ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’احمدیوں کو چاہیے کہ زمانے کے رواج کو چھوڑیں۔ جو خدا کا حکم ہے اس کے مطابق ایسے لین دین کی کارروائی کیا کریں اور اسی میں سب کی بچت ہے۔ پھر بعض دفعہ بعض روزمرہ کی ضروریات کے لیے یا سفر کے دوران ضرورت کے پیش آنے پر کوئی شاپنگ کی اور رقم کم ہوگئی یا خرید و فروخت کی ہے اور رقم کم ہوگئی یا کوئی چیز پسند آئی تو خریدنے کی خواہش پیدا ہوئی اور کسی دوست سے کسی عزیز سے کسی رشتہ دار سے قرض لے لیایہاں ایک چیز واضح کر دوں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تھوڑی سی رقم ادھار لی تھی۔ ان کے نزدیک ادھار اور قرض میں فرق ہے، حالانکہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ یہاں بھی بعض اوقات بعض لوگ یا دوست آتے ہیں، پھر اپنے دوستوں سے رقمیں بھی لے لیتے ہیں کہ واپس جا کے ادا کر دیں گے یا اگر کسی نے اپنے وہاں کسی عزیز کو رقم دینی ہو تو کہہ دیتے ہیں اتنی رقم مجھے دے دو میں پاکستان جا کے اس کو روپوں میں دے دوں گا یا کسی ملک میں بھی جہاں رہتے ہوں وہاں جا کر تمہارے عزیز رشتہ دار کو وہاں کی مقامی کرنسی میں دے دوں گا۔ اور پھر بعض دفعہ ہوتا یہ ہے کہ واپس پہنچ کے ٹال مٹول سے کام لینے لگ جاتے ہیں کہ ابھی انتظام نہیں ہوا اگلے مہینے یا دو مہینے بعد دے دوں گا۔ تو بعض دفعہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں پھر رنجشیں پیدا کرتی ہیں۔ بہر حال ایسی صورت میں بھی تحریر بنالینی چاہیے اور دینے والا جس کو رقم دی گئی ہے ،اس سے تحریر لکھوائے کہ اتنی رقم فلاں کرنسی میں فلاں رشتہ دار کو دینی ہے۔ اس طرح کی کوئی تحریر بن سکتی ہے۔ اس طرح کریں گے تو بہت سارے جھگڑے، رنجشیں ختم ہو جائیں گی بلکہ پیدا ہی نہیں ہوں گی ۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۳ اگست۲۰۰۴ء / خطبات مسر ور جلد دوم صفحہ ۵۶۹-۵۷۰) (مرسلہ: وکالت صنعت و تجارت)