https://youtu.be/fA_ge6sx7dE (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍جولائی۲۰۲۴ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: غزوۂ بنو مصطلق کا ذکر گذشتہ خطبہ میں ہوا تھا۔ اس کی مزید تفصیل احادیث اور تاریخ میں ملتی ہے۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بنومصطلق پرحملےکی بابت روایات میں اختلاف کے حوالے سے کیا بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: صحیح بخاری میں اس حملے کی تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بنومصطلق پر حملہ کیا تو وہ غافل تھے اور ان کے مویشیوں کو چشمے پر پانی پلایا جا رہا تھا اور آپؐ نے ان میں سے لڑائی کرنے والوں کو قتل کیا اور ان کی اولاد کو قید کر لیا اور اسی روز جُوَیرِیہ ؓ آپؐ کو ملیں۔ راوی نے کہا یہ واقعہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے مجھے بتایا اور وہ اس لشکرمیں تھے۔مؤرخین اور سیرت نگار غزوۂ بنو مُصْطَلِق میں اس حملہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے دونوں روایات کو اس طرح بیان کر جاتے ہیں کہ گویا بخاری کی روایات میں بنو مصطلق کے حملہ کی کیفیت کے بیان میں اختلاف ہے کیونکہ بخاری کی روایت کے مطابق مسلمانوں نے اچانک غفلت کی حالت میں حملہ کیا تھا اور روایات کا یہ اختلاف بخاری کی شرح کرنے والے علامہ ابن حجر کے سامنے بھی تھا۔ چنانچہ علامہ ابن حجر نے دونوں طرح کی روایات میں تطبیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس بات کا احتمال موجود ہے کہ جب اسلامی لشکر نے چشمہ پر اچانک انہیں آ گھیرا تو وہ کچھ دیر ڈٹے رہے پھر ان کے مابین صف بندی بھی ہوئی، جنگ بھی ہوئی۔ مسلمان غالب آگئے اور بنو مصطلق شکست کھا گئے۔ یعنی پہلے جب حملہ ہوا تو وہ غفلت کی حالت میں تھے جیسے امام بخاری نے بیان کیا ہے لیکن پھر انہوں نے صف بندی وغیرہ کی اور فریقین کے مابین جنگ ہوئی جیسا کہ سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے۔اس حوالے سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ان دونوں واقعات کی سیرت خاتم النبیینؐ میں بھی تطبیق کی ہے جو اس طرح ہے۔ آپ سیرت نگاروں اور صحیح بخاری کی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اسی غزوہ کے متعلق صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بنو مصطلق پرایسے وقت میں حملہ کیا تھا کہ وہ غفلت کی حالت میں اپنے جانوروں کو پانی پلارہے تھے۔ مگر غور سے دیکھاجاوے تویہ روایت مؤرخین کی روایت کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ درحقیقت دو روایتیں دومختلف وقتوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی واقعہ یوں ہے کہ جب اسلامی لشکر بنو مصطلق کے قریب پہنچا تواُس وقت چونکہ ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ مسلمان بالکل قریب آگئے ہیں۔(گوانہیں اسلامی لشکر کی آمد کی اطلاع ضرور ہوچکی تھی) وہ اطمینان کے ساتھ ایک بے ترتیبی کی حالت میں پڑے تھے اوراسی حالت کی طرف بخاری کی روایت میں اشارہ ہے لیکن جب ان کو مسلمانوں کے پہنچنے کی اطلاع ہوئی تو وہ اپنی مستقل سابقہ تیاری کے مطابق ۔