https://youtu.be/1jL8934b62Y (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍جولائی۲۰۲۴ء بمقام حدیقۃ المہدی، آلٹن، ہمپشئر یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جلسہ سالانہ برطانیہ شروع ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں لوگ یہاں دینی اور روحانی ماحول سے فائدہ اٹھانے کے لیے آئے ہیں۔ ان دنوں میں یہاں حدیقة المہدی میں ایک عارضی شہر بنایا گیا ہے تا کہ اس ماحول میں رہ کر ہم دنیاوی جھمیلوں سے علیحدہ ہو کر اپنی دینی، روحانی، اخلاقی حالتوں کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ پس ایسے حالات میں آنے والوں کو کسی بھی قسم کی سہولت میسر آنے سے زیادہ اس بات کی فکرہونی چاہیے کہ کس طرح ہم اس ماحول سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ کےکارکنان کواعلیٰ اوصاف کامظاہرہ کرنےکی بابت کن باتوں کی طرف توجہ دلائی؟ جواب: فرمایا: مَیں تمام کارکنان کو اس طرف توجّہ دلانی چاہتا ہوں کہ جو بھی ڈیوٹیاں ان کے سپرد ہیں وہ انہیں اچھے رنگ میں انجام دینے کی کوشش کریں ۔ بہترین رنگ میں انجام دینے کی کوشش کریں ۔ جلسہ کے مہمانوں کو حضرت مسیح موعودؑکے مہمان سمجھ کر خدمت کریں ۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی خاطر نیک مقصد کے لیے آنے والے مہمان سمجھ کر خدمت کریں ۔ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ مہمان کی طرف سے آپ کے خیال میں اگر کوئی زیادتی بھی ہو جاتی ہے تو اس سے صَرفِ نظر کریں ۔ یہی ہماری روایت ہے۔ یہی اعلیٰ اخلاق ہیں۔ یہی خدا اور اس کے رسولؐ کا حکم ہے۔ یہی حضرت مسیح موعود ؑ ہم سے چاہتے ہیں ۔ اب یہ مہمان نوازی اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کا ہر ملک میں ایک خاص وَصف بن چکا ہے۔جلسہ کے دنوں میں خاص طور پر اس طرف بہت توجہ دی جاتی ہے۔ پس یہاں بھی ہمیشہ کی طرح سب کارکنان ان اعلیٰ اوصاف کا مظاہرہ کریں جو اسلامی تعلیم کا خاصّہ ہیں ۔ مجھے علم ہے کہ سب کارکنان اس جذبے سے کام کرتے ہیں اور اب بھی کریں گے۔ کل میں نے کارکنان سے جو مختصر سا خطاب تھا جسے کارکنان سے خطاب کہتے ہیں اس میں بھی یہی کہا تھا لیکن یاددہانی اور کئی نئے آنے والوں کی تربیت کے لیے یہ میں باتیں کہہ رہا ہوں ۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرمایا کرتے تھے کہ مہمان کا دل تو آئینہ کی طرح ہوتا ہے، جذباتی ہوتے ہیں ۔ ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ ذرا سی بات پر ہلکی سی ٹھوکر سے وہ شیشے کی طرح ٹوٹ جاتا ہے۔مہمان کا دل بڑا نازک ہوتا ہے اور پھر اس شخص کے لیے بعض دفعہ ٹھوکر کا باعث بن جاتا ہے۔ بعض صحیح طرح سوچتے نہیں کہ یہ تو صرف اس کارکن کی غلطی تھی۔ جماعتی تعلیم کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے لیکن بعضوں کو بہرحال ٹھوکر لگ جاتی ہے۔پس بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال یہ باتیں ان لوگوں کے متعلق ہیں جو نئے آنے والے ہیں جن کی صحیح تربیت نہیں ہوئی یا جماعت میں ابھی تک شامل نہیں ہوئے ہوتے لیکن یہاں آنے والے اکثر اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہیں یہ بات سمجھ کر آتے ہیں کہ یہاں تکالیف برداشت کرنی پڑیں گی لیکن بہرحال جیسا کہ میں نے کہا کچھ مہمان باہر کے بھی ہوتے ہیں جن کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے جو ابھی تک جماعت میں شامل نہیں ہوئے یا جن کی صحیح تربیت نہیں ہوئی۔ پس اس کے لیے جو کارکنان ہیں سب کارکنان،, ہر شعبہ کے جو کارکنان ہیں ان کو اپنے مہمانوں کا اچھی طرح خیال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، چاہے وہ ٹریفک کی ڈیوٹی ہے یا پارکنگ کی ڈیوٹی ہے یا کھانا کھلانے کی ڈیوٹی ہے یا ڈسپلن کی ڈیوٹی ہے یا گیٹ پر چیکنگ کی ڈیوٹی ہے یا ہائی جین اور صفائی کی ڈیوٹی ہے یا پانی سپلائی کی ڈیوٹی ہے کوئی بھی ڈیوٹی ہے کوشش کریں کہ حتی الوسع مہمان کی سہولت کا انتظام ہو اور اس کو کسی طرح تکلیف نہ پہنچے۔ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ پرآنےوالےمہمانان کوکن باتوں کی طرف توجہ دلائی؟ جواب: فرمایا: مہمانوں کے لیے تو سب سے پہلے میں یہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ آپ لوگ ایک نیک مقصد کے لیے یہاں آئے ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے مہمان بن کر یہاں آئے ہیں ۔ دنیاوی اعزاز اور دنیاوی خدمت کے بجائے ان اعلیٰ اخلاق میں مزید ترقی کرنے کو اپنے پیش نظر رکھیں جو ایک حقیقی مسلمان کا طرۂ امتیاز ہے اور جس کو حاصل کرنے کے لیے آپ لوگ یہاں آئے ہیں اور اسی مقصد کے لیے آنا چاہیے۔ بےشک نظامِ جماعت کے تحت جیسا کہ مَیں نے کہا اس پاک اور بابرکت اور بامقصد سفر کرنے والے مسافروں اور مہمانوں کے لیے خدمت کا نظام موجود ہے اور ضروریات کے لیے جو ضروریات میسر ہو سکتی ہیں وہ مہیا کرنے کی کوشش انتظامیہ کرتی ہے۔ لیکن جو للّٰہی سفر اختیار کرنے والے ہوتے ہیں اُن کو اِن دنیاوی ضروریات اور آراموں کی طرف بہت کم توجہ ہوتی ہے اور یہی ان کا بنیادی مقصد ہوتا ہے کہ یہاں رہ کر زیادہ سے زیادہ روحانی مائدے سے فائدہ اٹھائیں ۔ پس آپ اپنے آپ کو کبھی دنیاوی مسافروں اور مہمانوں کے زُمرے میں لانے کی کوشش نہ کریں۔ اگر اس بات کو آپ سمجھ جائیں گے تو میزبانوں کی کمزوریوں اور کمیوں سے بھی آپ صَرف نظر کرتے رہیں گے ورنہ بعض دفعہ دیکھنے میں آتا ہے کہ شکوہ پیدا ہو جاتا ہے کہ فلاں جگہ کے لوگوں کا بہتر انتظام تھا۔ فلاں لوگوں کو زیادہ سہولت میسر کی گئی تھی۔ فلاں کے ساتھ بہتر سلوک ہوا۔ فلاں کے ساتھ کم سلوک ہوا۔ تو اس طرح پھر اس قسم کے شکوے پیدا نہیں ہوں گے۔ بعض دفعہ اندازے کی غلطی سے بعض کمزوریاں رہ جاتی ہیں تو ان کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ اگر ہر ایک کے دل میں یہ خیال ہو، ہر آنے والے احمدی مسلمان کے دل میں یہ خیال ہو کہ ہمارا مقصد صرف اور صرف روحانی مائدہ حاصل کرنا ہے نہ کہ کسی بھی قسم کی دنیاوی سہولتوں کو حاصل کرنا ہے تو پھر دونوں میزبان اور مہمان محبت اور پیار سے یہ دن گزاریں گے۔ بہرحال یہ بھی میں بتا دوں کہ انتظامیہ کی طرف سے پوری کوشش ہوتی ہے کہ سب مہمانوں کے ساتھ ایک طرح سے سلوک کیا جائے لیکن پھر بھی بعض دفعہ جیسا کہ میں نے کہا کمی بیشی ہو جاتی ہے اور اس سے پھر مہمانوں کو صَرفِ نظر کرنا چاہیے۔ یہی ہماری تعلیم ہے۔ جہاں ہمیں یہ حکم ہے کہ مہمان کی عزت کرو اور تکریم کرو اور خیال رکھو وہاں مہمانوں کو بھی یہی کہا گیا ہے کہ تم لوگ بھی میزبان کی سہولت کا خیال کرو۔ بہرحال حضرت مسیح موعودؑ مہمانوں کی بہت عزت و تکریم فرماتے تھے اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اپنی ضروریات بے تکلفی سے بیان کر دیا کرو۔