https://youtu.be/QyW29YxKcgw (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۰؍دسمبر۲۰۱۱ء) حضرت حافظ نبی بخش صاحب ولد حافظ کریم بخش صاحب موضع فیض اللہ چک کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت حضرت مسیح موعود کے دعویٰ سے پہلے ہی کی تھی اور بیعت بھی ابتدائی زمانے میں کی۔ حکیم فضل الرحمٰن صاحب مبلغ افریقہ جو حافظ صاحب کے بیٹے تھے، وہ لکھتے ہیں کہ ’’آپ کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے ایک عشق موجود ہے اور طبیعت میں احتیاط ایسی ہے کہ جب کبھی کوئی حضور علیہ السلام کے حالات سنانے کے لئے کہے تو یہی جواب دیتے ہیں کہ مجھے اپنے حافظے پر اعتبار نہیں، ایسا نہ ہو کہ کوئی غلط بات حضور کی طرف منسوب کر بیٹھوں۔ آپ محکمہ نہر میں پٹواری تھے اور گرداوری کے دنوں میں قریباً سارا سارا دن گھومنا پڑتا حتٰی کہ جیٹھ، ہاڑکے مہینوں میں بھی (یعنی مئی جون کے جو سخت گرمی کے مہینے ہوتے ہیں ان میں بھی) گھومنا پڑتا اور اس سے جس قدر تھکاوٹ انسان کو ہو جاتی ہے وہ بالکل واضح ہے۔ مگر رات کو آپ تہجد کے لئے ضرور اُٹھتے اور ہم پر بھی زور دیتے (اپنے بچوں کو بھی کہتے)۔ جب رمضان کے دن ہوتے تو باوجود اس قدر گرمی کے روزے بھی باقاعدہ رکھتے۔ سردی کے دنوں میں تہجد کی نماز بالعموم قراءت جہری سے پڑھ کر بچوں کو ساتھ شامل فرمالیتے۔ (آپ خدا کے فضل سے حافظِ قرآن تھے) ہمیں نماز روزے کی بہت تاکید فرماتے بلکہ کڑی نگرانی فرماتے۔ (اور یہی والدین کا کام ہے) اور سستی پر بہت ناراض ہوتے۔ قرآنِ کریم ہمیں خود پڑھایا۔ جب دن کو اپنے کاروبار میں مشغولیت کے باعث وقت نہ ملتا تو رات کو پڑھاتے۔ ہم تین بھائی تھے۔ ہم سب میں سے بڑا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ قادیان میں تعلیم پانے کی حالت میں ہی غالباً 1907ء میں فوت ہوا اور باقی ہم دونوں کو بھی مجھے اور عزیزم حبیب الرحمٰن بی اے کو والد صاحب جبکہ ان کی عمر بارہ تیرہ سال تھی۔ حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک اور حافظ حامد علی صاحب مرحوم رضی اللہ عنہماکے ساتھ جبکہ حضور براہینِ احمدیہ تصنیف فرما رہے تھے حضور کی خدمت میں پہلی بار حاضر ہوئے اور اس کے بعد عموماً حاضر ہوتے رہے اور بیعت بھی نہایت جلدی کر لی تھی۔ کیونکہ وہ یعنی حافظ صاحب(جو حکیم فضل الرحمٰن کے والد تھے) دعویٰ سے پہلے ہی بیعت لینے کو عرض کرتے رہتے تھے۔ مجھے اصل سنِ بیعت اور ملاقات کا یادنہیں مگر جب وہ پہلی دفعہ آئے تو پھر حضور کے ہی ہو رہے‘‘۔ پھر لکھتے ہیں کہ ’’مجھے قادیان میں ہی تعلیم دلوائی (یعنی حکیم فضل الرحمٰن صاحب کو، اپنے بیٹے کو قادیان میں تعلیم دلوائی)۔ آپ صدموں کے وقت رضا بالقضاء کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھاتے۔ (حکیم صاحب لکھتے ہیں کہ) جب ہمارے بڑے بھائی کی 1907ء میں وفات ہوئی، اُس وقت ہماری دو بڑی بہنوں کی شادی کے دن قریب تھے اور اس غرض کے لئے ہم سب والد صاحب کی ملازمت کی جگہ سے اپنے وطن فیض اللہ چک گئے ہوئے تھے۔ ایک بہن کی بارات راہوں ضلع جالندھر سے آئی تھی۔ جب بارات آنے میں تین دن رہ گئے توان کے بھائی عبدالرحمٰن صاحب کا قادیان میں جگر کے پھوڑے سے انتقال ہو گیا، اس پر راہوں سے ہمیں تار آئی (لڑکے والوں نے کہاکہ) وہ اس وفات کے پیشِ نظر شادی کی تاریخ تھوڑا سا آگے کر دیتے ہیں۔ خود ہی انہوں نے پیشکش کی۔ حکیم صاحب کے والد صاحب نے کہا کہ وفات ایک قضائے الٰہی تھی وہ ہو گئی۔ آپ اپنے وقت پر بارات لے کر آئیں اور لڑکی کا رخصتانہ لے جائیں۔ چنانچہ اپنے عزیز بچے کی وفات کے تین دن کے اندر دو لڑکیاں بیاہ دیں جو کہ ایک دنیادار شخص کے لئے نہایت کڑا امتحان ثابت ہو۔‘‘ پھر لکھتے ہیں کہ ’’خلافتِ اولیٰ و ثانیہ دونوں کے وقت آپ کو خدا کے فضل سے کبھی کوئی ابتلاء پیش نہیں آیا اور نہ ہی آپ نے دونوں خلفاء کی بیعت میں کوئی تردّد کیا۔ خلافت کے ماننے میں اس قدر اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ مَیں دو دفعہ تبلیغ کے لئے مغربی افریقہ میں آیا ہوں، (حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحب بڑا لمبا عرصہ مغربی افریقہ میں مبلغ رہے ہیں ) پہلی مرتبہ جب آٹھ برس متواتر رہاتھا اور اب بھی سات برس ہو گئے ہیں، باوجود کئی مختلف حالات میں سے گزرنے کے جن میں دنیاوی سامانوں کے لحاظ سے مَیں اُن کے لئے بہت بڑی مدد کا موجب ہو سکتا تھا آپ نے مجھے ہمیشہ یہی نصیحت فرمائی کہ میں ہرگز کسی قسم کی بے صبری نہ دکھاؤں۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح واپس بلانے کا ارشاد فرمائیں تب ہی واپس آؤں (یعنی خود کچھ نہیں کہنا، کوئی مطالبہ نہیں کرنا) زمانہ ملازمت میں آپ سلسلے کے جملہ اخبارات خریدتے رہے اور چندہ باقاعدہ ادا فرماتے رہے۔ غرباء کی بہت مدد کی۔ مہمان نوازی حد درجہ کی فرماتے۔ آپ نے وصیت کی ہوئی ہے اور ایامِ ملازمت میں حصہ آمد ادا کرتے رہے۔ آپ کی کسی قدر زمین فیض اللہ چک میں ہے جس کے عشر کی آپ نے وصیت کی ہے۔ انجمن کے نام اپنی زمین کرا دی۔‘‘ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ؓ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ1تا3روایت حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ) جن صحابہ کا مَیں ذکر کر رہا ہوں ان کے پڑپوتے عزیزم عمیر ابن ملک عبدالرحیم صاحب کو 28؍ مئی کو ماڈل ٹاؤن مسجد میں اللہ تعالیٰ نے شہادت کا مرتبہ بھی عطا فرمایا۔ اُس کے چھوٹے چھوٹے دو بچے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کا حافظ و ناصر ہو۔ تمام شہداء جو ہیں اور جو نوجوان شہداء تھے، اُن کے بچوں اور بیوگان کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے اور اسی طرح اُن کے والدین کے لئے کہ اللہ تعالیٰ اُن سب کا حامی و ناصر ہو۔ اُن کو صبر اور حوصلہ دے اور بیوگان کے، جو نوجوان بیوگان ہیں اُن کے رشتوں کے بھی اللہ تعالیٰ سامان پیدا فرمائے۔ حضرت محمد یعقوب صاحب ولد میاں سراج دین صاحب جن کی بیعت 1900ء کی ہے اور 1904ء میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی۔ لکھتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی آغوشِ شفقت میں بچوں کو زیادہ جگہ عطا فرماتے۔ بندہ حضور کی گود میں کھیلتا رہتا۔ حضور کا چہرہ انور نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍتھا۔ ہمیں بچپن میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ماں باپ سے زیادہ محبت ہم سے کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب کبھی لاہور تشریف لے جاتے تو حضور ہمارے غریب خانے کو رونق دے کر فخر بخشتے۔ ایک دفعہ حضور سیر کو حسبِ دستور گئے تو حضور بند گاڑی میں جایا کرتے تھے۔ جب واپسی کا وقت تھا تو میرے خاندان کے بزرگ قبلہ والد میاں سراج الدین صاحب مرحوم اور چچا میاں معراج الدین صاحب عمراور میاں تاج الدین صاحب اور دیگر خاندان کے ممبر حضور کی آمد پر منتظر تھے۔ ہمارے مکانوں کے سامنے سرکاری باغ تھا۔ باغ کی سڑک پر جو ہمارے مکانوں سے متصل تھی، موچی دروازہ، بھاٹی دروازہ کے بدمعاش لوگوں کا بڑا ہجوم تھا۔ جب حضور علیہ السلام تشریف لائے تو وہ سیڑھیوں پر سے مکان میں تشریف لے گئے تو بدمعاش لوگوں نے پتھر برسانے شروع کئے۔ اتنے میں والد صاحب مرحوم اور ہمارے چچا صاحب نے مشورہ کیا کہ کیا تدارک ہونا چاہئے تو والد صاحب نے جو میرے لئے خادم رکھا ہوا تھا اُس کو فرمایا کہ اس کو اُٹھا لوچھوٹے بچے تھے اور اس وقت بندہ کچھ بیمار بھی تھا تو خادم نے بندے کو اُٹھا لیا تو انہوں نے اسی وقت اس ہجوم کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا۔ مقابلہ کے بعد ہجوم منتشر ہو گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اب ان کوجانے دیں۔‘‘ یہ لکھتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ بندہ اپنے والد صاحب کے ہمراہ تھا۔ حضور علیہ السلام مکان پر ٹھہرے۔ جاتے ہوئے ایک جگہ پر کاغذ قلم دوات رکھی ہوئی تھی تو پھر کچھ لکھتے۔ میرے والد صاحب نے عرض کیا کہ لڑکی کا نام پوچھا تو آپ نے ایمنہ بیگم فرمایا۔‘‘ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: تحریک جدید کی مالی قربانی کے بعض ایمان افروز واقعات