر لاتا ہے۔ ابوبکرؓ نے سارا مال لا کر سامنے رکھ دیا اور حضرت عمرؓ نے نصف مال۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہی فرق تمہارے مدارج میں ہے…۔ صحابہ کرامؓ کو پہلے ہی سکھایا گیا تھا۔ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (آل عمران: 93) اس میں چندہ دینے اور مال صرف کرنے کی تاکید اور اشارہ ہے۔ یہ معاہدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے اس کو نباہنا چاہیے۔ اس کے بر خلاف کرنے میں خیانت ہوا کرتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 6صفحہ 42۔ ایڈیشن 1984ء) پھر ایک جگہ آپؑ نے فرمایا: ’’ایک آدمی سے کچھ نہیں ہوتا۔ جمہوری امداد میں برکت ہوا کرتی ہے۔ بڑی بڑی سلطنتیں بھی آخر چندوں پر ہی چلتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیاوی سلطنتیں زور سے ٹیکس وغیرہ لگا کر وصول کرتے ہیں اور یہاں ہم رضا اور ارادہ پر چھوڑتے ہیں۔ چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ محبت اور اخلاص کا کام ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد 6 صفحہ 42-43۔ ایڈیشن 1984ء)