٭…بنگلہ دیش کی عدالت نے پہلی بار جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزام میں پندرہ اعلیٰ فوجی افسران کو حراست میں لینے کا حکم دے دیا۔ ملزمان میں پانچ ریٹائرڈ جنرلز بھی شامل ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے دوران خفیہ حراستی مراکز قائم کیے جہاں سیاسی مخالفین کو غیرقانونی طور پر قید اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔تمام افسران ماضی میں فوجی انٹیلی جنس اور ریپڈ ایکشن بٹالین (آر اے بی) سے وابستہ رہے ہیں، جو انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ملک میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت ہلاکتوں اور تشدد میں ملوث رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سال ۲۰۲۴ء کے عوامی مظاہروں کے دوران کم از کم ۱۴۰۰؍افراد ہلاک ہوئے تھے، جبکہ سینکڑوں سیاسی کارکن اور طلبہ لاپتا کر دیے گئے تھے۔ ٭… آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں تارکینِ وطن کے خلاف پُرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جن کے نتیجے میں سینکڑوں مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین نے پولیس وین کو آگ لگا دی جس کے نتیجے میں ایک اہلکار زخمی ہوا جبکہ چھ مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ احتجاج اس ہوٹل کے باہر کیا گیا جہاں پناہ گزینوں کو عارضی طور پر رکھا جاتا ہے، پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے مرچ اسپرے اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔مظاہرے ۲۶؍سالہ ملزم کے دس سالہ بچی سے جنسی زیادتی کے الزام کے بعد شروع ہوئے۔مقامی میڈیا کے مطابق ملزم تارکینِ وطن ہے، اس معاملے پر آئیرلینڈ کے وزیرِ انصاف نے کہا ہے کہ جرم کو نفرت انگیزی کے لیے استعمال کرنا ناقابلِ قبول ہے۔ ٭…امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کی جانب سے سعودی قیادت میں قائم کمبائنڈ ٹاسک فورس ۱۵۰؍اور پاک بحریہ کو بحیرہ عرب میں منشیات کی بڑی کارروائی پر مبارکباد دی گئی ہے۔ پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس یرموک نے ۴۸؍گھنٹوں میں بڑی کارروائی کے دوران ۹۷۲؍ملین ڈالر سے زائد مالیت کی منشیات ضبط کر لیں۔پی این ایس یرموک نے سعودی قیادت میں کمبائنڈ ٹاسک فورس ۱۵۰؍کی معاونت سے بحیرہ عرب میں دو کشتیوں پر کارروائی کی جن سے ۹۷۲؍ملین ڈالر سے زائد مالیت کی منشیات برآمد ہوئیں۔دوسری جانب سعودی رائل نیوی کے کمانڈر فہد الجوید نے اس کامیاب کارروائی کو عالمی تعاون کی بہترین مثال قرار دیا۔ ٭… وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ مذہب کے نام پر جتھے قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ جتھے کون تیار کرتے رہے ہیں، کس لیے تیار کرتے رہے ہیں، سب کو پتا ہے۔ نجی نیوز چینل سے گفتگو میں وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی اس طرح کے جتھوں کو برادشت نہیں کرنا چاہیے، بہت دیر ہو گئی ہے، کئی دہائیوں سے ہم یہ جتھے تیار کرتے رہے ہیں۔ اب یہ ریاست قانون، قاعدے اور آئین کے مطابق چلے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مذہب کے نام پر اس طرح کے جتھے کسی بھی ریاست میں قابل قبول نہیں۔اس قسم کی مذہبی انتہا پسند جماعت لوگوں کو مارے، املاک کو نقصان پہنچائے، یہ قابل قبول نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک ہارڈ اسٹیٹ بننا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی پر پابندی لگنے جا رہی ہے یا نہیں اس پر بات نہیں کروں گا۔ ٭…پاک افغان سیز فائر دورانیہ سے متعلق وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ افغانستان سے سیز فائر کے لیے وقت کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ بہت واضح طور پر بیان کیا گیا تھا کہ کوئی دراندازی نہیں ہو گی، ٹی ٹی پی کو ان کی سرزمین پر کوئی سہولت فراہم نہیں کی جائے گی۔ ہم بار بار یہ بات دہراتے رہے اور ظاہر ہے کہ افغانستان اس بات سے انکار کرتا ہے۔ ترکی اور قطر نے زور دیا کہ بنیادی تنازع یہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین یا سرپرستی ٹی ٹی پی کو پاکستان میں کارروائی کےلیے دستیاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے افغانستان کو بتایا کہ سب کچھ صرف ایک شق پر منحصر ہے، کوئی وقت مقرر نہیں تھا کہ ہم فلاں تاریخ تک دیکھیں گے اور پھر سیز فائر معاہدے کی توسیع کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک نافذ العمل معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہمارے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ موجود ہے۔ ٭…بھارت نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ فعال کر دیا ہے۔ یہ اقدام افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ دورۂ بھارت کے بعد کیا گیا جس میں طے پایا تھا کہ بھارت اپنے تکنیکی مشن کو سفارتخانے کا درجہ دے گا۔ بھارت کابل میں اپنے مشن کے سربراہ کو چارج ڈی افیرز (chargé d’affaires) مقرر کرے گا اور بعدازاں سفیر تعینات کرے گا جبکہ طالبان حکومت نومبر تک اپنے دو سفارت کار نئی دلی بھیجے گی جو افغان سفارتخانے سے کام کریں گے۔ بھارت نے تاحال طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ بھارت نے اگست ۲۰۲۱ء میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اپنا سفارتخانہ بند کر دیا تھا تاہم جون ۲۰۲۲ءمیں سیکیورٹی یقین دہانیوں کے بعد کابل میں ایک تکنیکی مشن فعال کیا تھا۔ ٭…٭…٭