https://youtu.be/QXTW7joSez8 مؤلفین: مکرم منظور احمد شاد صاحب، تصور احمد خالد صاحب مرتّب: مکرم تصور احمد خالد صاحب ایڈیشن: اوّل اشاعت: جون ۲۰۲۵ء تعداد صفحات: ۴۸۶ زیرِ تبصرہ کتاب ’’کرمِ خاکی‘‘ ایک بابرکت اور خوشبو سے لبریز رفاقت عطا کرنے والی کتاب ہے۔ اس کا عنوان ہی ہمیں اس بندۂ خدا کی اصل شناخت ایک الٰہی جماعت کے ادنیٰ خادم کی حیثیت سے کرواتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام سے ماخوذ یہ مصرع ’’کرمِ خاکی ہوں مرے پیارے، نہ آدم زاد ہوں‘‘ گویا محترم منظور احمد شاد صاحب کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ شاد صاحب اس عنوان کے انتخاب اور اپنی خودنوشت سوانح عمری کے بارے میں تحریر کرتے ہیںکہ ’’خاکسار کی کوشش ہوگی کہ غیر ضروری باتوں میں اُلجھے بغیر صرف وہ واقعات لکھے جائیں جو اپنے اندر کوئی ایمان افروز یا اہم اور دلچسپ پہلو رکھتے ہوں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ان کی قلم بند کردہ خودنوشت میں درج تمام واقعات نہایت سادگی مگر گہرائی کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ ہر واقعہ بظاہر معمولی سہی، لیکن اپنے اندر کسی نہ کسی پہلو سے نصیحت اور نورِایمان سے منورہے۔ یہی خصوصیت کتاب کو عام سوانحی تحریروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ کتاب جلسہ سالانہ برطانیہ کے کتب سٹال سے ہماری مختصر سی لائبریری کا حصہ بنی اور جلسہ سالانہ جرمنی کے پورے سفر میں ایک بہترین ہم سفر رہی۔ اگرچہ منظور احمد شاد صاحب سے پہلا تعارف والدین کے ذریعے اُن کے حالاتِ زندگی سن کر ہوا تھا، لیکن اس کتاب کے مطالعے نے اُن کی شخصیت کاا ایک نیا رخآشکار کیا۔ یہ کتاب جون ۲۰۲۵ء میں زیورِ اشاعت سے آراستہ ہوئی۔ تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل یہ وقیع تصنیف مجموعی طور پر پانچ حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ خودنوشت سوانح پر مشتمل ہے جس میں محترم منظور احمد شاد صاحب نے نہایت اختصار اور سادگی کے ساتھ اپنی زندگی کے ایمان افروز اور بامعنی واقعات قلم بند کیے ہیں۔دوسرے حصے میں چند نادر و نایاب تصاویر شامل کی گئی ہیں اسی طرح تیسرا حصہ خلفائے احمدیت کے خطوط پر مشتمل ہے جو شاد صاحب کی جماعتی وابستگی اور مقامِ قربت کو اجاگر کرتا ہے۔ چوتھے حصے میں احبابِ کرام کے تاثرات درج ہیں اور کتاب کا آخری یعنی پانچواں حصہ منظوم اظہارِ عقیدت کی جھلکیوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو آپ کے فرزند مکرم تصور احمد خالد صاحب حال مقیم لندن نے مرتب کیا ہے۔ کتاب کا اسلوب سادہ، رواں اور عام فہم ہے، لیکن ساتھ ہی گہرا اور ایمان افروز ہے۔ واقعات کی بر محل تفصیل قاری کو ہر واقعہ کے پس منظر اور سبق کو سمجھنے کی مدد ملی اور ہر واقعہ میں خدا تعالیٰ کے افضال کے رنگ دکھاتی ہے۔ کتاب کے آغاز پر اپنی باعمل زندگی کی ایک مختصر سی جھلک پیش کرتے ہوئے آپ نے ربوہ،کراچی،انگلستان اور پھر جرمنی میں جماعتی خدمات کا تذکرہ کیا۔ جس میں قریباً انتظامی و عملی ہر ایک شعبہ و ذمہ داری میں خدمت آپ کی راہنمائی اور تنظیمی صلاحیتوں کا ثبوت ہیں۔ اپنی ان خدمات کو اپنے آباء کی قبولیت اسلام احمدیت کا پھل قرار دیتے ہوئے آپ نے والدین کی بیعت و تقویٰ کا ذکر بھی اس کتاب میں درج کیا۔ اس کتاب کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ یہ مختلف طرززندگی میں جماعتی کاوشوں، تبلیغ اور خدمت کے پُرلطف طریق قارئیں کے سامنے پیش کرتی ہے۔ کبھی ۱۹۴۸ء کے موقع پر کم عمری میں صدر جماعت کے ساتھ مسجد احمدیہ فتح پور میں ہونے والے جلسہ یوم پاکستان کا گلی گلی گھنٹی بجاتے ہوئے اعلان کرنے کا ایک منفرد واقعہ جماعتی خدمت کے جذبہ کی سادہ مگر دلیرانہ جھلک پیش کرتا ہے تو ساتھ تصور خالد صاحب کے تحریر کردہ ایک واقعہ میں اسی کم عمر بچے کے لیے father of the region. Zindabad کے نعرے گونجتے ہیں۔ گویا یہ کتاب فتح پور کی کچی اور سادہ گلیوں سے ہوتی ہوئی جس شہر اور جس ملک سے بھی گزرتی ہے مکرم منظور شاد صاحب کے خدمت دین کے کئی رنگ دکھاتی جاتی ہے جو نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہیں۔ کرم خاکی کا ایک بڑا حصہ مختلف مواقع پر پیش آنے والے دلچسپ ایمان افروز واقعات پر مشتمل ہے جن کی ایک جھلک منظور احمد شاد صاحب کے قلم سے ذیل میں پیش ہے۔ …میرا ایک ماتحت عیسائی تھا۔ اس کا نام ایس۔ ایم گل تھا۔ ایک روز اس کی درخواست آئی کہ اس کی بیٹی فوت ہو گئی ہے اس لیے وہ دفتر میں نہیں آسکے گا۔ میں نے باقی ساتھیوں کو بتایا اور تحریک کی کہ ان کے گھر جانا چاہیے۔ ایک ساتھی کہنے لگا، کیا ہوا ایک بھنگن ہی کم ہو گئی ہے ناں۔ اس کی یہ بات سن کر مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ چنانچہ میں اکیلا ہی گل صاحب کے گھر چلا گیا۔ اس وقت وہ جنازہ لے کر گورا قبرستان (انگریزوں کے دورمیں عیسائیوں کے قبرستان کو گورا قبرستان کہا جاتا تھا) جارہے تھے۔ میں نے ان سے تعزیت کی اور کہا کہ جنازہ تو میں نے پڑھنا نہیں۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں۔میں گھر پر رہتا ہوں۔ انہوں نے میرا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور بعد میںاپنی بیگم کو ساتھ لے کر ہمارے گھر بھی آئے اور کہا کہ میں ایک بار پھر شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ پورے دفتر سے اَور کوئی اس کے ہاں تعزیت کے لیے نہیں گیا تھا یہ انسانی تقاضے ہوتے ہیں جن کا خیال رکھنے کا اسلام بھی حکم دیتا ہے۔(صفحہ۱۴۰۔۱۴۱) ایک احمدی جو جماعت کے لیے مالی قربانی کرتا ہے، غیر اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ میرے ایک بے تکلف دوست تھے اور دفتر کے ساتھی بھی۔ ان کا نام محمد اقبال بٹ تھا۔ ایک بار کہنے لگے، منظور صاحب ! ہم نے کون سا آپ سے حصہ لینا ہے! سچ سچ بتاؤ جماعت آپ کو ماہوار کیا دیتی ہے؟ ان کا خیال تھا کہ یہ جو رشوت نہیں لیتا، ضرور جماعت اس کی مدد کرتی ہوگی۔ میں نے کہا، یہ تو حساب کر کے بتانا پڑے گا۔ وہ بہت خوش ہوئے کہ آج پتا چل جائے گا کہ یہ جو پاجیر و جیپ انہیں لینے آتی ہے، ساتھ خدام ڈیوٹی پر ہوتے ہیں تو انہیں ملتا کیا ہے۔میری اور ان کی تنخواہ برابر تھی۔ میں نے کہا، میری آمد کا تو آپ کو پتا ہی ہے۔ اس میں سے اتنی رقم میں ہر ماہ بطور چندہ دیتاہوں۔ وہ اتنے حیران ہوئے کہ ان کے لیے اس بات کو تسلیم کرنا ہی مشکل ہو گیا یعنی انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ جماعت ان سے الٹا لیتی ہے، جماعت انہیں دیتی کچھ نہیں۔(صفحہ ۱۶۶) اب ایک ایسی امانت کے غیر معمولی طور پر محفوظ رہنے کا ذکر کرتا ہوں جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی تھی۔ حضورؓ نے لندن سے ایک خاص معاملہ برائے تحقیق کراچی بھجوایا۔ مکرم امیر صاحب نے وہ معاملہ خاکسار کے سپرد فرمادیا۔ جب رپورٹ تیار ہو گئی تو بھجوا دی گئی۔ لیکن کچھ کاغذات اور کیش وغیرہ کے بارہ میں حضور نے فرمایا، وہ وہیں رکھیں۔ جب میں کہوں گا تو کسی قابل اعتبار آدمی کے ہاتھ بھجوا دیے جائیں۔ کچھ عرصہ بعد ارشاد ملا کہ وہ بھی بھجوا دیں۔ اب کسی قابل بھروسہ آدمی کی تلاش شروع ہوئی۔ اتفاق سے مکرم مبارز نصیر صاحب (ابن مکرم اختر نصیر صاحب …) جار ہے تھے۔ وہ نائب قائد ضلع اور ایک صحت مند نوجوان تھے۔ ان سے بہتر آدمی کون ہو سکتا تھا۔ چنانچہ انہیں وہ امانت دے دی گئی اس ہدایت کے ساتھ کہ صرف حضورؒ یا مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو دیں۔ جب وہ فرینکفرٹ پہنچے تو ان کا وہ بیگ جس میں یہ امانت تھی کوئی لے بھاگا۔ انہوں نے پولیس میں رپورٹ درج کرادی اور کراچی مجھے بھی اطلاع کر دی کہ بیگ چوری ہو گیا ہے۔ اس سے بہت تشویش پیدا ہوئی۔ حضورؒ کی خدمت اقدس میں سارے حالات عرض کیے گئے۔ حضورؒ کا جواب آیا، فکر نہ کریں میں دعا کر رہا ہوں۔ اب وہ امانت کیونکر ملی، ایک عجیب تصرف الٰہی ہے۔ ہوا یوں کہ چور نقد رقم بیگ سے نکال کر باقی چیزیں اور بیگ ایئر پورٹ پر پڑے کچرے کے کسی کنٹینر میں پھینک گیا۔ جب کئی روز بعد صفائی کرنے والے اس کنٹینر کو خالی کرنے لگے تو دیکھا، ایک نیا بیگ پڑا ہے۔ انہوں نے اٹھا لیا اور پولیس کو اطلاع کر دی۔ پولیس کے پاس چونکہ رپورٹ موجود تھی، انہوں نے مبارز نصیر صاحب کو اطلاع کی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس امانت کی حفاظت خاص کے سامان پیدا فرما کر ہمیں اپنے فضل سے ایک بہت بڑی پریشانی سے بچالیا۔ الحمدللہ۔ (صفحہ۲۶۸۔۲۶۹) اسی طرح اپنے دین کے لیے جذبات کو آپ نے اپنے ایک منظوم کلام میں یوں درج کیا ہے۔ ضروت ہو دین کو تو کردوں جان بھی نثار توفیق دے کہ کر سکوں بندوں سے تیرے پیار کرنا نہ روز حشر اس عاصی کو شرم سار بے حد و حساب کرم ہے اور فضلِ کردگار کتاب کا ایک بڑا حصہ آپ کی خود نوشت ہے جبکہ باقی حصہ آپ کی عملی خدمات کے اعتراف میں دیگر احباب جماعت و آپ کے عزیزوں کے تاثرات پر مشتمل ہے۔ آپ کی شخصیت کا ایک اہم پہلو خدمت انسانیت کے لیے ہومیوپیتھک طریقہ علاج کی مہارت بھی تھی جس کا ذکر اکثر تاثرات میں ملتا ہے اور اس کے ذریعہ سے بہت سے بیماروں کی شفا کے واقعات بھی اس کتاب کی زینت ہیں جن میں سے ایک واقعہ یوں ہے کہ ایک دفعہ ایک احمدی دوست ایک بڑی عمر کے ٹرکش دوست کو لے آئے۔ اس کی ٹانگ کی نسیں بند ہو چکی تھیں اور ڈاکٹروں نے ٹانگ کاٹنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس کے لڑکے بھی ساتھ تھے۔ لڑکوں نے بتایا کہ بڑے بڑے ڈاکٹروں کو دکھا چکے ہیں۔ سب نے ٹانگ کاٹنے کا کہا ہے۔ ہم خواہ مخواہ وقت ضائع کر رہے ہیں اور باپ کو اِدھر اُدھر لیے پھر رہے ہیں۔ وہ ہو میو پیتھی طریقہ علاج سے واقف نہ تھے۔ ادھر ٹانگ کاٹنے کی تاریخ میں چند دن باقی رہ گئے تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ صرف اتنا کر لیں کہ تاریخ ایک ہفتہ آگے کرالیں۔ ان شاء اللہ ٹانگ کٹوانے کی نوبت نہیں آئے گی۔ میں نے دوا دے دی۔ باپ اتنا ڈرا ہو ا تھا کہ بغیر بچوں کو بتائے دوا لے کر ترکی چلا گیا اور اللہ کے فضل سے ٹھیک ہو گیا۔ چھ ماہ بعد واپس آیا اور اس نے بتایا کہ پہلے ڈاکٹر کہتے تھے، اسی فیصد (%۸۰) نسیں بند ہیں۔ اب کہتے ہیں، اسی فیصد کھلی ہیں اور صرف بیس فیصد بند ہیں۔ میں نے اسے ایک بار اور دوا دی اور وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا۔(صفحہ ۲۸۸) آپ کے بارے میں درج آپ کے اہل و عیال کی رائے سے آپ کی خلافت سے محبت و عقیدت، قبولیت دعا، گھر میں نیک ماحول کی اہمیت اور عبادات کا باقاعدگی سے التزام واضح ہے۔ چنانچہ کتاب میں درج مکرم راشد محمود رامش صاحب کا آپ کی وفات پر کہا گیا یہ شعر آپ کی شخصیت کو بہت خوبصورتی سے پیش کرتا ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہی تھا رامش کوئی مثال نہیں اس کی بے مثال تھا وہ یہ مختصر تعارف مکرم منظور احمد شاد صاحب کی اس سوانح حیات کو کوزہ میں بند کرنے کے مترادف ہے۔اس کتاب کے مندرجات جتنے منفرد ہیں، اتنا ہی اس کتاب کو حاصل کرنے کا طریق بھی منفرد ہے۔ کتاب کی کوئی قیمت مقرر نہیں، کیونکہ یہ دراصل اپنے ہر دل عزیز پیاروں کی یاد میں لکھی گئی ہے۔ البتہ جب اسے جماعتی بک اسٹال پر رکھا گیا تو لندن میں اس کی قیمت چار پاؤنڈ اور جرمنی میں پانچ یورو مقرر کی گئی اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی جماعتی کاموں کے لیے وقف کر دی گئی۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے اس ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ takhalid@hotmail.de یوں ’’کرمِ خاکی‘‘ ایک ایسی خوشبودار یادگار ہے جو شاد صاحب مرحوم کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور مرتب مکرم تصور احمد خالد صاحب کی یہ کاوش بابرکت بنائے۔ آمین۔ (مصباح احمد۔ جرمنی) مزید پڑھیں: سِلک مروارید (یعنی موتیوں کی لڑی)(از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ)