https://youtu.be/LuNKI6BmfWY کسی آیت و حدیث میں یہ نہیں آیا کہ جب تک ولی اپنے الہام کی تائید و موافقت کتاب آسمانی میں نہ پائے اس الہام پر عمل نہ کرے قرآن و حدیث سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ جو امر خلاف کتاب و سنت ہو اُس پر عمل نہ کیا جاوے۔ پھر اس زمانہ میں ملہم کو اپنے الہام کے موافق عمل یا دعوے (جس کو شریعت و کتاب آسمانی منع نہ کرے)کیوں ناجائز ہے براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میں ابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو دلائل دعویٰ سوم عقلی دلیل اس دعویٰ پر وہی ہے جو دعویٰ دوم پر پیش کی گئی ہے کہ یہ دعویٰ اس یقین کا لازمہ ہے جس کو عید کا چاند نظر آتا ہے وہ کیونکر اور کب تک اُس کو چھپا سکتا ہے اور وہ کسی اور دلیل و شہادت کا کب محتاج رہتا ہے۔ نقلی دلیل خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں اولیاء غیر انبیاء کا اپنے الہامات پر بلا انتظار و حصول توافق اور دلیل کے عمل کر لینا مقام مدح میں ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ اشاعۃ السنۃ نمبر ۷ جلد ۷ میں بصفحہ ۲۰۳ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ اور حضرت خضر علیہ السلام کا اپنے الہامات پر بلا توقف و انتظار عمل کرنا(جیتے بچہ کو صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دینا۔ اور چلتی کشتی کو پھاڑ دینا۔ بے گناہ لڑکے کو مار ڈالنا۔ گرتی ہوئی دیوار کو بلاعوض کھڑا کر دینا)منقول ہو چکا ہے۔ اور اس کا خلاف کسی آیۃ قرآنی یا حدیث نبوی میں پایا نہیں گیا۔ یعنی کسی آیت و حدیث میں یہ نہیں آیا کہ جب تک ولی اپنے الہام کی تائید و موافقت کتاب آسمانی میں نہ پائے اس الہام پر عمل نہ کرے قرآن و حدیث سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ جو امر خلاف کتاب و سنت ہو اُس پر عمل نہ کیا جاوے۔ پھر اس زمانہ میں ملہم کو اپنے الہام کے موافق عمل یا دعوے (جس کو شریعت و کتاب آسمانی منع نہ کرے)کیوں ناجائز ہے۔ سوال ہماری اس دلیل پر ایک الہامی مولوی صاحب (جو اپنے اور اپنے خاندان کے الہامات لوگوں کو سناتے ہیں اور مؤلف کے الہامات پر معترض ہیں)نے زبانی یہ سوال کیا کہ حضرت موسیٰؑ کی والدہ یا خضر علیہ السلام کے الہام پر اولیاءامت محمدیہ کا قیاس قیاس مع الفارق ہے۔ حضرت موسیٰؑ کی دعوت و نبوت عام نہ تھی صرف بنی اسرائیل سے مخصوص تھی اِس لیے حضرت خضر نے بلا توقف و انتظار اپنے الہامات پر عمل کرلیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام یا ان کی کتاب توراۃ سے اجازت و توافق حاصل کرنے کا کچھ لحاظ نہ فرمایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے اپنے الہام پر عمل کر لینے کی نسبت انہوں نے کچھ نہیں فرمایا شاید اس کی نسبت کوئی یہ کہے کہ اس وقت کوئی نبی نہ تھا جس کی کتاب سے حضرت موسیٰؑ کی والدہ اپنے الہامات کا توافق حاصل کرتیں۔ اور اگر کوئی نبی (حضرت شعیب وغیرہ) اس وقت موجود تھا تو اس کی دعوت بھی عام نہ تھی۔ اور اس وقت کے اولیاء ایسے نبی کی امت میں ہیں جس کی دعوت عام ہے۔ کوئی ولی یا الہامی ان کی اتباع سے مستغنی نہیں ہے۔ پھر ان کے حال کا قیاس حضرت خضر و مادر موسیٰ علیہ السلام کے حال پر کیونکر ہو سکتا ہے۔ الجواب اس فارق کو ہم مانتے ہیں اور اس کی رعایت پہلے ہی اپنے دعاوی میں کر چکے ہیں جبکہ ولی کے حق میں الہام پر یقین و عمل کرنے کے لیے یہ شرط لگا چکے ہیں کہ وہ اس الہام کا مخالف کتاب نہ ہونا دیکھ لے اور جب تک اس کا کتاب اللہ و شریعت محمدیہ کے مخالف نہ ہونا ثابت نہ ہو وہ اس پر یقین و عمل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ ولیکن اس فارق سے یہ نہیں نکلتا کہ ولی امت محمدیہؐ اپنے الہام کا توافق بھی ضرور کتاب اللہ و شریعت سے ثابت کرلے اور جب تک صریح شہادت و موافقت الہام کتاب اللہ وشریعت میں نہ پاوے۔ اس الہام پر یقین نہ کرے یہ امر نہ اس فارق کا لازمہ ہے نہ اس پر کوئی دلیل کتاب و سنت میں موجود ہے بلکہ کتاب و سنت و عمل اکابر امت سے اس کا خلاف ثابت اور بخوبی محقق ہے کہ ولی کو اپنے الہامات کا توافق اور کتاب اللہ میں اس کی صریح شہادت دیکھنا ضروری نہیں ہے۔ کتاب و سنت میں وہ دلائل اس ضرورت حصول توافق کو اٹھاتے ہیں جن سے براءۃ اصلیہ ثابت ہوتی ہے اور یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس امر سے شرع ساکت ہے اس میں ہر ایک کو (الہامی ہو خواہ حامی)آزادی و خود مختاری حاصل ہے (چنانچہ اشاعۃ السنۃ نمبر ۷ جلد ۱ میں ان دلائل کی کافی تفصیل ہو چکی ہے جو ملاحظہ ناظرین کے لائق ہے۔) عمل اکابر امت کتب اسلامیہ میں موجود ہے۔ پرانے اور نئے ملہمین اپنے الہامات پر عمل و یقین کرنے کے وقت توافق و صریح شہادت کتاب اللہ کو نہ دیکھتے۔ صرف اتنا دیکھ لیتے تھے کہ یہ الہام مخالف کتاب اللہ تو نہیں ہے اس کی مثال ہم سردست ایک پیش کرتے ہیں جس کی تخریج روایت نمبر ۷ جلد ۷ میں بصفحہ ۲۰۶ ہو چکی ہے۔ حضرت عمر فاروق کو جب الہام ہوا تھا کہ ساریہ سپہ سالار فوج بے موقع کھڑا ہوا ہے تو آپ نے کسی آیت یا حدیث سے اس الہام کا توافق نہ دیکھا (اور نہ کوئی آیت یا حدیث جس میں ساریہ کے بے موقع کھڑا ہونے کی پیش گوئی مروی ہو ایسے موجود سے جس سے اس الہام کا توافق ممکن ہو) بلکہ اس الہام پر صرف اس نظر سے کہ وہ مخالف کتاب اللہ نہ تھا فوراً یقین کر لیا اور اسی موقع الہام پر عین اثناء خطبہ جمعہ میں کہہ دیا ’’یاساریۃ الجبل‘‘ یعنی اے ساریہ!پہاڑ کو پس پشت لے۔ جو لوگ ہماری اس بات کو غلط کہیں وہ براہ مہربانی ہم کو کسی آیت یا حدیث کی (جس میں اس واقعہ کی بطور پیشن گوئی خبر آ چکی ہو اور اس سے الہام عمری کا توافق ممکن ہو۔) نشان دہی کریں۔ بالجملہ حضرت خضر اور والدہ حضرت موسیٰؑ کا الہام اور اولیاء امت محمدیؐہ کا الہام باوجود اس فرق کے کہ وہ دو نو شریعت کسی نبی کے تابع نہ تھے اور اولیاء امت محمؐدیہ شریعت محمؐدیہ کے تابع ہیں و لہٰذا وہ دونوں اپنے الہامات کو اور دلیل پر عرض کرنے کے محتاج نہ تھے اور اولیاء امت محمدیہ اپنے الہام کو شریعت محمدیہ پر عرض کرنے کے محتاج ہیں۔ اس حکم میں برابر ہیں کہ ان پر عمل و یقین کرنے کے لیے صریح شہادت و توافق شریعت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر مولوی صاحب موصوف نے یہ سوال کیا کہ الہام اولیاء امت محؐمدیہ کو کتاب اللہ و شریعت پر عرض (پیش) کرنا اور اُس کا مخالف شریعت نہ ہونا ضروری اور شرط عمل و یقین ہے۔ تو بھی الہام قطعی و یقینی رہا۔ کتاب اللہ پر عرض کر کے اس کا مخالف کتاب اللہ نہ ہونا ثابت ہو گا تب ہی ملہم کو اس پر یقین کرنا شرعاً جائز ہو گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حصول یقین اور امر ہے اور شرعاً اُس کا جواز اور امر کتاب اللہ و شریعت پر عرض الہام سے صرف اس یقین کا جواز شرعی ثابت ہوتا ہے۔ نفس یقین تو نفس الہام سے ثابت ہو جاتا ہے اُس یقین کے حصول کے لیے تو اس کو کتاب اللہ پر عرض کرنا اور اس کا عدم تخالف ثابت کرنا ہرگز ضروری نہیں۔ یہ عرض و تحقیق عدم تخالف تو صرف اس یقین کو شرعاً جائز بنانے کے لیے ہے۔ و بس۔ اس کی نظیر وہ سونے کا ٹکڑا ہے جس کو ایک شخص نے کسی کان سے پایا ہے یا وہ موتی یکتا جو دریا میں غوطہ لگانے سے اس کے ہاتھ میں آیا ہے۔ اس سونے یا موتی کے حصول کا تواس کو کامل یقین ہوتا ہے جس میں وہ کسی ثبوت و شہادت کا طالب نہیں رہتا۔ مع ہذاوہ اس سرزمین کے بادشاہ سے سونا یا موتی دکھا کر پوچھتا ہے کہ اسے کام میں لانے کی آپ مجھے اجازت دیتے ہیں اور میں اس فعل میں آپ کی اطاعت سے خارج اور آزاد تو متصوّر نہ ہوں گا اس عرض اور طلب اجازت کے وقت کوئی اس شخص کی نسبت یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس شخص کو اس سونے یا موتی کے حصول کی نسبت یقین نہیں ہے یقین ہوتا تو وہ اسی بادشاہ کو کیوں دکھاتا اور اُس سے اِس کے صرف کرنے کی اجازت کیوں مانگتا۔ اس نظیر کو پڑھ کر امید ہے کسی کو (بشرطیکہ وہ فہم و انصاف سے کچھ بہرہ رکھتا ہو) اس میں شک نہ رہے گا کہ اولیاء اللہ کو یقین تو نفس الہام سے ہو جاتا ہے۔ شریعت پر اس کا عرض کرنا اور اس کی عدم مخالفت ثابت کرنا اس یقین کو صرف شرعی بناتا ہے۔ اس کی حقیقت و اصلیت کو نہیں بدلتا۔ اور نہ بڑھاتا ہے۔ حکم عرض الہام سے اس کی ظنیت نکالنے والوں کی منشا غلطے کا بیان جو لوگ الہام کو کتاب اللہ پر عرض کرنے کے حکم سے اُس کا ظنی ہونا نکالتے ہیں وہ یہ خیال کرتے کہ الہام غیر نبی میں وسوسہ شیطانی کا احتمال ہے۔ تب ہی ملہم اس کو کتاب اللہ پر عرض کر کے یہ دیکھتا ہے کہ وہ مخالف کتاب اللہ اور وسوسہ شیطانی تو نہیں؟ اس میں یہ احتمال نہ ہوتا تو اُس کو کتاب اللہ پر عرض کرکے اُس کا مخالف کتاب اللہ نہ ہونا کیوں دیکھتا۔ اور اس خیال سے شاید وہ ہمارے پیش کردہ نظیر کا نظیر الہام ہونا تسلیم نہ کریں اور الہام غیر نبی کو اس سونے کی نظیر قرار دیں۔ جو کسی راستہ سے کوئی پائے اور اُس کے سونے یا پیتل ہونے میں متردّد ہو کر صراف سے پوچھے کہ یہ پیتل تو نہیں ہے؟ مگر یہ ان کی غلطی ہے۔ ہمارے اصول پر اس الہام میں (جس کو ہم نے قطعی کہا ہے)گو شروع میں قبل استحکام و استقرار الہام وسوسہ کا احتمال ہے اور اس وقت اس کو ظنیّ کہا جا سکتا ہے مگر جب اس کا قیام و استقرار ہو جاتا ہے تب ملہم کے دل میں اس کا یقین کوٹ کوٹ کر بھرا جاتا ہے اور اُس میں وسوسہ شیطانی کا احتمال نہیں رہتا۔ اور نہ اس وقت اُس کو ظنی کہا جا سکتا ہے۔ اُس وقت اس کا عرض کتاب اللہ پر محض ادب و تعظیم و اظہار متابعت شریعت کے لیے ہوتا ہے نہ اس خیال و احتمال سے کہ وہ کتاب اللہ کے مخالف تو نہیں ہے؟ اس حالت میں وہ کتاب اللہ کے مخالف ہو ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا وہ اس سونے کے نظیر نہیں بن سکتا جس کو کسی نے راستہ سے پایا ہو اور اُس کے سونے اور پیتل ہونے میں اس کو تردد ہو۔ اور اس تردد کے سبب وہ صرافوں کو دکھاتا پھرتا ہو اس حالت میں تو وہ اُسی خالص سونے کی (جو کان سے لیا گیا ہو) یا اس دُرّ یتیم کی (جو دریا میں غوطہ لگانے سے ہاتھ آیا ہو) نظیر ہے جس کے سونے اور موتی ہونے میں یا بندہ کو کوئی شک نہیں ہوتا اور بادشاہ وقت سے وہ اس کے کام لانے کی اجازت صرف اس کی بادشاہی کے ادب کے خیال سے حاصل کرتا ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضرت مصلح موعودؓ کا پیغام—جماعت کے نام