https://youtu.be/PNBgOQejiP0 شہر آسیب میں ایک شام کی پانچویں کڑی بے شمار ایسی بد نصیب لڑکیوں کی دل سوز کہانیاں بکھری پڑی ہیں جو شہرت، پیسہ یا تحسین و تعریف کے لیے اپنے مدار سے نکل گئیں اور آج سوشل میڈیا کی بوسیدہ دیواروں پر زنگ آلودہ کیل بن کر رہ گئی ہیں گذشتہ کڑی میں ہم اس نکتے تک پہنچے تھے کہ ڈیٹا اور تحقیقات کے مطابق نو بالغوں اور بالغوں کی دنیا میں سوشل میڈیا کے بد اثرات لڑکوں کی نسبت لڑکیوں پر زیادہ مہلک ثابت ہو رہے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تحت HBSC نے ۲۰۱۸ء میں پینتالیس ممالک سے دو لاکھ بیس ہزار نو بالغوں کو سروے میں شامل کیا۔ رپورٹ کے مطابق خود آزاری، غذائی نفسیاتی امراض (eating disorders)، باڈی امیج کے مسائل، ڈپریشن اور اضطراب کے عوارض جو سوشل میڈیا، سکرین ٹائم کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں، اِن میں لڑکیوں کی شرح زیادہ ہے۔ اسی طرح Pew ریسرچ سینٹر(امریکی تھنک ٹینک)۲۰۲۴ء کا سروے بھی یہ عیاں کرتا ہے کہ نوبالغ، بالغ لڑکیاں اور خواتین سوشل میڈیا سے منسلک مسائل کا زیادہ شکار ہو رہی ہیں۔ سال ۲۰۲۳ء میں یو ایس سرجن جنرل کی طرف سے ایڈوائزری بھی یہ اشارہ دیتی ہے کہ جوان خواتین زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی، ٹی۔ایچ۔ چان سکول آف پبلک ہیلتھ کی ریسرچ بھی اس سنگین صورتِ حال کو بیان کرتے ہیں۔ اس ضمن میں امریکہ، کینیڈا، یوکے اور آسٹریلیا وغیرہ کے تحقیقاتی مضامین، مقالے، تجربات، ڈیٹا اور سروے سب اس نکتے پر متفق ہیں۔ براعظم ایشیا میں جاپان، چین، سنگاپوراور انڈونیشیا سے جو سروے اور رپورٹس سامنے آئی ہیں، وہ بھی بالکل اس بات کی عکاس ہیں کہ سوشل میڈیا کے مہلک اثرات خواتین کی ذہنی اور جسمانی صحت کو برباد کررہے ہیں۔ آخر اس کے پیچھے وجوہات کیا ہیں کہ عورتوں (نو بالغ، بالغ لڑکیاں اور عورتیں شامل ہیں) کی شرح نسبتاً مردوں سے زیادہ ہے؟ اس کا کھوج لگانے کے لیے ہمیں دنیائے نفسیات کے گلی کوچوں سے گزرنا ہوگا، عورت اور مرد کی نفسیات میں جو فرق ہے اسے سمجھنا ہوگا۔ فطرت کی طرف سے پیدا کردہ یہ فرق کوئی عیب یا نقص نہیں ہے بلکہ عورت اور مرد کا جو الگ الگ سماجی کردار ہے، اس کو احسن طریقے سے نبھانے کا تقاضا ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن کی بنیادی اکائی، کلیدی اینٹ گھر کی تشکیل ہے۔ ایک متوازن سماج صحت مند، مکمل گھرانے کی اساس پر قائم رہتا ہے، جب یہ بنیاد ٹوٹتی ہے تو سماج منتشر ہو جاتا ہے۔ اکثر ذہنی و نفسیاتی امراض کا ماخذ اجڑا ہوا، ٹوٹا پھوٹا، کھنڈر نما، بیمار گھر سامنے آتا ہے اور کھنڈر نما، ناکارہ گھروں میں بھوت جنم لیتے ہیں جو بعد ازاں معاشرے میں سیریل کلرز، سائیکو پیتھ، جنونی پن، ماورائے سماجی شخصیت اور اضطراب و افسردگی میں غرق مریضوں کی صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ عمارت کی بنیادوں میں نقص ہو تو عمارت وقت گزرنے کے ساتھ شکستہ پذیر ہوتی چلی جاتی ہے، اسی طرح گھر یعنی فیملی سٹرکچر ٹیڑھا ہو، ٹوٹ پھوٹ، انتشار کا شکار ہو تو معاشرے تعفن زدہ، بیماریاں پھیلانے والے گندے جوہڑ بن جاتے ہیں۔ گھر کی وضاحت کی جائے تو گھر سے مراد میاں بیوی، اولاد اور دیگر فیملی ممبران پر مشتمل گروہ ہے، گروپ ہے، گھر کا مطلب بے لوث محبت، چاہت، اپنائیت، لگن، وفا داری، اعتماد، احساس اور حسنِ سلوک کے اجزا سے کشیدہ اجتماعیت کا نام ہے۔ ایسے گھر جو اِن اجزائے ترکیبی سے عاری ہوں، وہ گھر نہیں بلکہ محض اینٹ پتھر، سیمنٹ، گارے سے بنی عمارتیں ہیں۔ ۲۰۲۳ء کے ڈیٹا کے مطابق جاپان میں دو کروڑ پچاس لاکھ اپارٹمنٹس ہیں اور تین کروڑ گھر ہیں یعنی ٹیکنالوجی و مادی ترقی میں سب سے آگے ملک جاپان میں کُل پانچ کروڑ پچاس لاکھ رہائشی یونٹس ہیں۔ ان بظاہر دلکش گھروں کی حقیقت یہ ہے کہ جاپان کے شہر ٹوکیو میں پچاس فیصد لوگ اکیلے رہتے ہیں۔ جاپان میں شادی رچانے کا رجحان انتہائی کم ہے، ہزار لوگوں میں سے ایک سے تین افراد شادی کرتے ہیں اور جو افراد فیملی بناتے بھی ہیں، اس کی اساس ناپائیدار اور کمزور ہوتی ہے۔ معروف مضبوط فیملی سٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے یعنی حقیقی گھر کے غائب ہونے کی وجہ سے جاپانی قوم ناخوش، غیر مطمئن اور افسردہ ترین قوموں میں شمار ہوتی ہے۔ جاپان میں خودکشیوں کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ خودکشیوں کو روکنے کے لیے ایک علیحدہ حکومتی ادارہ قائم ہے۔ نئی نسل میں شادی کرنے کا رجحان انتہائی کم ہے اس لیے یہ ملک بوڑھوں کا دیس کہلاتا ہے اور بچوں کی تعداد اتنی تیزی سے گھٹ رہی ہے کہ جاپانی حکومت ہر سال ۴۵۰؍سکولوں کو تالے لگا رہی ہے کیونکہ سکولوں میں پڑھنے کے لیے بچے ہی نہیں ہیں۔ غرض، گھر یعنی معروف پائیدار فیملی سٹرکچر کی اینٹ نکالنے سے تہذیب و تمدن کی پوری عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے، ملکوں کے نقشے بدل جاتے ہیں اور قومیں ناپید ہو جاتی ہیں۔ اگر جاپانی قوم گھر کی طرف نہیں لوٹے گی تو شاید کچھ دہائیوں بعد جاپان میں کوئی جاپانی نظر نہ آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی اور سرمائے سے نہیں بلکہ گھر و خاندان سے سماج زندہ رہتے ہیں۔ عورت کی سرشت میں گھر بستا ہے، اس کے ذہن کے نہاں خانوں میں گھر موجود ہے اور جب کبھی سرمایہ دارانہ نظام عورت کی سرشت میں سے گھر کھرچنے کی کوشش کرے گا تو اس کے انتہائی بھیانک نتائج پیدا ہوں گے جیسے بدترین اثرات ہم جاپان اور دیگر مضبوط فیملی سٹرکچر سے عاری ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ گھر ایک یونٹ، گروہ، گروپ، اجتماعیت کا نام ہے اس لیے عورت کی فطرت کا ایک خاصہ ہے کہ وہ گروپ کے ساتھ وابستہ ہو کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتی ہے، عورت کو connectedرہنا پسند ہے، اجتماعیت، گروہ کے ساتھ جڑ کر مطمئن ہوتی ہے، کمیونٹی میں رہ کر خود کو تلاش کرتی ہے، اجتماعیت سے وابستگی باعثِ تسکین بنتی ہے۔ اس کی خواہشیں اور خواب گروہی رنگ رکھتے ہیں۔ قدرت نے عورت کے اندر گروپ پسندی رکھی ہے، میل جول کی استعداد رکھی ہے، انہیں ٹیم و تعلقات کے دائرے میں رہنا پسند ہے، دوسروں میں رہ کر یہ خیالات بانٹ سکتی ہیں، باتیں کرسکتی ہیں۔ عورت کا مرد سے زیادہ expressive ہونا بھی دراصل ان کے میل جول کی خواہش کا عکاس ہے۔ عورت کا خاندان سے وابستگی کا میلان ایک اور جز ورکھتا ہے یعنی عورت کا جذباتی پن، اس کا جذباتی پہلو عقلی پہلو پر حاوی ہوتا ہے اور یہ عیب نہیں ہے بلکہ نسوانی حسن کا جلوہ ہے۔ جذباتی پہلو کا ایک رنگ یہ ہے کہ عورتوں میں دوسروں کے جذبات، رویوں اور ردعمل کو محسوس کرنے کی استعداد مردوں سے زیادہ ہوتی ہے، تعلقات کے دائروں میں عورت جذبات کو محسوس کرنے کا مادہ رکھتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ عورتوں میں مردوں کی نسبت زیادہ empathy کا عنصر موجود رہتا ہے۔ عورت جذباتی پن اور احساس کے مصالحوں سے ہی گھر کے اندرون کو سجاتی ہے، در و دیواروں کو دلکش بناتی ہے، گھر کے ڈھانچے کو محبت و وفا کے رنگ روغن سے چمکاتی ہے۔ عورت کی یہ جبلت کہ وہ تعلقات کے بندھنوں میں اپنی دنیا بساتی ہے، یہ میلان بچپن کے کھیلوں میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ بچی گڑیا کے ساتھ صرف کھیلتی نہیں ہے، وہ اس کے ساتھ جذباتی تعلق بناتی ہے، وہ گڑیا کے بے جان گالوں اور ہونٹوں کو چومتی ہے، وہ اسے گود میں بٹھائے باتیں کرتی ہے اور رات کو بستر میں ساتھ چمٹا کر سو جاتی ہے۔ دوسری طرف بچہ وہ کھیل اور کھلونے پسند کرتا ہے جس کے ذریعے وہ طاقت و قوت کا مظاہرہ کر سکے۔ عورت تعلقاتی مخلوق ہے، عورت وجود کے حصوں کو تعلقات کے دھاگوں میں پرو کر پہچان بناتی ہے، ماں، بیٹی، بہن، بیوی اس کی گروہی و تعلقاتی نیچر کے مختلف رنگ ہیں۔ مغربی معاشرے کی تعلقات کے بندھنوں سے آزاد عورت زندگی کے روز و شب میں لاشعوری طور پر اپنی فطرت کے تہ خانوں میں زنجیروں سے جکڑے صندوق کے اندر گھر کے احساس کو جگانے کا راستہ ضرور تلاش کرتی ہے، لیکن یاد رکھیں انسان کے پلٹنے سے وقت نہیں پلٹتا، وقت انسان کا خدمت گزار تو ضرور ہے پر انسان وقت کا مالک نہیں ہے۔ جو لوگ مغرب کی نسوانی آزاد خیالی کو درست سمجھتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی کے نام پر وحشیانہ پن کا تاوان نسلیں بھی ادا کرتی ہیں۔ انہیں جاپانی سکول گرلز کا احوال مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ جاپان میں کئی سال سے یہ ٹرینڈ بڑھ رہا ہے کہ سکول گرلز چند ٹکوں کے گفٹ کی خاطر امیر بوڑھوں کی عیاشی کا سامان بننے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں، ایسی لڑکیاں خود کو commodity سمجھتی ہیں جس پر price tag لگا ہوتا ہے۔ غرض، عورت جب گھر کے مدار سے باہر نکلتی ہے تو خلا میں دور بہت دور بھٹکتی پھرتی ہے، کوئی سیارہ ، ستارہ اسے قبول نہیں کرتا ، وہ خلا کا کچرا بن جاتی ہے ۔ اب کچھ تذکرہ مرد کی نفسیات کا بھی کر لیا جائےتو بہتر ہے۔ مرد (نوبالغ، بالغ لڑکے اور مرد شامل ہیں) گروپ کی بجائے انفرادیت کی طرف میلان رکھتا ہے۔ مرد گروہ کے ساتھ ایک تعلق رکھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو گروہ سے الگ ہو کر دکھانا چاہتا ہے، وہ اجتماعیت سے زیادہ انفرادیت کے مظاہروں کا دل دادہ ہوتا ہے۔ مرد گروپ سے وابستگی پر محض مطمئن نہیں ہوتا، وہ قوت و طاقت اور اپنی صلاحیتوں کا اظہار انفرادی دائرے میں کر کے خوش ہوتا ہے۔ عہدِ طفولیت میں بچہ جب کنچے (marbles) کھیلتا ہے تو وہ خود فیصلہ سازی کرتا ہے اور جیتنے کے لیے حکمت عملی بناتا ہے، پتنگ بازی کے دوران بھی وہ اکیلا فیصلے لیتا ہے، فوری عمل کرتا ہے، اپنی جیت کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ بادشاہ وزیر کے کھیل میں بچہ بادشاہ بننا پسند کرتا ہے، چور سپاہی کے کھیل میں سپاہی بننے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ یہ کردار طاقت و بالادستی کی جھلک ہیں۔ مرد روٹی کمانے کا ذمہ دار ہے۔ یہاں روٹی کا معنی وسیع تر ہے، ایسے تمام بیرونی نفع رساں سامان و اسباب جو گھر کے اندرون کو محفوظ و پائیدار بنانے کے لیے ضروری ہوں، ایک لفظ روٹی میں سمٹ آئے ہیں۔ گھر سے باہر کی دنیا جو موازنہ و مقابلے اور مخفی و ظاہر ممکنہ نقصانات و خطرات کی دنیا ہے، اس میں روٹی کمانے کے لیے قوت و طاقت و استقامت اور بالادستی کی استعدادیں درکار ہوتی ہیں اور عملی دنیا میں جذبات سے زیادہ عقل کو آگے رکھنا پڑتا ہے، اس لیے مرد کا عقلی پہلو جذباتی پہلو پر حاوی ہوتا ہے۔ مرد دوسروں کے سامنے کم اظہار پسند ہوتے ہیں، وہ رنج و الم کے عالم میں چہرہ دیوار کی طرف موڑتے ہیں، جیب سے رومال نکال کر آنسو پونچھتے ہیں اور پھر شب و روز کے دھندوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ میر تقی میر کا ایک شعر یاد آتا ہے: ہم مرد ہیں ہم مردوں کا احوال نہ پوچھو جو دل پہ گزرتی ہے وہ کہہ بھی نہیں سکتے کمرے میں مرد اکٹھے بیٹھے ہوں تو ان کی باتیں سرکاری ملازم کی تنخواہ کی طرح بڑی سرعت سے ختم ہو جاتی ہیں اور باقی وقت وہ چھت اور دیواروں کو گھورتے گزارتے ہیں۔ دوسری طرف عورتوں کی باتیں عمرو عیار کی زنبیل کی مانند ہوتی ہیں، کبھی ختم ہونے میں نہیں آتیں۔ ہر مرد میں تھوڑا تھوڑا انشاجی پایا جاتا ہے: انشا جی اٹھو اب کوچ کرو۔ اس شہر میں جی کو لگانا کیا۔ عہدِ آفرینش کا تنہا مرد جو بانس کا سوٹا تھامے گھنے تاریک جنگلوں میں شکار کے لیے گھومتا تھا، آج بھی ماڈرن مرد کے اجتماعی لاشعور میں چھپا بیٹھا ہے۔ عورت اور مرد کا یہ نفسیاتی جائزہ عمومی ہے، اس میں استثنا کا دروازہ کھلا ہے۔ بہرحال اب ہم عورت کی طرف دوبارہ واپس آتے ہیں۔ جب عورت ڈیجیٹل دنیا میں داخل ہوتی ہے تو اسے سوشل میڈیا کے عجائب خانوں میں گروپ و گروہ سے وابستگی کی خواہش کی تسکین کے بے پناہ مواقع میسر ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کمپنیاں نفسیاتی تکنیک استعمال کرتی ہیں۔ واٹس ایپ، فیس بک گروپس، انسٹاگرام کمیونٹی، ایکس نیٹ ورکس وغیرہ لوگوں کے ساتھ جوڑ کر خود کو نمایاں کرنے کے شکنجے ہیں۔ سوشل میڈیا عورت کی سرشت میں سوئے گھر کو ورغلاتا ہے، اسے دھوکے و وہم پر مبنی اجتماعیت کی طرف ہانک دیتا ہے۔ سوشل میڈیا عورت کو گروپ ممبر، گروپ ایڈمن اور گروپ ماڈریٹر کی پیشکش کرتا ہے، سوشل میڈیا گھر کا وہم بیچتا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا گھر کے نام پر حقیقی گھر لوٹ لیتی ہے۔ عورت کی تعلقات کے بندھنوں میں رہ کر خود کو منوانے کی خواہش سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے بلینک چیک بن گئی ہے۔ ڈیجیٹل دنیا آن لائن تعلقات کے ان گنت جزیرے آفر کرتی ہے لیکن یہ فرضی و بناوٹی جزائر جلد ہی مکینوں سمیت غرق ہوجاتے ہیں۔ منہ زور، طغیانی مائل موجوں پر گھر تعمیر نہیں ہوسکتے۔ یہ شہرِ آسیب کا پھونکا ہوا طلسم ہے کہ گہرے وسیع سمندر کے بیچ گھر بسا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے عہد سے پہلے گروپ محدود ہوتے تھے، گھر کے افراد، عزیزو رشتہ دارسکول و محلے کی سہیلیاں اور بس۔ آپ کے دماغ میں لگا سماجی میٹر (وہ احساس جو آپ کو بتاتا ہے کہ آپ گروپ میں کہاں stand کرتے ہیں) اسی محدود گروپ میں آپ کی رینکنگ کرتا تھا کہ آپ اس گروپ میں کہاں کھڑے ہیں، آپ دوسروں کی نسبت کتنے اچھے ہیں یا آپ کتنے برے ہیں، آپ دوسروں کے لیے مددگار ہیں یا بیکار ہیں اور لوگوں کے نزدیک آپ کی گروپ میں کتنی اہمیت ہے۔ سماجی میٹر جو نتائج اخذ کرتا تھا وہ حقیقی ڈیٹا پر مبنی ہوتے تھے یعنی تعلقات کے تناظر میں ایک دوسرے کے لیے عمل و ردعمل، رویے اور ایک دوسرے کے بارے میں طرزِ کلام و گفتگو، چہرے کے تاثرات، لہجوں کا اتار چڑھاؤ، گرم جوشی، سرد مہری۔ دوسری طرف ڈیجیٹل دنیا میں گروپ کے ممبرز ہزاروں لاکھوں تک بھی ہو سکتے ہیں یعنی پہلے جو حلقہ احباب تھا وہ حقیقی بھی تھا اور محدود بھی تھا لیکن آن لائن کمیونٹی سٹائل پلیٹ فارمز پر حلقہ شناسائی وسیع ہوتا ہے، سینکڑوں ہزاروں لاکھوں ممبرز ایک گروپ میں ہو سکتے ہیں۔ اب ان کے درمیان ایک عورت کے دماغ کا سماجی میٹر اسے کس طرح رینک کرے گا؟ سماجی میٹر ڈیجیٹل اشاروں: لائک، شیئر، کمنٹس، ایموجیز، چیٹ کی بنیاد پر رینک کرے گا اور یہ رینکنگ ہر صورت عورت میں اضطراب اور افسردگی کا باعث بنے گی کیونکہ اگر رینکنگ اچھی ہوگی تب بھی یہ ایک وہم اور دھوکہ ہے اور اگر بری ہوگی تو یہ نتائج اصلی حقیقی ڈیٹا پر قائم نہیں ہیں بلکہ ڈیجیٹل ناٹک بازی ہے۔ ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ فرض کریں زیٰ نامی لڑکی اپنے والدین، بہن بھائیوں کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کی ذہنی قابلیت اور دوسروں کے لیے احترام و ادب کی وجہ سے بڑے چھوٹے عزیز سب اس کی تعریف کرتے ہیں، اپنے عمل و قول سے زیٰ کے لیے پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اسے تحسین و محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ مشکل معاملات میں اس سے مشورے لیتے ہیں۔ جب گھر میں عزیز و رشتہ دار آتے ہیں تو وہ بھی اس کے گن گاتے ہیں۔ اب زیٰ کے دماغ میں نصب سماجی میٹر اس سارے ڈیٹا کی بنیاد پر گھر و عزیزوں کے گروپ میں اس کی رینکنگ زیرو سے دس کے سکیل پر آٹھ نمبر پر کرتا ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے کہ زیٰ فیس بک، انسٹاگرام وغیرہ پر گروپس جوائن کرتی ہے۔ گروپس اور آن لائن کمیونٹی میں ہزاروں ممبرز ہیں۔ اب زیٰ کا سماجی میٹر اس کی رینکنگ ہزاروں کے درمیان کرے گا اور غیر حقیقی اشاروں کی بنیاد پر کرے گا۔ آن لائن دنیا میں زیٰ زیرو سے دس کے سکیل پر زیرو پر بھی ہو سکتی ہے اور دس پر بھی، دونوں صورتوں میں نتائج ناقابلِ بھروسہ ہیں کیونکہ سائبر ورلڈ کے اشارے غیرحقیقی ہیں۔ قدیم دماغی سماجی میٹر جب جدید سوشل میڈیا کی تخلیق کردہ readings قبول کرنے لگتا ہے تو گھر کی چار دیواری میں بیٹھی ذہین، سلیقہ شعار لڑکی ذہنی الجھنوں کا شکار ہو سکتی ہے۔ سماجی میٹر اور سوشل میڈیا کا اختلاط ایک پھندا ہے جس سے عورتیں اضطراب و افسردگی کی مصیبت میں پھنس جاتی ہیں۔ دوسرا پھندا تعلقاتی جارحیت ہے۔ مرد کی جارحیت عموماً حریف کے خلاف جسمانی ہوتی ہے۔ طیش میں اکثر دست و گریبان ہوجاتے ہیں لیکن عورتیں تعلقاتی جارحیت کا انداز اپناتی ہیں، لڑائی ہو جائے تو مخالف کی ساکھ (repute) پر حملہ کیا جاتا ہے تاکہ خاندان و گروپ میں اس کے دوسروں کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ زنانہ لڑائیاں ڈاکٹر کلیم عاجز کے اس شعر کی عکاس ہوتی ہیں: دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو عورتوں کی لڑائیوں میں نہ گولی چلتی ہے نہ خنجر کے وار ہوتے ہیں، صرف زبان ہی سے کرامات ہو جاتی ہیں۔ غیبت و چغل خوری اور بد گوئی تعلقاتی جارحیت کی مثالیں ہیں۔ آن لائن گروپس، نیٹ ورکس اور کمیونٹی میں جب ایک عورت اپنی حریف کے کردار و ساکھ پر حملہ کرتی ہے تو اس کی شدت اور دائرہ اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اصل دنیا میں ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کر کے ان کے سامنے دشمن کو برا بھلا نہیں کہا جا سکتا لیکن ڈیجیٹل دنیا میں ہزاروں کے سامنے مخالف کی ساکھ و کردار کے پرخچے اڑائے جا سکتے ہیں، دن رات اس کی ٹرولنگ کی جاسکتی ہے تاکہ لوگوں کو متنفر کیا جا سکے۔ سوشل میڈیا عورتوں کو تعلقاتی جارحیت کے اظہار کے بے پناہ راستے فراہم کرتا ہے۔ آن لائن گروپس اور کمیونٹی طرز کے ایپس میں ہونے والے زنانہ جھگڑوں میں بے لگام ٹرولنگ اور سائبر بلیئنگ کے باعث متاثرہ عورت کو public shaming کی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے اور اس کے نتیجے میں خودکشیوں اور خود آزاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گروہی سماجی شرمندگی کا تناؤ مضبوط اعصاب کے حامل مردوں کو بھی چکنا چور کرسکتا ہے۔ کچھ سال پہلے ایک سی ایس ایس جوان پولیس افسر کی دردناک کہانی سامنے آئی۔ پولیس افسر دوست کی شادی میں شریک تھا کہ وہاں اس کے ساتھیوں نے مشروب میں پارٹی ڈرگ ملا کر اسے پلا دی، پارٹی ڈرگ کے زیرِ اثر افسر نامناسب حرکتیں کرنے لگا۔ ڈرگ کے زیرِ اثر اس کی نازیبا حرکتیں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔ پھر آن لائن گروپس سے ہوتی ہوئی اس کی ویڈیو جب اس کے موبائل تک پہنچی تو افسر سماجی شرمندگی کو زیادہ دن برداشت نہ کر سکا اور اس نے افسردگی و بےبسی کے عالم میں پولیس سٹیشن میں سرکاری پستول سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔ ایک اور دلخراش قصہ کچھ عرصہ پہلے وقوع پذیر ہوا۔ ملک کا مشہور ٹی وی اینکر، مذہبی عالم جو اعصابی طور پر چٹان کی مانند لگتا تھا، سوشل میڈیا پر اپنی چند سیکنڈ کی غیر مناسب ویڈیوز لیک ہونے کے باعث سماجی شرمندگی کے کرب سے گزرا اور پھر افسردگی کے عالم میں جہان فانی سے کوچ کر گیا۔ اب ذرا سوچیں جب مضبوط مردوں کا یہ حال ہو سکتا ہے تو پھر سماجی و گروہی شرمندگی کی اذیت نو بالغ اور بالغ لڑکیوں پر کیسا مہلک اثر ڈالتی ہوگی۔ رواں سال کیلیفورنیا میں ہونے والی ایک سٹڈی کے مطابق ایمرجنسی روم اور ان پیشنٹ ڈیٹا کے مطابق خود آزاری کے جتنے کیسز آتے ہیں ان میں تہتر فیصد نو بالغ، بالغ لڑکیوں کے ہیں۔ آسٹریلیا، کینیڈا، یوکے اور دیگر ممالک میں جو ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے اس میں لڑکیوں میں خود آزاری کی انتہائی بلند شرح نمایاں ہے۔ ہسپتالوں کے ایمرجنسی روم میں لڑکیوں کی لہو رستی کلائیاں اوور ڈوز کے باعث موت کے منہ میں سرکتی نوخیز زندگیاں، آگ سے جھلسے جسم، یہ سب تکلیف دہ مناظر سال دو ہزار دس سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں، وہی وقت جب سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کا جن بوتل سے باہر آ چکا تھا۔ فیس بک نے اگست ۲۰۱۰ء میں گروپ کا فیچر متعارف کروایا۔ عورت گروپ، تعلقات، رابطے اور روابط کو اہمیت دیتی ہے اس لیے انہوں نے آن لائن گروپس، کمیونٹیز اور نیٹ ورکس میں جینا شروع کر دیا، connected رہنے کی جبلت نے انہیں سکرین میں مگن کر دیا۔ عورت آسیب زدہ گھر میں اٹک گئی اور اس جعلی گھر کی حقیقت ڈیجیٹس کے مجموعے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے ہر انسان ایک عدد ہے، ایک ڈیجٹ ہے اور آن لائن گروپس اعداد کا مجموعہ ہیں، نمبرز کا میزان ہیں اور عورت نمبرز کے اس گورکھ دھندے میں اپنے اصلی جیتے جاگتے وجود کو پھونک دیتی ہے۔ جب کھلے گہرے سمندر کے وسط میں کانچ کا بنا گھر سماجی میٹر کی قلابازیوں، سائبر بلیئنگ، ٹرولنگ، سماجی جارحیت یا سماجی شرمندگی سے لبریز موجوں کی زد میں کرچی کرچی ہو کر ٹوٹ جاتا ہے تب بد قسمت عورت ایمرجنسی روم کے ریکارڈ کا ایک عدد بن جاتی ہے اور پھر کوئی تحقیقاتی سر پھرا اس عدد کو اٹھا کر اپنے آرٹیکل کی زینت بنا لیتا ہے۔ ناصر کاظمی کا ایک شعر دل کو اور گداز کرتا ہے: یہ زندگی بھی حساب ہے ناصر کوئی جمع ہے کوئی تفریق ہے یہاں ان عورتوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو سوشل میڈیا کی چکا چوند سے متاثر ہو کر اپنے عورت ہونے کو کیش کرواتی ہیں، شہرت، پیسہ یا واہ واہ کی خاطر اپنی تشہیر کرتی ہیں، بالآخر ان کا حال ایسا ہوتا ہے کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ویران گھروں کی بوسیدہ دیواروں پر زنگ آلودہ کیل لگے رہ جاتے ہیں، یہ کیل اس بات کے نشان ہوتے ہیں کہ یہاں کبھی کوئی تصویر آویزاں ہوگی۔ سوشل میڈیا کی دنیا بڑھتے کم ہوتے digits کا شمار رکھتی ہے۔ تا حیات سوشل میڈیا پر زندہ رہنے کی تگ و دو کا پھل زہریلا ہے۔ بے شمار ایسی بد نصیب لڑکیوں کی دل سوز کہانیاں بکھری پڑی ہیں جو شہرت، پیسہ یا تحسین و تعریف کے لیے اپنے مدار سے نکل گئیں اور آج سوشل میڈیا کی بوسیدہ دیواروں پر زنگ آلودہ کیل بن کر رہ گئی ہیں۔ عورتوں کی ذہنی صحت برباد کرنے والا تیسرا پھندا ڈپریشن کی وبائی نوعیت ہے۔ خوشی اور افسردگی دونوں وبا کی طرح ایک سے دوسروں کو لگتے ہیں۔ محفل میں ایک خوشی سے چہکتا، مسکراتا شخص دوسروں کے مزاج کو خوشگوار بنا دیتا ہے۔ اسی طرح اداسی میں لپٹا ہوا انسان دوسروں کو سوگوار کر دیتا ہے۔ تحقیقات کے مطابق عورت سے عورتوں میں ڈپریشن بڑی تیزی سے پھیلتا ہے، عورت سے عورت کو ڈپریشن بڑی آسانی سے منتقل ہو جاتا ہے۔ آن لائن گروپس، نیٹ ورکس اور کمیونٹی میں موجود ایک افسردہ عورت باقی فی میل ممبران کو ڈپریشن کا مریض بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یاد رکھیں مرد سے عورت یا عورت سے مرد میں ڈپریشن اتنی آسانی و سرعت کے ساتھ منتقل نہیں ہوتا جتنی آسانی سے ڈپریشن ایک عورت سے دوسری عورت کو لگتا ہے۔ غالباً ۱۹۷۵ء سے سعیدہ افضل نے اردو میگزین میں تین عورتیں تین کہانیاں کا سلسلہ شروع کیا، عورتوں کی ان غمناک، روح پر لرزہ طاری کر دینے والی اداس ترین کہانیاں پڑھ کر تو مرد بھی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتے ہوں گے۔ پھر جب ڈائجسٹ کا دور آیا تو خواتین ڈائجسٹ نے نسلوں کو بہت رلایا۔ بعد ازاں عورتوں میں ڈپریشن پھیلانے کی ذمہ داری ڈراموں نے لے لی۔ مظلوم، لاچار، بے بس، مجبور، دکھ بھری، غمگین عورت والے ڈرامے معاشرے میں افسردگی، گھریلو ناچاکی، ناشکری بانٹنے کے وائرس بنگئے۔ مظلوم بمقابلہ ظالم عورت یا مجبور و بے بس عورت اور استحصالی مرد کے فسانے سب دکھ و بے سکونی بیچنے کی سستی دکانیں ہیں۔ مارننگ شوز نے بھی افسردگی کے بیوپار میں خاصا حصہ ڈالا ہے۔ مارننگ شو کے تخلیق کار گھر میں بیٹھی عورت کو engage کرنے کے لیے اس کی سرشت میں چھپی empathy کی استعداد کو ابھارتے ہیں یعنی وہ اس طرح کہ گھریلو عورت کو جذباتی کرنے اور رلانے کے لیے مارننگ شو میں ایسے دکھی انسان کو بلایا جائے جو آنسوؤں کے دریا بہا دے۔ یاد رکھیں جو چیز آپ کی فطرت تک پہنچ کر اسے گدگدانے کی صلاحیت رکھتی ہے تو انسان اس چیز کی طرف کھنچتا ہے۔ ذرا سوچیں ہمیں عموماً کڑوی چیز کے مقابلے پر میٹھی چیز کیوں پسند آتی ہے؟ دراصل لاکھوں سالوں کے ارتقائی سفر میں انسان نے یہ بات سیکھی کہ میٹھا پھل، میٹھی چیز نفع رساں ہوتی ہے کیونکہ وہ جسم کو فوری توانائی پہنچاتی ہے اور کڑوی چیز نقصان کا باعث بن سکتی ہے، اب یہ بقا سے متعلق اہم معلومات انسانی فطرت کا حصہ بن گئی اور ہمارے taste buds اس لائن پر develop ہو گئے۔ بچے بڑے ٹافیوں، سویٹس، میٹھے کی طرف کھنچتے ہیں کیونکہ میٹھا ہماری قدیم فطرت میں جاگزیں ہے۔ اسی طرح دوسروں کے جذبات کو اس طرح محسوس کرنا جیسے دوسروں کے جوتوں میں اپنے پاؤں ڈال لینا… یہ عورت کا مزاج ہے اور میڈیا انڈسٹری اس میلان کو exploit کرتی ہے۔ اب جس طرح زائد میٹھا خرابی صحت کا باعث بنتا ہے اس طرح ایک ایسے ماحول میں رہنا جہاں مصنوعی طریقوں سے oversensitivity پیدا کی جائے، جذباتی مسائل کا سبب بنتا ہے۔ اب ڈیجیٹل دنیا میں جا بجا ڈپریشن کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں، افسردگی کے ان اڈوں کو اگر عورت چلا رہی ہے تو اس کے اردگرد عورتیں اس سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ اداس شاعری، پریشان کن خبریں، تنگ دستی، گھریلو لڑائیاں، خوفناک images، رونگٹے کھڑے کر دینے والی ویڈیوز سب گروپس میں گردش کرتا رہتا ہے۔ عورت سوشل سپورٹ حاصل کرنے کے لیے گروپ جوائن کرتی ہے لیکن یہ انتخاب خود بیماری کا سبب بن جاتا ہے، ادھر میر تقی میر یاد آ گئے: میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں یہاں پہ ایک نکتہ قاری کے لیے حیرت انگیز ہوگا۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ جسمانی وبائی بیماریاں بائیو لوجیکل عوامل کی وجہ سے پھیلتی ہیں جیسا کہ کورونا کی وبا تھی لیکن ایسی جسمانی وبائی بیماریاں تاریخ انسانی میں ملتی ہیں جن کے پیچھے کوئی حیاتیاتی وجوہات نہیں تھیں، دراصل ان کے پیچھے سماجی عوامل تھے۔ ایسی وبائی بیماریاں جن کے پیچھے بائیو لوجیکل وجوہات نہ ہوں بلکہ سماجی عوامل کار فرما ہوں انہیں sociogenic illness کہتے ہیں اور ان کا زیادہ شکار عورتیں بنتی ہیں۔ تاریخ میں ہمیں ایسی سماجی وبائی بیماریوں کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جیسا کہ ۱۹۸۳ء میں جرمنی کے مغربی کنارے میں ہزاروں لڑکیاں اور عورتیں بے ہوش ہونے لگیں۔ پہلے تو لگا کہ زہریلی گیس وجہ ہے پھر تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ اس کی وجہ نفسیاتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے مشہور کیس dancing plague of ۱۵۱۸ ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ فرانس میں ہزاروں لوگ بے قابو ہو کر ڈانس کرنے لگے، کئی لوگ مسلسل ڈانس کرتے تھکن اور دل کا دورہ پڑنے سے مر گئے۔ اب اس وبائی ڈانس کی کوئی حیاتیاتی وجہ نہیں تھی، اس کی وجہ اجتماعی ہسٹیریا و سماجی دباؤ تھا۔ ۱۹۶۲ء میں تنزانیہ کے ایک سکول میں چند لڑکیاں ہنسنے لگیں، ان کی بے قابو ہنسی آس پاس کے کئی دیہات تک پھیل گئی، بہت سے لوگ کئی مہینوں تک اس سے متاثر رہے۔ اسی طرح پندرھویں صدی میں فرانس کے ایک گرجا میں بہت ہی عجیب واقعہ پیش آیا وہاں پر مقیم ایک نن نے بلی کی طرح میاؤں میاؤں کی آوازیں نکالنا شروع کر دیں، اس کی دیکھا دیکھی باقی ننوں نے بھی بلی کی آوازیں نکالنا شروع کر دی، وہ سارا دن میاؤں میاؤں کی آوازیں نکالتی رہتیں، آخر ان کو چپ کرانے کے لیے حکومتی اہلکاروں کو حرکت میں لانا پڑا۔ ایسے تعجب انگیز سماجی وبائی امراض سماجی رابطوں اور ذہنی اثرات کے ذریعے پھیلے تھے اور اس کے اسباب سماجی دباؤ، خوف، ذہنی تناؤ تھے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ دورِ حاضر میں سوشل میڈیا کے سبب سماجی وبائی امراض کے کیسز سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ماہرین ایسی بیماریوں کو social media induced illnessکہتے ہیں، تحقیقات کی دنیا میں اسے digital mass hysteria کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کریں۔ فیس بک، واٹس ایپ گروپس میں ایک علاقے کے متعلق افواہ گردش کرنے لگی کہ علاقے میں زہریلی گیس پھیل گئی ہے، افواہ پھیلتے ہی سینکڑوں لوگوں کو سانس لینے میں تنگی کی تکلیف ہو گئی حالانکہ کوئی زہریلی گیس نہیں پھیلی تھی۔ ایسے بھی کیسز سامنے آ رہے ہیں کہ لوگ انٹرنیٹ پر دل اور دیگر امراض کے متعلق خبریں consumeکرتے ہیں اور پھر انہیں اپنے سینے میں درد محسوس ہونے لگتا ہے یا پھر خود کو کسی بیماری میں مبتلا سمجھنے لگتے ہیں، اس حالت کو cyberchondria کی اصطلاح سے منسوب کیا جاتا ہے۔ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران آسٹریلیا، جرمنی، یوکے سے ہزاروں نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں میں Tourette syndrome کے کیسز سامنے آنے لگے، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس بیماری کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ یہ ایک نیورولوجیکل بیماری ہے اس میں مریض اچانک کوئی حرکت کرنے لگتا ہے جیسے اچانک جسم کے کسی حصے کو جھٹکا دینا، چیخنا چلانا شروع کر دینا، گانا شروع کر دینا ہے۔ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ جن نوجوا نوں میں اس مرض کی علامتیں پائی گئیں وہ سب ایک ایسے social media influencer کے مداح تھے جسے یہ بیماری نیورولوجیکل خرابی کی وجہ سے تھی۔یہاں یہ وضاحت پھر ضروری ہے کہ سماجی نفسیاتی وبائی بیماری کسی جادوئی وائرس کی وجہ سے نہیں پھیلتی بلکہ یہ سماجی رابطوں کے ذریعے پھیلتی ہے اور آج کے دور میں سوشل میڈیا کے ذریعے سماجی نفسیاتی وبائی امراض کے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ انسٹاگرام اور دیگر ایپس پر غیر حقیقی خوبصورتی کے معیار ات اور مقابلے بازی نفسیاتی اور جذباتی مسائل کا باعث بن رہے ہیں اس کا تفصیلی ذکر گذشتہ کڑی میں آ چکا ہے۔ سلسلے کی اگلی کڑی میں انشاجی سے تفصیلی ملاقات کا شرف حاصل کریں گے ان شاء اللہ۔ ٭…٭…٭