کوئی ہدایت پر عمل نہ کرے تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ کوشش کو ترک کر دیا جائے۔ایک عہدیدار کا فرض ہے کہ وہ مسلسل کوشش کرتا رہے اور یاد دہانی کرواتا رہے، جیسا کہ قرآنِ شریف میں ذَكِّر ْکا حکم ہے۔اللہ تعالیٰ اس کوشش کا اجر دے گا چاہے نتیجہ جیسا بھی ہو مورخہ ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۲۵ء، بروزہفتہ، امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اراکینِ نیشنل مجلسِ عاملہ لجنہ اماء الله کینیڈا کے اُنتیس (۲۹) رکنی ایک وفد کو شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے کینیڈاسے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ ملاقات کا باقاعدہ آغاز دعا سے ہوا، جس کے بعد تمام اراکینِ عاملہ کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ وہ حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں نہ صرف اپنا تعارف پیش کریں، بلکہ اپنی مفوّضہ ذمہ داریوں کی تفصیل بھی بیان کریں، اور اسی مناسبت سے انہوں نے اپنے متعلقہ شعبہ جات کے بارے میں بیش قیمت راہنمائی حاصل کرنے کی توفیق بھی پائی۔ محاسبہ سے حضورِ انور نے آڈیٹنگ کے مکمل عمل کے بارے میں استفسار فرمایا۔ سیکرٹریانِ تحریکِ جدید اور وقفِ جدید سے گفتگو کے دوران، حضورِ انور نے دریافت فرمایا کہ آیا لجنہ اماء اللہ حسبِ توقع ان تحریکات کی مدّ میں ملکی سطح پر مجموعی ادائیگی کا ایک تہائی حصّہ ادا کر رہی ہیں یا نہیں۔ سیکرٹری نَو مبائعاتنے مختلف مذہبی پس منظر رکھنے والی غیر فعّال ممبرات سے رابطے میں پیش آنے والی بعض مشکلات کا ذکر کیا۔ اس پر حضورِ انور نے راہنمائی فرمائی کہ اُن سے رابطہ قائم رکھنے کے لیے باقاعدگی سے قرآنِ کریم اور احادیث پر مشتمل مختصر اقتباسات ارسال کیے جائیں اور ایسی نَو مبائعات کی مخصوص ضروریات کو مدّنظر رکھتے ہوئے انفرادی نوعیت کے موزوں منصوبے تیار کیے جائیں۔ سیکرٹری تربیتنے دورانِ تعارف عرض کیا کہ وہ ڈاکٹر ہیں۔ حضورِ انور کے دریافت فرمانے پر انہوں نے بتایا کہ وہ جنرل فزیشن ہیں، اس پر حضورِ انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اچھا! آپ تربیت بھی کر لیتی ہیں؟ مزید برآں حضورِ انور نے موصوفہ کو اپنے شعبے میں ایک فعّال طرزِ عمل اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی کہ بجائے اس کے کہ معاملے آپ کے پاس آئیں، آپ کا سسٹم ایسا ہونا چاہیے کہ خود آپ کو grassrootلیول تک پتا ہو کہ گھروں کے حالات کیا ہیں۔اور گھروں کے حالات مردوں کی وجہ سے خراب ہیں یا عورتوں کی وجہ سے کیونکہ آج کل اس طرح کے بہت زیادہ معاملے آنے لگ گئے ہیں۔ تو یہ دیکھا کریں۔ اور اس کے علاوہ بھی مختلف وقتوں میں آپ اپنی ویب سائٹ پر تربیت کے لیےmessage بھیجتی رہا کریں کہ گھروں کے مسائل کس طرح حل کرنے ہیں اور کس طرح ہم نے گھر کا بہتر ماحول بنانا ہے۔ سیکرٹری تبلیغ سے گفتگو کے دوران حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ نَو مبائعات کو فوری طور پر سیکرٹری نَومبائعات کے نظام میں شامل کیاجانا چاہیے تاکہ ان کی مناسب راہنمائی، تربیت اور follow up کو یقینی بنایا جا سکے۔ سیکرٹری ناصرات سےحضورِ انور نے غیر فعّال ممبرات کے لیے بنائے گئے پروگرامز کی بابت دریافت کیا نیز راہنمائی فرمائی کہ ناصرات کی اخلاقی اور روحانی تربیت ایسی ہونی چاہیے کہ وہ پندرہ سال کی عمر کوپہنچنے پر دنیاوی اثرات کے زیرِ اثر آئے بغیر بآسانی لجنہ اماء اللہ کے نظام میں مکمل طور پرضمّ ہو جائیں۔ سیکرٹری تعلیم سے حضورِ انور نے دریافت فرمایاکہ لجنہ اماء اللہ کے لیے کون سی کتاب مقرر کی گئی ہے؟ جب عرض کیا گیا کہ یہ کتاب حقیقۃ الوحی ہےتو حضورِ انور نے ہدایت فرمائی کہ یہ ایک بہت بڑی اورجامع کتاب ہے، جسے مکمل کرنے میں دو سال لگ سکتے ہیں۔حضورِ انور نے راہنمائی فرمائی کہ ایسے امور کی بابت ایک حقیقت پسندانہ رویہ اپنایا جائے اور ایسے کام تفویض نہ کیے جائیں کہ جو ممبرات کے لیے مشکل ہوں۔ سیکرٹری خدمتِ خلقکو حضورِ انور نے ہدایت فرمائی کہ جب تنظیم خیراتی اداروں کو عطیّہ کرتی ہے، تواس کا مکمل followupکیا جائےتاکہ معلوم ہو سکے کہ فنڈز کس طرح استعمال ہوئے، نیز بعدازاں یہ معلومات لجنہ کے ساتھ شیئر بھی کی جا سکتی ہیں۔ معاونہ صدربرائے واقفاتِ نَوکو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ واقفاتِ نَو سے فرمودہ خطابات باقاعدگی سے ان کے ساتھ شیئر کیے جائیں، خواہ مکمل متن کی صورت میں ہوں یا خلاصے اور اہم اقتباسات کے ذریعے۔ معاونہ صدر برائے پریس و میڈیا کو حضورِ انور نے ہدایت فرمائی کہ وہ مرکزی پریس و میڈیا ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ قائم رکھیں اور ان کی فراہم کردہ معلومات اور اَپ ڈیٹس کو عام کریں۔ بعد ازاں شاملینِ مجلس کو حضورِ انور سے مختلف سوالات کرنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ایک عاملہ ممبر نے حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ اس وقت وہ لجنہ جو عید، جلسہ یا جمعہ جیسی جماعتی تقریبات یا پروگرامز میں شامل ہوتی ہیں، ہم انہیں اپنی رپورٹس میں فعّال ممبرات کے طور پر شمار کر تے ہیں۔ لیکن باوجود اس کے کہ مقامی عہدیداران ان سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں وہ دیگر لجنہ کے پروگراموں میں شامل نہیں ہوتیں۔ اس حوالے سے راہنمائی کی درخواست ہے۔ اس پر حضورِ انور نے راہنمائی عطا فرمائی کہ سوال یہ ہے کہ ان کو آپ نے activeبنانا ہے۔ اور پہلے یہ دیکھیں کہ کتنی لجنہ ہیں، جو لجنہ کے اجلاسوں میں نہیں آتیں، لیکن جمعہ پرآ جاتی ہیں، نمازیں پڑھ لیتی ہیں اور عیدوں پر آ جاتی ہیں۔ جب تک وہ خود کو احمدی قرار دیتی ہیں، وہ احمدی ہیں اور آپ کی ممبر ہیں۔اس لیے ان کو آپ نے شامل کرنا ہے اور ان کی تربیت کرنی ہے۔ حضورِ انور نے غیر فعّال ممبرات کی تربیت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سیکرٹری تربیت اور مختلف مجالس کی متعلقہ سیکرٹریز پر عائد ہونے والی ذمہ داری کی وضاحت فرمائی کہ یہ سیکرٹری تربیت کا کام ہے، اور جو مختلف مجالس کی respective سیکرٹری تربیت ہیں، ان کو کہیں کہ وہ ان کی تربیت کریں اور ان سے contact کریں۔ صرف اجلاس پر بلانے یا چندہ لینے کے لیے چلے جاتے ہیں، تووہ کہتے ہیں کہ جاؤ! جان چھوڑو، لو پیسے۔وہ بھی مرضی اور خوشی سے چندہ نہیں دیتیں۔ تو اُن کو activeکرنا، یہی تو تربیت کا کام ہے، یہی تو چیلنج ہے، اور کیا ہے؟ اگر سارے ہی اچھے ہوں تو آپ لوگوں کی مجھے ضرورت کیا ہے؟ پھر آرام سے گھر بیٹھیں۔ مقصد تو یہی ہے کہ جو inactive ہیں ان کوactiveکرنا۔ ایک شریکِ مجلس نے نوجوان نسل میں ذہنی صحت (mental health)کے مسائل میں اضافے پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئےاس بات کی نشاندہی کی کہ جب والدین اپنے بچوں کو غیر مسلم ماہر نفسیات یا counsellors کے پاس بھیجتے ہیں تو دیا جانے والا مشورہ بعض اوقات اسلامی تعلیمات کے برخلاف بھی ہو سکتا ہے۔ اس پر حضورِ انور نے ہدایت فرمائی کہ واقفینِ نَو کو ایسے شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی جائے، جیسے کہ نفسیات تاکہ ہمارے اپنے احمدی مسلم ماہرین پیدا ہوں۔ حضورِ انور نے اس امر کی تصدیق فرمائی کہ کچھ counsellors بعض اوقات ایسے نظریات جیسے کہ صنفی شناخت سے متعلق تصوّرات وغیرہ کو فروغ دیتے ہیں جو اسلامی اقدار کے برخلاف ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے حضورِ انور نے مزید ہدایت فرمائی کہ سب سے پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ کتنے بچوں کو مسائل کا سامنا ہے اور ان مسائل کی جڑ کیا ہے۔ پھر ان معلومات کی بنیاد پر احمدی ڈاکٹرز اور ماہرین ِنفسیات کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے تاکہ ایک منصوبہ بنایا جا سکے جو ان خاندانوں کی مدد کرسکے اس سے پہلے کہ انہیں کسی قسم کی بیرونی مدد کی ضرورت پڑے۔ آخر میں حضورِ انور نے اس بات کی اہمیت کو بھی اُجاگر فرمایا کہ یہ کام صرف رسمی رابطے کے ذریعے ممکن نہیں ہو گا، بلکہ اس کے لیے خاندانوں کے ساتھ ذاتی اوربرادرانہ تعلقات اُستوار کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اعتماد کے اس بندھن کے ذریعے خاندان زیادہ کھلے دل سے اپنے مسائل شیئر کریں گے اور جماعت کے اندرونی وسائل سے مدد قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ ایک لجنہ ممبر نے سوال کیا کہ لجنہ کے پروگراموں میں شعبۂ قانون کے فروغ کے حوالے سے کیا راہنمائی ہے؟ خاص طور پر اس پہلو کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ law کے نصاب میں اکثر criminal law (فوجداری قانون)کے کورسز شامل ہوتے ہیں، یعنی ایک ایسا شعبہ جس سے حضورِ انور کی جانب سےقبل ازیں خواتین کو احتراز برتنے کی تلقین فرما ئی جا چکی ہے۔ اس پر حضورِ انور نے واضح فرمایا کہ یہ معاملہ شریعت یا کسی مذہبی ممانعت کا نہیں بلکہ موجودہ ماحول کے تقاضوں پر مبنی بصیرت اور حکمت عملی کا ہے ۔ criminal law (فوجداری قانون)کے شعبہ میں نمایاں چیلنجز ، حتیٰ کہ خطرات بھی درپیش ہو سکتے ہیں اور ان چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے بعض اوقات self-defenceسیکھنا بھی ضروری ہو سکتا ہے۔ اس لیے خواتین کے لیے بہتر ہے کہ وہ اس مخصوص شعبے سے گریز کریں۔تاہم اگر کوئی لجنہ ممبر اس شعبے میں جانے پر مُصر ہو تو چاہیے کہ اس کے لیے مناسب مشاورت اورمدد فراہم کی جائے تاکہ وہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار ہو۔ حضورِ انور نے اس بات کی بھی نشاندہی فرمائی کہ ایک بڑی اور مستحکم قانونی فرم میں کام کرنے سے خود مختارانہ کام کرنے کے مقابلے میں کسی حد تک خطرات اور غیر یقینی صورتحال کم ہو جاتی ہے۔اس حوالے سے لجنہ کا کردار یہ ہے کہ وہ اس بارے میں مناسب راہنمائی اور مشورہ فراہم کریں جبکہ حتمی فیصلہ ہر فرد کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے۔ ایک شریکِ مجلس نے حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ ہماری بعض نوجوان لجنہ ماہانہ میٹنگز اور تعلیم کلاسز میں شامل نہیں ہوتیں، نیز راہنمائی کی درخواست کی کہ ہم کس طرح پروگرام منعقد کریں تا کہ زیادہ سے زیادہ لجنہ شامل ہوں؟ اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ یہی سوال پہلے کیا گیا تھا اور اس کو آپ نے اَور طرح اپنے لفظوں میں کر دیا ہے کہ ان کو involveکرنے کے لیے لائن آف ایکشن کیا ہونی چاہیے؟ حضور انور نے راہنمائی فرمائی کہ لجنہ کو بلائیں اور اُن سے کہیں کہ ہمارا traditionalاجلاس ہوتا ہے، وہ نہیں ہے، بلکہ ایک ویسے ہی gathering ہے۔ اس میں بتائیں کہ یہ یہ لجنہ کے مقصد ہیں ۔ جو ہمارے پروگرام ہوتے ہیں آپ لوگ کیونکہ کم attendکرتی ہیں،شاید اس لیےکہ آپ کو ان چیزوں میںinterestنہیں ہوتا۔ تو آپ بتائیں کہ ہم کس طرح اس کو بہتربنا سکتے ہیں۔ تو ان کی زیادہ involving ہو اور اس پر ان کے مشورے لیں۔ پھر اس کے اوپر جب ان کی رائے سامنے آئے گی، تو ان کا interest بھی ہوگا،اس طرح کم از کم پچاس فیصد اجلاس میں آ جایا کریں گی۔ مزید برآں حضورِ انور نے اجلاسات میں روایتی طریق سے ہٹ کر نوجوان لجنہ کی دلچسپی کے مطابق پروگرام ترتیب دینے اور اس میں ان کی فعّال شمولیت کو بڑھانے کی بابت توجہ دلائی کہ اجلاسوں میں ان کے مرضی کے پروگرام بنائیں۔ صرفtraditionalکھڑے ہو کے ایک حدیث پڑھ دی، گلے سے اُتارنے کےلیے قرآنِ شریف کی آیت پڑھی اور ترجمہ کردیا، ایک اقتباس پڑھ دیا اور ان کو نصیحت کر دی کہ یہ کرو یاوہ کرو اور جو نصیحت کرنے والی ہے وہ خود اس پر کبھی عمل نہیں کررہی، تو جو لڑکیاں جانتی ہیں، ایک دوسرے کو وہ کہیں گی کہ پہلے اپنا تو احتساب کرو۔ پھر ایکfrustration پیدا ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے پھر reaction ہوتا ہے۔ تو اس لیے بہتر یہ ہے کہ ان کو بُلائیں،ان کو پوچھیں کہ تم بتاؤ کہ کس طرح پروگرام ہونا چاہیے۔ اور کبھی کبھی ان لوگوں سے بھی کسی دنیاویtopicمثلاًhealthcareیا کسی دوسرے نفسیاتی مسئلےپربات کروادیں، کوئی ان میں سے اگر psychiatrist ہے یا اس کو سائیکالوجی میں دلچسپی ہے ان کے ذریعے سے بات کروائیں، تو ان کو ہوگا کہ ہاں !ہمارےinterest کے اجلاس ہو رہے ہیں۔ آخر میں حضورِ انور نے اس نصیحت کا اعادہ فرمایا کہ بعض دفعہ روایتی باتوں سے ہٹنا پڑتا ہے،ان traditional باتوں سے ہٹ جائیں اور کچھ پروگرام کیcertain percentage یا پروگرام ایسے ہوں جو اُن کےinterest کے ہوں تو پھر وہ آئیں گی۔ اُن کو پہلے تو ویسے ہی ایک دفعہ بلائیں کہ آؤ تمہیں چائے پلائیں گے، get together ہے۔ پھر کہو کہ یہ یہ باتیں ہیں، اس کو ہم کس طرحimprove کر سکتے ہیں، پھر ان کے مشورے آئیں گے۔ پھر ان سے کہو کہ اچھا ٹھیک ہے کہ یہ مشورہ تم نے دے دیا، تو اب آپ بتاؤ کہ تمہارا اپنا role اس میں کیا ہو گا، تم کس طرح اس کو بہتر کر سکتی ہو اورکیا part playکرو گی۔ تو پھر کچھ نہ کچھ بہتری آئے گی۔ ایک عاملہ ممبر نے سوال کیا کہ ہم اجتماعات کو حد سے زیادہ مقابلہ بازی کی بجائے روحانیت پر مرکوز کیسے بنا سکتی ہیں،خاص طور پر جب مائیں نتائج پر خفا ہو جاتی ہیں؟ اس پر حضورِ انور نے قرآنی تعلیم کی روشنی میں کوشش جاری رکھنے کی ضرورت اور نصیحت کی اہمیت کی بابت توجہ مبذول کروائی کہ یہ تو کوشش ہی ہے، کوشش کرنی چاہیے، یہی قرآنِ شریف کا حکم ہے کہ نصیحت کرتے جاؤ۔ حضورِ انور نے عملی مثال کے ذریعے سمجھایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ جو باتیں مَیں کرتا ہوں، خطبوں میں کہتا ہوں، وہ سو فیصد ساری دنیا میں لوگ عمل کر لیتے ہیں؟ تمہاری کینیڈا کی مثال مَیں دے دیتا ہوں۔جب مَیں نے آخری جلسہattendکیا ہے، مَیں نے عورتوں میں تقریر کی اور اس میں بتایا کہ حیا کیا چیز ہے، ایمان کیا چیز ہے، کس طرح تم لوگوں کو اسلامی نمونہ دکھانا چاہیے اور سر ڈھانکنے چاہئیں، اپنا ایک تقدس ہے، وہ دکھانا چاہیے۔ اس کے بعد جب مَیں نکل کے باہر آیا ہوںتو باہر جو عورتیں کھڑی تھیں، تو اکثر نے اپنے سرپر سے دوپٹے اُتار کے(حضورِ انور نے اپنے دستِ مبارک سے نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ) یوں ہاتھ مجھے ہلا رہی تھیں اور بائے بائےکہہ رہی تھیں۔جو تم نے کہنا تھا کہہ دیا اورہم نے تو جو کرنا تھا کر لیا۔ تو میرے سامنے بھی انہوں نے سر نہیں ڈھانکا ہوا تھا۔چلو!یہ دکھانے کے لیے ہی ہوتا کہ ان کوآدھے گھنٹے کا اثر ہو گیا، مگرآدھے گھنٹے کا بھی اثر نہیں ہوا تھا۔ آخر میں حضورِ انور نے ہمہ وقت کوشش جاری رکھنے کی نصیحت کا اعادہ فرمایا کہ یہ تو کوشش ہے۔اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اگر کوئی عمل نہیں کرتا تو ہم نے اپنی کوششیں چھوڑ دینی ہیں۔ اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے، تھک کے بیٹھنا نہیں ہے، ہمارا کام ،کام کرتے جاناہے۔ ہمیں اپنے کام کاثواب مل جائے گا، اللہ راضی ہو جائے گا، باقی جس نے ماننا ہے وہ مان لے گا۔ ایک شریکِ مجلس نے اس حوالے سے راہنمائی کی درخواست کی کہ بہت سی مائیں دعویٰ کرتی ہیں کہ اُن کی بچیاں سکول کی تعلیمی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں اتنی زیادہ مصروف ہیں کہ وہ ماہانہ دو بار منعقد ہونے والی ناصرات الاحمدیہ کی کلاسز میں شرکت نہیں کر پاتیں۔ اس پر حضورِ انور نے ہدایت فرمائی کہ والدین سے نرمی اور حکمت کے ساتھ بات کی جائے اور انہیں اپنے عہد کی یاد دہانی کروائی جائے کہ وہ اپنے دین کی خاطر وقت کی قربانی دینے کے پابند ہیں اور پوچھا جائے کہ کیا وہ اس مقصد کے لیے ماہانہ پانچ گھنٹے بھی وقف نہیں کر سکتے؟اسی طرح حضورِ انور نے توجہ دلائی کہ اگر کوئی ہدایت پر عمل نہ کرے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوشش کو ترک کر دیا جائے۔ ایک عہدیدار کا فرض ہے کہ وہ مسلسل کوشش کرتا رہے اور یاد دہانی کرواتا رہے، جیسا کہ قرآنِ شریف میں ذَكِّرْکا حکم ہے۔اللہ تعالیٰ اس کوشش کا اجر دے گا چاہے نتیجہ جیسا بھی ہو۔ سیکرٹری نَو مبائعات نے نَو مبائعات کو نظام میں مکمل طور پر شامل کرنے کے حوالے سے مزید راہنمائی کی درخواست کی خاص طور پر اُن کے منفرد خاندانی چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ حضورِ انور نے اس سلسلے میں اپنی فرمودہ ہدایت کا اعادہ فرمایا کہ ہر نَو مبائعہ کے لیے ایک مخصوص منصوبہ بندی ضروری ہے۔ اس ضمن میں پہلا قدم یہ ہو گا کہ ان کے پسِ منظر، مذہب تبدیل کرنے کی وجوہات اور علمی سطح کو سمجھا جائے، جیسے ایک ڈاکٹر بیماری کی نوعیت کے مطابق دوا تجویز کرتا ہے، ویسے ہی تربیت کا منصوبہ ہر فرد کی ضرورت کے مطابق ہونا چاہیے۔ سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں حضورِ انور نے اس اَمر کی جانب بھی توجہ دلائی کہ نومبائعات کو ذاتی طور پر شامل کرتے ہوئے اُن کی رائے طلب کی جائے۔ جو مخلص ہوں ان کے لیے مناسب کُتب تجویز کی جائیں اور باقاعدگی سے قرآنِ مجید، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصانیف کے مختصر اقتباسات بھیج کر ان کے علم اور دلچسپی میں اضافہ کیا جائے۔ مزید برآں حضورِ انور نے نو مبائعات کی شادیوں کے حوالے سے سیکرٹری نو مبائعات کو ہدایت فرمائی کہ ان کی ضروریات کا ایک تفصیلی چارٹ تیار کیا جائے اور مناسب رشتے تلاش کرنے کے لیے نیشنل رشتہ ناطہ سیکرٹریز کے ساتھ، چاہے وہ لجنہ کے ہوں یا جماعت کے مرکزی ہوں۔مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کیا جائے۔ آخر میں صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ کو حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں لجنہ اماء اللہ کینیڈا کی کچھ حالیہ کتب کی اشاعتیں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضورِ انور نے اس کاوش کو سراہتے ہوئے اس امر کی جانب توجہ دلائی کہ اصل کام یہ ہے کہ ان کُتب میں موجود تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ ملاقات کے اختتام پر حضورِ انور نے از راہِ شفقت وفد کے قیام و طعام وغیرہ کے انتظامات کے بارے میں استفسار فرمایا اور شرکاء کو اپنے محبوب آقا کے دستِ مبارک سے قلم بطورِ تبرک حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ حضورِ انور نے ان دعائیہ الفاظ سے اس نشست کو اختتام بخشا کہ چلو! اللہ حافظ،السلام علیکم۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ آئرلینڈ کی نیشنل و ریجنل عاملہ ممبرات کی ملاقات