https://youtu.be/WLB71DIiu50 بزرگانِ سلسلہ کے ساتھ گزرے چند یادگار اور بابرکت لمحات مکرمی چودھری شبیر احمد صاحب مکرمی و محترمی چودھری شبیر احمد صاحب سے خاکسار کا تعارف یوں تو ربوہ سے ہی تھا۔ آپ کے بیٹے فضل احمد صاحب خاکسار کے کلاس فیلو تھے۔ کچھ عرصہ محترمی چودھری صاحب محلہ دارالرحمت غربی میں رہے اس لیے آپ سے ایک ذاتی تعلق بھی قائم ہو گیا۔ آپ بہت دعاگو، نیک،ہمدرد اور جماعت کے انتہائی مخلص بزرگ تھے۔ خاکسار کو اُن دنوں محلہ دارالرحمت غربی کے زعیم مجلس خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے خدمات کاشرف حاصل تھا۔ جب کبھی بھی ہم نے چودھری صاحب سے کسی طرح کی درخواست کی یا مدد مانگی تو آپ نے ہمیشہ بڑی خوشی سے ہماری حوصلہ افزائی فرمائی۔ آپ جب انگلستان تشریف لائے تو اپنی بیٹی کے پاس لیڈز بھی تشریف لے گئے۔ قیام کے دوران آپ نماز مغرب و عشاء کے لیے اکثر بریڈفورڈتشریف لاتے۔ خاکسار سے یہاں جب آپ کی ملاقات ہوئی تو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ مجھے علم نہیں تھا کہ آپ یہاں رہتے ہیں۔ یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔ پھر آپ جب ۲۰۰۸ء کے جلسہ سالانہ پر مرکزی نمائندہ کے طور پر لندن تشریف لائے تو بیماری کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکے تھے۔ خاکسار آپ سے ملنے کے لیے گیا تو بڑے تپاک سے ملے،فوراًَ پہچان لیا اوربڑے خوش ہوئے۔ اپنے بیٹے سے بار بار خوشی کا اظہار کرتے کہ باری مجھے ملنے کے لیے آیا ہے۔ مکرمی چودھری محمد انور کاہلوں صاحب محترمی چودھری محمد انور کاہلوں صاحب کا تعلق جماعت کے بڑے مخلص خاندان سے تھا۔ آپ حضرت چودھری سر محمدظفراللہ خان صاحبؓ کے رشتہ دار اور بہت قریبی عزیزوں میں سے تھے۔ آپ کو لمبا عرصہ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور انگلستان میں دینی خدمات کا اعزاز حاصل رہا۔ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے آپ کے نام ایک نصیحتوں بھراخط تحریر فرمایا تھا جو ’’ ایک عزیز کے نام ایک خط ‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے اپنی سوانح حیات ’’تحدیث نعمت ‘‘ میں بھی کئی جگہ آپ کا ذکر فرمایا ہے۔ محترمی چودھری محمد انور کاہلوں صاحب جب بھی حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے ساتھ گزارے ہوئے دنوں کو یاد کرتے یا کوئی واقعات سناتے تو اکثر آبدیدہ ہو جاتے۔ جب حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کو حج کرنے کا شرف حاصل ہوا تو آپ اور آپ کی بیگم صاحبہ بھی ہمراہ تھے۔ آپ انتہائی خوش لباس اورسمارٹ شخصیت کے مالک تھے۔ انگریزی، اردو، بنگلہ اور پنجابی زبانوں پر آپ کو عبور حاصل تھا اور بہت خوبصورتی سے بات چیت کرتے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی لندن ہجرت کے بعد حضورؒ نے آپ کو انگلستان جماعت کا امیر مقرر فرمایا۔ آپ کا جماعت اور خلافت احمدیہ کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق مثالی تھا۔ جماعت کی خدمات سرانجام دینے والے افراد کے ساتھ انتہائی شفقت اور احترام کا سلوک کرتے۔ آپ کو ہندوستان، بنگلہ دیش، پاکستان، انگلستان اور دوسرے بعض ممالک کے جماعتی واقعات یاد تھے جو بڑے ایمان افروز انداز میں بیان کرتے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ محترمی ڈاکٹر سعید احمد خان صاحب مرحوم اور ان کی اہلیہ محترمہ مبارکہ سلمہ خان صاحبہ کے کہنے پر یارکشائر آگئے اور یہاں ڈیوزبری میں مکان خرید کر رہائش اختیار کر لی۔ آپ کی بیگم صاحبہ بھی بہت سادہ اور ملنسار خاتون تھیں۔ بعد میں آپ کی صحت خراب ہو گئی اوریاد داشت بھی چلی گئی اور آپ ایک کیئر ہوم میں رہنے لگیں۔ محترمی کاہلوں صاحب نے باوجود بڑھاپے کے اپنی بیگم کی دن رات خدمت کی۔ ایک دفعہ محترمی کاہلوں صاحب علیل ہو گئے اور ایک مقامی کلینک میں داخل ہو گئے۔ ہمیں اطلاع ملی تو ہم آپ کی عیادت کے لیے ہسپتال گئے۔ جب ریسیپشن ڈیسک پر آپ کانام لیا تو وہاں موجود دو عورتیں ہمیں پوچھنے لگیں کہ آپ ان کے عزیز ہیں؟ ہم نے ہاں کہا تو وہ کہنے لگیں کہ یہ شخص کمال کی شخصیت کے مالک ہیں۔ بہت ہی صفائی پسنداور خوش مزاج ہیں اور ان کی انگریزی بات چیت بہت بڑے لارڈز اور پڑھے لکھے لوگوں والی ہے۔ مکرمی محمد شریف اشرف صاحب و محترمہ ممتاز اشرف صاحبہ محترمی محمد شریف اشرف صاحب واقفِ زندگی تھے اور حضرت مصلح موعودؓ کے دور میں ربوہ میں پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں آپ کو خدمات کی توفیق ملی۔ آپ ایک لمبا عرصہ اپنی بیگم باجی ممتاز صاحبہ اور بچوں کے ساتھ لندن میں مسجد فضل کے قریب قیام پذیر رہے۔ باجی ممتا ز محترمی مختار ایاز صاحب کی بڑی بیٹی اور محترم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ یوکے کی بہن تھیں۔ محترمی مختار ایاز صاحب ایک لمبا عرصہ تنزانیہ کے شہر ٹانگا میں رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد محترمی محمد شریف اشرف صاحب نے اپنی خدمات پیش کر دیں،آپ کو ایڈیشنل وکیل المال مقرر کیا گیا۔ آپ نے بڑی محنت سے اپنی ذمہ داری کو نبھایا۔ آپ بہت ہی شفیق طبیعت کے مالک، دعاگو اور ملنسار شخص تھے۔ آپ باقاعدگی سے مسجد فضل میں نماز باجماعت ادا کرتے اور جماعتی پروگراموں میں شامل ہوتے۔ آپ کی بیگم باجی ممتاز بہت ہی ہمدرد اور خدمت گزار خاتون تھیں۔ ایک دفعہ قادیان قیام کے دوران خاکسار کو کہا کہ میں نے کل پاکستان جانا ہے کسی گاڑی کا انتظام کروا دو۔ خاکسار نے چند دوستوں کی مدد سے کرائے پر گاڑی لے دی۔ دوسری صبح خاکسار نے باجی کو کہاکہ میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ آپ کو بارڈر پر چھوڑ کر واپس آ جائوں گا۔ خاکسار کے ساتھ قادیان کے دو اور دوست بھی چل پڑے۔ راستہ میں ایک سکھ مالٹے کا تازہ جوس بیچ رہا تھا۔ باجی نے گاڑی رکواکر خاکسار کو پیسے دیے کہ کار میں سب کو تازہ جوس خرید کر دے دو۔ جب ہم اٹاری بارڈر پر پہنچے تو آپ نے بہت سی رقم خاکسار کو دی اور کہا کہ جو دوست ساتھ آئے ہیں اُن سب کو یہ رقم تحفۃً پیش کر دینا۔ مکرمی مولاناانیس الرحمٰن صاحب بنگالی محترمی مولانا انیس الرحمٰن صاحب بنگالی سے خاکسار کا تعارف ربوہ میں اس زمانے سے تھا جب آپ جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ جلسہ سالانہ کے ایام میںآپ کی ڈیوٹی عام طور پر ہمارے محلہ میں لنگر خانہ نمبر دو میں تقسیم سالن میں کمرہ نمبر دو میں ہوتی تھی۔ ہماری ڈیوٹی عام طور پر تقسیم روٹی کمرہ نمبر دو میں ہوتی تھی۔ اس لیے ہم ہمسائیگی کا حق ادا کرتے ہوئے ان کو گرم گرم روٹیاںدیتے اور ان سے گرم گرم سالن لیا کرتے تھے۔ آپ انتہائی خوش مزاج اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے۔ بعد میں ربوہ میں مجلس خدام الاحمدیہ میں بھی آپ کے ساتھ کچھ عرصہ کام کرنے کا موقع ملا؛ وہ بہت ہی یادگار دن تھے۔ بعد میںحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے آپ کا تقرر بطور مبلغ سلسلہ انگلستان فرمایا اور آپ کو یارکشائر میں بھجوایا گیا۔ ان دنوں چونکہ ایک ہی مشن ہائوس ہڈرزفیلڈ میں تھا اس لیے آپ وہاں قیام پذیر ہوئے لیکن آپ کے ذمہ سارے یارکشائر، مانچسٹر،لنکا شائر اور نارتھ ایسٹ کی جماعتیں تھیں۔ یہاں آپ سے مزید مضبوط تعلق قائم ہوا اور قریباََ ہر ہفتہ آپ سے ملاقات ہو جاتی۔ آپ نے بڑی محنت اور دعائوں سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا۔ آپ تمام جماعتوں کے دورے کرتے اور ہر احمدی کے گھر خود پہنچتے۔ اکثر احمدی احباب سے آپ کے دوستانہ تعلقات تھے اس وجہ سے سب آپ کی بہت عزت اور احترام کرتےتھے۔ چونکہ مشن ہائوس کی عمارت نئی نئی خریدی گئی تھی اس میں مرمت کے بہت سے کام ہونے والے تھے۔ ہم روزانہ شام کو بریڈفورڈ سے وقار عمل کے لیے ہڈرز فیلڈ جاتے۔ ہڈرزفیلڈ کے احباب بھی شامل ہوتے، محترمی مولانا انیس الرحمٰن صاحب بھی بڑی جانفشانی سے ہماراساتھ دیتے اور سارے کام کرواتے۔ خاکسار ان دنوں قائد مجلس خدام الاحمدیہ بریڈفورڈ تھا،چونکہ یہ نئی نئی مجلس قائم ہوئی تھی اس لیے محترمی انیس الرحمٰن صاحب نے بڑی محنت سے ہماری راہنمائی کی اور اس مجلس کو ایک فعال مجلس بنانے میں ہمارا ساتھ دیا۔ مختلف پروگرام ترتیب دینے میں ہماری راہنمائی فرماتے اور ہمارے ساتھ رات دیر تک کام کرواتے۔ مکرمی احسان احمد صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد جب اسلام آباد اور مختلف شہروں میں مشن ہائوسز کے لیے عمارات خریدی گئیں تو مرمت کے کام کے لیے ربوہ سے محترمی احسان احمد صاحب اور محترمی عزیز احمد صاحب کو لندن بلوایا گیا۔ محترمی احسان احمد صاحب سے خاکسار کا تعارف تو ربوہ سے ہی تھا۔ آپ لکڑی کے بہت اچھے کاریگر تھے اور خاکسار کے چچا محترمی ملک عبدالرّب صاحب کے پاس کام کرتے تھے۔ ایک دفعہ ربوہ میں مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر دستکاری کی نمائش ہوئی۔ ہمارے محلہ کی طرف سے ہم نے کوپن ہیگن (ڈنمارک) کی مسجد نصرت جہاں کا ایک ماڈل تیار کیا۔ اس میں ایک رنگین بلب بھی لگایا گیا۔ اس کی تیاری میں محترمی احسان احمد صاحب نے ہماری بہت مدد کی۔ لندن آنے کے بعد آپ نے اسلام آباد، مسجد فضل، حضور انور کی قیام گاہ کے علاوہ مختلف شہروں میں مشن ہائوسز اور مساجدکی مرمت کا کام اور جلسہ سالانہ کے مواقع پربہت سے کام بڑی خو ش اسلوبی سے سرانجام دیے۔ گلاسگو مشن ہائوس کی خرید کے بعد تو آپ کچھ عرصہ کام کے سلسلہ میں گلاسگو میں بھی رہے۔ حضورؒ کے ارشاد پر آپ یورپ کے بعض ممالک کے مشن اور مساجد کی مرمت کے لیے وہاں بھی گئے۔ آپ نے بہت محنت سے کام کیے۔ خاکسار نے خود دیکھا کہ آپ صبح سویرے کام شروع کرتے اور رات دیر تک کام میں مصروف رہتے۔ یہ سلسلہ ہفتے کے ساتوں دن جاری رہتا۔ جلسہ سالانہ کے ایام میں جب کبھی بھی آپ سے کسی کام کی درخواست کی جاتی آپ باوجود دوسری مصروفیات کے وہ کام خوشی سے کر دیتے۔ مکرمی لالہ ناصر سعید صاحب افسر حفاظت خاص محترمی لالہ ناصر سعید صاحب نے بطور افسر حفاظت خاص حضرت خلیفۃ لمسیح الثالثؒ کے دور میں خدمات سرانجام دینی شروع کیں۔ ہجرت کے بعد آپ لندن میں آکر پوری محنت اور دیانت داری سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپ انتہائی محنتی اور فدائی خدمت گزار تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اور مکرم لالہ ناصر سعید صاحب کے ساتھ یورپ کے دوروں کے دوران فرینکفرٹ میں قافلے کے افراد کے لیے قریبی احمدی گھروں میں رات قیام کا انتظام ہوتا تھا لیکن ناصرسعید صاحب ہمیشہ مسجد میں ہی قیام کرتے اور کہتے کہ میری ڈیوٹی تو چوبیس گھنٹے کی ہے اس لیے میں حضور کے قریب ہی رہوں گا۔ ایک دفعہ جلسہ سالانہ یوکے پر وی آئی پی والے کسی ممبر پارلیمنٹ کو لے کر جا رہے تھے۔ محترمی ناصر سعید صاحب نے مجھے بلا کر کہا کہ ان کو کہو اصل عزت خلیفہ وقت کا خطاب سننے اور ان پر عمل کرنے سے ملتی ہے۔ ایسے ویسوں کے پیچھے پھرنے سے نہیں ملتی۔ ہم جب بھی مسجد فضل لندن جاتے تو ناصر سعید صاحب بہت گرم جوشی سے ملتے اور بہت پیار کا اظہار کرتے۔ ہمارا پہلا پوتا پیدا ہوا تو اس کے لیے خاص طور پر تحفہ دیا۔ خاکسار کی بیگم اور مَیں نے بہت روکا لیکن اصرار کر کے وہ تحفہ دیا۔ مکرمی مبارک احمد ساہی صاحب محترمی مبارک احمدساہی صاحب پیشہ کے لحاظ سے وکیل تھے اور کراچی جماعت کے ممبر تھے۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے پہلے غیر ملکی دورہ کے دوران بطور افسر حفاظت خاص خدمات سرانجام دیں۔ آپ کا قد بہت لمبا تھا اور آپ ٹھیٹھ پنجابی میں بات کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور اور مکرم مبارک احمد ساہی صاحب حضورؒ کی ہجرت کے بعد آپ پہلے سیکیورٹی افسر تھے جو لندن آئے اور خدمات سرانجام دیں۔ خاکسار کو لندن قیام کے دوران، جلسہ سالانہ پر اور حضورؒ کے یورپ کے دوروں کے دوران محترمی مبارک ساہی صاحب کے ساتھ ڈیوٹیاں دینے کی توفیق ملی۔ آپ انتہائی محنتی اور مخلص شخص تھے۔ آپ کے ساتھ مذاق وغیرہ بھی کرتے لیکن آپ برا نہ مناتے۔ آپ پنجابی کھانوں کے بڑے شوقین تھے۔ اچھا کھانا ملتا تو بہت پسند کرتے۔ ایک دفعہ آپ لندن مسجد کے سامنے گیسٹ ہائوس میں ٹھہرے ہوئے تھے تو ایک دن صبح کے وقت آپ نے دھوتی باندھی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر سعید خان صاحب کے چھوٹے بیٹے عمران خان وہاں گئے تو ساہی صاحب کو دیکھ کر پریشان ہوگئے اور واپس آکر حضورؒ کو کہا کہ حضور !آپ کا باڈی گارڈ ’’سکرٹ‘‘ پہن کر بیٹھا ہوا ہے۔ حضور اس بات پر بہت ہنسے اور فرمایا یہ ان کا پنجابی لباس ہے۔ مکرمی بھائی شیر محمد صاحب باورچی محترمی بھائی شیر محمد صاحب باورچی دارالضیافت ربوہ میں خدمات سرانجام دیتے تھے۔ آپ کے پکائے ہوئے کھانے بہت لذیذ اور مقبول تھے خصوصاََ مرغ روسٹ بہت پسند کیا جاتا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی ہجرت کے کچھ عرصہ بعد حضورؒ نے بھائی شیر محمد صاحب کو لندن بلوا لیا۔ یہاں آپ کا قیام گیسٹ ہائوس میں تھا اور آپ وہاں ہی حضورؒ کے لیے کھانے بناتے تھے۔ جو شخص بھی آپ کو ملنے جاتا اس کو آپ کھانا اور چائے وغیرہ بڑے کھلے دل سے پیش کرتے۔ مکرم بھائی شیر محمد صاحب اور مکرم لالہ ناصر سعید صاحب کے ساتھ حضورؒ کے دورۂ یورپ کے دوران بھی آپ قافلے میں ہوتے اور ہر جگہ کھانے پکا نے کی ڈیوٹی سرانجام دیتے۔ آپ سے کوئی شخص بھی مشورہ مانگتا تو آپ بڑی دیانتداری سے مشورہ دیتے۔ ابتدائی ایام میں ایک افریقی مہمان فرانس سے تشریف لائے۔ وہ صرف فرنچ زبان بولتے تھے۔ ان دنوں لندن میں فرنچ زبان بولنے والا کوئی شخص نہیں تھا۔ حضورؒ نے فرمایا ان کو شیرے کے پاس بھیج دووہ خود ان سے کسی طریق سے بات کرلیں گے۔ چند دن کے بعد وہاں گئے تو دیکھا کہ بھائی شیر محمد ان سے پنجابی میں بات کر کے ان کو ہر بات سمجھا لیتے تھے۔ حضورؒ کو جب یہ بات بتائی گئی توحضور بہت خوش ہوئے۔ بھائی شیر محمد کی وفات پر حضورؒ بہت غمگین تھے او ر افسوس کا اظہار فرما رہے تھے۔ مکرمی نعیم عثمان میمن صاحب محترمی نعیم عثمان صاحب کا تعلق مشرقی افریقہ کی مشہور میمن فیملی سے تھا جو اپنے اخلاص کی وجہ سے مشہور تھی۔ آپ کے دادا سیٹھ عثمان صاحب نے پہلے بیعت کی اور جماعت میں شامل ہوئے۔ آپ کے والد صاحب بھی بہت ہی مخلص اور خدمتگار احمدی تھے۔ محترمی نعیم عثمان صاحب کی فیملی سے ہماری فیملی کا تعارف تو افریقہ سے ہی تھا لیکن دوران تعلیم جب محترمی نعیم عثمان صاحب تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں داخل ہوئے اور ہاسٹل میں قیام کیا تو آپ باقاعدگی سے ہمارے گھر ربوہ میں آتے اور کچھ وقت ہمارے ساتھ گزارتے۔ آپ کے ساتھ آپ کے ایک اور ساتھی جنجوعہ صاحب بھی ہوتے جن کا تعلق بھی مشرقی افریقہ سے ہی تھا۔ محترمی نعیم عثمان صاحب بہت ہی مخلص، ملنسار، جوشیلے، ہمدرد اور غیورشخصیت کے مالک تھے، دوران تعلیم بھی آپ کو مضامین تحریر کرنے کا شوق اور ملکہ حاصل تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب آپ اپنی فیملی کے ساتھ لندن رہائش پذیر ہوئے تو آپ کو یہاں مختلف حیثیتوں میں جماعت کی خدمت کی تو فیق ملتی رہی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد آپ نے معاندین احمدیت کے جواب میں چند کتب بھی تحریر کیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کا ذکر اپنے خطبہ میں بھی کیا اور خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ آپ کی ڈیوٹی ساراسال اور خصوصاََ جلسہ سالانہ کے ایام میں سپلائی پر ہوتی۔ آپ کے ساتھ آپ کے بیٹے اور بعض دوسرے عزیز بھی یہ ڈیوٹی کرتے۔ محترمی نعیم عثمان صاحب بڑی محنت سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے۔ بعض دفعہ آپ چوبیس چوبیس گھنٹے مسلسل اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے۔ آپ کی کوشش ہوتی کہ جہاں تک ممکن ہو جماعت کے پیسے کو بچایا جائے اور عمدہ اشیا بہت مناسب قیمتوں پر ڈھونڈ کر لاتے۔ مکرمی شیخ ناصر احمد صاحب محترمی شیخ ناصر احمد صاحب یورپ میں جماعت کے پرانے مبلغین میں سے ایک تھے۔ آپ سے خاکسار کی پہلی ملاقات ۱۹۸۶ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے دورۂ یورپ کے دوران سوئٹزرلینڈ میں قیام کے دوران ہوئی۔ آپ کا اُن دنوں قیام زیورخ میں تھا۔ ایک دفعہ تعارف ہوجانے کے بعد آپ ہمیشہ بہت شفقت سے پیش آتے۔ اکثر آپ جب جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر اسلام آباد تشریف لاتے تو ضرور ہمارے پاس دفتر خدمت خلق میں ملنے اور کچھ دیر بیٹھنے کے لیے تشریف لاتے۔ اس سے ہماری حوصلہ افزائی ہو جاتی اور ہمیں خوشی بھی ہوتی۔ آپ بہت نیک،دعا گو، محنتی اور بزرگ شخصیت تھے۔ آپ کو جرمن زبان پر عبور حاصل تھا، آپ نے جرمن زبان میں جماعتی لٹریچر تیار کرنے میں بھی بہت کام کیا۔ آپ کو حضورؒ کے خطابات کا جرمن ترجمہ کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔ آپ ایک علمی شخصیت تھے اور خصوصاََ دینی علوم میں آپ بہت ماہر تھے۔ کسی بھی موضوع پر آپ کئی کئی گھنٹے بغیر کسی وقفہ کے بات کر سکتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے سوئٹزرلینڈ قیام کے دوران آپ ہمیشہ حضورؒ اور قافلہ کے افراد کو دعوت پر اپنے گھر مدعو کرتے۔ دعوت میں بڑے لذیذ پکوان ہوتے۔ حضورؒکی اپنے گھر تشریف آوری سے بہت خوش ہوتے۔ مکرمی مشتاق احمد صاحب باجوہ محترمی مولانا مشتاق احمد صاحب باجوہ یورپ کے پرانے مبلغین میں سے ایک تھے۔ آپ کچھ عرصہ لندن اور جرمنی میں بھی جماعتی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپ نے مشکل ترین حالات میں بھی بڑی محنت سے خدمات سرانجام دیں۔ آپ بہت ہنس مکھ اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ آپ کی بیگم صاحبہ کو خالہ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ آپ حضرت سیدہ اُم طاہر صاحبہؓ کی بہن بنی ہوئی تھیں۔ آپ پنجابی زبان میں بڑی خوبصورتی سے بات کرتے۔ آپ نے ’’باجوہ خاندان ‘‘ کے نام سے ایک دلچسپ کتاب بھی تحریر کی جس میں آپ نے اپنے خاندان کے کوائف بیان کیے اورجماعت سے اس خاندان کے تعلق کے متعلق بہت دلچسپ واقعات بھی تحریر کیے۔ خاکسار کا آپ سے پہلا تعارف ۱۹۸۷ء میں حضرت خلیفۃ المسیح ا لرابعؒ کے دورۂ یورپ کے موقع پر زیورخ میں ہوا۔ آپ پہلی ملاقات سے ہی ہمیشہ بڑی شفقت سے پیش آتے۔ آپ کو دینی علم پر بہت عبور حاصل تھا۔ آپ کو انگریزی اور جرمن زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ حضورؒ کے زیورخ قیام کے دوران آپ باقاعدگی سے روزانہ نمازوں کے لیے مسجد پہنچتے اور نماز کے بعد کافی وقت قافلہ کے افراد سے بات چیت کرتے رہتے۔ مکرمی مولاناحافظ قدرت اللہ صاحب محترمی مولانا حافظ قدرت اللہ صاحب یورپ میں ابتدائی کامیاب مبلغین میں سے ایک تھے۔ آپ ایک لمبے عرصہ تک یورپ کے مختلف ممالک اور انڈونیشیامیں خدمت دین سرانجام دیتے رہے۔ آپ کو خاص طور پر ہالینڈ میں دینی خدمات کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بعد میں آپ نے لندن میں رہائش اختیار کر لی۔ آپ نمازیں ادا کرنے کے لیے مسجد فضل تشریف لاتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد آپ لندن مسجد میں کافی وقت گزارتے۔ یوں ہمیں آپ سے ملاقات کرنے کا موقع قریباََ روزانہ ہی حاصل ہو جاتا۔ آپ بھی بہت ہی شفیق طبیعت کے مالک اور بہت ملنسار شخصیت تھے۔ آپ سے جب بھی ملتے آپ ہمیں تاریخ احمدیت سے ہمیشہ دلچسپ تاریخی واقعات سناتے۔ آپ بہت ہی خو ش لباس تھے اور ہمیشہ سمارٹ نظر آتے۔ ٭……٭…… (جاری ہے)…٭……٭… مزید پڑھیں: چندانمول لمحے(قسط پنجم)