اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط۱۵۔گذشتہ سے پیوستہ) الفضل تقسیم کرنے کا ’’جرم‘‘ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل تقسیم کرنے والے ایک ہاکر کی آپ بیتی ہفت روزہ ’’لاہور‘‘سے منقول ہے۔ فیصل آباد کے ہاکر میاں اصغر علی کو الفضل تقسیم کرنے کے جرم میں مُلّاؤں نے پکڑ کر مارا اور اپنے نام نہاد دین کی حفاظت کی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس واقعہ سے پہلے معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ گذشتہ دو ماہ سے میری نقل و حرکت کا جائزہ لے رہے تھے کہ میں کن کن راہوں سے جاتا ہوں اور مخصوص اوقات میں کن گلیوں میں سے گزرتا ہوں۔ اُس روز جب مَیں ایک احمدی کے گھر دستک دے رہا تھا کہ روزنامہ الفضل اُس کے حوالے کروں تو اچانک کسی مدرسے کا طالب علم آیا اور کہنے لگا مجھے بھی ایک الفضل خریدنا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ میرے پاس مقررہ تعداد میں پرچے ہوتے ہیں جو مستقل خریداروں کے لیے ہوتے ہیں۔ وہ تھوڑا سا اصرار کرکے چلاگیا۔ ابھی میں چند قدم چل کر دوسرے گھر کی طرف بڑھا ہی تھا کہ ایک داڑھی والے نے مجھ سے الفضل طلب کیا۔ مَیں نے انہیں بھی پہلے والا جواب دیا۔ ابھی میں اپنے اگلے مقام کی طرف بڑھا ہی تھاتو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص میرا پیچھا کررہا ہے۔ مَیں نے مڑ کر دیکھا تو ایک دوسرا مولوی میرے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ مَیں نے اپنی سائیکل کی رفتار بڑھادی۔ مگر اُس نے اپنے موبائل پر اپنے دوسرے ساتھی کو اطلاع کی جس نے چند گز آگے سے آکرمجھے دبوچ لیا۔ اس کے ہاتھ میں بھی ایک موبائل تھا۔ پھر اطراف میں چھپے ہوئے اپنے ساتھیوں کو بلا لیا۔ چنانچہ دس مولویوں نے مجھے گھیر لیا اور گھسیٹتے ہوئے قریبی مسجد میںلے گئے۔ سائیکل کے دونوں پہیے پنکچر کر ڈالے۔ اخباروں کا تھیلا چھین لیا۔ مسجد میں کئی مولوی بیٹھے ہوئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پچاس ساٹھ مدرسے کے مولوی طالب علم بھی وہاں جمع ہوئے۔ پہلے تو مسجد کے مولانا نے مجھے برا بھلا کہا۔ اس کے بعد مسجد سے باہر نکال کر انہوں نے اپنے جہاد کا آغازکرتے ہوئے گھونسوں اور لاتوں کی بارش کردی۔ کئی مرتبہ زمین سے اٹھا کر زمیں پر پٹخا۔ مجھے اس وقت رسول کریمﷺ کا طائف کا سفر یاد آگیا۔ میں نے اپنے ربّ سے اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنے کی دعا کی۔ جب مولانا تھک گئے تو ان کے کہنے پر اُن کے حواریوں نے جہاد شروع کردیا۔ پچاس کے قریب مُلّا ایک لائن میں کھڑے ہوگئے۔ ہر نوجوان باری باری اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہوا حسب توفیق جہاد میں حصہ لیتے ہوئے میرے سر پر جوتے مارتا چلاگیا اور ننگی گالیاں بھی دیتا گیا۔ مولانا نے اپنے جاں نثاروں سے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اس کافر کے منہ میں پیشاب کرو۔ تاہم وہ نوجوان کھلی جگہ اس بےحیائی پر آمادہ نہ ہوئے۔ بہرحال انہوں نے اپنے جہادی کمانڈر کی نگرانی میں جہاد لڑا۔ اس جہاد و فساد کی خبر کسی شریف انسان نے پولیس کودی تو پولیس کی دو تین گاڑیاں آئیں اور مجھے زبردستی وین میں ڈال کر تھانے لے آئیں۔ چند لمحوں میں وہ مولانا اور ان کے حواری بھی تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دبائو ڈالنے لگے کہ میرے خلاف توہین رسالت اور تقسیم لٹریچر کا مقدمہ بنایا جائے۔ پولیس نے بھی اتفاق کرلیا کہ مجھ سے اسلام کو واقعی خطرہ ہے لہٰذا میرے خلاف FIRکٹ گئی۔ میں پہلے حوالات میں رہا اور بعد میں جیل بھیج دیا گیا۔ آخر خداتعالیٰ نے رحم فرمایا اور میری ضمانت منظور ہوئی ۔ ………٭………٭………٭……… الفضل سے وابستہ خوبصورت یادیں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم مجیب الرحمٰن صاحب ایڈووکیٹ راولپنڈی کا مضمون ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے جس میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ نے روزنامہ الفضل کے ڈیکلریشن کی منسوخی کا حکم غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کردیا جس کے نتیجے میں تین سال گیارہ ماہ اور نو روز کی جبری بندش ختم ہوئی۔ عدالت عالیہ کے جج جناب جسٹس ضیاء محمود مرزا نے یہ فیصلہ جماعت احمدیہ کی طرف سے دائر کردہ ایک رِٹ پٹیشن پر ۲۰؍نومبر۱۹۸۸ء کو صادرکیا۔جس کے بعد۲۸؍نومبر۱۹۸۸ء سے الفضل کا ازسرِنَو اجراء ہوا۔ تاریخی حقائق یہ ہیں کہ ۲۹؍اگست۱۹۸۴ء کو روزنامہ الفضل کو حکومت پنجاب کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے اظہار وجوہ کا ایک نوٹس جاری کیا گیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ الفضل کے مختلف شماروں میں مبیّنہ طور پر قابلِ اعتراض مواد شائع کیا گیا ہے اس لیے کیوں نہ آپ کو تیس ہزار روپے کی ضمانت داخل کرنے کا حکم دیا جائے۔ جس قابل اعتراض مواد کا ذکر کیا گیا تھا وہ یہ الفاظ تھے: ٭… نماز تراویح کے بارے میں ضروری اعلان۔ ٭… میں بنی نوع انسان سے سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں۔ ٭… اعمال کے باغ کی سرسبزی…۔ ٭…اخبار احمدیہ۔پیارے ابا جان مرحوم کا ذکر خیر۔ ٭… اخبار احمدیہ۔علم کے تین مدارج۔ ۱۵؍ستمبر کو جماعت احمدیہ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ متذکرہ بالا نوٹس قانون کی متعلقہ دفعات پر غور کیے بغیر جاری کیا گیا ہے اور یہ پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس کی متعلقہ دفعہ کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔ ۴؍دسمبر ۱۹۸۴ءکو الفضل کے پبلشر مسعود احمد صاحب دہلوی اور پرنٹر کو ہوم ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کی طرف سے نوٹس جاری کیا گیا کہ وہ دس روز کے اندر تیس ہزار روپے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ کے پاس جمع کرائیں۔ اس نوٹس پر تاریخ اجراء ۴؍دسمبر۱۹۸۴ء درج تھی۔