باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا مؤلف براہین احمدیہ کا اپنے الہام کو اپنے حق میں حجت اور دلیل سمجھنا کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میںابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو دلائل دعویٰ چہارم (گذشتہ سے پیوستہ)آپ نے رسالہ درثمین فی مبشرات النبی الامین اور رسالہ انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ میں بسند مستقل شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الخطاب شارح مختصر خلیل سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا الحدث الثالث و الثلثون اخبرنی الشیخ ابو طاھر قال اخبرنا الشیخ احمد التحلی قال اخبرنا شیخنا السید السند احمد بن عبد القادر قال اخبرنا الشیخ جمال القیراوانی عن شیخہ الشیخ یحی الخطاب المالکی قال اخبرنا عمی الشیخ برکات الخطاب عن والدہ عن جدہ الشیخ محمد بن عبد الرحمٰن الخطاب شارح مختصر الخلیل قال مشینا مع شیخنا العارف باللّٰہ تعالی الشیخ عبد المعطی التونسی لزیارۃ النبی صلعم فلما قربنا من الروضہ الشریفۃ ترجلنا فجعل الشیخ عبد المعطی یمشی خطواتٍ و یقف حتی وقف تجاہ القبر الشریف فتکلم بکلام لم نفھم فلما انصرفنا سالناہ عن وقوفہ فقال کنت اطلب لاذن من رسول اللّٰہ صلعم فی القدوم علیہ فاذا قال لی اقدم قدمت ساعۃ ثم وقفت و ھکذا حتی وصلت الیہ فقلت یا رسول اللہ أکلما روی البخاری عند صحیح فقال صحیح فقلت لہ ارویہ عنک یا رسول اللّٰہ صلعم قال ارویہ عنی وقد اجاز الشیخ عبد المعطی نفعنا اللّٰہ تعالی بہ الشیخ محمد الخطاب ان یرویہ عنہ و ھکذا کلوا حد اجاز من بعدہ و اجاز السید احمد بن عبد القادر النخلی ان یرویہ عنہ و اجاز النخلی لابی طاھر و اجاز ابو طاھر لنا۔ (انتباہ و درثمین) ہم عارف باللہ شیخ عبد المعطی تونسی کے ساتھ آنحضرت کی زیارت کے لئے گئے جب ہم آنحضرت کے روضہ کے قریب ہوئے تو پا پیادہ ہو لئے۔ پس شیخ عبد المعطی چند قدم چلتے اور پھر کھڑے ہو جاتے۔ یہانتک کہ روضہ مبارک کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کچھ بولے جس کو ہم نہ سمجھے جب ہم وہاں سے پھرے تو ہم نے اُن سے توقف کا سبب پوچھا انہوں نے فرمایا میں نے آنحضرتؐ سے حاضر خدمت ہونے کا اذن چاہا تھا آپ نے فرمایا آ۔ تب میں آگے ہوا پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ آپ سے امام بخاری نے روایت کیا ہے وہ سب صحیح ہے۔ میں آپ کی طرف سے اس کو روایت کروں آپ نے فرمایا ہاں صحیح ہے تو میری طرف سے اس کو روایت کر۔ اس حدیث کے روایت کرنے کی اجازت شیخ عبد المعطی نے اپنے شاگرد شیخ محمد خطاب کو دی انہوں نے اپنے شاگرد کو ایسا ہی بیچ والوں نے یہانتک کہ شیخ ابو طاہر استاذ حضرت شاہ ولی اللہ نے حضرت شاہ ولی اللہ کو۔ اور اپنے رسالہ فیوض الحرمین ایسی باتیں جو بذریعہ کشف آپ کو آنحضرت سے حاصل ہوئی ہیں بہت بیان کی ہیں پر ان کی تفصیل سے خوف تطویل ہے۔ اور از انجملہ صاحب دراسات ہیں جو اس کتاب کے صفحہ ۳۹ میں فرماتے ہیں کہ و ما یتوھمہ القاصرون من ان الاجتھاد ماخذہ الکتاب و السنۃ و الکشف لیس طریقا للاخذ عنھما فباطل لان الکشف طریق حیازۃٍ لاخذ الحدیث و معنی القرآن عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقظۃ شفاھا و قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الرؤیا الصالحۃ ما قال فکیف فی الکشف و این الاجتھاد من ذٰلک فھو اقوی من کل اسباب العلوم بعد الوحی فانہ رشح ترشح من بحرہ و القول بانہ لو کان الکشف حجۃ یسمع اتباعھا لکان حجج الشریعۃ خمسۃ و قد اتفقوا علی انھا اربعۃ مردود فانہ لم یقع الاتفاق علی حجتہ القیاس و ھو حجہ عند القائلین بہ فکذٰلک الکشف و ان لم یقل بحجیۃ اھل الظاھر فھو حجۃ عند اھلہ بل ھو عندھم مما یوجب الیقین کما ھو مبسوط۔(دراسات صفحہ ۳۹) جو کوتاہ نظروں کو وہم ہوا ہے کہ اجتہاد کا محل اخذ کتاب و سنت ہے اور کشف کو کتاب و سنت سے احکام لینے کی طرف راہ نہیں۔ سو باطل ہے آنحضرتؐ سے حدیث اخذ کرنے اور قرآن کے معنی پوچھنے کے لئے کشف جداگانہ راہ ہے۔ آنحضرتؐ نے سچے خوابوں کے باب میں (جو کشف سے کمتر ہیں)فرمایا ہے جو فرمایا ہے۔ پس کشف کی نسبت آپ کا کیا حکم ہو گا اور اجتہاد کا اس کے سامنے کیارتبہ ہے۔ وہ تو علم کے سبھی وسائل (اجتہاد وغیرہ)سے قوی تر ہے کیونکہ وہ اسی وحی کے دریا کا ترشح ہے اور یہ کہنا کہ اگر کشف ان دلائل سے ہوتا جن کا اتباع جائز ہے تو چاہئے تھا کہ دلائل شرعیہ پانچ ہوتے حالانکہ ان کا اتفاق اس پر ہے کہ وہ دلائل چار ہیں۔ لائق قبول نہیں ہے کیونکہ اتفاق تو ان چار دلیلوں پر بھی نہیں ہوا ان میں سے قیاس پر اتفاق کب پایا گیا ہے۔ ایسا ہی کشف سہی اس کو علماء ظاہر نہیں مانتے تو اس کے اہل تو مانتے ہیں بلکہ وہ ان کے نزدیک موجب یقین ہے۔ پھر اس کتاب کے صفحہ ۳۰۹ سے ۳۱۲تک اتحاف العارفین شیخ محمد برنی اور انوار قدسیہ اور طبقات الاولیاء عبدالوہاب شعرانی اور طبقات الاولیاء ابن الملقن سے اس مضمون کی چند حکایات نقل کی ہیں جن میں اہل اللہ کا آنحضرتؐ سے احادیث کی صحت دریافت کرنا پایا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک ولی سے یہ حکایت نقل کی ہے کہ قال ایضا احکی عن بعض الاولیاء عانہ حضر مجلس فقیہ فروی ذٰلک الفقیہ حدیثا فقال لہ الولی ھذا باطل قال من این لک ھذا فقال ھذا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم واقف علی راسک یقول انی لم اقل ھذا الحدیث و کشف لذلک الفقیہ فرای النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم۔ (دراسات صفحہ ۳۱۰) وہ ایک فقیہ کی مجلس میں حاضر ہوئے اور فقیہ نے ایک حدیث بیان کی تو اس ولی نے کہا یہ حدیث جھوٹی ہے فقیہ نے پوچھا تم نے یہ کہاں سے جانا اس ولی نے کہا یہ دیکھ آنحضرت صلعم تیرے سر پر کھڑے فرما رہے ہیں کہ یہ حدیث میں نے نہیں کہی۔ اس وقت اس فقیہ کو بھی کشف ہو گیا اور اس نے آنحضرت ؐکو کھڑے ہوئے دیکھ لیا۔ اور از انجملہ مولانا محمد اسمعیل ایک سرگروہ اہلحدیث ہیں جو کتاب صراط مستقیم میں بصفحہ ۳۸ فرماتے ہیں:‘‘ہر اہل ذکاء و فطانت و ارباب تحدس و کیاست کہ بلطافت ذہن و صفائی قریحہ بر مغنہ این کلام و خلاصہ این مقام رسیدہ باشند پوشیدہ نخواہد ماند کہ صدیق من وجہ مقلد انبیاء باشد ومن وجہ محقق در شرائع پس اگر صدیق زکی القلب است رضاء و کراہیت حضرت حق در افعال و اقوال مخصوصہ و صحت و بطلان در عقائد خاصہ و محمودیت و مذمومیت در اخلاق و برکات شخصیہ و صلاح و فساد و نظام واجب الحفظ در دقائع و معاملات جزئیہ بنور جبلی خود دریافت مینماید مثلاً بشہادت قلب خود میداند کہ فلاں قول مخصوص یا فعل مخصوص مرضی حق است یا غیر مرضی و فلاں عقیدہ خاصہ حق است یا باطل و فلاں خلق مخصوص محمود ست یا مذموم و فلاں معاملہ خاصہ کہ فیما بین اہل منزل یا اہل مدینہ منعقد شدہ یا فلاں رسم مخصوص کہ در فلاں قوم ترویج یافتہ موافق نظام اتم است یا مخالف آں پس احکام ایں امور مذکورہ او را بدو وجہ معلوم میشودیکے بشہادت قلب خود خصوصاً و دیگر بہ سبب اندراج او در کلیات شرح عموماً و علم کہ بوجہ اول حاصل شدہ تحقیقی است و ثانی تقلیدی و اگر ذکی العقل است پس نور جبلی او بسوئے کلیات حقہ منعقدہ در خطیر القدس کہ برائے تربیت نوع انسان عموماً متعین گردید او را ہ نمونی میفرماید آں کلیات در ذہن اعلی ومر الدہور و الاعصار محفوظ میماند و استنباط جزئیات ازاں کلیات مے تواند کرد پس علوم کلیہ شرعیہ او بدو واسطہ میرسد بوساطت نور جبلی بوساطت انبیاء علیھم الصلوٰۃ و السلام’’ اس خیال و اعتقاد کے لوگ متقدمین و متاخرین اہل اسلام میں اور بہت ہیں۔ ان سب کے اقوال نقل کرنے کی اس مقام میں گنجائش نہیں۔ ان چند اقوال منقولہ بالا سے امر سوم کا بیان شافی ہو گیا اور بخوبی ثابت ہوا کہ الہام یا کشف کو حجت و دلیل جاننے والے بھی اکابر اہل اسلام (صوفیہ کرا م و محدثین عظام) ہیں جب سے کہ اس کی حجیۃ کے منکر اکابر ہیں یہ مسئلہ ایسا نیا اور انوکھا نہیں جس کا کوئی قائل نہ ہو۔ یہی جتانا اس امر سوم کے بیا ن سے ہمارا مقصود تھا اس سے اس امر کا اظہار مقصود نہیں ہے کہ ہم خود بھی اس الہام کو حجت و دلیل جانتے ہیں اور غیر ملہم کو کسی ملہم (غیر نبی)کے الہام پر عمل کرنا واجب سمجھتے ہیں ۔ نہیں نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہم صرف کتاب اللہ و سنت کے پیرو ہیں اور اسی کو حجت و دستورالعمل اور عام راہ جانتے ہیں۔ نہ خود الہامی ہیں نہ کسی اور کشفی الہامی غیر نبی کے (متقدمین سے ہو خواہ متاخرین سے) متبع و مقلدہیں۔ بیان امر سوم سے امور ثلثہ متعلق دعوی چہارم کا بیان تمام ہوا اور ان چاروں دعاوی کے ثبوت سے اس سوال کا جو اعتراض سوم (منجملہ اعتراضات مشترکہ فریقین)کے جواب سے پیدا ہوا تھا جواب پورا ہوا اور خوب محقق ہوا کہ مؤلف براہین احمدیہ کا اپنے الہام کو اپنے حق میں حجت اور دلیل سمجھنا کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح