https://youtu.be/ANucqNxaIrI حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کے فرزند اور حضرت مصلح موعودؓ کے داماد محترم میر محمود احمد ناصر صاحب چھیانوے سال کی غیر معمولی اور کامیاب زندگی گزار کر مولیٰ کریم کے حضور حاضر ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون اس موقع پر امیر المومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جس پیارے انداز سے خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر خیر فرمایا وہ یقیناً قابل رشک ہے اور اس سے میر محمود صاحب کے اعلیٰ مقام اور خلافت سے عشق کا پتا چلتا ہے۔ محترم میر محمود صاحب میری اہلیہ محترمہ امۃالحئی درثمین صاحبہ کے ماموں تھے۔ مجھے میر محمود صاحب سے غائبانہ تعارف تو پہلے تھالیکن جب ۱۹۷۲ء میں میری شادی صاحبزادہ ڈاکٹرمرزا منور احمد صاحب کی بیٹی امۃالحئ صاحبہ سے ہوئی تو خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے افراد سے قربت کے مواقع مزید بڑھ گئے۔ افراد خاندان نے مجھ سے بہت پیار اور محبت کا سلوک کیا۔ان میں ماموں میر محمود صاحب اور اُن کی بیگم بی بی امۃالمتین صاحبہ بھی بطور خاص شامل تھے۔ ماموں ہم سے ہمیشہ بہت شفقت سے ملتے۔ جب بھی ہم جلسہ سالانہ پر لندن سے ربوہ آتے تو میں اپنی بیگم اور بچوں کے ساتھ خاندان کے سب بزرگوں سے ملتا اور دعا کے لیے کہتا۔مجھے میری بیگم کا یہ کہنا یاد ہے کہ شادی سے پہلے بھی وہ ماموں کو باقاعدگی سے دعا کے لیے کہا کرتی تھیں اور رمضان میں تو ماموں کودعاکا خط ضرور لکھتیں۔ اسی طرح میری اہلیہ صاحبہ کا میر صاحب کی اہلیہ یعنی اپنی پھوپھی صاحبزادی امۃ المتین صاحبہ کے ساتھ ایک دوستانہ تعلق بھی تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے ۱۹۸۴ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر احمدیوں کو سپین میں وقف عارضی کی تحریک کی، تو خاکسار بھی اپنی فیملی کے ساتھ اگلے سال سپین وقف عارضی پر گیا۔ اس وقت محترم میر محمود احمد صاحب کا تقرر بطور مشنری سپین میں تھا۔ہم کچھ وقت مشن ہاؤس میں مقیم رہے اور اس موقع پر میر صاحب اور صاحبزادی امۃ المتین صاحبہ کو مزید قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ دونوں بےحد محبت کرنے والے اور مہمان نواز تھے اور ہمارا ہر طرح خیال رکھا۔ متعددبارتبلیغ کے لیے ہمارے ساتھ دُور دُور شہروں کا دورہ کیا اور دعائیں کرتے ہوئے تبلیغی لٹریچر تقسیم کرتے۔ مجھے یاد ہے کہ سفر کے دوران ہم نے کئی دفعہ نماز کا وقت ہونے پر کھلے آسمان تلے نمازیں ادا کیں۔ تب مسجد بشارت پیدرو آباد سپین میں احباب جماعت کی تعداد بہت کم تھی اور اکثر اوقات محترم میر صاحب اکیلے ہوتے۔ ایسے مواقع پر آپ خودہی اذان کہتے اور فرض نماز بھی مسجد میں بآواز بلند ادا کرتے۔ انہی دنوں میں با قاعدگی سے پورے وقت پر اپنا دفتر کھول کر کام شروع کردیتے۔ ایک دن یوں ہوا کہ شام کے وقت اچانک مشن ہاؤس کے سامنے خشک گھاس میں آگ بھڑک اٹھی اور ہوا کے رخ کی وجہ سے بہت تیزی سے مسجدکی عمارت کی طرف آنے لگی۔ اس موقع پر میں نے بھی میر صاحب کے ساتھ بالٹی میں پانی بھر بھر کر آگ بجھانے کی کوشش کی۔ الحمد للہ کہ دعاؤں اور حتی المقدور کوششوں کے طفیل جلد آگ پر قابو پالیا گیا۔ پیدروآباد سپین میں ہماری مسجدمرکزی شاہراہ پر واقع ہے۔ میں نے دیکھا کہ مراکش اور تیونس کے مسلمان دوران سفر ہماری مسجد کے مینار دیکھ کر نمازوں کی ادائیگی کے لیے مسجد آجاتے تھے۔ میر صاحب ان لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچاتے اور یہ لوگ بہت متاثر ہو کر جاتے۔ اسی طرح سپین کی مقامی آبادی میں سے عیسائی لوگ بھی مسجد دیکھنے آتے اور جماعت سے متعارف ہوتے۔ محترم میر صاحب اللہ کے فضل سے ایک بہت ہی صاحب علم وجود تھے اورمطالعہ کا بہت شوق تھا۔آپ نے اپنی آخری عمر میں بھی ترجمہ اور ریسرچ کا کام جاری رکھا۔ خاکسار جب موسم سرما میں پاکستان جاتا تو آپ سے گھر کے علاوہ مسجد مبارک میں نمازوں کے وقت ملاقات ہوتی۔ مجھے بھی بہت قریب سے میر صاحب کی پُر سوز نمازیں اور دعائیں مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ آپ نماز کے بعد واپسی پر اکثر مجھے بھی اپنی کار میں گھر تک چھوڑتےاور جب آپ کےلیے بیماری اور کمزوری کی وجہ سے مسجدجانا ممکن نہ رہا تو خاکسار ان سے ملنے کبھی کبھار وقت لےکر اُن کے گھر جاتا تو آپ بہت پیار سے ملتے۔اور آپ کو اطاعتِ خلافت کا اس قدر پاس تھا کہ تب مصافحہ نہیں کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے کہ کورونا کی وبا کی وجہ سے حضورِانور نے منع فرمایا ہواہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے میر صاحب کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے،آپ بلاشبہ اسلام احمدیت کے فدائی وجود اور خلیفہ وقت کے صحیح معنوں میں سلطان نصیر تھے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: سید محمود احمد شاہ صاحب کی یاد میں