محض خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ساؤٹومے و پرنسپ کو جزیرہ الیاؤ داش رولاش میں مسجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی۔ جزیرہ کا تعارف:یہ جزیرہ خلیجِ گنی (Gulf of Guinea) میں واقع ہے اور جزیرہ ساؤٹومے کے جنوبی ساحل پورتوالیگری سے تقریباً اڑھائی کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جس تک کشتی کے ذریعے تقریباً 25 منٹ میں پہنچا جاسکتا ہے۔ اس جزیرے کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ خطِ استوا اس سے گزرتا ہے، اور یہاں ایک خصوصی ‘‘ایکویٹرمونومنٹ’’ (بطور دنیا کا مرکز) بھی قائم ہے، جو سیاحوں کے لیے خاص کشش کا باعث بنتا ہے۔ اس جزیرہ کی آبادی قریباً 90؍افراد پر مشتمل ہے جبكہ آبادی كم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ جزیرہ پر جماعت احمدیہ كا تعارف: 2020ء میں اس جزیرے پر جماعت احمدیہ کا قیام اللہ تعالیٰ نے خاکسار (مبلغ انچارج و صدر جماعت) اور مکرم سلیمان یوسف صاحب لوکل معلم کے ذریعےفرمایا، شروع میں دس لوگوں نے بیعت کی تھی۔ اب جزیرے پر افرادِ جماعت کی تعداد پندرہ ہے۔الحمدللہ مسجد کے لیے جگہ کا حصول:یہ جزیرہ حکومت کی بجائے ایک نجی کمپنی کی ملکیت ہے، اور وہ مسجد کی تعمیر کے حق میں نہ تھے، اس لیے یہاں جگہ حاصل کرنا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا تھا۔دعا اور صبر کے ساتھ جماعت احمدیہ کی طرف سے کافی عرصے سے اس مقصد کے لیے کوششیں جاری تھیں۔ خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے، ان کوششوں کے دوران ایک مقامی خاتون، جو اس جزیرہ کی رہائشی تھی،نے اپنی زمین جماعت کو فروخت کر دی۔ یوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد کی تعمیر کے لیے زمین میسر آ گئی۔ مسجد کی تعمیر کا آغاز:جگہ کے حصول کے بعد مورخہ 18؍مئی 2025ء کو مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیااور مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ تقریباً ایک ماہ دس دن میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔یہ مسجد اس جزیرہ پر تعمیر ہونے والی ایک ہی مسجد ہے۔ اس میں چالیس(40)افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ مسجد کا طول چھ(6) میٹر اور عرض پانچ (5) میٹر ہے۔ افتتاحی تقریب کا آغازتلاوت قرآن کریم سے کیا گیا۔ اس کے بعد لوکل مشنری مکرم یٰسین صاحب نے تقریرکی۔ بعدازاں خاکسار نے مسجد کے قیام کا مقصد اور افراد جماعت پر عائد ہونے والی ذمہ درایوں سے آگاہ کیا۔یہ مسجد دنیا کے مرکز میں ہے۔ اس مسجد کا نام حضور انور ایدہ للہ تعالیٰ نے مسجد اسماعیل عطا فرمایا ہے۔ مہمانوں اور سیاحوں کے تاثرات:چونکہ یہ جزیرہ ایک معروف سیاحتی مقام ہے اور اکثر غیر ملکی سیاح ہماری مسجد کے سامنے سے گزرتے ہیں، اس لیے اس مقام پر مسجد کی موجودگی ان کے لیے حیرت کا باعث بنتی ہے۔ وہ اس حیرت کا اظہار لوکل مشنری صاحب سے بھی کرتے ہیں۔اور اسلام احمدیت سے متعلق معلومات بھی حاصل کرتے ہیں۔ الحمدللہ، یہ مسجد غیرملکی سیاحوں تک پیغامِ حق پہنچانے اور تبلیغِ اسلام کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہو رہی ہے۔ ایک پرتگیزی سیاح خاتون کو جب علم ہوا کہ یہ جماعتِ احمدیہ کی مسجد ہے اور اس کو احمدیت کا تعارف کروایا گیا تو اس نے کہا کہ یہ بات میرے لیے انتہائی حیران کن ہے کہ ایک مذہب جس کا آغاز ایشیا سے ہوا وہ اتنی دُور ایک چھوٹے سے جزیرہ تک پہنچ گیا ہے اور اپنی مسجد بھی تعمیر کرچکا ہے۔ دوران تعمیر اَور بھی بہت سے سیاحوں نے مسجد کو دیکھ کر استفسار کیا اور لوکل مشنری صاحب نے ان کو جماعت احمدیہ کا تعارف کروایا۔ جزیرے پر مقیم مقامی افراد نے بھی مسجد کی تعمیر کو بہت سراہا اور دو مزید افراد نے بھی خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی احمدیت میں شامل ہونے کے خواہاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ مسجد افرادِ جماعت کے ایمان میں اضافہ کا ذریعہ بنے، نیز اس کے ذریعے ملکی و غیر ملکی سیاحوں تک اسلام احمدیت کا پیغام مؤثر طریقے سے پہنچے۔ آمین۔ (رپورٹ: انصر عباس۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: فجی کی جماعتوں میں جلسہ ہائے یوم مسیح موعود کا انعقاد