حضرت امام رازی ؔاس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ کہتے ہیں کہ آیت مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًاحَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً میں اللہ تعالیٰ نے مال کو بڑھا چڑھا کر واپس کرنے کاوعدہ فرمایاہے۔ اور اس آیت میں اس بڑھا چڑھا کردینے کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان دونوں آیات کے درمیان اللہ تعالیٰ نے زندہ کرنے اور مارنے کی اپنی قدرت پر دلائل دئے ہیں۔ اگر یہ قدرت خداوندی نہ ہوتی تو خرچ کرنے کا حکم مستحکم نہ ہوتا۔ کیونکہ اگر جزاء سزادینے والا کوئی وجود نہ ہوتا توخرچ کرنا فضول ٹھہرتا۔ دوسرے لفظوں میں گویا اللہ تعالیٰ خرچ کرنے والے کو یہ کہتاہے کہ تو جانتاہے کہ مَیں نے تجھے پیدا کیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کیا اور تو میرے اجر اور ثواب دینے کی طاقت سے واقف ہے پس چاہئے کہ تیرا یہ علم تجھے مال خرچ کرنے کی ترغیب دے کیونکہ وہی یعنی خدا تھوڑے کابہت زیادہ بدلہ دیتاہے۔ اور یہاں اس بہت زیادہ کی مثال بیان کی ہے کہ جو ایک دانہ بوتا ہے مَیں اس کے لئے سات بالیاں نکالتاہوں اور ہر بالی میں سو (۱۰۰) دانے ہوتے ہیں تو گویا ایک سے سات سَو دانے ہو جاتے ہیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ کہ وہ خدا کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں میں سَبِیْلِ اللّٰہ سے مراد’’دین‘‘ہے کہ خدا کے دین میں خرچ کرتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارہ میں لکھتے ہیں کہ ’’اگر تم دینی کاموں کے لئے اپنے اموال خرچ کرو گے تو جس طرح ایک دانہ سے اللہ تعالیٰ سات سو دانے پیدا کردیتاہے اسی طرح وہ تمہارے اموال کو بھی بڑھائے گا۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ ترقی عطا فرمائے گا۔ جس کی طرف وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ میں اشارہ ہے۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے بے شک بڑی قربانیاں کی تھیں مگر خدا تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کا پہلا خلیفہ بنا کر انہیں جس عظیم الشان انعام سے نوازا اُس کے مقابلہ میں اُن کی قربانیاں بھلا کیا حیثیت رکھتی تھیں۔ اسی طرح حضرت عمرؓ نے بہت کچھ دیا مگر انہوں نے کتنا بڑا انعام پایا۔ حضرت عثمان ؓ نے بھی جو کچھ خرچ کیا اُس سے لاکھوں گُنازیادہ انہوں نے اسی دنیا میں پالیا۔ اسی طرح ہم فرداً فرداً صحابہ ؓ کا حال دیکھتے ہیں۔ تو وہاں بھی خداتعالیٰ کا یہی سلوک نظر آتاہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کو ہی دیکھ لو۔ لکھتے ہیں کہ‘‘ جب وہ فوت ہوئے تو ان کے پاس تین کروڑ روپیہ جمع تھا۔ اس کے علاوہ اپنی زندگی میں وہ لاکھوں روپیہ خرچ کرتے رہے۔ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ ۶۰۴) (خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍نومبر ۲۰۰۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲؍جنوری ۲۰۰۴ء) مزید پڑھیں: مسیح موعود اور مہدی معہود کی آمد کی بشارت