https://youtu.be/rzY_W_1FG8w ٭… آنحضورﷺ عموماً اپنی جنگی مہمات کو خفیہ رکھا کرتے تھے مگر خیبر کے بعد تبوک کی مہم ایسی تھی کہ آپؐ نےعام ا علان فرمادیا اورراستے کی مشکلات اور دشمن کی کثرت کا پہلے سے بتا دیا ٭… اکثر مَیں واقعات بیان کرتا ہوں، بعض لوگ حقیقت میں ان کے پاس جو کچھ ہو وہ پیش کر دیتے ہیں۔ امراء کو بھی ، صاحبِ حیثیت لوگوں کو بھی حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے نمونے اپنے سامنے رکھنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے امراء ایسے ہیں جو اعلیٰ معیار کی قربانیاں کر رہے ہیں ٭…سانحہ ربوہ کے زخمیوں کے لیے دعا کی تحریک ٭… مکرم سام علی نینا صاحب آف مارشل آئی لینڈ زکا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۷؍اکتوبر۲۰۲۵ء بمطابق ۱۷؍اخاء۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۷؍اکتوبر۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينے کي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:جیسا کہ گذشتہ خطبے میں غزوۂ تبوک کے متعلق کچھ مختصر ذکر ہوا تھا، اُس کی کچھ مزید تفصیل آج بیان کروں گا۔ حضرت مصلح موعودؓ غزوۂ تبوک کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں جب رسول اللہﷺ نے مکّہ فتح کیا تو ابوعامرمدنی جو خزرج قبیلے میں سے تھا اور یہودیوں اور عیسائیوں سے میل ملاقات کی وجہ سے ذکرو وظائف کا عادی تھا اور لوگ اسے راہب کہتے تھے۔ مگر مذہباً عیسائی نہیں تھا۔ یہ شخص رسول اللہﷺ کی مدینے آمد کے بعد مکے بھاگ گیاجب مکہ بھی فتح ہوگیا تو یہ سوچنے لگا کہ اسلام کے خلاف شورش پیدا کرنے کے لیے کوئی نئی تدبیر سوچنی چاہیے۔ آخر اس نے اپنا نام اور طرز بدلی اور مدینے کے پاس قبا نامی گاؤں میں رہنا شروع کیا۔ سالہا سال باہر رہنے کی وجہ سے مدینے کے لوگوں نے اسے نہ پہچانا۔ اس نے مدینے کے منافقوں کے ساتھ مل کر یہ تدبیر کی کہ مَیں شام میں جاکر عیسائی حکومت اور عرب عیسائی قبائل کو بہکاتا ہوں اور انہیں مدینے پر حملہ کرنے کے لیے تحریک کرتا ہوں۔ اِدھر تم یہ مشہور کردو کہ شامی فوجیں مدینے پر حملہ کرنے والی ہیں۔ آمدہ خبروں کے پیشِ نظر آنحضورﷺ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر رومیوں سے مقابلہ کرنےمیں تاخیر کی تو اس کے نقصان زیادہ ہوں گے لہٰذا آپؐ نے فیصلہ کیا کہ رومیوں کو حملے کا موقع دیے بغیر اُن کے علاقے میں جاکر فیصلہ کُن جنگ کی جائے۔ آنحضورﷺ عموماً اپنی جنگی مہمات کو خفیہ رکھا کرتے تھے مگر خیبر کے بعد تبوک کی مہم ایسی تھی کہ آپؐ نےعام ا علان فرمادیا اورراستے کی مشکلات اور دشمن کی کثرت کا پہلے سے بتا دیا۔ یہ قحط کا سال تھا، غذا کی تنگی تھی، لوگ اپنی فصلیں سمیٹنے کی فکر اور تیاری میں تھے کہ جہاد پر نکلنے کا اعلان ہوگیا۔ گرمی کا موسم تھا، سینکڑوں مِیل کا سفر اور زادِ راہ کی تنگی اس کے علاوہ تھی۔ ان سب مسائل کے ہوتے ہوئے آنحضورﷺ کی طرف سے جب جہاد پر جانے کا حکم ہوا تو جاںنثار صحابہ جہاد کی تیاری کرنے لگے۔ اس موقعے پر مخیر صحابہ ؓکوآنحضورﷺ نے قربانی کی تحریک کی تو سب سے پہلے حضرت ابوبکرصدیقؓ اپنے گھر کا سارا مال لے کر حاضر ہوگئے۔ حضرت عثمانؓ نے تین سَو تیار اونٹ پالانوں اور کجاووں سمیت اس جنگ کے موقعے پر پیش کیے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ عثمان پر کوئی گرفت نہیں جو بھی اُس نے اِس کے بعد کیا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عثمان ؓنے اس موقعے پر ایک ہزار دینار بھی پیش کیے تھے۔ ایک اَور روایت کے مطابق حضرت عثمانؓ نے اس موقعے پر ایک ہزار اونٹ اور ستّر گھوڑے پیش کیے۔ بعض روایات کے مطابق اس جنگ کے جملہ اخراجات حضرت عثمانؓ نے برداشت کیے تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے متعلق مذکور ہے کہ انہوں نے اس موقعے پر ایک سَو یا ایک روایت کے مطابق دو سَو یا چار سَو اوقیہ چاندی پیش کی تھی۔ حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کے افراد بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ مالی قربانیوں کی کیا اہمیت ہے۔ اکثر مَیں واقعات بیان کرتا ہوں، بعض لوگ حقیقت میں ان کے پاس جو کچھ ہو وہ پیش کر دیتے ہیں۔ امراء کو بھی ، صاحبِ حیثیت لوگوں کو بھی حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے نمونے اپنے سامنے رکھنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے امراء ایسے ہیں جو اعلیٰ معیار کی قربانیاں کر رہے ہیں۔ اس موقعے پر مخیر صحابہؓ کے ساتھ غریب اور نادار صحابہؓ نے بھی حسبِ توفیق مالی قربانیاں پیش کیں۔ منافقین ان غریب صحابہؓ کی قربانیوں کا مذاق اڑاتے کہ یہ مٹھی بھر اناج پیش کرکے رومیوں سے جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ عورتوں نے بھی اس موقعے پر اپنے زیورات پیش کرکے مالی قربانی میں حصہ لیا۔ منافقین نے اپنی طرف سے بھرپور زور لگایا اور مسلمانوں کو جنگ پر جانے سے روکنے کی کوششیں کرتے رہے۔ منافق کہتے تھے کہ گرمی شدید ہے، جس دشمن سے جنگ پیش آنے والی ہے وہ بہت طاقت ور ہے۔ مدینے کے لوگ زراعت پیشہ تھے اور فصلیں تیار کھڑی تھیں۔ بہرحال منافقین لوگوں کو جنگ پر جانے سے روکتے تھے مگر مخلص صحابہؓ پر ان کے پراپیگنڈے کا اثر نہ ہوتا تھا۔ منافقین حضورﷺ کے سامنے پیش ہوتے اور جنگ پر نہ جانے کے لیےعذر پیش کرتے، حضورﷺ ان سب کو اجازت دے دیتے۔تاہم قرآن کریم نے ان سب منافقین کی پردہ دری کردی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر فاصلہ قریب کا ہوتا اور سفر آسان ہوتا تو وہ ضرور تیرے پیچھے چلتے، مگر مشقت اٹھانا اُن سے بہت دُور ہے۔ وہ ضرور اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہمیں توفیق ہوتی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ نکلتے۔ وہ اپنی ہی جانوں کو ہلاک کر رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ وہ ضرور جھوٹے لوگ ہیں۔ اللہ تجھ سے درگزر کرے تُو نے انہیں اجازت ہی کیوں دی۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کا تجھے اچھی طرح پتا لگ جاتا جو سچ کہتے تھے اور تُو جھوٹوں کو بھی پہچان لیتا۔ جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں وہ تجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ جہاد کرنے سے رخصت نہیں مانگتے اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔ صرف وہی لوگ تجھ سے رخصت طلب کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور اُن کے دل شک میں مبتلا ہیں اور وہ اپنے شک میں متردد پڑے ہوئے ہیں۔ اور اگر اُن کا جہاد پر نکلنے کا ارادہ ہوتا تو وہ ضرور اُس کی تیاری بھی کرتے، لیکن اللہ نے پسند ہی نہیں کیا کہ وہ اِس اعلیٰ مقصد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ اور اس نے انہیں وہیں پڑا رہنے دیا اور انہیں کہا گیا کہ بیٹھے رہو بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ تم میں شامل ہوکر جہاد پر نکلتے تو بدنظمی کے سِوا تمہیں کسی چیز میں نہ بڑھاتے اور تمہارے درمیان تیز تیز سواریاں دوڑاتے، تمہارے لیے فتنہ چاہتے ہوئے۔ جبکہ تمہارے درمیان اُن کی باتیں بغور سننے والے بھی ہیں اور اللہ ظالموں کو ضرور جانتا ہے۔ یقیناً پہلے بھی وہ فتنہ چاہتے تھے اور انہوں نے تیرے سامنے معاملات الٹ پلٹ کر پیش کیے یہاں تک کہ حق آگیا اور اللہ کا فیصلہ ظاہر ہوگیا جبکہ وہ اسے سخت نا پسند کر رہے تھے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ اِس کی باقی تفصیل مَیں ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔ ربوہ کی مسجد پر حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے والے بہادر خدام کا ذکر کرتے ہوئے حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا گذشتہ خطبے میں ربوہ کی مسجد پر حملے کا مَیں نے ذکر کیا تھا۔ جو احمدی خدام زخمی ہیں اُن کے لیے دعا بھی کریں اللہ اُنہیں صحتِ کاملہ عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ بعد کی بھی ہر پیچیدگی سے اُنہیں بچائے۔ اس وقت تین خدام زیادہ زخمی ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں اور باقی پانچ جو تھے انہیں علاج کرکے گھر بھیج دیا گیا ہے۔لیکن ان کے زخم بھرنے میں بھی ابھی وقت لگے گا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو شفائے کاملہ عطا فرمائے اور آئندہ افرادِ جماعت کو ہر جگہ ہر شر سے ہر نقصان سے محفوظ رکھے۔ خطبے کے آخری حصّے میں حضورِانور نے ایک مرحوم مکرم سام علی نینا صاحب آف مارشل آئی لینڈزکا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ مرحوم گذشتہ دنوں ۸۳؍برس کی عمر میں کیلیفورنیا امریکہ میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نے ۱۹۸۰ءکی دہائی میںاسلام سے متعارف ہونے پر احمدیت قبول کی اور اسلام میں داخل ہوئے۔ مرحوم کی بڑی مخالفت ہوئی مگر یہ بہادری سے اپنے ایمان پر ڈٹے رہے۔ ایک سینیٹر نے پارلیمان میں اسلام کو دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے اسلام کی مخالفت کی تو آپ نے نہایت جرأت کے ساتھ مقامی اخبار میں بیان دیا کہ ہم احمدی مسلمان ہیں اور ہمارا دہشت گردی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ آپ مقامی معاشرے میں بااثر شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ مرحوم بڑی تبلیغ کرنے والے، جماعتی کاموں میں معاونت کرنے والے، دین کی خاطر قربانی کرنے والے نیک بزرگ تھے۔ حضورِانور نے مرحوم کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی اور فرمایا کہ ان کے خاندان کے کچھ لوگ احمدی نہیں ہیں اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ وہ بھی احمدی ہوجائیں۔ آمین ٭…٭…٭