https://youtu.be/aZnr4wCFi4U (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۶؍نومبر۲۰۱۵ء) سیرالیون سے ہمارے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ یہاں ایک جماعت پیمبارو (Kpangbaru) ہے جہاں ایک نابینا عورت رہتی ہیں جنہوں نے تحریک جدید کے چندے کا وعدہ دو ہزار لیون(Leone) لکھوایا۔ چندہ کے حصول کے لئے جب ان کے پاس گئے تو کہنے لگیں کہ مجھے چندے کی ادائیگی کی پہلے فکر ہو رہی تھی مگر نابینا ہونے کی وجہ سے میرا ذریعہ آمدنی اتنا نہیں کہ میں کوئی چندہ ادا کر سکتی۔ دو ہزار لیون چندہ دینا میرے لئے بہت مشکل ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ بہرحال میں نے وعدہ کیا ہے مَیں ادا کروں گی۔ چندہ دینے کے لئے انہوں نے ارادہ کیا کہ اپنی ایک غیر احمدی بہن سے ادھار رقم لے لیں۔ لیکن بہن نے انکار کر دیا کہ تم نابینا ہو تمہارے پاس ذرائع بھی ایسے نہیں ہیں پتا نہیں مجھے واپس بھی کر سکو گی یا نہیں۔ اس پر وہ نابینا عورت بڑی فکر مند ہوئیں اور جو سیکرٹری تحریک جدید یا مال چندہ لینے گئے تھے انہیں کہنے لگیں کہ کچھ دیر ٹھہر کے واپس آئیں۔ چنانچہ وہ دعا میں مصروف ہو گئیں۔ اسی دوران ایک اجنبی شخص گاؤں میں آیا اور ان کے پاس سے گزرا۔ گھر کے باہر بیٹھی ہوئی تھیں۔ تو انہوں نے اس آدمی کو آواز دی۔ اس سے کہنے لگیں کہ میرے پاس اس وقت ایک سر پر لینے والا کپڑا ہے وہ دو ہزار لیون میں تم خرید لو۔ یہ کہتے ہیں کہ حالانکہ وہ کپڑا دس سے پندرہ ہزار لیون کا تھا۔ اس آدمی نے حیران ہو کر پوچھا کہ اتنا سستا کیوں بیچ رہی ہو۔ اس پر اس خاتون نے بتایا کہ میں نے چندہ تحریک جدید ادا کرنا ہے اور میرے پاس اس وقت رقم نہیں ہے۔ اس اجنبی نے وہ کپڑا خرید لیا اور دو ہزار لیون نابینا عورت کو دے دئیے۔ شریف آدمی تھا اور بعد میں وہ کپڑا بھی واپس کر دیا اور کہا یہ میری طرف سے آپ رکھ لیں۔ تو افریقہ کے دور دراز علاقے میں رہنے والی ایک اَن پڑھ نابینا خاتون کا یہ اخلاص ہے۔ یقیناً یہ اخلاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کردہ ہیں۔ پھر بعض اَور واقعات پیش کرتا ہوں۔ راجھستان انڈیا کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ یہاں ایک جماعت ’بولابالی‘ ہے۔ وہاں دورے پر گئے تو وہاں ایک دوست جن کی عمر 65 سال کے قریب ہے۔ اکثر بیمار رہتے ہیں اور ان کی کوئی آمدنہیں ہے۔ سال میں صرف سو دن سرکاری مزدوری کا کام ملتا ہے۔ ان کی اہلیہ گھر کے گزارے کے لئے کام کرتی ہیں۔ گھر کی حالت بھی بہت خستہ تھی۔ انہیں جب مالی قربانی کی طرف توجہ دلائی گئی کہ ٹوکن کے طور پر معمولی سی قربانی کر دیں کیونکہ یہ بھی مومنین کے لئے فرض ہے تو ایک ہزار پچاس روپے چندہ کے ادا کر دئیے۔ اس پر انہوں نے بڑا حیران ہو کر ان سے پوچھا کہ آپ کے گھر کے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود اتنی بڑی رقم دے رہے ہیں۔ یہ سیکرٹری جو بھی (چندہ) لینے گئے تھے کہتے ہیں کہ مَیں نے ان سے کہا کہ آپ اس رقم میں سے کچھ رکھنا چاہتے ہیں تو رکھ لیں۔ اس پر وہ موصوف رونے لگے اور کہنے لگے کہ یہ رقم میں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر جمع کی تھی اور یہ اللہ تعالیٰ ہی کی رقم ہے۔ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے تا کہ میں اس سے زیادہ اپنے رب کے حضور پیش کر سکوں۔ پھر اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے ایک اور مخلص کا واقعہ سنیں۔ یقیناً امراء کو یہ جھنجھوڑنے والا ہے۔ بینن کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ انہوں نے یہاں کوتونو جماعت کے صدر صاحب کو تحریک جدید کے چندہ کی ادائیگی کرنے والے افراد کی جنہوں نے وعدے کئے ہوئے تھے فہرست بھجوائی تو ایک پرانے احمدی دوست کا نام چندہ دہندگان میں لکھا ہوا تھا۔ جب انہیں توجہ دلائی گئی تو اگلے روز مشن ہاؤس آئے اور کہنے لگے کہ کیا آپ نے کسی کو دیکھا ہے جس نے ایک ہفتے سے کھانا نہ کھایا ہو۔ کہتے ہیں غربت کا یہ حال ہے کہ مَیں ساری رات روتا رہا ہوں کہ میں نے چندہ تحریک جدید ادا کرنا ہے اور میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ شاید اللہ تعالیٰ میری آزمائش کر رہا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے معمولی سی رقم تحریک جدید کی مدّ میں ادا کی اور کہا کہ اس وقت میرے پاس یہی کچھ ہے۔ اور شاید وہ رقم بھی کہیں سے قرض لے کر آئے ہوں۔ انہوں نے اپنی بھوک مٹانے کے لئے (رقم) استعمال نہیں کی بلکہ چندہ دیا۔ اس پر یہ جو لینے والے صاحب گئے تھے کہتے ہیں خاکسار نے ان کو کچھ رقم مدد کے طور پر دی کہ آپ کی تو یہ حالت ہے۔ چندہ کیا دینا ہے؟ آپ کی مدد کر رہا ہوں۔ اور ان کو مدد کے طور پر رقم دی تو انہوں نے دس ہزار فرانک سیفا اسی وقت واپس کر دیا اور کہا کہ ابھی میرا چندہ عام بقایا ہے۔ آپ اس رقم میں سے میرا چندہ کا بقایا کاٹ لیں۔ تو یہ ہے اخلاص و وفا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بدن پہ کپڑے نہیں لیکن اخلاص میں بڑھے ہوئے ہیں۔ پھرقادیان سے نائب وکیل المال تحریر کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کوڈیاتھور (یا جو بھی لفظ ہے) میں خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کی اہمیت بیان کی گئی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز پر والہانہ لبیک کرنے والے مخلصین کی بعض قربانیوں کا ذکر کیا گیا۔ اس پر وہاں کی جماعت کی صدر لجنہ اماء اللہ جمعہ کے بعد گھر گئیں اور جا کر اپنے سونے کا ایک وزنی کنگن اتار کر تحریک جدید میں پیش کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی خواتین میں بھی دینی ضروریات کی خاطر اپنا زیور پیش کرنے کی بے شمار مثالیں ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والی احمدی خواتین کی یہ روح، یہ قدر مشترک ہے کہ دین کی خاطر اپنا پسندیدہ زیور قربان کرنا ہے اور یہ آج صرف احمدی خواتین کا ہی خاصّہ ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ کا پاک نمونہ