‘‘پہلے انہوں نے جنگ کرنے کی تیاری کی ہوئی تھی۔ ’’فوراً صف بند ہوکر مقابلہ کے لئے تیار ہوگئے اوریہ وہ حالت ہے جس کا ذکر مؤرخین نے کیا ہے۔ اس اختلاف کی یہی تشریح علامہ ابن حجر اوربعض دوسرے محققین نے کی ہے اوریہی درست معلوم ہوتی ہے۔‘‘ سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے غزوہ بنومصطلق سےحاصل ہونےوالےمال غنیمت کی تقسیم کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: مالِ غنیمت کے ضمن میں لکھا ہے کہ غنیمت کے اونٹوں کی تعداد دو ہزار تھی۔ بکریوں کی تعداد پانچ ہزار تھی اور قیدیوں کی تعداد دو سو گھرانوں پر مشتمل تھی۔بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ قیدیوں کی تعداد سات سو سے بھی اوپر تھی۔آنحضرت ﷺ نے حضرت بُرَیدَہ بن حُصَیبؓ کو ان قیدیوں کا نگران مقرر کیا۔ ان کے پاس جو مال و متاع اور اسلحہ تھا اسے جمع کر لیا گیا۔ جانوروں کو ہانک کر لایا گیا۔ آپؐ نے ان پر اپنے غلام حضرت شُقْرَانؓ کو نگران مقرر کیا۔ خمس اور مسلمانوں کے حصوں پر حضرت مَحْمِیہ بن جَزءؓ کو نگران مقرر کیا۔ آپؐ نے سارے مال غنیمت میں سے خُمس نکالا۔خُمس اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مال غنیمت میں سے وہ پانچواں حصہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور رسولؐ کے قریبی رشتہ داروں اور مشترک اسلامی ضروریات کے لیے الگ کیا جاتا ہے۔قیدیوں کو لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا اور سامان جانوروں اور بھیڑ بکریوں کو بھی تقسیم کر دیا گیا۔ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت جویریہؓ کےآنحضرتﷺکے عقد میں آنےکی بابت کیا بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: ’’قبیلہ بنو مصطلق کے جو قیدی گرفتار ہوئے تھے ان میں اس قبیلہ کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی بَرَّہ بھی تھی‘‘ جن کا نام آنحضرت ﷺ نے تبدیل کرکے جُوَیرِیہ رکھ دیا تھا ’’جومُسَافِعْ بن صَفْوَان کے عقد میں تھی جو غزوہ مُرَیسیع میں مارا گیا تھا۔ ان قیدیوں کو آنحضرت ﷺ نے حسب دستور مسلمان سپاہیوں میں تقسیم فرما دیا تھا اور اس تقسیم کی رو سے بَرَّہ بنتِ حَارِث ایک انصاری صحابی ثابت بن قیسؓ کی سپردگی میں دی گئی تھی۔ بَرَّہ نے آزادی حاصل کرنے کے لئے ثابت بن قیسؓ کے ساتھ مکاتبت کے طریق پر یہ سمجھوتہ کیا…کہ وہ اگر اسے اس قدر رقم’’ جو رقم مقرر تھی وہ 9 اوقیہ سونا تھا جو تین سو ساٹھ درہم بنتے ہیں۔ ‘‘فدیہ کے طور پر ادا کردے تو آزاد سمجھی جاوے۔ اس سمجھوتہ کے بعد بَرَّہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارے حالات سنائے۔ اور یہ جتلا کر کہ میں بنومصطلق کے سردار کی لڑکی ہوں فدیہ کی رقم کی ادائیگی میں آپ کی اعانت چاہی۔اس کی کہانی سے آنحضرتﷺبہت متاثر ہوئے اور غالباً یہ خیال کرکے کہ چونکہ وہ ایک مشہور قبیلہ کے سردار کی لڑکی ہے شاید اس کے تعلق سے اس قبیلہ میں تبلیغی آسانیاں پیدا ہو جائیں آپؐ نے ارادہ فرمایا کہ اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی فرما لیں۔چنانچہ آپؐ نے اسے خود اپنی طرف سے پیغام دیا اور اس کی طرف سے رضامندی کا اظہار ہونے پر آپؐ نے اپنے پاس سے اس کے فدیہ کی رقم ادا فرما کر اس کے ساتھ شادی کر لی۔ صحابہؓ نے جب یہ دیکھا کہ ان کے آقاؐ نے بنومصطلق کی رئیس زادی کو شرف ازدواجی عطا فرمایا ہے توانہوں نے اس بات کو خلاف شانِ نبویؐ سمجھا کہ آنحضرت ﷺ کے سسرال والوں کواپنے ہاتھ میں قید رکھیں اور اس طرح ایک سوگھرانے یعنی سینکڑوں قیدی بلافدیہ یک لخت آزاد کردئے گئے۔ اسی وجہ سے حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ جویریہؓ …اپنی قوم کے لئے نہایت مبارک وجود ثابت ہوئی ہے۔ اس رشتہ اور اس احسان کا یہ نتیجہ ہوا کہ بنو مصطلق کے لوگ بہت جلد اسلام کی تعلیم سے متاثر ہوکر آنحضرت ﷺ کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو گئے۔‘‘ سوال نمبر۵:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کےباغیانہ رویہ کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اس کی تفصیل یوں ہے کہ بنو مصطلق سے لڑائی ختم ہو گئی اور مسلمان ابھی مریسیع کے کنویں پر موجود تھے اس کنویں کا پانی بہت کم تھا۔ ڈول ڈالا جاتا تھا تو آدھا بھر کر آتا تھا۔ کنویں پر سِنَان بن وَبَر جُہَنی آیا جو بنو خزرج کا حلیف تھا۔ اس وقت پانی پر مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت موجود تھی۔ سِنَان بن وَبَر جُہَنی نے اپنا ڈول ڈالا اور عمر بن خطابؓ کے نوکر جَھْجَاہ بن مسعود غِفَارِی نے بھی پانی نکالنے کے لیے اپنا ڈول ڈالا۔ سِنَان اور جَھْجَاہ کے ڈول ٹکرا گئے جس پر یہ دونوں شخص آپس میں الجھ پڑے۔ پانی تھوڑا تھا کسی کو پورا پانی نہ ملا۔ جَھْجَاہ نے سِنان کو مارا اور اس کا خون بہنے لگا تو سِنَان نے مدد کے لیے آواز دی۔ اے انصار! اور جَھْجَاہ نے آواز دی اے مہاجرین! اور ایک روایت میں ہے اے قریش!تو دونوں قبیلوں کی ایک جماعت آ گئی اور ہتھیار نکال لیے۔ قریب تھا کہ بڑا فتنہ برپا ہو جاتا لیکن آنحضرت ﷺ کو فوراً اطلاع ملی تو آپؐ نے اس معاملے کو ختم کروایا۔ بہرحال اس کی تفصیل کی بعض روایات ہیں۔صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق جھگڑے کا سبب یہ بیان ہوا ہے کہ مہاجرین میں سے ایک شخص نے انصار میں سے ایک شخص کی پشت پر ٹانگ ماری۔ اس پر اس انصاری نے کہا اے انصار! مدد کے لیے آؤ اور اس مہاجر نے کہا اے مہاجرین! مدد کے لیے آؤ۔ ان دونوں کے درمیان لڑائی کا سبب پانی کا حوض تھا جس سے انصاری کی اونٹنی نے پانی پیا تھا۔رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو آپؐ نے فرمایا :یہ جاہلیت کی صدا کیسی ہے ؟کیا باتیں کر رہے ہو تم لوگ؟ یہ جاہلوں والی باتیں ہیں۔ آپؐ کو سارا حال بتایا گیا۔ آپؐ نے فرمایا :تم ایسی بات کو چھوڑ دو۔یہ بھائی چارے کو ختم کرنے والی ہے۔ ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کی مدد کرے خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ اگر وہ ظالم ہو تو اس کو ظلم سے روک دے اور اگر مظلوم ہو تو اس کی مدد کرے۔ مہاجرین کی ایک جماعت نے حضرت عُبَادہ بن صامِت ؓ سے بات چیت کی اور انصار کی ایک جماعت نے سِنَان سے بات چیت کی تو سِنان نے اپنا حق چھوڑ دیا۔ آنحضرت ﷺ کی یہ ساری باتیں ان تک پہنچائیں۔ بات کی اور سمجھایا تو سِنان نے اپنا حق چھوڑ دیا۔