لیکن یہ عام حالات کی بات ہے۔ جلسہ کے جو مہمان تھے ان کے لیے آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہی انتظام ہو۔ ہر مہمان کی اسی طرح مہمان نوازی کی جائے جو ایک انتظام کے تحت ہے اور حتی الوسع ایک طرح کی ہو۔ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانان کومل بیٹھنےاورملاقات کےوقت کن باتوں کومدنظررکھنےکی تاکیدفرمائی؟ جواب: فرمایا:مو من کے لیے اپنے وقت کا صحیح استعمال انتہائی ضروری ہے۔ جب ایسے اجتماعی موقعوں پر سب جمع ہوتے ہیں تو دُور دُور سے آئے ہوئے عزیزوں اور واقف کاروں کی ایک دوسرے سے ملاقاتوں اور مل بیٹھنے کی خواہش بھی ہوتی ہے۔ اب جبکہ صرف ایک ملک کے رہنے والے واقف کار اور عزیز نہیں بلکہ دوسرے ملکوں کے رہنے والے واقف کاروں اور عزیزوں سے بھی ملاقات کے سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے ہیں اور حضرت مسیح موعود ؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ جماعت عطا فرمائی ہے جس نے ملکوں اور قوموں کی سرحدوں کو اور فرقوں کو ختم کر دیا ہے اور ایک عظیم بھائی چارے کی بنیاد پڑ چکی ہے۔ آپؑ نے جلسہ میں شامل ہونے والوں کا ایک مقصد یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں۔ان میں مضبوطی پیدا ہوتی چلی جائے۔ ہم ایک قوم بن جائیں اور اس کے لیے ظاہر ہے مل بیٹھنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ آپس میں ایک دوسرے سے میل ملاقات بھی ہوتی ہے اور یہ ضروری چیز ہے۔ ایک دوسرے سے واقفیت بڑھانے اور تعلق بڑھانے کے لیے ضروری چیز ہے لیکن سارا دن جلسہ کا جو پروگرام ہو رہا ہوتا ہے اس کو بہرحال سننے میں وقت گزارنا چاہیے اور اس کے بعد ہی جو موقع میسر آئے اس میں پھر آپس میں مل بیٹھیں اور باتیں کریں اور تعلقات بڑھائیں ۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض دفعہ بعض پرانے واقف کاروں کا یہ مل بیٹھنا اتنا لمبا ہو جاتا ہے جو دیر بعد ملتے ہیں تو یہ اتنی لمبی ملاقاتیں ہو جاتی ہیں کہ خوش گپیوں میں ساری ساری رات ضائع ہو جاتی ہے اور پھر نماز فجر کے وقت تہجد تو خیر علیحدہ رہی فجر کے وقت بھی مشکل سے ان کی آنکھ کھلتی ہے۔پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ انتظامیہ کو بھی اس سے دقّت پیش آتی ہے کہ کھانے کی مارکی میں باتوں میں لگے اور کھانا کھاتے ہوئے لوگ لمبی باتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اتنا وقت گزارتے ہیں کہ کارکنوں کو پھر یاددہانی کروانی پڑتی ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے یا بہت زیادہ وقت ہو گیا ہے۔ بہرحال اسی طرح گھروں میں ٹھہرنے والوں کو بھی ہو سکتا ہے دقتیں پیش آتی ہوں تو اعتدال سے کام لینا چاہیے۔ مہمانوں کو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ میزبانوں نے بھی اپنے کام سمیٹنے ہیں اور اگلے وقت کی تیاری کرنی ہوتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے ہوئے مہمانوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کا یہی حکم تھا کہ بیٹھ کے باتوں میں وقت ضائع نہ کیا کرو۔ جب کھانا پینا ہو جائے تو اٹھ کے چلے جایا کرو۔ (الاحزاب :۵۴) پس خاص طور پر کھانے کی مارکی میں جب زیادہ رَش ہو جائے تو بعض دفعہ کھانا شفٹوں میں کھلانا پڑتا ہے۔ اس لیے فوری طور پر کھانا کھا کے اٹھ جانا چاہیے تا کہ دوسرے لوگ بھی آ سکیں اور آرام سے کھانا کھا سکیں ۔ پس یہ باتیں اگر ہوں گی تو پھر کسی قسم کے شکوے بھی پیدا نہیں ہوں گے اور اس خوشگوار ماحول میں سب کام ہوتے رہیں گے۔ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے آجکل کےحالات کےحوالے سےسیکیورٹی چیکنگ کی بابت کن امورکی طرف توجہ دلائی؟ جواب: فرمایا: اسی طرح کارڈز کی چیکنگ ہے اور سیکیورٹی ہے کیونکہ سیکیورٹی چیک بھی آج کل کے حالات میں بہت ضروری ہے، بڑی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔اس کے مختلف مرحلوں سے گزرنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو تکلیف بھی ہو سکتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ دیر بھی لگ جائے اور خاص طور پر عورتوں میں یہ زیادہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ ان کے بچے بھی ہوتے ہیں اور ان کے سامان بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔ عورتوں نے بعض دفعہ بےشمار بیگ اٹھائے ہوتے ہیں اور ہر بیگ کو چیک کرنے میں پھر وقت بھی لگ جاتا ہے۔ اس لیے ایک تو عورتوں کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ آج تو اگر کوئی زیادہ سامان لے آئی ہیں تو ٹھیک ہے لیکن باہر سے آنے والے لوگ جو جلسہ گاہ میں نہیں ٹھہرے ہوئے اکثر تو باہر سے ہی آرہے ہوتے ہیں وہ آئندہ دو دنوں میں کم سے کم اپنا سامان لائیں تا کہ چیکنگ میں کم سے کم وقت خرچ ہو۔ جو بچے والیاں ہیں وہ بھی صرف بچوں کی ضرورت کی چیزیں لائیں۔ غیرضروری چیزیں ساتھ نہ لائیں ۔ اس سے بلا وجہ دیر ہوتی ہے۔ وقت ضائع ہوتا ہے۔ انتظامیہ کا بھی وقت ضائع ہوتا ہے اور لوگوں کا بھی وقت ضائع ہوتا ہے۔ لوگوں کو لائن میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑتا ہے پھر وہ انتظامیہ کو الزام دیتے ہیں حالانکہ قصور بعض دفعہ جلسہ میں شامل ہونے والوں کا ہوتا ہے کیونکہ لوگوں کی چیزیں اور سامان اتنا زیادہ ہوتا ہے جیساکہ میں نے کہا کہ چیکنگ میں دیر لگ جاتی ہے۔ پھر ایک مومن کو ایک حکم اور ارشاد آنحضرت ﷺ کا یہ ہے کہ تم لوگ قطع تعلق کرنے والے سے بھی تعلق قائم رکھو۔ جو تمہیں نہیں دیتا اسے بھی دو۔ یہ نہیں ہے کہ ضرورت کے وقت تمہارے کام نہیں آیا تو اس کو ضرورت پڑنے پر بدلہ لیتے ہوئے تم بھی اس کی مدد نہ کرو۔ فرمایا کہ جو تمہیں برا بھلا کہتا ہے اس سےبھی درگذر کرو۔ پس یہاں تو برا بھلا کہنے کا سوال نہیں ہے یہاں تو ایک فرض کی ادائیگی ہے جو کارکنان کے ذمہ لگائی گئی ہے۔ یہاں اگر انجانے میں کسی کارکن سے کوئی غلطی ہو جائے یا چیکنگ کے دوران دیر لگ جائے یا کسی کے کارڈ پر کوئی اعتراض پیدا ہو جائے تو برا منانے کی بجائے حوصلہ دکھانا چاہیے۔ یہ باتیں جو آنحضرت ﷺ نے فرمائی ہیں یہ وسعتِ حوصلہ کی طرف راہنمائی کرتی ہیں ۔ اگر وسعتِ حوصلہ پیدا ہو جائے تو تمام بدمزگیاں اور جھگڑے ختم ہوجائیں۔ پس مہمانوں اور ڈیوٹی دینے والوں، دونوں کو کہتا ہوں کہ ان کا فرض ہے کہ وسعتِ حوصلہ دکھائیں۔ چیکنگ کرنے والوں کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ آنے والے مہمانوں کے لیے جس حد تک سہولت مہیا کر سکتے ہیں وہ مہیا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے اگر انتظامیہ کو زیادہ کارکن بھی لگانے پڑیں تو لگانے چاہئیں خاص طور پر رش کے وقتوں میں۔ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍اکتوبر 2025ء