https://youtu.be/fzsF2wkP81w بزرگانِ سلسلہ کے ساتھ گزرے چند یادگار اور بابرکت لمحات مکرمی صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب (ایم ایم احمد) یوں تو مکرمی و محترمی صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا نام ہم نے بچپن سے سنا ہواتھااور ایک دور وہ بھی آیا جب پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر آپ کے دستخط ہوتے تھے لیکن آپ سے ملاقات کا شرف پہلی بار لندن میں جلسہ سالانہ کے موقع پر حاصل ہوا۔ ہماری یہ خوش قسمتی تھی کہ آپ یارکشائر میں مکرمی ڈاکٹر حامداللہ خان صاحب کے گھر کچھ دن قیام کے لیے تشریف لائے تو ہمیں آپ کے ساتھ کچھ وقت گزار کر آپ کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی مل گیا۔ مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ٭… ۱۹۸۶ء میںآپ یارکشائر تشریف لائے تو اتفاقاََ انہی دنوں خاکسار کے چھوٹے بھائی عزیزم عبدالفاطر ملک صاحب حال نیشنل صدر جماعت اٹلی کی شادی تھی۔ ہمارے والد صاحب نے آپ کو دعوت دی تو آپ ازراہِ شفقت مکرمی ڈاکٹر حامداللہ خان صاحب کے ہمراہ خاص طور پر شادی میں شمولیت کے لیے بریڈفورڈ تشریف لائے اور دعا کروائی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی عزتیں اور نیک شہرتیں عطافرمائیں۔ آپ نے اپنی زندگی کا ایک لمبا عرصہ دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان کے ساتھ کام کرتے ہوئے گزارا لیکن آپ کی طبیعت میںانتہائی سادگی، شفقت اور نرمی تھی۔ آپ کے دل میںجماعت کا درد اور انتہائی عقیدت تھی۔ آپ انتہائی دعاگوبزرگ تھے۔ آخری عمر میں آپ کو بحیثیت امیر جماعت احمدیہ امریکہ بڑی مقبول خدمات کی توفیق ملتی رہی۔ مکرمی عزیز دین صاحب مکرمی عزیز دین صاحب انگلستان کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے۔ آپ کو قریباََ پچاس سال تک بہت ہی عمدہ طریق پر جماعت کی نمایاں خدمات سر انجام دینے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطافرمائی۔ ابتدائی دور میں انگلستان آنے والے ہرمبلغ سلسلہ اور احمدی کا آپ نے نہ صرف استقبال کیا بلکہ ہر ممکن مدد بھی کی۔ آپ ایک دراز قد اور بڑی سمارٹ شخصیت کے مالک تھے۔ اکثر بڑے صاف ستھرے مغربی لباس پہنتے اور بڑی عمدہ انگریزی زبان بولتے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ تک جماعت یوکے کی مختلف حیثیتوں میں خدمت دین کی توفیق عطا فرمائی۔ ٭… آپ کو یہ اعزازبھی حاصل ہوا کہ جب بانیٔ پاکستان محمد علی جناح صاحب مسجد فضل لندن تشریف لائے تو آپ کو ان کو چائے بنا کر پیش کرنے کا موقع ملا۔ ٭… حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جب انتخابِ خلافت کے بعد اپنے پہلے سفر یورپ پر تشریف لائے تو آپ کو حضورؒ نے پہلا نیشنل پریذیڈنٹ مقرر فرمایا۔ آپ کی طبیعت میں بہت ہی سادگی اور عاجزی تھی۔ ٭… اکثر یارکشائر کے دوروں کے دوران خاکسار کو آپ کی قربت حاصل ہوتی۔ خاکسار نے ان کو ہمیشہ بہت ہی مخلص اور ہمدرد شخصیت کا مالک پایا۔ ۱۹۸۲ء میں لندن سے واپسی کے سفر پر روانگی کے وقت حضور نے محترمی عزیز دین صاحب کو ماتھے پر چوم کر آپ کا شکریہ ادا کیا اور اپنی جائے نمازخاص طور پر آپ کو تحفۃً دی جس پر آپ آبدیدہ ہو گئے اور کافی دیر تک بڑے جذباتی رہے۔ یہ آپ کی حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے آخری ملاقات تھی۔ مکرمی مولانا مسعود احمدجہلمی صاحب مکرمی مولانا مسعود احمدجہلمی صاحب سے خاکسار کا پہلا تفصیلی تعارف حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی ہجرت کے کچھ عرصہ بعد اس وقت ہوا جب آپ لندن تشریف لائے اور بطور پرائیویٹ سیکرٹری خدمات سرانجام دیں۔ آپ بہت خوش مزاج، خوش لباس اور قابل شخصیت تھے۔ ٭… خاکسار کو چند سال حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی شفقت سے حضورؒ کے یورپ کے دوروں کے دوران حضور کے ہمراہ قافلہ میں سفر کرنے کا اعزاز ملتا رہا۔ ان دنوں محترمی مسعود احمدجہلمی صاحب سوئٹزرلینڈ میں مبلغ انچارج کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ اکثر آپ جماعت کے عہدیداران کے ہمراہ حضورؒ کے استقبال کے لیے بارڈر پر پہنچے ہوتے۔ آپ بہت ہی اچھے منتظم تھے، ہر چیز کو بڑے سلیقہ سے کرتے۔ حضور کے دورے کے پروگرام کو بھی بڑی عمدگی سے ترتیب دیتے اور حضورؒ کو ہر پروگرام کی چھوٹی چھوٹی تفصیل بھی تحریر کرکے پیش کرتے۔ حضورؒ بھی ان کا بہت خیال رکھتے اور بڑی شفقت سے پیش آتے۔ ٭… آپ کو عارضہ قلب تھا اور آپ کی بیگم کی صحت بھی اتنی اچھی نہ تھی لیکن اس کے باوجود دونوں میاں بیوی اور ان کے سب بچے حضورؒ کے زیورک قیام کے دوران دن رات ایک کر دیتے اور خود ہر انتظام کرتے۔ ان دنوں سوئٹزرلینڈ کی جماعت بہت چھوٹی تھی لیکن محترمی مسعود احمد جہلمی صاحب نے کبھی بھی صحت کی خرابی، کام کی زیادتی یا تھکاوٹ کا نہ اظہار کیا نہ ہی کبھی کسی کو پتا لگنے دیا۔ مکرمی چودھری رشید احمد صاحب پریس سیکرٹری محترمی چودھری رشید احمد صاحب یوکے جماعت کے چند دیرینہ خدام میں سے ایک تھے جنہوں نے ابتدائی ایام میں مختلف حیثیتوں سے جماعت کی بہت خدمت کی۔ آپ نے بچوں کے لیے خوبصورت دینی کتب بھی تحریر کیں۔ ٭… حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے ہجرت کے بعد آپ کو مرکزی پریس سیکرٹری مقرر فرمایا۔ آپ نے محدود وسائل کے باوجود انتھک محنت کی اور مشکل ترین حالات میں دنیا بھر میں جماعت کا پریس کے ساتھ تعلق قائم کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کی رپورٹس بھی وقت پر تیار کر کے دنیا بھر میں بھجواتے رہے۔ ٭…آپ کو یہ اعزازبھی ملا کہ جب لندن سے ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل کا اجرا ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کو اس کا پہلا مدیر اعلیٰ مقرر فرمایا اور آپ نے اپنی ذمہ داریوں کو خوب نبھایا۔ ٭… حضورؒ نے ایک پریس کمیٹی بنائی تھی جس میں خاکسار کو بھی ایک ممبر کے طور پر محترمی چودھری صاحب کے ساتھ خدمت کی توفیق ملی۔ آپ حضورؒ کی ہدایات فوری پہنچاتے اور آگے کام کرنے کے سلسلہ میں مناسب ہدایات بھی دیتے۔ ایک دفعہ آپ نے کہا کہ حضورؒ کی خواہش ہے کہ یوکے کے بڑے شہروں میں پریس کانفرنسیں کی جائیں اور مقامی میڈیا کو بھی پاکستان کے حالات سے مطلع کیا جائے۔ خاکسار نے بریڈفورڈ میں ایک مقامی ریسٹورنٹ میں پریس کانفرنس کا اہتمام کیا اور مقامی انگریزی و پاکستانی پریس کے نمائندوں کو مدعو کیا۔ محترمی چودھری صاحب چند دوستوں کے ہمراہ لندن سے بریڈفورڈ پہنچے اور پریس کانفرنس کی اور نمائندوں کے سوالات کے جواب دیے۔ ٭… ایک دفعہ لندن محمود ہال میں جماعت کی شوریٰ تھی اور خاکسار بھی نمائندہ کے طور پر گیا ہوا تھا۔ نماز عشاء کے بعد خاکسار کو پوچھنے لگے کہ تمہارا رات ٹھہرنے کا کیا انتظام ہے؟ خاکسار نے عرض کی کہ ابھی منتظمین سے دریافت کرتے ہیں۔ کہنے لگے نہیں تم میرے ساتھ میرے گھر چلو۔ خاکسار کو اپنے گھر لے گئے۔ بیگم کو اطلاع بھی نہیںتھی اور وہ خود بھی لجنہ کی نمائندہ ہونے کی وجہ سے شوریٰ سے گھر پہنچی تھیں۔ گھر پہنچتے ہی ایک کمرے میں خاکسار کے لیے سارا انتظام کروایا اور چائے لے کر آ گئے۔ صبح ناشتہ وغیرہ کروا کر واپس مسجد فضل لے کر آئے۔ آپ نے باوجود اپنی بیماری کے آخر دم تک خوب محنت سے خدمت دین سر انجام دی۔ مکرمی بشیر احمد حیات صاحب مکرمی بشیر احمد حیات صاحب کینیا سے اپنی فیملی کے ساتھ لندن آ کر مسجد فضل کے قریب گھر لے کر قیام پذیر ہوئے۔ آپ باقاعدگی سے مسجد نمازوں کے لیے آتے۔ آپ کو بھی یوکے جماعت میں مختلف حیثیتوں میں خدمات کی توفیق ملتی رہی۔ آپ کے بچوں کو بھی خدمت دین کی توفیق ملتی رہی۔ آپ کے بڑے بیٹے محترمی رفیق احمد حیات صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ، صدر مجلس انصاراللہ،سیکرٹری تعلیم، سیکرٹری تربیت اور چیئرمین ایم ٹی اے کی حیثیتوں میں خدمات سرانجام دیتے رہے اور اب آپ امیر جماعت احمدیہ یوکے کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ کے دوسرے بیٹے محترمی لئیق حیات صاحب بھی جماعت میں مختلف حیثیتوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ٭… محترمی بشیر احمد حیات صاحب ان دو خوش قسمت افراد میں سے ایک تھے جن کو حضرت خلیفۃ ا لمسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد لندن قیام کے دوران روزانہ مجالس عرفان میں سوالات پوچھنے کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ حضورؒ بھی ان سے بہت شفقت کا سلوک فرماتے تھے۔ محترمی بشیر احمد حیات صاحب کا جنون کی حد تک سوالات اکٹھے کرنے کا شوق تھا۔ ہر وقت ایک بیگ اور ایک نوٹ بک ساتھ رکھتے اورمختلف موضوعات پر سوالات کی تلاش میں رہتے۔ آپ نے اپنے آخری ایام میں بعض بزرگان کے حالات زندگی تحریر کرنے کا کام بھی شروع کیا تھا۔ مکرمی سیّد عبدالحئی شاہ صاحب محترمی سید عبدالحئی شاہ صاحب سے یوں تو ربوہ سے ہی ایک احترام کا تعلق تھا لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد آپ مختلف مواقع پر حضور کے ارشاد پر انگلستان تشریف لاتے تو ہمیں بھی ان کی صحبت حاصل ہوتی رہی۔ آپ بہت ہی خوش خلق، ملنسار،ہمدرد،خلافت کے فدائی اور دعاگو بزرگ تھے۔ ٭… حضورؒ کی ہجرت کے بعد ابتدائی ایام کی بات ہے،اس وقت خاکسار نارتھ ریجن اور سکاٹ لینڈکا ریجنل قائد مجلس خدام الاحمدیہ تھا۔ ایک روز محترمی میاں محمد صفی صاحب نیشنل قائد خدام الاحمدیہ کا فون آیاکہ حضورؒنے ارشاد فرمایا ہے کہ محترمی شاہ صاحب کو لیک ڈسٹرکٹ اور سکاٹ لینڈ کی سیر کروائو۔ میں ان کو ساتھ لے کر بریڈفورڈ آ رہا ہوں،تیار رہنا۔ بریڈفورڈ میں محترمی شاہ صاحب کچھ دیر کے لیے رُکے، کھاناکھایا اور آرام کیا۔ ٭…ہم ان کو لیک ڈسڑکٹ اور پھر سکاٹ لینڈ میں گلاسگو، ایڈنبرا اور دوسرے خوبصورت مقامات پر لے گئے۔ یہ قریباََ پانچ دن کا سفر تھا۔ اس دوران خاکسار کو محترمی شاہ صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ خوب رونق لگاتے رہے اور ہمیں دلچسپ واقعات بھی سناتے رہے۔ Lake Windermere میں کشتی پر بھی جھیل کی سیر کروائی۔ محترمی شاہ صاحب بہت خوش تھے کہ آپ نے تو مجھے وہ وہ علاقے دکھا دیے جہاں ہمارے بزرگ خلفاء تشریف لاتے رہے ہیں۔ مکرمی ملک سیف الرحمٰن صاحب مفتی سلسلہ محترمی ملک سیف الرحمٰن صاحب ایک دفعہ محترمی مولانا عطاءالمجیب صاحب راشد مبلغ انچارج یوکے کے ہمراہ بریڈفورڈ تشریف لائے۔ بریڈفورڈ سے لیک ڈسٹرکٹ ان کو لے جانے کا اعزاز خاکسار کو حاصل ہوا۔ لیک ڈسٹرکٹ میں Lake Windermere پر کشتی میں ان کو جھیل کی سیر کروائی گئی۔ لیک ڈسٹرکٹ کی جھیلوں اور دلفریب مناظر سے محترمی ملک صاحب بہت خوش تھے۔ لیک ڈسٹرکٹ کے علاقے میں ہی M6 موٹروے پر ایک خوبصورت سروس سٹیشن میں چائے وغیرہ کے لیے ہم رکے تو محترمی ملک صاحب اور محترمی امام صاحب دونوں کو یہ سروس سٹیشن بہت پسند آیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی خوبصورت جھیل بھی ہے۔ دونوں بزرگ کچھ دیر اس جھیل کے کنارے کھڑے نظارے دیکھتے رہے۔ ٭… محترمی ملک صا حب کے ساتھ سفر کے دوران اُن سے فقہی مسائل پر بہت سے سوالات پوچھنے کا بھی موقع ملااور محترمی ملک صاحب نے تاریخ اسلام سے بہت سے واقعات بھی سنائے جن سے میرے علم میں اضافہ ہوا۔ آپ بہت بڑے عالم تھے جن کو دین کا گہرا علم تھا اور مختلف دینی مسائل پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ تاریخ اسلام کا بھی گہرا مطالعہ تھا۔ مکرمی عبید اللہ علیم صاحب ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ اُس دور کے اُردو کے عظیم شاعر جب بھی انگلستان آتے تو بریڈفورڈ ضرور تشریف لاتے۔ بعض دفعہ آپ اردو کے معروف کے شعراء کو بھی اپنے ساتھ پاکستان سے لاتے اور مختلف مجالس میں لے کر جاتے۔ مکرم عبید اللہ علیم صاحب(تصویر بشکریہ: https://www.rekhta.org/poets/obaidullah-aleem) ٭… آپ کا اُردو ادب میں بہت بڑا مقام ہے۔ غیرممالک میں بسنے والے اُردو زبان کے شیدائی بھی آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔ خاکسار کو یہ اعزاز ملتا رہا کہ جب بھی آپ یہاں تشریف لاتے تو آپ کے ساتھ ایک خصوصی شام کا اہتمام کرنے کا موقع مل جاتا۔ آپ ہمیشہ ہماری درخواست کو قبول کرتے اور محفل مشاعرہ میںخوب رونق لگاتے۔ غزلیں پڑھنے کا آپ کا ایک نرالا انداز تھا۔ جماعت اور خلافت کے آپ فدائی تھے۔ ہر مجلس میں کھل کر اس بات کا اظہار کرتے اور کہتے کہ میرا یہ ایمان ہے کہ اگر آج دنیا میں اُردو زبان زندہ ہے تو اس میں حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ بانیٔ جماعت احمدیہ کا بہت عمل دخل ہے۔ آپؑ نے اپنی نثر اور شاعری کے ذریعہ اس فصل کی آبیاری کی۔ ٭… جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے محترمی علیم صاحب کے یورپ میں پروگراموںکی غرض سے ایک کمیٹی بنائی جس کا کام یورپ بھر میں عبیداللہ علیم صاحب کے ساتھ خصوصی پروگرام اور مشاعرے کرنے کاپروگرام ترتیب دینا تھا تو حضورؒ نے خاکسار کو اس کمیٹی کا سیکرٹری مقرر فرمایا۔ اس طرح خاکسار کو محترمی عبید اللہ علیم صاحب کے ساتھ خوب وقت گذارنے اور اکٹھے سفر کرنے کا بھی موقع ملتا رہا۔ ٭… ایک دفعہ مسجد فضل کے قریب ہی جماعت کے گیسٹ ہائوس میں آپ کا قیام تھا کہ کچھ طبیعت ناساز ہوگئی۔ آپ کی بیماری کی اطلاع حضورؒ کو پہنچا ئی گئی۔ ایک دن حضورؒ اچانک ہی مسجد سے پیدل چل کر علیم صاحب کی عیادت کے لیے ان کے پاس تشریف لے گئے۔ ان کو دوا دی اور دعائیں بھی دیں۔ اس موقع پر عبید اللہ علیم صاحب نے بہت جذباتی ہو کر بےاختیار ہو کر یہ شعر پڑھا: یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس مکرمی منصور احمد بی ٹی صاحب محترمی منصوراحمد بی ٹی صاحب بھی جماعت احمدیہ یوکے کے ابتدائی مخلصین میں سے تھے۔ آپ جماعت کے مشہور بزرگ حضرت چودھری علی محمد صاحب بی ٹی کے بیٹے اور مشہور شاعر جناب عبدالسلام صاحب اختر کے بھائی تھے۔ آپ ایک لمبے عرصہ سے لندن میں قیام پذیرتھے۔ آپ کو بھی مختلف حیثیتوں میں جماعت کی خدمات کی توفیق ملتی رہی۔ ٭… جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ہجرت کر کے لندن پہنچے تو آپ ان دنوں ضیافت کی ڈیوٹی کیا کرتے تھے۔ ہجرت کی پہلی شام حضور رحمہ اللہ نے محمود ہال میں جماعت سے خطاب فرمایا۔ لمبے سفر کی تھکاوٹ بھی تھی اور حضورؒ کا گلا بھی کچھ بیٹھاہوا تھا۔ اسٹیج کے ساتھ ہی کچن تھاجہاں محترمی منصور صاحب قہوہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بالآخر آپ حضورِانورؒ کی ہدایات کے مطابق اجزا کی درست مناسبت سے قہوہ بنانے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ حضور بڑی شفقت سے ان کے ساتھ مذاق بھی فرماتے رہے۔ ٭… ایک لمبے عرصہ تک جماعت کے ہر پروگرام کے موقع پر اور جلسہ سالانہ کے مواقع پر لندن اور اسلام آباد میں آپ ضیافت کی ٹیم میں کھانا تقسیم کرنے کی ذمہ داری اداکرتے رہے۔ بعد میں صحت کی خرابی کی وجہ سے آپ کو اَور جگہوں پر خدمات کی توفیق ملتی رہی۔ کچھ عرصہ تک آپ افسر جلسہ سالانہ کے دفتر میں بھی کام کرتے رہے۔ ٭… آپ خود بھی اچھے شعر کہتے تھے اور ادبی مجالس میں بڑے شوق سے ضرور شامل ہوتے۔ اکثر لندن سے خاکسار کو فون کرتے اور کہتے کہ میں نے آج چند شعر کہے ہیں سُن لو۔ اور پھر اپنے اشعار سناتے۔ ٭… ان کے چھوٹے بیٹے مکرمی طارق احمد صاحب بی ٹی کو یہ اعزاز ملا ہے کہ وہ برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان ِبالاہائوس آف لارڈز کے تا حیات ممبر مقرر ہوئے ہیں۔ یہ کسی احمدی کے لیے پہلا اعزاز ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد مسجد فضل کے احاطے میں دو بڑے بڑے Portakabin رکھے گئے تھے جہاں جماعت یوکے کے دفاتر تھے۔ محترمی امیر صاحب کے علاوہ مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس انصاراللہ بھی یہ دفاتر استعمال کرتے۔ خاکسار کو یاد ہے کہ محترمی منصور صاحب مسجد میں آتے تو اپنے بیٹوں کو بھی ساتھ لاتے۔ طارق اس وقت چھوٹا تھا۔ محترمی رفیق احمد حیات صاحب ان دنوں صدر مجلس خدام الاحمدیہ یوکے تھے۔ محترمی منصور بی ٹی صاحب کیبن میں آکر صدر صاحب کو کہتے: رفیق! تمہارا بیٹا بھی طارق ہے اور میرا بیٹا بھی طارق۔ تم اس کے لیے بھی دعاکیا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کو نیک، قابل اور خادم دین بنائے۔ مکرمی ڈاکٹر سعید احمد خان صاحب محترمی ڈاکٹر سعید خان صاحب کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا۔ آپ ایک لمبا عرصہ تک بریڈفورڈ کے نواح میں Gomersal میں رہائش پذیر رہے جہاں آپ کا ایک بہت بڑا محل نما گھر تھا۔ آپ یارکشائر کے سب سے بڑے ماہر امراض جلد تھے اورچند بڑے ہسپتالوں میں کنسلٹنٹ بھی تھے۔ آپ کی شادی ایک مخلص انگریز احمدی سلمہ مبارکہ خان سے ہوئی تھی جن میں سے آپ کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ آپ کے دوسرے بیٹے عزیزم کریم اسد خان صاحب کی شادی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی بیٹی سے ہوئی۔ اس طرح آپ کو حضورؒ کا سمدھی ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ آپ انتہائی شریف، نیک،متقی، دعا گو، تہجد گذار اور ہمدرد شخصیت کے مالک تھے۔ ٭… آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ تین خلفاء حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ، حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مختلف مواقع پر آپ کے گھر میں قیام فرمایا۔ اسی طرح حضرت چودھری ظفراللہ خاں صاحبؓ بھی کئی مواقع پر آپ کے گھر کئی کئی دن تک قیام فرماتے رہے۔ آپ گو پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے لیکن آپ ہمہ وقت تبلیغ میں مصروف رہتے۔ آپ کو تبلیغ کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ٭… ایک دفعہ خاکسار ایک ایسے ہسپتال میں زیر علاج تھاجہاں آپ کنسلٹنٹ تھے،ایک دن آپ خاکسار کی عیادت کے لیے اپنی بیگم کے ہمراہ آئے اور کافی دیر تک بیٹھے رہے۔ جب آپ چلے گئے تو سارے سٹاف میں یہ خبر پھیل گئی کہ یہ شخص ڈاکٹر خان کا ملنے والا ہے۔ ایک دن سٹاف کے چند افراد سے محترمی ڈاکٹر صاحب کے متعلق باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک ڈاکٹر نے تبصرہ کیا کہ’’یوں تو ڈاکٹر خان بہت شریف،محترم اور قابل فرد ہیں لیکن ان میں صرف ایک خرابی ہے کہ یہ ہر شخص کو مسلمان بناناچاہتے ہیں۔ ‘‘ ٭… محترمی ڈاکٹر صاحب کے ذریعہ بہت سے غیر مسلم افراد کو اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ محترمی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہمارے بہت قریبی تعلقات تھے۔ ان سے اکثر ملاقات رہتی۔ آپ بہت شفیق،مہربان اور ہمدرد شخصیت تھے۔ بہت مہمان نواز بھی تھے۔ جب کبھی ہم ان کے گھر جاتے تو خوب خاطر مدارت کرتے اور ہر دفعہ کوئی تحفہ ضرور دیتے۔ ٭… دونوں میاں بیوی گھر میں ہی Organic سبزیاں بھی اگاتے تھے اور شہد کی مکھیاں بھی پالی ہوئی تھیں۔ اکثر تحفے کے طور پر گھر کا شہد پیش کرتے۔ ٭… آپ اہلیہ اور ملنے والوں کے ساتھ انگریزی میں بات کرتے لیکن بچوں کے ساتھ پشتو میں بات کرتے۔ ٭… آپ کو جماعت کی مختلف حیثیتوں میں خدمات کی توفیق ملتی رہی۔ آپ صدر جماعت بھی رہے اور وفات تک ہمارے ریجنل امیر بھی رہے۔ آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی کتب پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ آپ بہت اچھے مقرر بھی تھے۔ آپ کی باتوں میں اللہ تعالیٰ نے بہت اثر رکھا ہواتھا۔ سننے والا بہت متاثر ہوتا۔ مکرمی ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب و محترمہ ساجدہ حمیدخان صاحبہ محترمی ڈاکٹر حمیداحمد خان صاحب اور ان کی بیگم محترمہ ساجدہ حمید صاحبہ ایک لمبے عرصہ تک شمالی انگلستان کی کائونٹی Clevelandکے مشہورساحلی شہر Hartlepool میں قیام پذیر رہے۔ محترمی ڈاکٹر صاحب آپا طاہرہ صدیقہ کے بھائی تھے اور محترمہ ساجدہ حمید صاحبہ محترمی بریگیڈیئر وقیع الزمان صاحب کی بیٹی تھیں۔ محترمی ڈاکٹر صاحب کی اپنی پریکٹس تھی اور آپ وہاں کی پولیس کے سرکاری ڈاکٹر کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔ دونوں میاں بیوی بہت نیک، دعاگو، عبادت گزار اور ملنسار تھے۔ محترمی ڈاکٹر صاحب کو خاکسار اکثر دیکھتا کہ بڑے اہتمام سے لمبی نمازیں ادا کرتے اورنمازوں میں بڑی رقت سے رورو کر دعائیں کرتے۔ ٭… آپ کو بھی یہ اعزا ز ملا کہ آپ کے گھر میں تین خلفاء حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ، حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قیام فرمایا۔ آپ کے گھر میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ساتھ کئی مجالس سوال وجواب بھی منعقد ہوئیں۔ آپ دونوں حقیقی معنوں میں داعی الی اللہ تھے اور اپنے ذاتی عمل، نیک نمونہ اور دوسروں سے برتائو کے ذریعہ بھی خوب تبلیغ کافریضہ سرانجام دیتے تھے۔ حضورؒ کے ساتھ سوال وجواب کی مجالس میں سب انگریز مہمان آپ کے زیر تبلیغ ہوتے۔ آپ دونوں کی تبلیغ کے نتیجے میں علاقے کے درجنوں انگریز بیعت کر کے احمدی مسلمان ہوئے۔ آپ ان نو مسلموں کی تربیت بچوں کی طرح کرتے اور اپنے گھر پر ہی ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا ہوا تھا۔ جماعت کے ہر پروگرام میں ان کو اپنے خرچ پر ساتھ لے کر جاتے اور اپنے ساتھ رکھتے۔ ان میں سے چند کو تو ربوہ اور قادیان بھی ساتھ لے کر گئے اور بزرگوں سے ملوایا۔ حضور سے ان کی باقاعدہ ملاقاتیں کرواتے۔ خاکسار کو اکثر بریڈفورڈ فون کرتے اور بڑے پیار سے ’’باری جی‘‘ کہہ کر پکارتے۔ اگر کوئی کام ہوتا تو پہلے رقم بھجواتے اور کام ہو جانے پر خط کے ذریعہ شکریہ ادا کرتے۔ ٭… آپ کو بھی یہ اعزاز ملا کہ آپ کی ایک بیٹی کی شادی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے نواسے سے اور چھوٹے بیٹے کی شادی حضرت صاحبزادہ مرزاوسیم احمد صاحب کی نواسی سے ہوئی۔ آپ کے چھوٹے بیٹے عابد خان، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے پریس سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ٭… ان کی بڑی بیٹی کا نکاح حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ہارٹلے پول میں ان کے گھر میں پڑھایا اور انگریزی میں بصیرت افروز خطبہ نکاح ارشاد فرمایا اور اسلام میں میاں بیوی کے حقوق اور فرائض بیان فرمائے۔ ٭… ڈاکٹر صاحب اور ساجدہ حمید صاحبہ دونوںکی وفات پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے خاکسار کو حکم دیا کہ ایک روز کا کھانا حضور کی طرف سے بریڈفورڈ سے پکوا کر ہارٹلے پول لے جایا جائے۔ چنانچہ بریڈفورڈ سے کھانا پکوا کر ہارٹلے پول لے جایا گیا اور مہمانوں کو پیش کیا گیا۔ مکرمی بریگیڈیئر وقیع الزمان صاحب محترمی بریگیڈیئر وقیع الزمان صاحب سے خاکسار کا پہلی مرتبہ تعارف حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی ہجرت کے معاً بعد مسجد فضل لندن میں ہوا۔ آپ بڑی بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ اہم فوجی عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود آپ کی طبیعت بہت سادہ تھی۔ ٭… حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے سفر ہجرت کے وقت چونکہ آپؒ کے ساتھ باقاعدہ سیکیورٹی پر مامور سٹاف ممبرز نہیں آئے تھے اس لیے ابتدائی ایام میں خاکسار اور چند اَور خدام کو مسجد فضل لندن میں سیکیورٹی کی خدمات سرانجام دینے کا اعزاز حاصل ہوا۔ محترمی بریگیڈیئر وقیع الزمان صاحب پانچوں نمازوں کے لیے مسجد فضل میں آتے اور خاموشی سے نماز ادا کرکے اپنی قیام گاہ میں چلے جاتے۔ ایک دن ہم چند خدام نے آپ کو نماز عصر کے بعد روک کر درخواست کی کہ سیکیورٹی کے سلسلے میں اگر آپ ہمیں کوئی ہدایات دیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہو گی۔ آپ نے بڑی شفقت سے کہا کہ آپ بہت اچھی طرح اور Professionalyڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہیں۔ مجھے اب تک تو کوئی خامی نظر نہیں آئی۔ اگرنظر آئی تو ضرور بتائوں گا۔ ان کا یہ سرٹیفکیٹ ہمارے لیے بہت تسلی کا باعث تھا۔ ٭… بعد میں آپ اپنی بیٹی محترمہ ساجدہ حمید صاحبہ اور داماد محترمی ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب کے پاس ہارٹلے پول آتے رہے تو اکثر آپ کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملتا رہا۔ آپ بہت ہی نفیس طبیعت کے مالک، دعاگو اور شفیق وجود تھے۔ آپ سے ملنے والا ہر شخص آپ سے متاثر ہوتا تھا۔ ٭… محترمہ ساجدہ حمید صاحبہ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے حکم دیا کہ بریگیڈیئر صاحب اپنی بیٹی کی نماز جنازہ پڑھائیں چنانچہ انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی۔ مکرمی دائود احمدگلزار صاحب محترمی دائود احمدگلزار صاحب بھی لندن کے پرانے احمدی بزرگوں میں سے تھے۔ آپ بہت سادہ طبیعت کے مالک اور بہت نیک، دعاگواور پرہیزگار شخص تھے۔ اکثر مسجد فضل میں نظر آتے۔ ہر کسی سے بڑے پیار اور شفقت سے پیش آتے۔ ٭… جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اٹلی اور برازیل کی مساجد کے لیے چندہ کی تحریک فرمائی تو محترمی دائود گلزار صاحب چندہ اکٹھا کرنے کے لیے نارتھ کے دورے پر آئے۔ خاکسار ان دنوں قائد مجلس خدام الاحمدیہ تھا اس لیے آپ کے ساتھ یارکشائر اور لنکا شائر کی جماعتوں کا دورہ کرنے اور آپ کے ساتھ وقت گزارنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ بہت دعاگو اور محنتی تھے۔ ہر شخص کوخواہ وہ کتنا مشکل ہو آپ ایمان افروز واقعات سنا کر منا لیتے اور چندہ لے لیتے۔ بعض افراد کچھ تلخ اور کڑوی باتیں بھی سناتے لیکن آپ بڑی نرمی سے اپنا کام کرتے جاتے۔ ہر سفر کے دوران آپ دعائوں میں مصروف رہتے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی دعائیں سنتا اور آپ کی باتوں کا نیک اثر پیدا فرماتا۔ مکرمی ناصر وارڈ صاحب محترمی ناصر وارڈ صاحب ایک انگریز احمدی تھے جنہوں نے جماعتی لٹریچر کے مطالعہ کے بعد خود بیعت کی۔ آپ پیشہ کے لحاظ سے سکول ٹیچر تھے۔ کچھ عرصہ آپ کا قیام بریڈفورڈ کے نواح میں کیتھلے میں رہا۔ ہمارے گھر ان کا آنا جانا رہتا تھا۔ آپ فطرتی طور پر ایک نیک اور دعاگو شخص تھے۔ ہر شخص کے ساتھ بڑی نرمی اور گرم جوشی سے پیش آتے۔ جماعت اور خلافت کے ساتھ آپ کا وفا اور اخلاص کا بہت مضبوط تعلق تھا۔ ٭… حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد آپ کو کچھ عرصہ یوکے جماعت کے سیکرٹری تبلیغ کی حیثیت سے خدمات کا موقع ملا۔ آپ نے بڑی محنت اور اخلاص سے یہ خدمات سرانجام دیں اور ہر جماعت کا دورہ کرکے احباب کو تبلیغ کی اہمیت بیان کی۔ بعد میں آپ کچھ عرصہ سعودی عرب اور فرانس میں اپنے روزگار کے سلسلہ میں قیام پذیر رہے۔ ہر جگہ آپ کا جماعت سے بڑا مضبوط تعلق قائم رہتا۔ مکرمی صوفی بشارت الر حمٰن صاحب محترمی صوفی بشارت الرحمٰن صاحب سے خاکسار کا یوں تو تعارف بچپن سے تھا کیونکہ آپ ہمارے محلہ دارالرحمت غربی میںرہائش پذیر تھے اور نماز باجماعت محلہ کی مسجد ناصر میں ادا فرماتے۔ آپ روزانہ مسجد میںدرس قرآن بھی دیتے۔ بعد میں آپ سے تعلیم الاسلام کالج میں تعلیم کے دوران بھی احترام کا تعلق رہا۔ ٭… آپ زندگی بھر ڈسپلن کے سختی سے خود بھی پابند رہے اور اپنے شاگردوں اور جاننے والوں کو بھی پابندی کرواتے رہے۔ آپ ایک اصول پسند طبیعت رکھنے کے باوجود باوجود نہایت شفیق اور ہمدردشخصیت کے مالک تھے۔ ٭… خاکسار محلہ دارالرحمت غربی میں زعیم مجلس خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ ایک دن صوفی صاحب نے مسجد ناصر میں نماز کے بعد ایک طفل کو اس کی غلطی کی وجہ سے سختی سے جھاڑا اور بڑے سخت لہجہ میں سب کے سامنے بات کی۔ خاکسار نے دخل دینے کی کوشش کی تو محترمی صوفی صاحب نے خاکسار پر بھی خوب غصہ جھاڑ دیا۔ اس بات کا خاکسار کو بہت دُکھ ہوا۔ چند دن بعد محترمی صوفی صاحب ہمارے گھر تشریف لائے اور خاکسار سے معذرت کرنے لگے۔ خاکسارنے عرض کی کہ یہ تو بہت زیادتی ہے، آپ بزرگ بھی ہیں اور ہمارے استاد بھی، آپ ہمیں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن محترمی صوفی صاحب بار بار فرما رہے تھے کہ میں نے مسجد میں تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ خاکسار کے دل میں اس دن سے آپ کا بہت زیادہ احترام تھا۔ ٭… ایک دفعہ آپ جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے لندن تشریف لائے تو آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے صاحبزادہ مرزا انس احمدصاحب اور چند اَور بزرگوں کے ہمراہ یارکشائر بھجوایا۔ ان دنوں جماعت لیڈز میں ایک سکول کی عمارت خرید رہی تھی۔ خاکسار جماعت لیڈز کے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دے رہا تھا۔ آپ کے ساتھ بریڈفورڈ کی مسجد بیت الحمد میں اور پھر لیڈز میں پورا دن گزارنے کا موقع ملا۔ آپ کو دینی علوم پر بہت عبور حاصل تھا اور کسی بھی موضوع پر آپ بہت علمی گفتگو فرماتے۔ مکرمی بشیر احمد آرچرڈ صاحب مکرمی بشیر احمد صاحب آرچرڈ کے نام کو تاریخ احمدیت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آپ پہلے سکاٹش احمدی اور کامیاب مبلغ تھے۔ آپ ایک درویش صفت،کم گو، محنتی، عبادت گزار، دعاگو اور پرہیزگار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہی حلیم طبیعت عطا فرمائی تھی۔ ٭…آخر ی عمر تک آپ نوجوانوں کے ساتھ فٹ بال بھی کھیلتے اور مجلس خدام الاحمدیہ و انصار اللہ کی چیریٹی واک میں کئی کئی میل تک پیدل چلتے۔ مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب کے ساتھ ٭… ایک دفعہ آپ کو بریڈفورڈ یونیورسٹی سے منسلک الکلے کالج نے اسلام پر لیکچر کی دعوت دی۔ آپ بریڈفورڈ تشریف لائے اور خاکسار کو یہ اعزاز حاصل ہواکہ آپ کے ساتھ پورا ایک دن گزاروں۔ خاکسار آپ کو بریڈفورڈ سے قریباََ پندرہ میل دُور الکلے کے پُر فضا مقام پر الکلے کالج لے کر گیا۔ سفر شروع ہونے سے پہلے آپ نے لمبی دعا کروائی۔ راستہ میں یارکشائر کے بہت دلفریب نظارے دیکھ کر محترمی آرچرڈ صاحب خداتعالیٰ کی حمد کرتے رہے۔ جب ہم کالج میں پہنچ گئے تو فرمانے لگے کہ آپ نے بہت خوبصورت رُوٹ چنا۔ میں تو نظارے دیکھ دیکھ کر خداتعالیٰ کی حمد اور شکر میں مشغول ہو گیا۔ ٭…کالج پہنچنے پر لیکچرر اور ان کے چند ساتھیوں نے ہمارا پُرتپاک استقبال کیا اور ایک کمرے میں بٹھا کر کافی وغیرہ پیش کی۔ اس کے بعد ہمیں ایک ہال میں لے جایا گیا جو طلبہ و طالبات اور اساتذہ سے پُر تھا۔ محترمی آرچرڈ صاحب نے ’’اسلام۔ امن کا مذہب‘‘ کے موضوع پرمختصر تقریر کی اور اس کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ آپ نے ازراہ شفقت خاکسار کو بھی اپنے ساتھ بیٹھنے کی دعوت دی اور خاکسار کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ یہ آج میری مدد کرے گا۔ یہ نشست بہت ہی دلچسپ اور معلومات سے پُر تھی جس میںمحترمی آرچرڈ صاحب نے بڑے خوبصورت اور دلنشیں انداز میں ہر سوال کا جواب دیا۔ کہیں کہیں خاکسار سے بھی رائے لے کر خاکسار کی حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔ آپ کے جواب سن کر ہر فرد متاثر تھا۔ آپ کو دین اور حالاتِ حاضرہ کا وسیع علم تھا اور جواب دینے کا انداز بھی بہت ہی اچھا تھا۔ پروگرام کے اختتام پر خداتعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس کو کامیاب فرمایا۔ بعد میں جب کبھی آپ سے ملاقات ہوتی تو الکلے کے سفر کا ذکر ضرور فرماتے۔ ٭… اللہ تعالیٰ کے فضل سے محترمی بشیر آرچرڈ صاحب کی بیٹی صدر لجنہ یوکے کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکی ہیں اور آپ کے بیٹے محترمی نثار آرچرڈ صاحب اس وقت جماعت یوکے، کے سیکرٹری تربیت کی حیثیت سےبڑی محنت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ٭……٭…… (جاری ہے)…٭……٭… مزید پڑھیں: چندانمول لمحے(قسط چہارم)