لیکن یہ ۱۵؍دسمبر ۱۹۸۴ء کو ملا۔ اسی دوران ۸؍دسمبر کو الفضل کے پرنٹر اور ضیاءالاسلام پرنٹنگ پریس کے کیپر کو اظہار وجوہ کا نوٹس دیا گیا کہ وہ۱۲؍دسمبر کو ہوم سیکرٹری حکومت پنجاب کے پاس حاضر ہوکر و جہ بیان کریں کہ کیوں نہ ان سے تیس ہزار روپے کی ضمانت طلب کی جائے۔ یہ نوٹس بھی میعاد گزرجانے کے بعد موصول ہوا۔ اچانک ۱۲؍دسمبر۱۹۸۴ء کو چنیوٹ کے ریذیڈنٹ مجسٹریٹ نے ہوم ڈیپارٹمنٹ کےآرڈر مجریہ ۱۰-۱۲-۸۴کے تحت پریس کو تین ماہ کے لیے سر بمہر کردیا۔ (یعنی نوٹس موصول ہونے سے تین روز پہلے)۔ ۲۲؍دسمبر کو ادارہ الفضل نے پریس کو سر بمہر کرنے کے متذکرہ بالا آرڈر کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں رِٹ پٹیشن نمبر۵۵۶۲/۸۴ دائر کی۔ ۲۳؍جنوری ۱۹۸۵ء کو رِٹ پٹیشن زیر سماعت تھی کہ اسی دوران ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ نے الفضل کا ڈیکلریشن منسوخ کردیا۔ اس طرح الفضل کی اشاعت جو پریس کے سربمہر ہونے کی وجہ سے جبراً بند تھی پریس کی مُہر کھل جانے کے بعدبھی جاری نہ ہوسکی اور طویل عرصہ اخبار بند رہا۔ پھر (ضیاءالحق کی ہلاکت کے بعد) ۲۰؍نومبر ۱۹۸۸ء کو لاہور ہائی کورٹ نے ہوم ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کے پریس کو سر بمہر کرنے اور ڈیکلریشن کی منسوخی کے ہر دو احکامات کوغیر قانونی قرار دے دیا۔ اور ۲۸؍نومبر کو الفضل کا از سرِنو اجراء ہوا۔ عدالت عالیہ میں رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران الفضل کی طرف سے درج ذیل وکلاء پیش ہوتے رہے: -۱عابد حسین منٹو۔سینئر ایڈووکیٹ،سپریم کورٹ۔ -۲مبشر لطیف ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ۔ -۳اے وحید سلیم ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ۔ اسی طرح مرزا نصیر احمد ایڈووکیٹ لاہور۔ مختار احمد بٹ ایڈووکیٹ لاہور اور مبارک احمد طاہر مشیر قانونی صدر انجمن احمدیہ ربوہ مختلف مشوروں میں شریک رہے۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں شامل اشاعت ایک مضمون کے مطابق اخبار الفضل جب چار سالہ جبری بندش کے بعد دوبارہ جاری ہواتو جذبات کی کیفیت مکرم عبدالمالک صاحب مرحوم نمائندہ الفضل برائے لاہور نے یوں بیان کی ہے کہ ۲۳؍نومبر۱۹۸۸ء بروز بدھ شام ساڑھے تین بجے الفضل کے ایک کارکن تشریف لائے اور الفضل کے دوبارہ اجراء کی خوشخبری سناکر کہا کہ احباب سے رابطہ قائم کرکے پہلے پرچے کے لیے اشتہار حاصل کیے جائیں۔ اس وقت خیال تھا کہ پرچہ ۲۶؍نومبر کو شائع ہوگا۔ اس لحاظ سے صرف اسی دن کی رات میرے پاس تھی۔ ہماری گفتگو کے دوران کمرے میں موجود مکرم حمید احمد صاحب نے کہا کہ کیا مَیں بھی مبارک باد کا کوئی اشتہار دے سکتا ہوں؟ مَیں نے عرض کیا: فوراً دیں۔ انہوںنے اسی وقت جیب سے تین سو روپے نکالے اور میرے ہاتھ پر رکھ دیے۔ یہ بارش کا پہلا قطرہ تھا۔ پھر تو موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ دوسرا قطرہ اسی کمرے میں بیٹھے ہوئے مکرم چودھری عبدالرشید صاحب مینیجر شاہنواز میڈیکل سٹورز تھے۔ اس کے بعد خاکسار نے الفضل کے کارکن کو ساتھ لیا اور بازاروں کا چکر لگایا۔ پھر ٹیلیفون پکڑلیا اور رات نو دس بجے تک جس شخص سے بھی رابطہ کیا اور اسے الفضل کے جاری ہونے کی مبارک باد دی اس نے بےاختیار ہو کر کہا کہ میرا بھی اشتہار دے دیں۔ غرضیکہ چند گھنٹوں میں اشتہارات کا ڈھیر لگ گیا۔ میں نے سوچا کہ ابھی تک کوئی پیمانہ ایسا ایجاد نہیں ہوا جس سے احباب جماعت کی اس بےساختہ محبت اور خوشی کا اندازہ لگایا جاسکے جو انہیں الفضل کے جاری ہونے پر ہوئی۔ بعض لوگوں کی آنکھوں میں فرط جذبات سے آنسو آگئے۔ بعض بےاختیار بغل گیر ہوجاتے اور اللہ تعالیٰ کی حمد میں ان کی زبانیں رواں ہوجاتیں۔ وقت قلیل تھا اس لیے جلدی میں کئی لوگوں سے رابطہ نہیں ہوسکا جنہوں نے بعد میں گلہ بھی کیا۔ اللہ ان سب کو جزائے خیر دے۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم آصف احمد ظفر بلوچ صا حب بیان کرتے ہیں کہ اپنے خاندان میں احمدیت کے سفر کی تلاش میں مَیں نے ۱۹۲۱ء سے الفضل کا جائزہ لینا شروع کیا جب میرے پڑدادا حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانیؓ اپنے بیٹے یعنی میرے دادا جان حضرت مولانا ظفر محمد صاحب ظفر (سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ)کو دینی تعلیم کے حصول کے لیے بعمر ۱۳؍سال ۲۳؍مارچ ۱۹۲۱ء کو قادیان چھوڑ کر آئے تھے۔ الفضل سے اپنے خاندان کی بہت سی ایسی باتیں علم میں آئیں جو پہلے معلوم نہ تھیں۔ مثلاً ۱۹۲۱ء میں حضرت حافظ صاحبؓ کے بڑے بیٹے حکیم غلام محمد خان صاحب مندرانی کی بیعت کا اعلان اور ۱۹۲۲ء میں حضرت حافظ صاحب کے بڑے بھائی حضرت نور محمد خان صاحب مندرانیؓ کی وفات کا اعلان نظروں سے گزرا۔ ۹؍جولائی ۱۹۲۹ء کے الفضل میں مولوی فاضل کے امتحان کا نتیجہ شائع ہوا جس میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ اوّل اور مولوی ظفرمحمد ظفرصاحب دوم قرار پائے تھے۔ الفضل ۲؍ستمبر۱۹۳۴ء میں مولوی صاحب کے قائم مقام اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری بننے کا اعلان شائع ہوا۔ کئی ایسی رپورٹس شائع ہوتی رہیں جن میں دیگر علماء کے ہمراہ آپ کی کارگزاری کا تذکرہ بھی شامل تھا۔ بعض ایسے اعلانات یا مضامین بھی نظروں سے گزرے جو قریبی رشتہ داروں کے بزرگوں کے تھے۔ جب اُن کی فوٹوکاپی اُن کی نسلوں تک پہنچاتا تو وہ حیران اور خوش ہوتے۔ الغرض دادا جان کی وفات اپریل ۱۹۸۲ء تک سارے شمارے دیکھے جس سے نہ صرف معلومات میں بہت اضافہ ہوا بلکہ ایسے لگتا تھا کہ میں جیسے اُسی دَور میں پہنچ گیا ہوں۔ چنانچہ شوق ایسا بڑھا کہ مَیں نے آغاز سے اب تک کی ساری جلدیں دیکھ لیں اور خاندانی معلومات، دادا جان کا کلام اور مضامین اور اپنے والد محترم ناصر احمد ظفر صاحب کے کئی مضامین اکٹھے کیے۔ اس جمع شدہ مواد کو اب شائع کروانے کا ارادہ ہے۔ ………٭………٭………٭……… مزید پڑھیں: طلاق یا خلع