(مشرقِ بعید کےتازہ حالات و واقعات کا خلاصہ) چین کی ستمبر ۲۰۲۵ء کی فوجی پریڈ ۳؍ستمبر ۲۰۲۵ء کو بیجنگ کے تاریخی تیانانمین اسکوائر میں منعقد ہونے والی یہ فوجی پریڈ چین کی تاریخ کی سب سے بڑی عسکری تقریب قرار دی جا رہی ہے۔یہ پریڈ دوسری جنگِ عظیم میں ’’جاپان پر اتحادی افواج کی فتح‘‘ کے ۸۰؍سال مکمل ہونے کے موقع پر منعقد کی گئی، جسے چین میں ’’جاپانی جارحیت سے آزادی کا دن‘‘ کہا جاتا ہے۔لیکن اس بار، یہ تقریب صرف ماضی کی یاد نہیں تھی بلکہ مستقبل کی عالمی طاقت کے توازن کا اعلان بھی تھی۔ چینی صدر شی جن پنگ نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ دنیا ایک نازک دوراہے پر ہے۔ یا تو ہم امن کی راہ اپنائیں گے، یا جنگ کے خطرناک دہانے پر جا پہنچیں گے۔ چین کبھی جارح نہیں رہا، مگر اپنے دفاع میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ چین ’’عسکری خودانحصاری‘‘ اور ’’قومی تجدید‘‘ کے راستے پر گامزن ہے اور وہ کسی بیرونی دباؤ میں نہیں آئے گا۔ اس تقریب میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن، شمالی کوریا کے راہنما کم جونگ اُن اور پاکستان کے وزیرِ اعظم سمیت کئی نمایاں غیر ملکی شخصیات نے شرکت کی جن میں ۲۰؍سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت بھی شامل تھے۔ پریڈ میں چینی فوج، فضائیہ اور بحریہ نے مجموعی طور پر بارہ ہزار فوجی اہلکاروں، ۵۸۰؍عسکری گاڑیوں اور ۲۳۰؍ طیاروں و ڈرونز کے ساتھ شرکت کی۔ اس پریڈ میں پہلی مرتبہ انٹر کانٹینینٹل میزائل، J-20B Mighty Dragon، فوجیان ایئرکرافٹ کیریئر سمیت بہت سے ہتھیاروں کو دنیا کے سامنے پہلی مرتبہ پیش کیا گیا۔ اسی طرح چینی فوج نے پہلی بار مصنوعی ذہانت (AI) پر مبنی کمانڈ اور ہدفی نظاموں کی عملی کارکردگی دکھائی۔ امریکہ نے اس پریڈ کو ’عسکری طاقت کے ذریعے سفارتی دباؤ‘ قرار دیا۔ آٹھ گھنٹے طویل نشریات کے دوران کروڑوں افراد نے اس تقریب کو دنیا بھر میں براہ راست دیکھا۔ چینی پیپلز لبریشن آرمی (PLA) اب دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی پر مبنی افواج میں شمار ہو رہی ہے۔ یہ پریڈ صرف اندرونی طاقت کی علامت نہیں بلکہ امریکہ، جاپان اور بھارت کو ایک ’’غیر زبانی انتباہ‘‘بھی تھی کہ چین اب دفاعی حدود سے آگے نکل کر ’’علاقائی بالادستی‘‘ کی پوزیشن حاصل کر رہا ہے۔ سمندری طوفان ریگاسا نے مشرقی ایشیا میں تباہی مچادی درجنوں ہلاک، لاکھوں بے گھر مغربی بحرالکاہل سے اٹھنے والا خوفناک سمندری طوفان ریگاسا (Typhoon Ragasa) مشرقی ایشیا کے کئی ممالک میں تباہی مچاتے ہوئے گزر گیا۔ طوفان نے فلپائن، تائیوان، چین اور ویتنام کے ساحلی علاقوں کو شدید متاثر کیا، جس کے نتیجے میں کم از کم ۲۹؍افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے جبکہ لاکھوں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔ ریگاسا نے ۱۷؍ستمبر ۲۰۲۵ء کو مغربی بحرالکاہل میں کم دباؤ کے علاقے کے طور پر جنم لیا اور چند ہی دنوں میں ’’سپرٹائفون‘‘ کی شدت اختیار کرلی۔ موسمی ماہرین کے مطابق اس کی رفتار ۲۷۰؍کلومیٹر فی گھنٹہ تک جا پہنچی، جب کہ مرکزی فضائی دباؤ ۹۰۵؍ہیکٹوپاسکل تک گر گیا، جو اسے موجودہ سال کا دنیا کا سب سے طاقتور طوفان بناتا ہے۔ یہ طوفان ۱۹؍ستمبر کو شمالی فلپائن سے ٹکرایا، جہاں اس نے لوزون اور بالویان جزائر کو بری طرح متاثر کیا۔ شدید ہواؤں اور بارشوں کے باعث متعدد ماہی گیر کشتیوں کے الٹنے سے اموات ہوئیں، درجنوں مکانات تباہ اور بجلی و مواصلاتی نظام درہم برہم ہوگیا۔ ریگاسا کے گزرنے سے تائیوان میں شدید بارشیں ہوئیں، جن سے ہوالین کاؤنٹی میں پہاڑی تودے گرنے اور دریاؤں میں طغیانی کے واقعات پیش آئے۔ کئی پل اور سڑکیں بہ گئیں جبکہ متعدد دیہات کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ حکام کے مطابق اب تک متعدد افراد لاپتا ہیں اور امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ طوفان جب جنوبی چین کے ساحلی صوبے گوانگ ڈونگ میں داخل ہوا تو اس کی شدت کچھ کم ہوچکی تھی، تاہم زبردست ہواؤں اور موسلادھار بارشوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگی اجیرن بنادی۔ ہانگ کانگ میں تیز ہواؤں کے باعث درخت اکھڑ گئے، سڑکوں پر پانی جمع ہوگیا اور پروازیں منسوخ کرنی پڑیں۔ چینی حکام کے مطابق کئی لاکھ افراد کو عارضی پناہ گاہوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ چین کے بعد طوفان نے اپنی سمت ویتنام کی طرف موڑ لی۔ اگرچہ اس وقت تک اس کی شدت کم ہوچکی تھی، مگر بارشوں نے شمالی ویتنام کے کئی علاقوں میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ بڑھا دیا۔ حکومت نے ڈیموں، اسپتالوں اور مواصلاتی نظام کو محفوظ بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی کمپنی Aonکے مطابق طوفان ریگاسا کے باعث ہونے والے اقتصادی نقصانات سینکڑوں ملین امریکی ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے، جب کہ بیمہ شدہ خسارے صرف ابتدائی تخمینے کے مطابق ہی دسیوں ملین ڈالر سے تجاوز کر گئے۔ طوفان کے بعد متاثرہ ملکوں میں بحالی کے کام جاری ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں بجلی کی بحالی، سڑکوں کی مرمت اور امدادی سامان کی تقسیم کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ آسٹریلیا میں ٹیلی کمپنی کا تعطّل اور اس کے نتیجہ میں اموات آپٹس ( Optus)، آسٹریلیا کی دوسری بڑی ٹیلی کام کمپنی ہے، جس کے نیٹ ورک پر ۱۸؍ستمبر ۲۰۲۵ کو ایک تکنیکی خرابی واقع ہوئی۔ اس خرابی کا تعلق کمپنی کے ‘‘firewall upgrade’’ سے ہے، یعنی ایک معمولی اپگریڈ کے دوران کچھ نظامی تبدیلیاں کی گئیں جو (Triple Zero (000 ایمرجنسی کال سروس کو متاثر کر گئیں۔ اس تعطّل نے تقریباً ۱۳؍گھنٹے تک ایمرجنسی کالز کو بند رکھا، اور اندازاً ۶۰۰؍ایسی کالز رپورٹ ہوئیں جو کامیابی سے ایمرجنسی سروس تک نہیں پہنچ سکیں۔ کمپنی نے اعلان کیا کہ اس واقعے کے دوران کم ازکم تین افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک آٹھ ہفتے کا بچہ، ایک ۶۸؍سالہ خاتون، اور ایک ۷۴؍سالہ شخص شامل تھا۔ بعدازاں، ایک چوتھی موت کی تصدیق بھی ہوئی۔ کمپنی نے تسلیم کیا کہ کچھ کسٹمرز نے ایمرجنسی کال کی ناکامی کی اطلاع دی، مگر وہ اس کے متعلق کار روائی نہ کر سکے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس خرابی میں ‘‘procedural failures’’یا انسانی غلطی شامل ہوسکتی ہے اور مناسب کارروائی نہ ہونے کی بات بھی کی گئی ہے۔ کمپنی نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ اس تعطل کے پسِ پردہ ‘‘Ericsson’’کی ٹاور سازو سامان میں خرابی یا نقص کا حصہ ہے، خصوصاً Dapto علاقے میں واقع موبائل ٹاور میں 4G خدمات نہ چل سکنے کا معاملہ سامنے آیا۔ نیز یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایمرجنسی کال کو متبادل نیٹ ورک پر ری-روٹنگ (camping off to another network) نہیں کیا گیا، جو ایک اہم حفاظتی نظام ہے۔ یہ بھی رپورٹ ہوا کہ کمپنی کی اندرونی نگرانی و الارم کے نظام نے نقص کی مکمل تشخیص یا الرٹ جاری نہیں کیا۔ اس واقعہ نے عوامی غم و غصے کی لہر اٹھائی، اور وفاقی حکومت نے اسے ’’بالکل ناقابل قبول‘‘ قرار دیا۔ کمپنی کو مکمل سرکاری تحقیقات اور باہری خودمختار معائنہ کار مقرر کرنے کا حکم دیا گیا۔ کمپنی نے Kerry Schott کو آزاد معائنہ کار کے طور پر نامزد کیا ہے، تاکہ اس واقعے کے پسِ پردہ تکنیکی و انتظامی نکتہ نظر کی جانچ ہو۔ اس واقعہ کے بعد حکومت نے اعلان کیا ہے کہ نئے قوانین لائے جائیں گے تاکہ ٹیلی کمیونیکیشن فراہم کنندگان کو ایمرجنسی کال سسٹم کی دستیابی کو یقینی بنانے کی پابندی ہو، اور نقصانات کے لیے ذمہ داری طے ہو۔ نیوزی لینڈ میں نئی پالیسیاں برائے بین الاقوامی تعلیم و اسٹوڈنٹ ویزا نیوزی لینڈ نے ستمبر ۲۰۲۵ء کے دوران بین الاقوامی تعلیمی شعبے اور اسٹوڈنٹ ویزا پالیسیوں میں کئی اہم تبدیلیاں اور اصلاحات متعارف کروائیں ہیں جن کا مقصد بیرونی طلبہ کے لیے خواندگی، سہولت اور لچک بڑھانا ہے۔یہ تبدیلیاں International Education Going for Growth منصوبے کے تناظر میں ہیں، جس کا مقصد نیوزی لینڈ کو بین الاقوامی طلبہ کے لیے مزید پرکشش بنانے کے ساتھ ساتھ اس شعبے کی معیشتی شراکت کو بڑھانا ہے۔ حکومت نے ہدف مقرر کیا ہے کہ بین الاقوامی طلبہ کی تعداد کو بڑھا کر ۲۰۳۴ء تک شعبے کی مجموعی آمدنی کو تقریباً دگنا کیا جائے۔ ذیل میں وہ اصلاحات بیان ہیں جو مؤخر الذکر ہیں اور ان کا اطلاق آنے والے وقت میں ہوگا۔ تعلیم کے دوران کام کی حد میں اضافہ:جن طلبہ کو کام کرنے کی اجازت ہے، وہ اب پڑھائی کے اوقات (term time) کے دوران ۲۰؍گھنٹے کی بجائے ۲۵؍گھنٹے فی ہفتہ کام کرسکیں گے۔ اس اضافہ کا اطلاق ۳؍نومبر ۲۰۲۵ء سے ہوگا، اور نئے اسٹوڈنٹ ویزا پر جاری کیے جانے والے ویزوں پر لاگو ہوگا، چاہے درخواست جب بھی جمع کرائی گئی ہو۔ Exchange / Study Abroad طلبہ کو کام کا حق: وہ طلبہ جو exchange یا Study Abroad پروگرام میں ہیں جنہیں پہلے تعلیم کے دوران کام کرنے کا حق محدود تھا انہیں بھی کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ ویلِو (Variation) کی بجائے نیا ویزا عندِ تبدیلی کورس یا انسٹی ٹیوٹ: اگر کوئی طالب علم اپنا تعلیمی ادارہ بدلتا ہے یا مطالعے کی سطح کم کرتا ہے، تو وہ صرف ویزا کی شرائط (variation) کے تحت نہیں بلکہ نیا اسٹوڈنٹ ویزا لینا ہوگا۔ نیا ویزا درخواست نظام: ۱۸؍ اگست ۲۰۲۵ سے بین الاقوامی اسٹوڈنٹ ویزا درخواستیں نئے آن لائن سسٹم (Immigration New Zealand‘s enhanced Immigration Online / ADEPT) کے ذریعے کی جائیں گی۔ نئے فارم میں سوالات مخصوص وضاحت اور راہنمائی کے ساتھ ہوں گے تاکہ درخواست دہندگان کم غلطیاں کریں اور عمل آسان ہو۔ وصولی اور ترجیحی میکینزم میں تبدیلیاں: وہ طلبہ جو نیوزی لینڈ میں ہوں اور دوسرے کورس یا ادارے کے لیے نیا ویزا چاہیں، ان کی درخواست کو ترجیحی بنیاد پر دیکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ متوقع مزید اصلاحات:حکومت غور کر رہی ہے کہ کچھ ایسے ویزے متعارف کیے جائیں جیسے کہ چھ ماہ کا Post-Study Work Visa وہ فارغ التحصیل طلبہ جو پوسٹ اسٹڈی ورک ویزا کے اہل نہ ہوں، استعمال کر سکیں۔ مزید یہ کہ ملٹی ائیئر ویزا کی منظوری کو آسان بنانے پر غور کیا جائے گا۔ جاپانی وزیراعظم شیگیرو ایشیبا کا استعفیٰ جاپان کے وزیراعظم شیگیرو ایشیبا(Shigeru Ishiba) نے ۷؍ستمبر ۲۰۲۵ء کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہوئے ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی۔ایشِبا نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ نئی قیادت کے لیے راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیںتاکہ ملک کو سیاسی استحکام کی طرف لے جایا جا سکے۔ جولائی ۲۰۲۵ء کے ایوانِ بالا (Upper House) کے انتخابات میں حکمراں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ LDP اور اس کی اتحادی جماعت Komeito مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کر سکیں، جس کے بعد وزیراعظم پر پارٹی کے اندر سے استعفے کے مطالبات تیز ہو گئے۔ پارٹی کے بعض راہنماؤں نے یہ دعویٰ کیا کہ عوامی سطح پر مہنگائی، کمزور ین (Yen) اور حکومتی کارکردگی پر عدم اعتماد نے انتخابی نتائج کو متاثر کیا۔ پارٹی کے اندر کئی سینئر ارکان کا بھی یہی موقف تھا کہ ایشِبا کی قیادت عوامی توقعات پر پوری نہیں اتری۔LDP کے سیکرٹری جنرل ہروشی موریا کے استعفے نے بھی وزیراعظم کی پوزیشن مزید کمزور کر دی۔ حکومت کو پچھلے ایک سال سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، اجرتوں میں جمود اور توانائی کی بڑھتی قیمتوں جیسے مسائل کا سامنا تھا۔ اگرچہ حکومت نے معیشت کی بحالی کے لیے مختلف اقدامات کیے، لیکن عوامی اعتماد بحال نہ ہو سکا۔ مزید برآں، جاپان-امریکہ تجارتی معاہدوں اور چین کے ساتھ کشیدگی نے حکومت پر سفارتی دباؤ میں اضافہ کیا۔ LDP نے اعلان کیا ہے کہ اکتوبر ۲۰۲۵ میں پارٹی کا نیا صدارتی انتخاب ہوگا، جس کے بعد نیا وزیراعظم منتخب کیا جائے گا۔ مزید پڑھیں: کرمِ خاکی- سوانح حیات منظور احمد شاد صاحب