قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ایسی شے ہے جو قلوب کو اطمینان عطا کرتا ہے۔جیسا کہ فرمایا اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ (الرّعد:۲۹) پس جہاں تک ممکن ہو ذکر الٰہی کرتا رہے اسی سے اطمینان حاصل ہوگا۔ہاں اس کے واسطے صبر اور محنت درکار ہے۔اگر گھبرا جاتا اور تھک جاتا ہے تو پھر یہ اطمینان نصیب نہیں ہو سکتا۔دیکھو! ایک کسان کس طرح پر محنت کرتا ہے اور پھر کس صبر اور حوصلہ کے ساتھ باہر اپنا غلہ بکھیر آتا ہے۔بظاہر دیکھنے والے یہی کہتے ہیں کہ اس نے دانے ضائع کر دیئے لیکن ایک وقت آجاتا ہے کہ وہ ان بکھیرے ہوئے دانوں سے ایک خرمن جمع کرتا ہے۔وہ اللہ تعالیٰ پر حسن ظن رکھتا ہے اور صبر کرتا ہے۔اسی طرح پر مومن جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق پیدا کر کے استقامت اور صبر کا نمونہ دکھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس پر مہربانی کرتا ہے اور اسے وہ ذوق شوق اور معرفت عطا کرتا ہے جس کا وہ طالب ہوتا ہے۔ یہ بڑی غلطی ہے جو لوگ کوشش اور سعی تو کرتے نہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ ہمیں ذوق شوق اور معرفت اور اطمینان قلب حاصل ہو جبکہ دنیوی اور سفلی امور کے لئے محنت اور صبر کی ضرورت ہے تو پھر خدا تعالیٰ کو پھونک مار کر کیسے پاسکتا ہے؟ دنیا کے مصائب اور مشکلات سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے اس راہ میں مشکلات کا آنا ضروری ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مصائب کا سلسلہ دیکھو کس قدر لمبا تھا۔تیرہ سال تک مخالفوں سے دکھ اٹھاتے رہے۔مکہ والوں کے دکھ اٹھاتے اٹھاتے طائف گئے تو وہاں سے پتھر کھا کر بھاگے۔پھر اور کوئی شخص ہے جو ان مصائب کے سلسلہ سے الگ ہو کر خدا شناسی کی منزلوں کو طے کر لے؟ جو لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی محنت اور مشقت نہ کرنی پڑے وہ بیہودہ خیال کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں صاف فرمایا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے دروازوں کے کھلنے کے لیے مجاہدہ کی ضرورت ہے۔اور وہ مجاہدہ اسی طریق پر ہو جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے۔اس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ اور اسوہ حسنہ ہے۔بہت سے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور پھر سبز پوش یا گیروے پوش فقیروں کی خدمت میں جاتے ہیں کہ وہ پھونک مار کر کچھ بنادیں۔یہ بیہودہ بات ہے۔ایسے لوگ جو شرعی امور کی پابندیاں نہیں کرتے اور ایسے بیہودہ دعوے کرتے ہیں وہ خطرناک گناہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بھی اپنے مراتب کو بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اور وہ مشت خاک ہو کر خود ہدایت دینے کے مدعی ہوتے ہیں۔اصل راہ اور گُر خدا شناسی کا دعا ہے اور پھر صبر کے ساتھ دعاؤں میں لگا رہے۔ (ملفوظات جلد ۷ صفحہ ۹۲ تا ۹۴، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: خدا کی قرارگاہ مقامِ عرش ہے