https://youtu.be/PzSPDbGEjLI آج سے ٹھیک ایک سو سال قبل ۱۹۲۵ء میں افغانستان کی سرزمین پر بسنے والے معصوم احمدیوں کے خلاف حکومت وقت نے ایک اور ظلم ڈھایا جب مورخہ ۵؍فروری ۱۹۲۵ء کو کابل کی سرزمین پر مولوی عبدالحلیم صاحب ساکن چراسہ(چارآسیا) اور قاری نور علی صاحب ساکن کابل شہر کو محض احمدیت کی وجہ سے بے دردی سے شہید کردیا گیا۔اِنّا لِلّٰہ وانّاالیہ رَاجِعون اس ظلم پر اخبار ریاست دہلی نے لکھا کہ ’’افغان حکومت کا یہ وحشیانہ فعل موجودہ زمانہ میں اس قدر قابل نفرت ہے کہ جس کے خلاف مہذب ممالک جتنا بھی صدائے احتجاج بلند کریں، کم ہے۔‘‘ جب یہ خبر قادیان پہنچی تو حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ نے فرمایا کہ ’’مجھے جس وقت گورنمنٹ کابل کی اس ظالمانہ اور اخلاق سے بعید حرکت کی خبر ملی میں اسی وقت بیت الدعا میں گیا اور دعا کی الٰہی تو ان پر رحم کر اور ان کو ہدائیت دے اور ان کی آنکھیں کھول تا وہ صداقت اور راستی کو شناخت کرکے اسلامی اخلاق کو سیکھیں اور انسانیت سے گری ہوئی حرکات سے باز آجائیں۔‘‘ تب اس صریح ظلم پر بس نہ کرتے ہوئے مسلمانان ہند نے ایک عجیب اور نئی روش پکڑ لی جب ہندوستان میں عمومی طور پر اور بطور خاص خطہ پنجاب کے اخبارات کے ایڈیٹران نے سعی ناکام شروع کردی کہ کسی طرح امیر امان اللہ خان کو احمدیوں کے قتل پر کوئی شرعی اور معقول جواز مل جائے۔ ان نام نہاد علماء اورلوگوں کا وسوسہ تھا کہ اختلاف عقائد پر کسی انسان کو رجم کرنا جائز ہے۔اس ناواجب پروپیگنڈا میں ایڈیٹر اخبار لاہور اور علمائے دیوبند پیش پیش رہے۔ اور ان لوگوں نے عند الشریعت رجم کے جواز پر بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے۔ مگر سب نابود۔ کیونکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جس طرح خدا کے حضور دعاؤں میں امت کی بھلائی اور اصلاح احوال کی گڑگڑا کر فریادیں کی تھیں ، وہاں علم اور عقل کے میدان میں قتل مرتد کے فاسد عقیدہ کی دلائل سے بیخ کنی کرنے کا بھی ارادہ فرمایا۔ اور اسی موقع پر حضرت مصلح موعودؓ کے حکم پر یہ کتاب “قتل مرتد اور اسلام” مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ نے تصنیف فرمائی ، جسے دسمبر ۱۹۲۵ء میں مینجر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے وزیر ہند پریس امرتسر میں باہتمام بھائی بہادر سنگھ طبع کروایا۔ ۲۲؍دسمبر ۱۹۲۵ء کو لکھے گئے اس کتاب کے عرض حال میں مصنف نے بتایا کہ’’ اس کتاب کے متعلق اس قدر بیان کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب حضرت خلیفۃالمسیح الثانی امام جماعت احمدیہ کی ہدائیت اور نگرانی کے ماتحت تیارکی گئی ہے۔ دوسرا امر قابل ذکر یہ ہے کہ اس کتاب میں جس قدر منقولی بحث ہے اس کا اکثر حصہ ان نوٹوں سے لیا گیا ہے جو حسب ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی، مولوی جلال الدین صاحب شمس اور مولوی غلام احمد صاحب بدوملوی نے تیار کیا۔ اول الذکر نے مضمون کے اس حصہ کے متعلق نوٹ مرتب کئے جن کا تعلق قرآن شریف سے ہے مگر ساتھ ہی حدیث اور فقہ کے متعلق بھی بعض بہت مفید نوٹ تیار کئے اور مؤخر الذکر نے زیادہ حدیث اور تاریخ کی رو سے اس مضمون کی تحقیق کی۔ دوران مضمون میں جہاں جہاں مجھے زیادہ تحقیق کی ضرورت پیش آئی ہے وہاں میں نے مولوی فضل الدین صاحب وکیل سے جو سلسلہ کے ایک محقق عالم ہیں بہت امداد حاصل کی ہے۔ اس مضمون کا ایک حصہ معقولی بحث پر بھی مشتمل ہے وہ سب کا سب اور نیز منقولی بحث کے بعض ایسے حصے جو اصولی رنگ رکھتے ہیں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کے افاضات کا نتیجہ ہیں کیونکہ ان حصوں کے متعلق میں نے انہی سے اشارات حاصل کئے ہیں۔ ‘‘ مولوی شیر علی صاحب جو حضرت مسیح موعودؑ کے تربیت یافتہ صحابی، ایک جید عالم، مترجم قرآن اور جماعت احمدیہ کے نمایاں سکالر تھے۔جنہوں نے اس ضخیم کتاب کا مسودہ ۲۶؍نومبر ۱۹۲۵ءکو مکمل کرلیاتھا اور کاتب کی لکھائی میں کتاب کی تیاری ہوئی۔ جبکہ ۲۰۱۰ء کے ٹائپ شدہ ایڈیشن میں اس کتاب کے صفحات قریباً پونے تین صد ہیں۔ اس کتاب اور اس کی تالیف کا پس منظر درج کرکے حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری لکھتے ہیں کہ ’’حضرت مولانا شیر علی نے قتل مرتد پر لاجواب کتاب تحریر کی اور قائلان قتلِ مرتد کے قلموں کو توڑ کر رکھ دیا۔‘‘(شہداء الحق، صفحہ۱۱۲) اپنی اس کتاب میں مولوی شیر علی صاحبؓ نے اسلام میں مرتد کی سزا کے مسئلے پر تفصیلی تحقیق پیش کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام میں مرتد کے لیے سزائے موت کا کوئی تصور نہیں بلکہ یہ ایک غلط فہمی اور غلط تعبیرات پر مبنی رائے ہے، جو بعد میں بعض فقہاء نے اپنا لی۔ اس کتاب کا خلاصہ یوں ہے کہ فاضل مصنف نے پہلے باب میں ’’کیا اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے‘‘کے عنوان سے مواد پیش کیا ہے۔ ’’قرآن شریف اور قتل مرتد ‘‘کا باب صفحہ ۸سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں بتایا کہ اسلام ایک علمی مذہب ہے اور اس کا طریق تبلیغ کیا ہے۔ نیز ہدائیت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔جبکہ ہمارا کام صرف پہنچا دینا ہے۔اور دوسروں کی گمراہی کے ہم جواب دہ نہیں ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم حکم دیتا ہے کہ نہ ماننے والوں سے اعراض کرو۔ حتٰی کہ نبی بھی لوگوں پر داروغہ کے طور پر مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ اور نبی کو ایمان اور کفر کی جزا سزا سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے۔ اور اسلام مذہبی آزادی کی تعلیم دیتا ہے۔ دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ہے۔ مذہبی اعتقاد کی بنا پر تکلیف دینا انبیاء کے دشمنوں کا شیوہ ہے۔لیکن کیا قرآن کریم قتل مرتد کے سوال پر ساکت ہے؟ قرآن مجید کی روشنی میں مرتد کی سزا پر مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اس قرآنی اصول کو واضح کرتے ہیں کہ اسلام میں کسی کو مذہب قبول کرنے یا چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ “دین میں کوئی جبر نہیں۔” قرآن کریم میں مرتدین کا ذکر کئی جگہ آتا ہے، مثلاً:سورۃ البقرہ (۲۱۸) میں مرتدین کے لیے آخرت میں عذاب کا ذکر ہے، مگر دنیا میں ان کے لیے کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی۔ سورت آل عمران کی آیت ۹۱ میں بھی مرتد ہونے والوں کا ذکر ہے، لیکن سزا کا تعلق قیامت کے دن کے فیصلے سے جوڑا گیا ہے، نہ کہ کسی دنیاوی سزا سے۔سورۃ النساءکی آیات ۱۳۸ اور ۱۳۹میں مرتدوں کے لیے اللہ کے غضب اور عذاب کا ذکر کیا گیا ہے لیکن قتل کی سزا کا کوئی ذکر نہیں۔ اسی طرح اپنے زمانے کے مشہور مولوی اور اخبار نویس مولوی ظفر علی خان ایڈیٹر زمیندار کی علمی کم مائیگی کا بھی مصنف نے اثنائے کلام خوب تجزیہ کیا ہے۔ صفحہ ۸۹ تک جاری رہنے والے اس باب میں متعدد آیات کی مدد سے زیر بحث موضوع پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کے صفحہ ۹۰ پر حامیانِ قتل مرتد کے دلائل پر نظر کے عنوان سے مولوی شبیر احمد صاحب کی پیش کردہ آیت فاقتلوا انفسکم پر بحث اور دلائل کاسلسلہ شروع ہوتا ہے جو قریباً بیس صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کے صفحہ ۱۱۲ پر ’’کیا اسلام میں داخل ہونے کے بعد اکراہ فی الدین جائز ہے؟‘‘ کے عنوان کے تحت مولوی شاکر حسین صاحب سہسوانی کے مضمون جو زمیندار میں شائع ہوا تھا، کا ردّ کیا گیا ہے۔ نیز صفحہ ۱۱۸ پر قتل مرتد کی تائید میں پیش کی جانے والی ایک دلیل کہ اسلام کو بے حرمتی سے بچانے کےلیے مرتد کا قتل ہونا ضروری ہے۔ پر مولوی ظفر علی خاں کے وساوس کا ردّ ہے۔ نیز سوال اٹھایا ہے کہ مرتد کس سلطنت کا باغی ہے تا اس پر باغی کی سزا جاری کی جائے۔ اس کے بعد مصنف نے معاصر اخبارات کے اس بےسروپا خیال کو لیا ہے کہ کابل میں احمدیوں کو سنگسار کرنے پر تنقید نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ افغانستان کے لاکھوں باشندے قتل مرتد کے حامی ہیں اور ان کا یہ فعل آزادی ضمیر کے اصول کے تحت ہے۔ صفحہ ۱۲۶ پر دیوبندی مولوی شبیر احمد صاحب کے اس وہم کا ازالہ کیا گیا ہے کہ قتل مرتدسے دراصل حفاظت اسلام ہوتی ہے۔ صفحہ ۱۳۰ پر’’قتل مرتد اور عقل ‘‘کے عنوان سے مواد پیش کیا گیا ہے۔ جس میں دراصل ایک مولوی کے مضمون ’’شرعی احکام اور عقل‘‘ میں مندرج بعض وساوس کا ردّ ہے۔ صفحہ ۱۵۶ پر’’حدیث اور قتل مرتد‘‘ کا باب شروع ہوتاہے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ جب قرآن کریم سے ثابت ہوگیا ہے کہ محض ارتداد کی وجہ سے کسی کو قتل کرنا اسلام کی تعلیم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے بعد کچھ اور کی ضرورت تونہیں رہتی لیکن چونکہ مخالفین کو اس بات پر گھمنڈ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ ارتداد اور محض ارتداد کی سزا قتل ہے۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حدیث پر بھی نظر کی جائے اور دیکھا جائے کہ یہ دعویٰ کہاں تک درست ہے۔ سب سے پہلے مصنف نے قرآن کریم کے مقابل پر حدیث کا درجہ پیش کیا ہے اور اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیفات الحق مباحثہ لدھیانہ اور ازالہ اوہام سے استفادہ کیا ہے۔ کتاب کے صفحہ ۱۷۱ پر ’’عدم قتل مرتد کا ثبوت حدیث سے‘‘ کا عنوان بناکر قرآ ن کریم کی طرح احادیث سے بھی ثابت کیا ہے کہ حامیان قتل مرتد سخت غلطی پر ہیں۔ صحاح ستہ سے مثالیں لاکر سفاکان کابل کی بربریت کا اصل بنیادوں سے ہی قلع قمع کیا ہے۔ اس حصہ میں پیش کردہ متعدد افراد اور واقعات کی مثالیں مصنف کے تبحر علمی ، وسعت مطالعہ اور بالغ النظری کا نمونہ ہیں۔ بعض لوگ “من بدل دینہ فاقتلوہ” (جو دین بدلے، اسے قتل کرو) والی حدیث کو بنیاد بنا کر کہتے ہیں کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔ مولوی شیر علی صاحب (رضی اللہ عنہ) نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے یہ وضاحت کی ہے کہ اس حدیث کا مطلب عام ارتداد (یعنی اسلام چھوڑ دینا) نہیں، بلکہ بغاوت اور اسلام کے خلاف جنگ چھیڑنے والے لوگوں سے متعلق ہے۔آنحضرت ﷺ کی زندگی میں کئی افراد مرتد ہوئے، لیکن انہیں قتل نہیں کیا گیا، جیسے:عبداللہ بن ابی سرح جو مکہ میں مرتد ہو گیا تھا، مگر بعد میں آنحضرت ﷺ نے اسے معاف کر دیا۔حارث بن سوید جو مرتد ہوا، مگر پھر اسے کوئی سزا نہیں دی گئی۔یہ ثابت کرتا ہے کہ محض مذہب چھوڑنے پر کسی کو قتل کرنے کا حکم نبی کریم ﷺ نے نہیں دیا۔ کتاب کے صفحہ ۲۱۶ پر ’’قتل مرتد اور صحابہ‘‘ کا باب ہے۔ جس میں پیش کردہ ومواداورمثالوں سے مذکورہ بالا امور کی ہی تصدیق ہوتی ہے اور آنحضور ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ اور خود خلفائے راشدین اس آخری زمانہ کے وحشی علماء اور ان کے ہم نواؤں سے اپنے طرز عمل اور نظریات میں کوسوں دُور تھے۔ صفحہ ۲۶۱ پر ’’قتل مرتد اور فقہاء‘‘ کا حصہ ہے۔ جس میں فقہاء کی غلط فہمیوں اوران کا تاریخی پس منظر بتایا گیا ہے۔ مصنف نے وضاحت کی کہ بعض فقہاء نے مرتد کی سزا کو سیاسی بغاوت کے ساتھ خلط ملط کر دیا، کیونکہ ابتدائی اسلامی ریاست میں مرتدین اکثر دشمنوں کے ساتھ مل کر ریاست کے خلاف بغاوت کرتے تھے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جو لوگ مرتد ہوئے، ان کے خلاف جنگ دراصل ارتداد کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کی سیاسی بغاوت اور ریاست کے خلاف جنگ کی وجہ سے ہوئی تھی۔کیونکہ مرتد کے قتل کرنے کی اصل وجہ اس کا حربی ہونا ہے۔ پس جماعت احمدیہ کا موقف قرآنی تعلیمات اور نبی کریمﷺ کی سنت پر مبنی ہے کہ مرتد کے لیے دنیا میں کوئی سزا مقرر نہیں، بلکہ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی واضح فرمایا کہ اسلام ایک پُرامن مذہب ہے اور کسی بھی شخص کو زبردستی اسلام قبول کرانے یا اسلام چھوڑنے پر قتل کرنے کا کوئی جواز نہیں۔فاضل مصنف حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ نے مضبوط علمی اور تحقیقی بنیادوں پر یہ ثابت کیا ہے کہ مرتد کے لیے اسلام میں کوئی دنیوی سزا مقرر نہیں کی گئی، اور سزائے موت کا تصور بعد کے ادوار میں فقہاء کی غلط فہمیوں اور سیاسی حالات کے باعث پیدا ہوا۔ یہ کتاب اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرنے اور اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کا رد پیش کرتی ہے۔ حضرت مولوی محمد دین صاحب، سابق مبلغ امریکہ نےالفضل قادیان کے ۱۶؍مارچ ۱۹۲۶ء کے شمارہ میں مطبوعہ اپنے تبصرہ میں اس کتاب کے متعلق لکھا کہ’’قتل مرتد اور اسلام‘‘ مؤلفہ حضرت مولوی شیر علی صاحب میری نظر سے گزری، قبل ازیں ان مضمونوں کا سلسلہ جو حضرت مولوی صاحب کے قلم سے نکلا اور الفضل میں شائع ہواتھا وہ بھی میں نے شکاگو میں پڑھا تھا۔ ان دنوں ڈاکٹر زویمر مشہور عیسائی مشنری جرنلسٹ اور مصنف کے قلم سے ایک مضمون ’’مسلم ورلڈ‘‘میں نکل چکا تھا۔ اور ساتھ ہی اس کی ایک کتاب دواڑھائی صد صفحات کی اسی مضمون پر شائع ہوچکی تھی۔ جہاں حضرت مولوی شیر علی صاحب کے لئے دل سے دعا نکلتی تھی وہاں دیوبندی اور دیگر غیر احمدی علماء کی حالت پر رحم آتا تھا کہ کاش ان لوگوں کو دنیا کا علم ہوتا۔ اور ان کو سمجھ ہوتی کہ سب سے بڑی روک اسلام کے راستے میں سب سے بڑا اعتراض اسلام کی حقانیت پر غیر مسلم دنیا کی طرف سے یہی ہے کہ اسلام نے جبر کو روا رکھا ہے۔ اور اسلام اور تلوار دو مترادف الفاظ ہیں اور علم و عقل سے اسلام کو سروکار نہیں ۔ جو اسلام نہ لائے اسے بھی تلوار کے گھاٹ اتار دیا جائے اور جو مان کر چھوڑ دے اس کی بھی گردن اڑا دی جاوے…۔حضرت مولوی صاحب نے دنیا پر بڑا احسان کیا ہے کہ حق کو حق اور باطل کو باطل کرکے واضح کردیا ہے اور نہ صرف قرآن شریف سے بلکہ حدیث و سنت ۔ اقوال صحابہ اور ائمہ اربعہ اور دیگر اکابر اسلام کے اقوال و اعمال سے ثابت کردکھایا ہے کہ اصل اسلام وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش کیا اور ثابت کردیا ہے کہ دین اسلام میں ہر گز جبر و اکراہ جائز نہیں بلکہ ایک گناہ کبیرہ ہے۔ اور ارتداد کی سزا قتل وغیرہ بالکل نہیں۔ بلکہ دین کے معاملہ میں کامل آزادی صرف اسلام نے ہی دی ہے۔ اور ذمیوں کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور غیر مذاہب والوں کو ذمی قرار دیا ہے کہ ان کی حفاظت اسلام اور مسلمانوں کا فرض ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کتاب کا اچھی طرح مطالعہ کریں اور اس کو بار بار پڑھ کر اس کو یاد کرلیںکہ اسلام پر سب سے بڑا بدنما دھبہ یہی جبر و اکراہ کا مسئلہ ہے جس کی ایک جزو قتل مرتد بھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کا مطالعہ فی زمانہ ایک خدمت اسلام ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس کی کاپی اپنے پاس رکھے۔ میں امید کرتا ہوں کہ حضرت مولوی صاحب اس مضمون کو انگریزی کا لباس انگریزی ضرورت کے ماتحت ضرور دیں گے کیونکہ یورپئین لٹریچر خاص کرکے انگریزی میں ایسی کتب کی اشد ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان اسلام کے بد خواہ دوستوں یعنی مولویوں کی آنکھیں کھولے اور وہ ضرورت زمانہ کو محسوس کریں۔ اور اپنے افعال و کردار اور عقائد سے قرآن شریف اور محمدؐ رسول اللہ کے روشن چہرہ پر بدنما دھبہ نہ لگائیں۔ ‘‘ مزید پڑھیں: جو بِیت گیا ہے وہ