جس طرح انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا حکم ہے وہ صرف اس صورت میں پورے ہو سکتے ہیں کہ جب دل میں خداتعالیٰ کا خوف ہو۔ جب یہ پتہ ہو کہ ایک خدا ہے جو میری ظاہری اور پوشیدہ اور چھپی ہوئی باتوں کو بھی جانتا ہے۔ جس کو میرے موجودہ فعل کی بھی خبر ہے اور جو میں نے آئندہ کرنا ہے اس کی بھی خبر رکھتا ہے۔ جب اس سوچ کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقویٰ میں بھی ترقی ہو گی اور جب تقویٰ میں ترقی ہو گی تو پھر عدل کو قائم رکھنے کے لئے جیساکہ اس آیت (النساء:۱۳۶) میں فرمایا کہ اپنے یا اپنے والدین کے خلاف یا اپنے کسی دوسرے عزیز کے خلاف بھی کبھی گواہی دینے کی ضرورت پڑی تو گواہی دینے کی ہمت پیدا ہو گی اور توفیق ملے گی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ جب آپؑ نے اپنے والد کی طرف سے کئے گئے مقدمہ میں دوسرے کے حق میں گواہی دی آپؑ کے والد کے ساتھ مزارعین کا درختوں کا معاملہ تھا، زمین کا جھگڑا تھا، مزارعین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت دیانت، انصاف اور عدل کو دیکھتے ہوئے عدالت میں کہہ دیاکہ اگر حضرت مرزا غلام احمد یہ گواہی دے دیں کہ ان درختوں پر ان کے والد کا حق ہے تو ہم حق چھوڑ دیں گے، مقدمہ واپس لے لیں گے۔ عدالت نے آپ کو بلایا، وکیل نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی، آپؑ نے فرمایا کہ میں تو وہی کہوں گا جو حق ہے کیونکہ میں نے بہرحال عدل، انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔ چنانچہ آپ کی بات سن کر عدالت نے ان مزارعین کے حق میں ڈگری دے دی اور اس فیصلے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس طرح خوش خوش واپس آئے کہ لوگ سمجھے کہ آپؑ مقدمہ جیت کر واپس آ رہے ہیں۔ یہ ہے عملی نمونہ جو حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے ہمیں اس معیار عدل کو قائم رکھنے کے لئے دکھایا۔ اور آپؑ نے اپنی جماعت سے بھی یہی توقع رکھی، یہی تعلیم دی کہ تم نے بھی یہی معیار قائم رکھنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ یہ نہ ہو کہ ایسی بات کر جاؤ جس کے کئی مطلب ہوں اور ایسی گول مول بات ہو کہ شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے حق میں فیصلہ کروا لو۔ اگر اس طرح کیا تو یہ بھی عدل سے پرے ہٹنے والی بات ہو گی، عدل کے خلاف چلنے والی بات ہو گی اس لئے ہمیشہ قول سدید اختیار کرو، ہمیشہ ایسی سیدھی اور کھری بات کرو جس سے انصاف اور عدل کے تمام تقاضے پورے ہوتے ہوں، پھر یہ عدل کے معیار اپنے گھر میں، اپنی بیوی بچوں کے ساتھ سلوک میں بھی قائم رکھو، روزمرہ کے معاملات میں بھی قائم رکھو، اپنے ملازمین سے کام لینے اور حقوق دینے میں بھی یہ معیار قائم رکھو، اپنے ہمسایوں سے سلوک میں بھی یہ معیار قائم رکھو، حتیٰ کہ دوسری جگہ فرمایا کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل کے اعلیٰ معیار قائم رکھو۔ اللہ تعالیٰ جو تمہارے کاموں کی خبر رکھنے والا ہے تمہارے دلوں کا حال جاننے والا ہے، تمہاری نیک نیتی کی وجہ سے تمہیں اعلیٰ انعامات سے بھی نوازے گا۔ تودیکھیں کتنی خوبصورت تعلیم ہے دنیا میں انصاف اور عدل اور امن قائم کرنے کی۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍مارچ ۲۰۰۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۹؍مارچ ۲۰۰۴ء) مزید پڑھیں: مومن کی دنیاوی مجلس بھی اللہ کے ذکر سے خالی نہیں ہوتی