جب آپ میرے پاس آئے، میرا دعویٰ قبول کیا اور مجھے مسیح مانا تو گویا مِنْ وَجْہٍ آپ نے صحابہ کرامؓ کے ہم دوش ہونے کا دعویٰ کر دیا تو کیا صحابہؓ نے کبھی صدق و وفا پر قدم مارنے سے دریغ کیا۔ان میں کوئی کسل تھا۔کیا وہ دل آزار تھے؟ کیا ان کو اپنے جذبات پر قابو نہ تھا؟ وہ منکسرالمزاج نہ تھے؟ ان میں پرلے درجہ کا انکسار تھا۔سو دعا کرو کہ خدا تم کو بھی ویسی ہی توفیق عطا کرے کیونکہ تذلّل اور انکساری کی زندگی کوئی اختیار نہیں کرسکتا جب تک اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہ کرے۔اپنے آپ کو ٹٹولو اور اگر بچہ کی طرح اپنے آپ کو کمزور پاؤ تو گھبراؤ نہیں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا صحابہؓ کی طرح جاری رکھو۔راتوں کو اٹھو اور دعا کرو کہ خدا تم کو اپنی راہ دکھلائے۔ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے: ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیۡہِمۡ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ ٭ وَاِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ۔ وَّاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ۔(الجمعه: ۳-۵) ترجمہ : وہی ہے جس نے امّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔ اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی اسے مبعوث کیا ہے جو ابھی اُن سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا اور صاحب حکمت ہے۔ ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی اٰلہٖ وسلم ایک مجلس میں تشریف فرما تھے کہ سورۃ الجمعہ کی درج بالا آیات نازل ہوئیں تو صحابہؓ نےدریافت کیا کہ اے اللہ کے نبی ﷺً!وہ کون لوگ ہیں جو ہم میں سے تو ہیں لیکن ابھی ہم سے ملے نہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے مجلس میں بیٹھے ایک فارسی الاصل صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا: لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَا لَهُ رِ جَالٌ أَوْرَجُلٌ مِنْ هٰؤُلَاء یعنی وہ شخص اس قوم سے تعلق رکھنے والا ہو گا اور اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی چلا گیا تو ایک شخص یا بہت سارے اشخاص ایمان کو واپس لے آئیں گے۔ (صحیح البخاری کتاب التفسیر سورہ جمعہ حدیث نمبر۴۸۹۷) آپﷺ نے فرمایا کہ امت پر ایک ایسا دور آئے گا کہ دین میں بگاڑ آجائے گا جس سے مہدی کے سوا کوئی اور دور نہ کر سکے گا۔(ينابيع الموده جز ۲ صفحہ ۱۳) نیز فرمایاکہ امام مہدی آخری زمانے میں دین کو اس طرح قائم کرے گا جس طرح میں ابتدائی زمانے میں اسے قائم کر رہا ہوں۔(ينابيع الموده جز ثالث صفحہ۱۴۵) حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں دین کی تکمیل ہوئی تھی لیکن دین کی اشاعت کی تکمیل باقی تھی اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الجمعہ میں دور اوّلین کو آخرین کے ساتھ ملاتے ہوئے یہ خوش خبری عطا فرمائی کہ آنے والے امام مہدی کے ساتھی بھی صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رنگ ہوں گے۔ اس بات کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منظوم شکل میں کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے : مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی مَے ان کو ساقی نے پلادی فَسُبْحَانَ الَّذِيْ اَخْزَى الْاَعَادِيْ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا فرض منصبی جو تکمیلِ اشاعت ہدایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بوجہ عدم وسائل اشاعت غیر ممکن تھا اس لئے قرآن شریف کی آیت وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ثانی کا وعدہ دیا گیا ہے۔ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۳۶۳ حاشیہ ) صحابه کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت و سوانح پر نظر ڈالیں تو صحابۂ رسولؐ کے واقعات کے ہمرنگ واقعات حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہؓ کی زندگیوں میں بھی بکثرت ملتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسجد میں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ آپ نے فرمایا بیٹھ جائیں۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی مسجد سے باہر ہی تھے کہ فوراً بیٹھ گئے۔ پاس سے ایک صحابی گزرے انہوں نے کہا کہ یہ حکم تو اندر والوں کے لیے تھا۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے فرمایا کہ میں نے اپنے آقا کی آواز سنی ہے کہ بیٹھ جائیں میں نے یہ نہیں سنا کہ یہ حکم اندر والوں کے لیے ہے یا باہر والوں کے لیے۔یہی اطاعت کا جذبہ ہمیں دور آخرین میں بھی نظر آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مسجد اقصیٰ قادیان میں لیکچر دے رہے تھے کہ حضور نے اندر بیٹھے افراد کو فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ حضرت کریم بخش صاحب سیالکوٹیؓ جو ابھی باہر ہی تھے فوراً بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے مسجد تشریف لائے۔(سیرت المہدی،جلد اول،حصہ سوم، صفحہ نمبر ۶۷۲-۶۷۳،روایت نمبر۷۴۱) اسی طرح خلافت خامسہ کے انتخاب پر وہ نظارہ ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جس نے ثابت کر دیا کہ یہ جماعت الٰہی جماعت ہے اور جو منتخب ہو رہا ہے وہ خدا کا نمائندہ ہے حضور نے فرمایا کہ بیٹھ جائیں تو تمام احباب جماعت، کیا اندر کھڑے ہوئے اور کیا باہر کھڑے ہوئے لوگ، سب کے سب ایک آواز پر بیٹھ گئے۔ دورِاوّلین میں حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ قابلِ رشک ہیں جو انہوں نے غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کو مخاطب کرکے عرض کیے۔ آپؓ نے کہا کہ ہم آپ سے وہ بات نہیں کریں گے جو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کی تھی یعنی جاتو اور تیر ارب لڑے ہم یہاں بیٹھے ہیں (المائدہ:۲۴) بلکہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ کو فتح نصیب فرمادے گا۔ اس بات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ چمک اٹھا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی ۱۴۵۶) اسی طرح اس زمانے کے عشاق صحابہ کے جذبے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: خدا نے مجھے وہ تلواریں بخشی ہیں جو کفر کو ایک لحظہ میں کاٹ کر رکھ دیتی ہیں۔ خدا نے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میری آواز پر ہر قربانی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کے لیے کہوں تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہیں۔ میں انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لیے کہوں تو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرادیں۔ میں انہیں جلتے تنوروں میں کود جانے کا حکم دوں تو وہ جلتے ہوئے تنوروں میں کود کر دکھا دیں۔ اگر خود کشی حرام نہ ہوتی، اگر خود کشی اسلام میں نا جائز نہ ہوتی تو میں اس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھا کہ جماعت کے سو آدمیوں کو میں اپنے پیٹ میں خنجر مار کر ہلاک ہو جانے کا حکم دیتا اور وہ سو آدمی اسی وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مر جاتا۔ (انوار العلوم جلد ۱۷ صفحہ ۲۳۱، ۲۳۲) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مفسر قرآن اور عاشق قرآن تھے۔ آپ کو قرآن کریم سے اس قدر عشق تھا کہ جب آپؓ تلاوت فرماتے تو اس قدر روتے کہ آنسو بہنے لگتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ الہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ مَا أُوحِيَ إِلَى شَيْءٍ إِلَّا سَبَبْتُهُ فِي صَدْرِ أَبِي بَكْرٍ یعنی جو کچھ مجھ پر نازل کیا گیا ہے میں نے اس کو ابو بکر کے سینے میں نچوڑ دیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپؓ نے جمع قرآن کا فریضہ انجام دیا جو آپؓ کے عشق قرآن کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی طرح اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جلیل القدر صحابی خلیفہ اول حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی قرآن کریم سے عشق اور خاص لگاؤ تھا۔اس چیز کا اندازہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس تحریر سے لگایا جا سکتا ہے آپؑ فرماتے ہیں:جس طرح ان کے دل میں قرآن کریم کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ایسی محبت میں کسی اور کے دل میں نہیں دیکھتا۔ آپ قرآن کے عاشق ہیں اور آپ کے چہرہ پر آیات مبین کی محبت ٹپکتی ہے۔ آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نور ڈالے جاتے ہیں۔ پس آپ نوروں کے ساتھ قرآن شریف کے وہ دقائق دکھاتے ہیں۔ جو نہایت بعید و پوشیدہ ہوتے ہیں۔ آپ کی اکثر خوبیوں پر مجھے رشک آتا ہے۔(ماخوذ از الفضل ربوہ۲۴؍جون۲۰۰۵ءصفحہ ۵) پس قرآن کو عزت دینے والے وجودوں کو قرآن کی وجہ سے آسمان پر عزت دی جائے گی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے که جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے اور جو لوگ قرآن کو مقدم رکھیں گے انہیں آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۳) دورِاوّلین میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسی ماں عطا فرمائی ۔ جنہوں نے ہر ایک معاملے میں آنحضرتﷺ کا ساتھ دیا۔ جب حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ گھبرائے ہوئے اور پریشان گھر لوٹے اور سارا واقعہ ہماری ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بتایا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس وقت ان الفاظ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی کہ اللہ کی قسم!آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الوحی حدیث نمبر ۳) اسی طرح اس زمانے یعنی دَور آخرین میں امت مسلمہ احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے وہ ماں عطا فرمائی جو الہام وہ مبارک نسل کی ماں ہوگی اور پیشگوئی یَتَزَوَّجُ وَ یُوْلَدُ لَہٗ (مشکوٰۃ مجتبائی باب نزول عیسیٰ بن مریم)کی مصداق بنیں جنہوں نے ہر ایک معاملے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ساتھ دیا اور بعض امور میں مفید مشورے بھی دیتی رہیں اور امت کی اصلاح میں کلیدی کردار ادا کیا اور اور آپ کے بطن سے وہ اولاد عطا ہوئی جن میں کوئی مصلح موعود ٹھہرا اور کوئی قمر الانبیاء بنا ،کوئی وہ بادشاہ آیا کا مصداق بنا اور وہ مبارکہ پیدا ہوئیں جنہوں نے بچپن میں ہی اللہ تعالیٰ سے دل لگا لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو گئیں۔ دور اوّلین کی بات ہے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ آپ سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو بکرؓ سے۔(صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ حدیث نمبر ۳۶۶۲) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات پر لبیک کہتے اور فوراً اس پر عمل کے لیے تیار ہو جاتے۔ آپؓ مکہ کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت کرنے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رُک جائیں تو آپ فوراً رک گئے اور ہجرت کا خیال اپنے دل سے نکال دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مال خرچ کرنے کی تحریک فرمائی تو فوراً گھر کا سارا سامان لا کر دے دیا۔ کسی غلام کو آزاد کرنے کی خواہش ظاہر کی تو فوراً غلام کو خرید کر آزاد کر دیا۔ اسی طرح آخرین کے دور میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا ایک ساتھی نصیب فرمایا جو مثال میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہم رنگ تھا۔ جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملنے ایک دن تشریف لائے تو حضرت صاحب نے دریافت فرمایا کہ اب آپ فارغ ہی ہیں تو عرض کیا کہ ہاں میں فارغ ہی ہوں۔ پھر وہیں رک گئے اور فوراً واپس جانا پسند نہ کیا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ آپ کو اکیلے رہنے میں مشکل ہوگی بیوی کو بلا لیں تو فوراً پیغام بھجوا دیا کچھ دن گزرے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ آپ کو کتابوں کا بہت شوق ہے۔ آپ اپنا مکتب یعنی لائبریری یہاں منگوالیں تو آپ نے وہ بھی منگوالیا پھر فرمایا کہ اپنی دوسری بیوی کو بھی بلا لیں وہ آپ کی زیادہ مزاج شناس ہے۔ چنانچہ اسے بھی بلا لیا گیا پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اب آپ بھیرہ کا خیال دل سے نکال دیں تو حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں میرے وہم و خواب میں بھی وطن کا خیال نہ آیا اور ہم قادیان کے ہو کے رہ گئے۔ آپ کی اس محبت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ میری محبت میں قسم قسم کی ملامتیں اور بد زبانیاں اور وطن مالوف اور دوستوں سے مفارقت اختیار کرتا ہے اور میرا اکلام سننے کے لئے اس پر وطن کی جدائی آسان ہے اور میرے مقام کی محبت کے لئے اپنے اصلی وطن کی یاد بھلا دیتا ہے اور ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۸۱ تا ۵۸۶) جب تک ہم صحابہؓ کا سا رنگ اختیار کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ ہم سے ویسا ہی سلوک فرماتا رہے گا جیسا کہ وہ صحابہ کے ساتھ سلوک فرماتا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:‘‘تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو۔ اطاعت ہوتو ویسی ہو۔ باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو۔ غرض ہر رنگ میں ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی۔(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ سورة النساء زير آيت۵۹) سیدنا حضرت اميرالمومنين خليفةالمسيح الخامس ايده الله تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی ہمیں ان صحابہ کے نمونوں کو اپنانے اور یاد رکھنے کی بار بار تلقین فرماتے ہیں، آپ نے ایک موقع پر فرمایا: یہ لوگ خاموشی سے آئے اور محبت و تعلق وفا اور اطاعت کی مثالیں رقم کرتے ہوئے خاموشی سے چلے گئے … جہاں ہم ان بزرگوں پر رشک کرتے ہیں کہ کس طرح وہ قربانیاں کر کے امام الزماں کی دعاؤں کے وارث ہوئے وہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ آج بھی ان دعاؤں کو سمیٹنے کے مواقع موجود ہیں۔ آئیں اور ان وفاؤں، اخلاص، اطاعت، تعلق اور محبت کی مثالیں قائم کرتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں۔ یاد رکھیں جب تک یہ مثالیں قائم ہوتی رہیں گی زمینی مخالفتیں ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتیں۔(الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍دسمبر۲۰۰۳ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ جس قدر کوئی قرب حاصل کرتا ہے اسی قدر مؤاخذہ کے قابل ہے۔اہل بیت زیادہ قابل مؤاخذہ تھے۔وہ لوگ جو دور ہیں وہ قابل مؤاخذہ نہیں لیکن تم ہو۔اگر تم میں ان پر کوئی ایمانی زیادتی نہیں تو یہ تم میں اور ان میں کیا فرق ہوا؟ تم ہزاروں کے زیر نظر ہو۔وہ گورنمنٹ کے جاسوسوں کی طرح تمہاری حرکات و سکنات کو دیکھ رہے ہیں۔…جب کوئی شخص مجھ سے تعلق نہیں رکھتا تو یہ امر دوسرا ہے لیکن جب آپ میرے پاس آئے، میرا دعویٰ قبول کیا اور مجھے مسیح مانا تو گویا مِنْ وَجْہٍ آپ نے صحابہ کرام ؓ کے ہم دوش ہونے کا دعویٰ کردیا تو کیا صحابہؓ نے کبھی صدق و وفا پر قدم مارنے سے دریغ کیا۔ان میں کوئی کسل تھا۔کیا وہ دل آزار تھے؟ کیا ان کو اپنے جذبات پر قابو نہ تھا؟ وہ منکسرالمزاج نہ تھے؟ ان میں پرلے درجہ کا انکسار تھا۔سو دعا کرو کہ خدا تم کو بھی ویسی ہی توفیق عطا کرے کیونکہ تذلّل اور انکساری کی زندگی کوئی اختیار نہیں کرسکتا جب تک اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہ کرے۔اپنے آپ کو ٹٹولو اور اگر بچہ کی طرح اپنے آپ کو کمزور پاؤ تو گھبراؤ نہیں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا صحابہؓ کی طرح جاری رکھو۔راتوں کو اٹھو اور دعا کرو کہ خدا تم کو اپنی راہ دکھلائے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے بھی تدریجاً تربیت پائی۔وہ پہلے کیا تھے۔وہ ایک کسان کی تخم ریزی کی طرح تھے۔پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آبپاشی کی۔آپؐ نے ان کے لئے دعائیں کیں۔بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آبپاشی سے پھل عمدہ نکلا۔جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام چلتے اسی طرح وہ چلتے۔وہ دن کا یا رات کا انتظار نہ کرتے تھے۔تو آپ لوگ سچے دل سے توبہ کرو، تہجد میں اٹھو، دعا کرو، دل کو درست کرو، کمزوریوں کو چھوڑ دو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے قول و فعل بناؤ۔یقین رکھو کہ جو اس نصیحت کو ورد بنائے گا اور عملی طور سے دعا کرے اور عملی طور پر التجا خدا کے سامنے لائے اللہ تعالیٰ اس پر فضل کرے گا اور اس کے دل میں تبدیلی ہو گی۔خدا سے ناامید مت ہو۔(ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۸ ایڈیشن ۲۰۲۲ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک دعا کے ساتھ میں اپنا مضمون ختم کرتا ہوں۔حضورؓ، اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: تیرے جیسا شفیق وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔ جب میں تیرے حضور میں آکر گڑ گڑایا اور زاری کی تو نے میری آواز سنی اور قبول کی۔ میں نہیں جانتا کہ تو نے کبھی میری اضطرار کی دعا رد کی ہو۔ پس اے میرے خدا! میں نہایت درد دل سے اور سچی تڑپ کے ساتھ تیرے حضور میں گرتا اور سجدہ کرتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ میری دعا کو سن اور میری پکار کو پہنچ۔ اے میرے قدوس خدا!میری قوم ہلاک ہو رہی ہے اسے ہلاکت سے بچا۔ اگر وہ احمدی کہلاتے ہیں تو مجھے ان سے کیا تعلق جب تک ان کے دل اور سینے صاف نہ ہوں اور وہ تیری محبت میں سرشار نہ ہوں۔ مجھے ان سے کیا غرض ؟ سواے میرے رب ! اپنی صفات رحمانیت اور رحیمیت کو جوش میں لا۔ اور ان کو پاک کر دے۔ صحابہ کا ساجوش و خروش ان میں پیدا ہو۔ اور وہ تیرے دین کے لئے بے قرار ہو جائیں، ان کے اعمال ان کے اقوال سے زیادہ عمدہ اور صاف ہوں۔ وہ تیرے پیارے چہرہ پر قربان ہوں اور نبی کریم پر فدا۔ تیرےمسیح کی دعائیں ان کے حق میں قبول ہوں اور اس کی پاک اور سچی تعلیم ان کے دلوں میں گھر کر جائے۔ اے میرے خدا! میری قوم کو تمام ابتلاؤں اور دکھوں سے بچا اور قسم قسم کی مصیبتوں سے انہیں محفوظ رکھ۔ ان میں بڑے بڑے بزرگ پیدا کر۔ یہ ایک قوم ہو جائے جو تو نے پسند کرلی ہو۔ اور یہ ایک گروہ ہو جس کو تو… اپنے لئے مخصوص کرلے۔ شیطان کے تسلط سے محفوظ رہیں اور ہمیشہ ملائکہ کا نزول ان پر ہو تا ر ہے۔ اس قوم کو دین و دنیا میں مبارک کر، مبارک کر۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ (سوانح فضل عمر جلد۱ صفحه۳۱۱) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: اسلامی اخلاق(از حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ)(قسط ۷۱)