اب اسلام کی اندرونی حالت دیکھو۔فیض کا چشمہ علماءتھے مگر ان کی حالت ایسی قابلِ رحم ہوگئی ہے کہ اس کے بیان کرنے سے بھی شرم آجاتی ہے۔جس غلطی پر کوئی اڑ گیا ہے یا جو کچھ اس کے منہ سے نکل گیا ہے ممکن نہیں کہ وہ اسے چھوڑ دے۔اس غلطی کو جس نے ظاہر کیا۔جھٹ پٹ اسے کافر اور دجّال کا خطاب مل گیا۔حالانکہ صادق اور راست باز کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جہاں اسے کسی اپنی غلطی کا پتا ملا وہ اسے وہیں چھوڑ دیتا ہے اسے ضداور اصرار اپنی غلطی پر نہیں ہوتا۔مختلف فرقہ بندیاں باہمی تحقیر،قرآن اور اسلام سے بےخبری صاف طور پر ان کی حالت کو بتارہی ہے۔جو باتیں صرف دنیا تک ہیں ان کی سزا اوراثر بھی دنیا ہی تک محدودہے مگر جو امور عاقبت کے متعلق ہیں ان میں اگر سستی اور بے پروائی کی جاوے تو اس کا نتیجہ جہنم ہوتا ہے۔ میں بعض وقت ان لوگوں کی حالت دیکھ کر سخت حیران ہوجاتا ہوں اور خیال گذرتا ہے کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ پریقین نہیں ورنہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ آیات ونشانات دیکھتے ہیں۔ہم دلائل پیش کرتے ہیں مگر ان پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا مو من کے سامنے اگر اللہ تعالیٰ کا کلام پیش کیا جاوے وہ فوراً ڈر جاتا ہے اور جرأت سے اس کی تکذیب پر لب کشائی نہیں کرتا مگر ان کی عجب حالت ہے کہ ہم اپنی تائید میں سب سے اوّل تو یہ پیش کرتے ہیں کہ خدا نے مجھے مامور کیا ہے اور پھر اپنی تائید ِدعویٰ میں ہم آیاتِ قرآنیہ پیش کرتے ہیں لیکن یہ دونوں سے انکار کرتے ہیں اور پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت پیش کرتے ہیں اس سے ہی ترساں ہو جاتے مگر اس کا بھی کچھ اثر نہیں ہوتا خدا تعالیٰ کے نشان دیکھتے ہیں مگر تکذیب کرتے ہیں عقلی دلائل کا اثر نہیں غرض جو طریق ایک راست باز کی شناخت کے ہوسکتے ہیں وہ سب پیش کئے جاتے ہیں لیکن ایک بھی نہیں مانتے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ وہ ایک مرتبہ بھاگتے جاتے تھے کسی نے پوچھا کہ کیوں بھاگتے جاتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ جاہلوں سے بھاگتا ہوں۔اس نے کہا ان پروہ اسمِ اعظم کیوں نہیں پھونکتے انہوں نے کہا کہ وہ اسم اعظم بھی ان پر اثر نہیں کرتا۔ حقیقت میں جہالت بھی ایک خطرناک موت ہے مگر یہاں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیسا جہل ہے قرآن پڑھتے ہیں، تفسیریں کرتے ہیں، حدیث کی سند رکھتے ہیں مگر جب ہم پیش کرتے ہیں تو انکار کر جاتے ہیں یہ نہ خود مانتے ہیں اور نہ اَوروں کو ماننے دیتے ہیں۔ یہ زمانہ ایسا آگیا ہے کہ انسان کی ہستی کی غرض وغایت کو بالکل بھلا دیا گیا ہے خود خدا انسانی خِلقت کی غرض تو یہ بتا تا ہے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذّٰریٰت:۵۷)مگر آج عبودیت سے نکل کر نادان انسان خود خدا بننا چاہتا ہے اور وہ صدق و وفا، راستی اور تقویٰ جس کو خدا چاہتا ہے مفقود ہے بازار میں کھڑے ہو کر اگر نظر کی جاوے تو صدہا آدمی اِدھر سے آتے اُدھر چلے جاتے ہیں لیکن ان کی غرض اور مقصد محض دنیا ہے۔ (ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۷۱ تا ۷۳، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: مسلمان وہ ہے جواللہ تعالیٰ کے لئے اپنے تمام وجود کو وقف کر دیوے