عبداللہ بن اُبَی اپنے دس منافق ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں حضرت زید بن ارقم ؓبھی تھے لیکن وہ ابھی کم عمر تھے یا بعض روایات کے مطابق ابھی بالغ نہیں ہوئے تھے جبکہ بعض روایات کے مطابق وہ بالغ تھے۔ عبداللہ بن اُبَی کو جہجاہ کی یہ صدا سنائی دی کہ اے قریش کے لوگو! اسے شدید غصہ آیا۔ اس نے کہا بخدا !میں نے آج جیسا دن کبھی نہیں دیکھا۔ کہنے لگا بخدا !مجھے تو آنحضرت ﷺ کے مدینہ آنے کے وقت سے ہی یہ دین سخت ناپسند تھا لیکن میری قوم نے مجھ پر غلبہ پا لیا اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ قریش کے لوگ ہم پر حاکم ہو گئے اور ہمارے شہر میں ان کی کثرت ہو گئی اور ہمارے احسانات کی ناقدری کی۔ اس نے بڑی گندی مثال دی کہ یہ قریش کے افراد ایسے ہیں کہ جس طرح کہا جاتا ہے کہ اپنے کتے کو موٹا کرو تا کہ وہ تمہیں کھا جائے۔ کہنے لگا میرا تو گمان تھا کہ میں اس طرح کی پکار کی صدا آنے سے قبل مر گیا ہوتا جیسی صدا جہجاہ نے دی تھی۔ میں یہاں موجود ہوں مجھ سے تو یہ سب کچھ برداشت نہیں ہو سکتا۔ اللہ کی قسم !اگر ہم مدینہ پہنچ گئے تو سب سے زیادہ عزت والا شخص سب سے زیادہ ذلیل آدمی کو وہاں سے باہر نکال دے گا۔ پھر اس نے اپنی قوم کے موجودہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔ یہ تم لوگوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ تم نے انہیں اپنے شہر میں ٹھہرایا اور وہ وہیں ٹھہر گئے۔ تم نے اپنے اموال میں سے ان کے حصے مقرر کیے یہاں تک کہ وہ مالدار ہو گئے۔ بخدا! اب بھی تم اپنے ہاتھ روک لو تو وہ تمہارا شہر چھوڑ کر کسی اور شہر چلے جائیں گے۔ وہ لوگ پھر بھی اس پر راضی نہ ہوئے جو تم لوگوں نے ان کے لیے کیا تھا۔ اس نے بڑا بھڑکانے کی کوشش کی کہ مہاجرین تو اس پہ راضی نہیں ہوئے جو تم نے ان پہ احسان کیا یہاں تک کہ تم نے اپنی جانوں کو موت کا نشانہ بنایا۔ تم لوگ اس یعنی محمد ﷺ کی خاطر قتل ہوئے اور تم لوگوں نے اپنی اولادوں کو یتیم کیا۔ اس کے نتیجہ میں تم تھوڑے ہو گئے اور وہ لوگ بڑھ گئے۔ حضرت زید بن ارقم ؓنے جب عبداللہ بنِ اُبَی کی یہ بات سنی کہ اگر ہم مدینہ پہنچ گئے تو سب سے زیادہ عزت والا شخص سب سے زیادہ ذلیل شخص کو اس سے باہر نکال دے گا تو انہوں نے وہیں کھڑے ہوکے اسے کہا کہ اللہ کی قسم !تُو ہی اپنی قوم میں ذلیل ہے۔ تو ہی کمتر ہے اور محمد ﷺ رحمان خدا کی طرف سے غلبہ اور شان رکھنے والے ہیں اور مسلمانوں کی طرف سے طاقت رکھنے والے ہیں۔ غیرت دکھائی انہوں نے۔اس پر ابنِ اُبَی نے اسے کہا تُو خاموش ہو جا۔ میں تو صرف ہنسی مذاق اور کھیل تماشے کی باتیں کر رہا تھا۔ خوف بھی آیا اس کو۔ ڈر گیا۔ زید بن ارقمؓ یہ ساری باتیں سن کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے اور اس وقت آپ کے پاس مہاجرین اور انصار صحابہ کی ایک جماعت بھی موجود تھی۔ زید نے آپؐ کو ابنِ اُبَی کی ساری بات بتا دی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: غزوۂ تبوک کے تناظر میں سیرت نبویﷺ کا بیان نیز سانحہ ربوہ کے زخمیوں کے لیے دعا کی تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۷؍اکتوبر ۲۰۲۵ء