https://youtu.be/4ZFI-EKEd8k (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍جون۲۰۱۹ء) حضرت زینب بنت جحشؓ کی عمر شادی کے وقت 35سال کی تھی اور عرب کے حالات کے لحاظ سے یہ عمر ایسی تھی جسے گویا ادھیڑ عمر، بڑی عمر کہنا چاہیے۔ حضرت زینبؓ ایک نہایت متقی اور پرہیز گار اور مخیر خاتون تھیں۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں صرف زینب ہی وہ بیوی تھیں جو حضرت عائشہؓ کا مقابلہ کرتی تھیں اور ان کی ہمسری کا دم بھرتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ ان کے ذاتی تقویٰ اور طہارت کی بہت مداح تھیں اور اکثر کہا کرتی تھیں کہ میں نے زینبؓ سے زیادہ نیک عورت نہیں دیکھی اور یہ کہ وہ بہت متقی، بہت راست گو، بہت صلہ رحمی کرنے والی، بہت صدقہ و خیرات کرنے والی اور نیکی اور تقرب الٰہی کے اعمال میں نہایت سرگرم تھیں۔ بس اتنی بات تھی ان کی طبیعت ذرا تیز تھی مگر تیزی کے بعد وہ جلد ہی خودنادم ہو جایا کرتی تھیں۔ صدقہ اور خیرات میں تو ان کا یہ مرتبہ تھا کہ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ اَسْرَعُکُنَّ لِحَاقًا بِیْ اَطْوَلُکُنَّ یَدًا۔ یعنی تم میں سے جو سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی ہے وہ میری وفات کے بعد سب سے پہلے فوت ہو کر میرے پاس پہنچے گی۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ہم نے اس سے ظاہری ہاتھ سمجھے اور اپنے ہاتھ ناپا کرتی تھیں لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے زینب بنت جحشؓ کا انتقال ہوا تو تب جا کر ہم پر یہ راز کھلا کہ ہاتھ سے مراد صدقہ و خیرات کا ہاتھ تھا نہ کہ ظاہری ہاتھ۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ مزید لکھتے ہیں کہ جیسا کہ اندیشہ کیا جاتا تھا حضرت زینبؓ کی شادی پر منافقینِ مدینہ کی طرف سے بہت اعتراضات ہوئے اور انہوں نے برملا طور پر طعن کیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کر کے گویا اپنی بہو کواپنے اوپر حلال کرلیا ہے لیکن جب اس شادی کی غرض ہی عرب کی اس جاہلانہ رسم کو مٹانا تھی تو پھر ان طعنوں کا سننا بھی ضروری تھا۔ اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ابنِ سعد اور طبری وغیرہ نے حضرت زینب بنت جحشؓ کی شادی کے متعلق ایک سراسر غلط اور بے بنیاد روایت نقل کی ہے اور چونکہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کے خلاف اعتراض کاموقع ملتا ہے اس لیے بعض مسیحی مؤرخین نے اس روایت کونہایت ناگوار صورت دے کر اپنی کتب کی زینت بنایا ہے۔ روایت یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحشؓ کی شادی زید کے ساتھ کردی تواس کے بعد آپؐ کسی موقع پر زیدؓ کی تلاش میں ان کے مکان پر تشریف لے گئے۔ اس وقت اتفاق سے زید بن حارثہؓ اپنے مکان پر نہیں تھے۔ چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے سے باہر کھڑے ہوکر زیدؓ کو آواز دی تو زینبؓ نے اندر سے جواب دیا کہ وہ مکان پر نہیں ہیں اور ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پہچان کر وہ لپک کر اٹھیں اور عرض کیا یارسول اللہؐ! میرے ماں باپ آپؐ پرقربان ہوں۔ آپؐ اندر تشریف لے آئیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمایا اور واپس لوٹنے لگے۔ اب یہ راوی اس طرح کی روایت آگے لکھتے ہیں کہ مگر چونکہ حضرت زینبؓ گھبرا کرایسی حالت میں اٹھ کھڑی ہوئی تھیں کہ ان کے بدن پراوڑھنی نہیں تھی اور مکان کادروازہ کھلا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ان پر پڑ گئی اور آپؐ نعوذ باللہ ان کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر یہ الفاظ گنگناتے ہوئے واپس لوٹ گئے کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ سُبْحَانَ اللّٰہِ مُصَرِّفِ الْقُلْوبِ۔ کہ پاک ہے وہ اللہ جو سب سے بڑائی والا ہے اور پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں لوگوں کے دل ہیں جدھرچاہتا ہے انہیں پھیردیتا ہے۔ جب زید بن حارثہؓ واپس آئے تو زینبؓ نے ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کا قصہ بیان کیا اور زیدؓ کے دریافت کرنے پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے تھے۔ حضرت زینبؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بیان کیے اور کہا میں نے تو عرض کیا تھا کہ آپؐ اندر تشریف لے آئیں مگر آپؐ نے انکار فرمایا اور واپس تشریف لے گئے۔ یہ سن کر زیدؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اور کہا یارسولؐ اللہ! شاید آپؐ کو زینب پسند آگئی ہے۔ اگر آپؐ پسند فرمائیں تو میں اسے طلاق دے دیتا ہوں اور پھر آپؐ اس کے ساتھ شادی فرما لیں۔ آپؐ نے فرمایا زید! خدا کا تقویٰ کرو اور زینبؓ کو طلاق نہ دو۔ یہ روایت لکھنے والے پھر آگے اس طرح لکھتے ہیں کہ مگر اس کے بعد زیدؓ نے زینبؓ کو طلاق دے دی۔ یہ وہ روایت ہے جو ابنِ سعد اور طبری وغیرہ نے اس موقع پر بیان کی ہے اور گو اس روایت کی ایسی تشریح کی جاسکتی ہے جوچنداں قابلِ اعتراض نہیں، بالکل قابلِ اعتراض نہیں ہوگی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ قصہ سرتاپا محض غلط اور جھوٹ ہے اور روایت ودرایت ہر طرح سے اس کا جھوٹا ہونا ظاہر ہے۔ روایتاً تو اس قدر جاننا کافی ہے کہ اس قصے کے راویوں میں زیادہ تر واقدی اور عبداللہ بن عامر اَسْلَمِی کاواسطہ آتا ہے اور یہ دونوں شخص محققین کے نزدیک بالکل ضعیف اور ناقابلِ اعتماد ہیں حتیٰ کہ واقدی تو اپنی کذب بیانی اور دروغ بیانی میں ایسی شہرت رکھتا ہے کہ غالباً مسلمان کہلانے والے راویوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ اور اس کے مقابلہ میں وہ روایت جو ہم نے اختیار کی ہے جس میں زیدؓ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر زینبؓ کی بدسلوکی کی شکایت کرنا بیان کیا گیا تھا، (وہ پچھلے خطبے میں بیان ہوئی تھی) اور اس کے مقابلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان بیان کیا گیا تھا کہ تم خدا کا تقویٰ اختیار کرواورطلاق نہ دو، یہ روایت جو ہے وہ بخاری کی روایت ہے جو دوست اور دشمن کے نزدیک قرآن شریف کے بعد اسلامی تاریخ کا صحیح ترین ریکارڈ سمجھی جاتی ہے اور جس کے خلاف کبھی کسی حرف گیر کو انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں ہوئی۔ پس اصولِ روایت کی رو سے دونوں روایتوں کی قدروقیمت ظاہر ہے۔ مزید پڑھیں: تحریک جدید کی مالی قربانی کے ایمان افروز واقعات