https://youtu.be/I-LnCCgAE08 توحید کے قیام میں ایک بڑی روک بدعت اور رسم ہے یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر بدعت اور ہر بد رسم شرک کی ایک راہ ہے اور کوئی شخص جو توحید خالص پر قائم ہونا چاہے وہ توحید خالص پر قائم نہیں ہو سکتا جب تک وہ تمام بدعتوں اور تمام بد رسوم کو مٹا نہ دے۔(حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ) دنیا کے ہر معاشرے میں تہوار صرف کھیل تماشے یا میل جول کا ذریعہ نہیں ہوتے بلکہ وہ اس قوم کے مذہبی عقائد، فکری رجحانات اور اجتماعی شعور کی جھلک دکھاتے ہیں۔ تہوار دراصل کسی قوم کی تاریخ، اُس کے مذہبی ورثے اور اس کی تہذیبی روح کا عکس ہوتے ہیں۔ آج مغربی دنیا کا ایک تہوارجو عالمی سطح پر مقبولیت میں بڑھ رہا ہے وہ ہیلووین (Halloween) ہے۔ ہر سال ۳۱؍اکتوبر کی رات یورپ اور امریکہ میں لاکھوں انسان اپنے گھروں کو ڈراؤنی اشکال سے سجاتے ہیں، بچے ’’ٹِرک اَور ٹریٹ‘‘ کے نام پر دروازے کھٹکھٹاتے ہیں اور بڑے طرح طرح کے ڈراؤنے ملبوسات پہن کر جشن مناتے ہیں۔ یہ تہوار بظاہر معصوم اور تفریحی معلوم ہوتا ہے، مگر اس کے پیچھے موجود عقائد اور اثرات نہ صرف غیر اسلامی بلکہ انسان کی روحانی سلامتی کے لیے بھی نقصان دہ ہوتے ہیں۔ جماعت احمدیہ مسلمہ قرآن کریم، احادیث نبویہؐ، اور حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے احمدیت کی تعلیمات کی روشنی میں اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ حقیقی خوشی اور روحانی اطمینان جاہلانہ رسموں اور اندھیروں میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر، نورِ قرآن اور سنتِ نبویؐ میں ہے۔ ہیلووین کی تاریخی اور تہذیبی جڑیں ہیلووین کی بنیاد قدیم یورپی اقوام کے عقائد پر ہے۔ سب سے پرانی نسبت کلتک (Celtic) تہذیب سے ملتی ہے، جو آئرلینڈ اور اس کے گردونواح میں آباد تھی۔ وہ ۳۱؍اکتوبر کی رات کو سامہین (Samhain) کے نام سے ایک تہوار مناتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس رات مُردوں کی روحیں دنیا میں واپس آتی ہیں، جادوگر اور بدروحیں آزاد پھرتی ہیں اور دنیا کی قوتیں ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں۔ اس لیے وہ اس رات آگ جلاتے، ماسک پہنتے اور طرح طرح کے عمل کرتے تاکہ بدروحوں سے محفوظ رہ سکیں۔ بعد ازاں جب مسیحیت نے یورپ میں جڑ پکڑی تو کلیسا نے اس غیر مسیحی رسم کو مسیحی رنگ دینے کی کوشش کی۔ یکم نومبر کو ’’All Saints Day‘‘ یعنی ’’یومِ مقدسین‘‘ مقرر کیا گیا اور ۳۱؍اکتوبر کی رات کو ’’All Hallow’s Eve‘‘ کہا گیا جو بعد میں بگڑ کر ’’Halloween‘‘ بن گیا۔ جدید دَور میں امریکہ اور یورپ نے اس تہوار کو تجارتی و تفریحی رنگ دے دیا ہے۔ آج یہ ایک اربوں ڈالر کی انڈسٹری ہے۔ حلوہ کدو (Pumpkin) کے کھوکھلے لالٹین، نقلی ڈھانچے، ڈراؤنے ملبوسات اور مٹھائیوں کا کاروبار لاکھوں لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ہیلووین کے معاشرتی اور نفسیاتی اثرات ہیلووین کا سب سے پہلا اثر خوف اور وہم ہے۔ بچے چھوٹی عمر میں ہی اندھیروں، بھوتوں اور بدروحوں کے خیالات سے سہم جاتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ تصوّر بیٹھ جاتا ہے کہ دنیا میں ایسی مافوق الفطرت قوتیں موجود ہیں جو انسان پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ دوسرا اثر سرمایہ دارانہ صنعت ہے۔ یہ تہوار آج ایک کاروباری منصوبے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کھیل کے نام پر رقم وصول کی جاتی ہے، ملبوسات، سجاوٹ اور مٹھائیاں اربوں ڈالر کی مارکیٹ بن چکی ہیں۔ تیسرا اثر معاشرتی انحطاط ہے۔ مغربی معاشرے میں یہ رات عموماً شراب نوشی، بے پردگی اور اخلاقی حدود سے تجاوز کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اسلام کا نقطۂ نظر اسلام انسان کو توہمات اور غیر حقیقی عقائد سے نجات دلاتا ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے: اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیۡطٰنُ یُخَوِّفُ اَوۡلِیَآءَہٗ فَلَا تَخَافُوۡہُمۡ وَخَافُوۡنِ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ۔ (آل عمران: ۱۷۶) یہ تو شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے۔ پس تم ان سے مت ڈرو بلکہ اگر تم ایمان رکھتے ہو تو مجھ سے ڈرو۔ اللہ تعالىٰ نے سورۃ المؤمنون مىں مومنىن کى یہ صفت بتائى ہے کہ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ۔(المؤمنون: ۴)جو لغو سے اعراض کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کى تشرىح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ىعنى مومن وہ ہیں جو لغو کاموں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں اور لغو تعلقات سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔‘‘(ضمىمہ براہىن احمدىہ حصہ پنجم، روحانى خزائن جلد۲۱ صفحہ۱۹۷) اسلام نے دو حقیقی تہوار عطا کیے: عید الفطر اور عیدالاضحی۔ یہ تہوار نہ اندھیروں کا کھیل ہیں نہ خوف کی علامت بلکہ شکرگزاری، قربانی اور اجتماعی محبت کے مواقع ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے لیے دو عیدیں مقرر کی گئی ہیں جو ان میلوں سے بہتر ہیں۔‘‘(ابو داؤد) اسلام میں کسى ایسے تہوار منانے یا اس کا حصہ بننے سے روکا گیا ہے جس کى بنیاد کسى غیر اسلامى جاہلانہ مذہبى روایت پہ ہو۔ ایسا کرنا ان لوگوں کے پىچھے چلنے کے مترادف ہوگا جس سے ہمارے پىارے آقا نے نہ صرف روکا بلکہ اپنى امت کو ان کی پیروی کرنے کے نتیجے مىں ہونے والے خطرات سے بھى آگاہ کیا۔ ایسے تمام افعال اور رسوم و رواج جو کسى خاص تہذىب، مذہب یا نظریےسے تعلق رکھتے ہوں اور ان سے منسوب ہوں ان کو اپنانا مسلمانوں کے لیے جائز نہىں۔ کیونکہ آنحضرتﷺنے فرماىا ہے:مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ۔ جس نے کسى قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کى وہ انہى میں سے ہے۔(ابوداؤد) حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ’’اعمال صالحہ کی جگہ چند رسوم نے لے لی ہے اس لئے رسوم کے توڑنے سے یہی غرض ہوتی ہے کہ کوئی فعل یا قول قال اللہ اور قال الرسول کے خلاف اگر ہو تو اسے توڑا جائے۔ جبکہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور ہمارے سب اقوال اور افعال اللہ تعالیٰ کے نیچے ہونے ضروری ہیں۔ پھر ہم دنیا کی پرواہ کیوں کریں؟ جو فعل اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو اس کو دور کر دیا جاوے اور چھوڑا جاوے۔ جو حدود الہٰی اور وصا یا رسول اللہ ﷺ کے موافق ہوں ان پر عمل کیا جاوے کہ احیاء سنت اسی کا نام ہے۔‘‘( ملفوظات جلد دوم صفحہ ۳۹۰۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء) آپؑ نے بار بار واضح کیا کہ غیر اسلامی تہوار دراصل انسان کو نورِ توحید سے ہٹا کر ظلمات کی طرف لے جاتے ہیں۔ خلفائے احمدیت کی راہنمائی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’انسان میں ایک مرض ہے جس میں یہ ہمیشہ اللہ کا باغی بن جاتا ہے اور اللہ کے رسول اور نبیوں اور اس کے اولو العزموں اور ولیوں اور صدیقوں کو جھٹلاتا ہے۔ وہ مرض - عادت، رسم و رواج اور دم نقد ضرورت یا کوئی خیالی ضرورت ہے۔ یہ چار چیزیں میں نے دیکھا ہے، چاہے کتنی نصیحتیں کرو جب وہ اپنی عادت کے خلاف کوئی بات دیکھے گا یا رسم کے خلاف یا ضرورت کے خلاف تو اس سے بچنے کے لئے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کرے گا۔‘‘( خطبات نور صفحه ۶۵۰) حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’فطرت انسانی کو تو اللہ تعالیٰ نے پاک بنایا ہے لیکن اس میں رسم و رواج کا گند مل کر اسے خراب کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کے ذریعہ سے پھر فطرت کے پاک تقاضوں کو جگا دیتا ہے اور طبائع میں ایک ایسا جوش پیدا کر دیتا ہے کہ جس طرح تیز بھٹی یا بڑھتے ہوئے سیلاب میں ہوتا ہے اس ہیجان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طبائع کا جمود جاتا رہتا ہے۔ ایک طرف فطرت میں بیداری پیدا ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف رسوم و عادات کی محبت میں جوش آتا ہے اس حرکت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بجائے فطرت صحیحہ اور رسوم و عادات کے ایک ملے جلے ڈلے کے یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہو جاتی ہیں اور انسان کچھ عرصہ کے لئے دو متضاد جذبات کا حامل ہو جاتا ہے ۔ آخر جس کی فطرت زیادہ پاک ہوتی ہے وہ رسوم و عادات کی میل کو باہر نکال کر پھینک دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور جو سچی کوشش نہیں کرتا اس کی طبیعت پھر ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور پھر رسوم و عادات کی جھاگ فطرت کے سونے سے مل کر پہلے کی طرح ایک نا صاف ڈلا بن کر رہ جاتی ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد۵صفحہ ۵۰،۴۹۔ایڈیشن۲۰۲۳ء) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اگر تم قرب الٰہی چاہتے ہو تو رسوم اور بدعات کی بجائے قرآنی راہ ہدایت اور صراط مستقیم تمہیں اختیار کرنا پڑے گا ۔ جب تک رسوم و بدعات کے دروازے تم اپنے پر بند نہیں کر لیتے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے تم پر کھل نہیں سکتے ‘‘(خطبات ناصر جلد اول صفحہ ۳۸۴) نیز فرمایا: ’’ہماری جماعت کا پہلا اور آخری فرض یہ ہے کہ توحید خالص کو اپنے نفسوں میں بھی اور اپنے ماحول میں بھی قائم کریں اور شرک کی سب کھڑکیوں کو بند کر دیں۔… توحید کے قیام میں ایک بڑی روک بدعت اور رسم ہے یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر بدعت اور ہر بد رسم شرک کی ایک راہ ہے اور کوئی شخص جو توحید خالص پر قائم ہونا چاہے وہ توحید خالص پر قائم نہیں ہو سکتا جب تک وہ تمام بدعتوں اور تمام بد رسوم کو مٹا نہ دے۔ …رسوم تو دنیا میں بہت سی پھیلی ہوئی ہیں۔ …لیکن اس وقت اصولی طور پر ہر گھرانے کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور ہر گھرانے کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں۔ اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوشش کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہو گا وہ یہ یاد رکھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پر واہ نہیں ہے۔ اپنی اصلاح کی فکر کرو اور خدا سے ڈرو اور اس دن کے عذاب سے بچو کہ جس دن کا ایک لحظہ کا عذاب بھی ساری عمر کی لذتوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے کہ اگر یہ لذتیں اور عمریں قربان کر دی جائیں اور انسان اس سے بچ سکے تو تب بھی وہ مہنگا سودا نہیں سستا سودا ہے۔‘‘(خطبات ناصر جلد اول صفحہ ۷۶۲و ۲۶۶، ۲۶۷) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ خوشی کے طبعی اظہار سے ممانعت نہیں لیکن جب یہ رسمیں بن جائیں ، قوم پر بوجھ بن جائیں تو پھر انہیں منع کیا جائے گا۔ آپؑ نے فرمایا کہ نیتوں پر دارومدار ہوتا ہے بعض دفعہ بے تکلفی سے بعض باتیں خود بخود رونما ہو رہی ہوتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ رسم کی شکل اختیار کر جاتی ہیں اور انہیں ان کے کرنے پر غیر اللہ کا خوف مجبور کر دیتا ہے۔ چنانچہ اس مقام پر نہ صرف وہ منع ہو جاتی ہیں بلکہ شرک میں داخل ہونے لگتی ہیں ۔ یہ اس وقت کے امام کا فرض ہے کہ وہ قوم کو لازماً ان چیزوں سے روک دے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍دسمبر ۱۹۸۳ء ۔ خطبات طاہر جلد ۲ صفحہ ۶۲۹) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا : جن رسموں کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ہے، جو دین سے دور لے جانے والی، اللہ اور اس کے رسول کے احکامات اور ارشادات کی تخفیف کرنے والی ہیں وہ سب مرد و در سمیں ہیں۔ سب فضول ہیں۔ ردّ کرنے کے لائق ہیں۔ پس ان سے بچو کیونکہ پھر یہ دین میں نئی نئی بدعات کو جگہ دیں گی اور دین بگڑ جائے گا۔ جس طرح اب دیکھو دوسرے مذاہب میں رسموں نے جگہ پا کر دین کو بگاڑ دیا ہے۔ خیر یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ اس زمانے میں زندہ مذہب صرف اور صرف اسلام نے ہی رہنا تھا۔ لیکن آپ جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ دوسرے مذاہب نے مثلاً عیسائیت نے باوجود اس کے کہ ایک مذہب ہے۔ مختلف ممالک میں مختلف علاقوں میں اور ملکوں میں اپنے رسم ورواج کے مطابق اپنی رسموں کو بھی مذہب کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ افریقہ میں بھی یہ باتیں نظر آتی ہیں۔ پھر جب راستہ کھل جاتا ہے تو نئی نئی بدعتیں دین میں راہ پاتی ہیں۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بدعتیں پیدا کرنے والوں کے لئے سخت انذار کیا ہے سخت ڈرایا ہے ۔ آپ کو اس کی بڑی فکر تھی ۔ حدیث میں آتا ہے فرمایا: میں تمہیں ان بدعتوں کی وجہ سے ، تمہارے ہوا و ہوس کا شکار ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ خوف زدہ ہوں مجھے ڈر ہے کہ اس کی وجہ سے دین میں بگاڑ نہ پیدا ہو جائے ۔ تم گمراہ نہ ہوجاؤ‘‘(شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں۔ صفحہ ۱۰۵۔۱۰۶) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیلووین کی بد رسم سے بچنے کے ضمن مىں جماعت کو نصىحت کرتے ہوئے فرماتے ہىں: ’’اس برائى کا جو آج کل مغرب مىں ان دنوں مىں بڑى دھوم دھام سے منائى جاتى ہے اور آئندہ چند دنوں مىں منائى جانے والى ہے، اُس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ halloween کى ایک رسم ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ احمدى بھى بغىر سوچے سمجھے اپنے بچوں کو اس میں شامل ہونے کى اجازت دے دیتے ہیں، حالانکہ اگر اس کو گہرائى میں جاکر دیکھیں تو یہ عیسائیت میں آئى ہوئى ایک ایسی بدعت ہے جو شرک کے قریب کر دیتی ہے۔ چڑیلیں اور جِنّ اور شىطانى عمل، ان کو تو بائبل نے بھى روکا ہوا ہے۔ لىکن عیسائیت میں یہ راہ پا گئى ہیں کیونکہ عمل نہیں رہا۔ عموماً اس کو fun سمجھا جاتا ہے کہ بس جى بچوں کا شوق ہے پورا کر لیا۔ تو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر وہ کام چاہے وہ fun ہى سمجھا جائے جس کى بنیاد شرک یا کسى بھى قسم کے نقصان کى صورت میں ہو اس سے احمدىوں کو بچنا چاہئے۔ مجھے اس بات پر توجہ پیدا ہوئى جب ہمارى ریسرچ ٹیم کى ایک انچارج نے بتایا کہ ان کى بیٹی نے ان سے کہا کہ halloween پر وہ اَور توکچھ نہىں کرے گى لیکن اتنى اجازت دے دیں کہ وہ لباس وغىرہ پہن کر، خاص costume پہن کے ذرا پِھر لے۔ چھوٹى بچى ہے۔ انہوں نے اسے منع کر دیا۔ اور پھرجب ریسرچ کى اور اس کے بارہ میں مزید تحقیق کى تو بعض عجیب قسم کے حقائق سامنے آئے۔ تو میں نے انہىں کہا کہ مجھے بھى کچھ (حوالے) دے دیں۔ چنانچہ جو مَیں نے دیکھے ان کا خلاصہ میں بیان کرتا ہوں۔ کیونکہ اکثر بچے بچیاں مجھے سوال کرتے رہتے ہىں۔ خطوط میں پوچھتے رہتے ہىں کہ halloween میں شامل ہونے کا کیا نقصان ہے؟ ہمارے ماں باپ ہمیں شامل نہىں ہونے دیتے۔ جبکہ بعض دوسرے احمدى خاندانوں کے بچے اپنے والدىن کى اجازت سے اس میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو بہر حال ان کو جو کچھ میرے علم میں تھا اس کے مطابق میں جواب تو یہی دیتا رہتا تھا کہ یہ ایک غلط اور مکروہ قسم کا کام ہے اور میں انہیں روک دیتا تھا۔ لیکن اب جو اس کى تاریخ سامنے آئى ہے تو ضرورى ہے کہ احمدى بچے اس سے بچیں۔ عیسائیت میں یا کہہ لیں مغرب میں یہ رسم یا یہ بدعت ایک آئرش اِزم کى وجہ سے آئى ہے۔ پرانے زمانے کے جو pagan تھے ان مىں پرانى بد مذہبى کے زمانے کى رائج ہے۔ اس کى بنیاد شیطانی اور چڑیلوں کے نظریات پر ہے۔ اور مذہب اور گھروں کے تقدس کو یہ سارا نظریہ جو ہے یہ پامال کرتا ہے۔ چاہے جتنا بھى کہیں کہ یہ Fun ہے لیکن بنیاد اس کى غلط ہے۔ اور صرف یہی نہىں بلکہ اس میں شرک بھى شامل ہے۔ کیونکہ اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ زندوں اور مردوں کے درمیان جو حدود ہیں وہ ۳۱؍اکتوبر کو ختم ہو جاتى ہیں۔ اور مردے زندوں کے لئے اس دن باہر نکل کے خطرناک ہو جاتے ہیں۔ اور زندوں کے لئے مسائل کھڑے کر دیتے ہیں۔ بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اور اسى طرح کى اوٹ پٹانگ باتىں مشہور ہیں۔ اور پھر اس سے بچنے کے لئے جو ان کے نام نہاد جادوگر ہوتے ہیں ان جادوگروں کو بلایا جاتاہے جو جانوروں اور فصلوں کى ان سے لے کر ایک خاص طریقے سے قربانى کرتے ہیں۔ bonfireبھى اسى نظریہ میں شامل ہے تا کہ ان مُردہ روحوں کو ان حرکتوں سے باز رکھا جائے۔ ان مُردوں کوخوفزدہ کر کے یا بعض قربانیاں دے کران کو خوش کر کے باز رکھا جائے۔ اور پھر یہ ہے کہ پھراگر ڈرانا ہے تو اس کے لئے costumeاور خاص قسم کے لباس وغیرہ بنائے گئے ہیں، ماسک وغىرہ پہنے جاتے ہیں۔ بہر حال بعد میں جیسا کہ میں نے کہا، جب عیسائیت پھیلی تو انہوں نے بھى اس رسم کو اپنا لیا۔ اور یہ بھى ان کے تہوار کے طور پر اس مىں شامل کر لى گئى۔ کىتھولکس خاص طور پر (یہ رسم) زیادہ کرتے ہیں۔ اب یہ رسم عیسائیت کى وجہ سے اور پھر میڈیا کى وجہ سے، آپس کے تعلقات کى وجہ سے تقرىباً تمام دنیا میں خاص طورپرمغرب میں، امریکہ میں، کینیڈا میں، یہاں UK میں، جاپان میں، نیوزی لینڈ میں، آسٹریلیا وغیرہ میں، یورپ کے بعض ملکوں میں پھیل چکى ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا یہ چھُپى ہوئى برائى ہے۔ جسے مغرب میں رہنے والے مسلمان بھى اختیار کر رہے ہیں۔ بچے مختلف لباس پہن کر گھر گھر جاتے ہیں۔ گھر والوں سے کچھ وصول کیا جاتا ہے تاکہ روحوں کو سکون پہنچایا جائے۔ گھر والے اگر ان مختلف قسم کے لباس پہنے ہوئے بچوں کو کچھ دے دیں تو مطلب یہ ہے کہ اب مردے اس گھر کو کوئى نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ یہ ایک شرک ہے۔ بےشک آپ یہی کہیں کہ funہے، ایک تفریح ہے لیکن جو پیچھے نظریات ہیں وہ مشرکانہ ہیں۔ اور پھر یہ کہ ویسے بھى یہ ایک احمدى بچے کے وقار کے خلاف بات ہے کہ عجیب و غریب قسم کا حلیہ بنایا جائے۔ اور پھر گھروں میں فقیروں کى طرح مانگتے پھریں۔ چاہے وہ یہی کہیں کہ ہم مانگنے جا رہے تھے یا چاکلیٹ لینے جا رہے تھے لیکن یہ مانگنا بھى غلط ہے۔ احمدى کا ایک وقار ہونا چاہئے اور اس وقار کو ہمیں بچپن سے ہى ذہنوں میں قائم کرنا چاہئے۔ اور پھر یہ چىزىں جو ہیں مذہب سے بھى دور لے جاتى ہیں۔ بہر حال جب یہ منایا جاتا ہے تو پیغام اس میں یہ ہے کہ چڑیلوں کا وجود، بدروحوں کا وجود، شىطان کى پوجا، مافوق الفطرت چىزوں پر عارضى طور پر جو یقین ہے وہ funکے لئے کر لینے میں کوئى حرج نہیں ہے۔ انتہائى غلط نظریہ ہے۔ پس یہ سب شیطانی چیزیں ہیں۔ اس سے ہمارے بچوں کو نہ صرف پرہیز کرنا چاہئے بلکہ سختى سے بچنا چاہئے۔ ماضى قریب تک دیہاتوں کے رہنے والے جو لوگ تھے وہ بچوں کو جو اس طرح ان کے دروازے پر مانگنے جایا کرتے تھے اس خیال سے بھى کچھ دے دیتے تھے کہ مُردہ روحىں ہمیں نقصان نہ پہنچائیں۔ بہر حال چونکہ بچے اور ان کے بعض بڑے بھى بچوں کى طرف سے پوچھتے رہتے ہیں۔ اس لئے میں بتا رہا ہوں کہ یہ ایک بد رسم ہے اور ایسی رسم ہے جو شرک کى طرف لے جانے والى ہے۔ پھر اس کى وجہ سے بچوں میں fun کے نام پر، تفریح کے نام پر غلط حرکتیں کرنے کى جرأت پیدا ہوتى ہے۔ ماں باپ ہمسایوں سے بداخلاقى سے پیش آتے ہیں۔ ماں باپ سے بھى اور ہمسایوں سے بھى اور اپنے ماحول سے بھى، اپنے بڑوں سے بھى بداخلاقى سے پیش آنے کا رجحان بھى اس وجہ سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بھى ایک سروے ہے۔ حتى کہ دوسرے جرائم بھى اس لئے بڑھ رہے ہیں۔ اس قسم کى حرکتوں سے ان میں جرأت پیدا ہوتى جا رہى ہے۔ مغرب میں ہر برائى کو بچوں کے حقوق اور funکے نام پر تحفظات مل جاتے ہیں، اجازت مل جاتى ہے اور مل رہى ہے لىکن اب خود ہى یہ لوگ اس کے خلاف آوازیں بھى اٹھانے لگ گئے ہیں۔کیونکہ اس سے اخلاق برباد ہو رہے ہیں۔ پھر halloween کے خلاف کہنے والے یہ بھى کہتے ہیں کہ اس سے بچوں میں تفریح کے نام پر دوسروں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کى برائى جیسا کہ میں نے بتایا کہ بڑھ رہى ہے اور جرائم بھى اس وجہ سے بڑھ رہے ہىں۔ ایک تو فلموں نے غلط تربیت کى ہے۔ پھر اگر عملى طور پر ایسی حرکتیں کرنے لگ جائیں اور ان کو تفریح کے نام پر بڑے encourage کرنا شروع کر دیں تو پورے معاشرے میں پھربگاڑ ہى پیدا ہو گا اور کیا ہوسکتا ہے؟ اور پھر ہمارے لئے سب سے بڑى بات جیسا کہ میں نے کہا مُردوں کو خدا کے مقابل پر کھڑا کر کے ان کے کسى بھى غلط عمل سے محفوظ کرنے کا شیطانی طریق اختیار کیا گیا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالىٰ کے مقابل پر کھڑا کر کے ایک شرک قائم کیا جا رہا ہے یا بچوں کوتحفے تحائف دے کے ان کى روحوں کو خوش کیا جا رہا ہے یا جادوگروں کے ذریعہ سے جادوکر کے ڈراىا جا رہا ہے۔ بہرحال یہ نہایت لغو اور بےہودہ تصور ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ ۲۹؍اکتوبر ۲۰۱۰ء) غرض کہ اس تہوارکو منانے کا صرف اورصرف نقصان ہے فائدہ کچھ بھى نہیں ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اس کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں: ’’ایک مصنف ہیں ڈاکٹر گرىس کىٹر مىن، اىم ڈى، وہ اپنى کتاب You and your child’s problems میں لکھتے ہىں کہ: A tragic, by-product of fear in the lives of children as early as preadolescence is the interest and involvement in super natural occult phenomena یعنی بچوں کى زندگى میں جوانى میں قدم رکھنے سے پہلے، اس عمر سے پہلے یا اس دوران میں خوف کى انتہائى مایوس کن حالت جو لا شعورى طورپر پیدا ہو رہى ہے وہ مافوق الفطرت چیزوں میں دلچسپى اور ملوث ہونے کى وجہ سے ہے۔ اب halloween کى وجہ سے جو بعض باتیں پىدا ہو رہى ہیں ان میں یہ باتىں صرف یہاں تک نہیں رکتی ہیں کہ costumeپہنے اور گھروں میں مانگنے چلے گئے بلکہ بعض بڑے بچے پھر زبردستى گھرو الوں کو خوفزدہ کرنے کى کوشش بھى کرتے ہیں اور دوسرى باتوں مىں، جرموں مىں بھى ملوث ہو جاتے ہىں۔ اور نتیجۃً پھر جہاں وہ معاشرے کو، ماحول کو ڈسٹرب کر رہے ہوتے ہیں اور نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں وہاں ماں باپ کے لئے بھى دردِ سر بن جاتے ہیں اور اپنى زندگى بھى برباد کر لیتے ہیں۔ اس لئے میں پھر احمدىوں سے کہتا ہوں کہ ان باتوں سے بہت زیادہ بچنے کى ضرورت ہے۔ احمدى بچوں اور بڑوں کا کام ہے کہ خدا تعالىٰ سے تعلق بڑھائیں جو ہمارا مقصد ہے اس کو پہچانیں۔ وہ باتیں کریں جن کے کرنے کا خدا تعالىٰ نے حکم دیا ہے۔ مغربى معاشرے کا اثر اتنا اپنے اوپر نہ طارى کریں کہ بُرے بھلے کى تمیز ختم ہو جائے۔ خدا تعالىٰ سے تعلق اور اس کى ذات کى بڑائى کو بھى بھول جائیں۔ اور مخفى شر ک میں مبتلا ہو جائیں اور اس کى وجہ سے پھر ظاہرى شرک بھى ہونے لگ جاتے ہیں۔ بعض برائیاں غیر محسوس طریق پر انسان کو اپنے دامن میں گرفتار کرلیتی ہیں۔ ان میں سے ایک شرک بھى ہے۔ بعض ظاہرى شرک نہ سہى شرک خفى میں مبتلا ہیں۔ ایک احمدى مسلمان کا فر ض ہے کہ اپنى حالتوں میں اور اپنے عملوں میں تبدىلى پیدا کریں۔ اپنى عبادتوں کو ایسا بنائیں کہ خداتعالىٰ کى توحید ہمارى عبادتوں میں بھى نظر آنے لگے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ ۲۹؍اکتوبر ۲۰۱۰ء) ایک مرتبہ سوال و جواب کى محفل میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ سے کسى نے کرسمس اور اسی طرح کى دیگر غیراسلامى سرگرمیاں جو اسکول میں ہوتی ہیں ان میں احمدى بچے بچیوں کے شرکت کرنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ معمولى سى بات ہے ادنى ٰسى کامن سىنس کى بات ہے ہر وہ چىز جو آپ کے مذہب اور اصولوں کے خلاف ہے اس میں آپ نے شرکت نہیں کرنى بس۔ (ماخوذ ازمجلس سوال و جواب منعقدہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۹۶ء) خلیفہ وقت کى ہر دور کى برائیوں اور بدیوں پر بخوبى نظر ہوتى ہے اور آپ آنے والے خطرات سے جماعت کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ افراد جماعت ایسی لغویات سے دُور رہتے ہیں۔ لیکن پھر بھى اگر کسى ایک بھى فرد کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ یہ تو محض بچوں کا fun ہے۔ اس سے کون سا کچھ فرق پڑتا ہے لیکن یہ چھوٹى چھوٹى رسومات اور چھوٹى چھوٹى بدیوں کى لگاتار دستک بسااوقات ایمان کے دروازے میں دراڑ پیدا کر دیتی ہے۔ ہیلووین کا نفسیاتی و روحانی پہلو یہ تہوار خوف، اندھیروں اور موت کے تصوّرات سے کھیلتا ہے۔ اسلام کا تصور حیات سراسر امید، روشنی اور روحانی زندگی سے بھرپور ہے۔اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ؕ وَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓـُٔہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙ یُخۡرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ۔(البقرۃ: ۲۵۸) اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے۔ وہ ان کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے دوست شیطان ہیں۔ وہ ان کو نور سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں۔ یہی لوگ آگ والے ہیں وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں۔ اسلام انسان کی فطرت کا لحاظ کرتے ہوئے اسے اندھیروں کے بجائے نورِ ایمان میں پروان چڑھاتا ہے۔ نتیجہ آخر پر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہیلووین جیسے تہوار دراصل مغربی معاشرت کی فکری اور روحانی بے راہروی کی علامت ہیں۔ یہ تہوار خوف، وہم اور ظاہری رنگینیوں کا تماشا ضرور پیش کرتے ہیں، مگر انسان کے دل کو حقیقی سکون اور روح کو حقیقی روشنی دینے سے قاصر ہیں۔ اسلام کا پیغام اس کے برعکس ہے۔ قرآن کریم انسان کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور رسولِ کریمﷺ نے ہمیں ایسے تہوار عطا فرمائے جو شکرگزاری، قربانی، ایثار اور روحانی خوشی کا سرچشمہ ہیں۔ دعا ہے کہ ہماری نئی نسلیں ان اندھی تقلیدوں کے دھارے میں بہنے کی بجائے قرآن و سنت کے روشن چشموں سے فیض پائیں۔ جو بچے یہ سوالات کرتےہیں کہ مغرب کے یہ تہوار کیا معنی رکھتے ہیں اور ہم ان میں کیوں شریک نہیں ہوتے۔ انہیں ہمیشہ یہی یاد یاد رکھنا چاہیےکہ ہمارا اصل فخر انوارِ قرآن میں ہے، نہ کہ خوف اور اندھیروں پر مبنی رسموں میں۔ اگر ہم اپنے بچوں کے دلوں میں نورِ قرآن اور محبتِ رسولﷺ بٹھا دیں تو وہ دنیا کے ہر فکری طوفان کے مقابلے میں ایک مضبوط قلعہ ثابت ہوں گے۔ پس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے گھروں اور معاشرے کو قرآنی تعلیمات کے نور سے روشن کریں، اپنی نسلوں کو احمدیت یعنی اسلام کی حقیقی روشنی سے آراستہ کریں، اور دنیا کو یہ بتائیں کہ حقیقی امن، حقیقی خوشی اور حقیقی روشنی صرف اور صرف قرآنِ کریم اور آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سنتِ مطہرہ میں ہے۔ یہی پیغام ہماری زندگی کا حاصل اور ہماری نسلوں کی امانت ہے ہیلووین محض ایک کھیل تماشا نہیں بلکہ مغربی تہذیب کا ایک ایسا چہرہ ہے جو خوف، توہم پرستی اور سرمایہ داری کے گٹھ جوڑ سے وجود میں آیا ہے۔ اسلام کا پیغام اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام انسان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے، وہ خوف کے بجائے امن عطا کرتا ہے اور جاہلانہ رسومات کی بجائے عبادت، قربانی اور شکر گزاری کی تعلیم دیتا ہے۔ احمدی مسلمان کے لیے راہ عمل یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں اور اہلِ خانہ کو ان غیر اسلامی رسموں سے بچائے، اسلامی اقدار پر فخر کرے اور دنیا کو دکھائے کہ حقیقی روشنی اور حقیقی خوشی صرف قرآن اور سنتِ محمدیؐ میں ہے۔ یہی پیغام جماعت احمدیہ پوری دنیا کو پہنچا رہی ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضرت میاں جمعہ خان صاحب بھیرویؓ (۱۸۵۲ء – ۱۹۱۴ء)