اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ محترم راجہ محمد نواز صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۱ و ۱۳؍جنوری ۲۰۱۴ء میں مکرم راجہ مسعود احمد صاحب نے اپنے والد محترم راجہ محمد نواز صاحب کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے۔ مکرم راجہ محمد نواز صاحب ضلع چکوال کے گاؤں ڈلوال میں ۱۴؍جولائی۱۹۱۶ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد راجہ مواز خان بہت متعصّب تھے اور حضرت مسیح موعودؑکے شدید معاند اور کاذب مولوی کرم دین بھین کے دوست تھے۔ لیکن اپنے اہل خانہ کا علاج علاقے کے مشہور طبیب حضرت مولوی کرم داد صاحبؓ (یکے از ۳۱۳)سے کرواتے تھے۔ مکرم راجہ محمد نواز صاحب کی والدہ آپ کے بچپن میں وفات پاگئی تھیں۔ وفات سے قبل کی شدید بیماری میں آپ ہی اُن کی دوائی لینے حضرت مولوی کرم داد صاحبؓ کے پاس دوالمیال جایا کرتے اور کئی کئی گھنٹے اُن کی پاکیزہ صحبت میں رہتے۔ اس کے نتیجے میں غیرمعمولی پاک تبدیلی یہ پیدا ہوئی کہ حضرت مسیح موعودؑ کی شان میں گستاخانہ کلمات کو سننا یا پڑھنا شدید ناپسند ہوگیا۔ طبعی طور پر آپ غرباء، مظلوموں اور بیوگان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ آپ کی وفات پر اکثر غرباء یہی کہتے تھے کہ اب ہم لاوارث ہو گئے ہیں کیونکہ آپ کی ناراضگی کے ڈر سے گاؤں کے راجگان بھی ہم پر زیادتی نہیں کرتے تھے۔ مہمان نوازی آپ کو ورثہ میں ملی تھی۔آپ کے والد کا گھر مہمان نوازی کے لیے مشہور تھا۔ کوئی مسافر، سرکاری ملازم جس کورہائش یا کھانے کی ضرورت ہوتی وہ بلاتکلّف ان کے ہاں بغیر اطلاع چلا جاتا۔ وہ مختلف سرکاری محکمہ جات میں ٹھیکیداری کرتے تھے۔ ایک بزرگ احمدی اوورسیئر سید فخرالسلام شاہ صاحب ان کے افسر ہی نہ تھے بلکہ دوست بھی تھے۔ جب وہ راجہ صاحب کو تبلیغ کرتے تو یہ کہتے کہ آپ کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں، مَیں کبھی بھی احمدیت قبول نہیں کروں گا۔ وہ ہمیشہ جواب میں فرماتے کہ اگر آپ احمدی نہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ آپ کی اولاد میں سے کسی کو یہ نعمت عطا فرما دے گا۔ راجہ صاحب کہتے کہ آپ مجھ سے تو مایوس ہوچکے ہیں اور اب میری اگلی نسل پر نظریں رکھی ہوئی ہیں لیکن فکر نہ کریں اُن میں سے بھی کوئی مرزا صاحب پر ایمان نہیں لائے گا۔ یہ گفتگو بارہا راجہ محمد نواز صاحب کی موجودگی میں ہوتی تو آپ خوب لطف اندوز ہوتے کیونکہ دل میں احمدیت کی شمع تو بچپن سے روشن ہوچکی تھی۔ پھر جوانی میں آپ کا تعلق بزرگ احمدی اور ناظر مال راجہ علی محمد صاحب سے ہو گیا۔ وہ ۱۹۴۳ء یا ۱۹۴۴ء میں آپ کو جلسہ سالانہ قادیان پر لے گئے تو وہیں آپ کو بیعت کرنے کی سعادت حاصل ہوگئی۔ محترم راجہ محمد نواز صاحب کی بیعت کی فوری وجہ آپ کا یہ مشاہدہ تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ کے خطاب کے دوران ایک نہایت خوبرو نوجوان ایک میلے کچیلے دیہاتی بچے کو اُٹھا کر سٹیج پر آیا کہ اُس کی گمشدگی کا اعلان کروائے۔ اُس وقت حضورؓ کوئی اہم نکتہ بیان فرما رہے تھے اور انہیں علم نہ ہوا کہ کوئی گمشدہ بچہ لے کر پہلو میں کھڑا ہے۔ اس دوران بچے کی ناک بہنے پر اُس معززنوجوان نے جیب سے رومال نکالا اور بچے کا ناک صاف کیا اور خدمت کے جذبے کے ساتھ نہایت اطمینان اور بشاشت کےساتھ بچے کو اُٹھا کر کھڑا رہا۔ تقریباً نصف گھنٹہ یہی کیفیت رہی۔ حتیٰ کہ بچہ رویا تو حضورؓ نے توجہ فرمائی۔ راجہ صاحب کے دریافت کرنے پر جب معلوم ہوا کہ یہ خوبرو نوجوان حضورؓ کے فرزند اکبر محترم مرزا ناصر احمد صاحب ہیں تو آپ کہنے لگے کہ باقی مسئلے تو بعد میں طے کریں گے پہلے میری بیعت کرائیں۔ قادیان سے واپس دوالمیال جاکر آپ نے اپنی بیعت کو کسی پر ظاہر نہ کیا لیکن چندہ ادا کرنا شروع کردیا۔ جب آپ کے والدین اور گاؤں والوں کو آپ کے احمدی ہونے کا علم ہوا تو آپ پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ آخر والد نے عاق کرنے کی دھمکی دی تو اُس وقت آپ کے ہاتھ میں خلال کرنے کے لیے ایک تنکا تھا۔ آپ نے جواب دیا کہ اگر یہ تنکا ہاتھ سے گِر جائے تو شاید افسوس ہو لیکن اگر آپ مجھے قبولِ احمدیت کی وجہ سے عاق کریں گے تو مجھے اتنا بھی افسوس نہیں ہو گا جتنا یہ تنکا گرنے سے ہوگا۔ پھر آپ کی دوسری والدہ صاحبہ نے بھی لالچ دینے کی کوشش کی اور کرنسی نوٹوں سے بھری ہوئی ایک الماری کھول کر کہا: دیکھو اگر تم نے احمدیت سے توبہ نہ کی تو اس سے محروم کر دیے جاؤ گے۔ جب لالچ اور خوف کے تمام حربے نا کام ہوگئے تو پھر جذباتی اور نفسیاتی حربے استعمال کیے گئے۔ ایک روز والدہ نے بہت منتیں کیں، ہاتھ باندھے، اسلامی تعلیم سے والدین کے مقام کی مثالیں دیں۔ پھر آپ کے چند ماہ کے چھوٹے بھائی کو آپ کے پاؤں پر رکھ دیا اور آپ کے پاؤں پکڑ کر کہا کہ خدا کے واسطے احمدیت چھوڑدو اور خاندان کی عزت برباد نہ کرو۔ آپ کہا کرتے تھے کہ اس وقت میری عجیب کیفیت ہوئی ایک طرف والدہ صاحبہ کا پاؤں پکڑکر منتیں کرنا اور دوسری طرف حق کو شناخت کرنے کے بعد اس سے انحراف کرنا ناممکن تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ ثابت قدم رہے۔ اِن تمام حربوں کی ناکامی کے بعد آپ کے والد نے آپ کی خوش دامن صاحبہ کو بلایا اور کہا کہ اپنی بیٹی(آپ کی بیوی) کو لے جائیں شاید اس طرح یہ احمدیت چھوڑ دے۔ انہوں نے جواباً کہا کہ ہم نے رشتہ اس لیے نہیں دیا تھا کہ بیٹی کو واپس لے جائیں۔ اس پر انہوں نے آپ کے خُسر راجہ سردار خان صاحب کو بلاکر کہا کہ یہ احمدی ہو گیا ہے میری ناک کٹ گئی ہے۔ اب گھر سے باہر نکلتے بھی شرم آتی ہے۔ اگر آپ اپنی بیٹی کو لے جائیں تو شاید یہ احمدیت کو چھوڑ دے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بیٹی کا رشتہ آپ کی وجہ سے نہیں دیا تھا بلکہ اس لیے دیا تھا کہ یہ لڑکا احمدی ہے۔ والد نے پوچھا آپ کو کیسے پتہ چلا کہ یہ قادیانی ہے یہ تو اب قادیانی ہوا ہے۔ انہوں نے جواباً کہا کہ آپ تو بڑے عقلمند بنتے ہیں، دیکھتے نہیں کہ اس لڑکے کے اخلاق، چال ڈھال، اطوار دوسرے مسلمانوں والے نہیں۔ یہ تو دیکھنے سے ہی قادیانی لگتا ہے۔ تمام حربوں کی ناکامی کے بعد والد نے آپ کو گھر سے نکال دیا۔ اُس وقت تک آپ اپنے والد کے ساتھ مشترکہ کاروبار ہی کرتے تھے اس لیے کوئی پیسہ پاس نہیں تھا۔ آپ کا کُل اثاثہ دو چارپائیاں، ایک کرسی، ایک دیگچی اور دو مٹی کے پیالے تھے۔ اس ابتلا کے دَور میں اہلیہ نے آپ کا ہر طرح ساتھ دیا اور حق ادا کیا۔ وہ ایک سادہ مزاج، صابرہ شاکرہ، قناعت پسند اور نہایت مہمان نواز خاتون تھیں۔ اللہ بھی ادھار نہیں رکھتا۔اُس نے بھی پھر ہر پہلو سے آپ کو بےانتہا نواز دیا۔ چنانچہ ۱۵؍جنوری ۱۹۴۷ء کو آپ قادیان میں قیام کے دوران نظام وصیت میں بھی شامل ہوگئے۔ ربوہ کے قیام کے بعد یہاں آبسے اور ربوہ کے پہلے سیکرٹری وصایا بھی مقرر ہوئے۔ زندگی بھی وقف کردی اور ۱۹۵۳ء میں مرکز کی طرف سے کراچی میں جماعتی تعمیرات کی نگرانی پر بھی مامور رہے۔ ربوہ میں جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوریؒ آپ کے ہاں قیام فرمایا کرتے تھے۔آپ کا خلافت اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے محبت اور بےتکلّفی کا تعلق قائم تھا۔ ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ جہلم میں محترم مرزا منیر احمد صاحب کے پاس قیام فرما تھے۔ تو ایک شام لان میں حضورؒ کے ہمراہ ٹہلتے ہوئے آپ نے عرض کی کہ حضور! ہمارے آباء و اجداد نے بارہ پندرہ پشت قبل مغلوں کی اطاعت قبول کرلی تھی۔آج چار سو سال بعد ہمیں دوبارہ مغلوں کی اطاعت قبول کرنے اور بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ آپ کا اشارہ اُس تاریخی واقعہ کی طرف تھا جسے بابر بادشاہ نے اپنی خودنوشت سوانح ’’تزک بابری‘‘ میں یوں بیان کیا ہے کہ جب وہ کوہستانِ نمک (Salt Range) آیا تو اس ریاست کے جنجوعہ راجپوت سربراہ راجہ ہست خان نے مقابلہ کرنے کی بجائے اطاعت قبول کرلی اور ایسا اس قوم کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہواتھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ جب کلرکہار کے راستے ایبٹ آباد اور اسلام آباد وغیرہ جایا کرتے تھے تو جاتے وقت اور واپسی پر تھوڑی دیر کے لیے کلرکہار میں آرام فرمایا کرتے تھے۔ اس قیام کے دوران ریسٹ ہاؤس کی بکنگ کرانا و دیگر انتظامات راجہ صاحب کے سپرد ہوتے تھے۔ آپ کی دعوت پر تیتر کا شکار کرنے بھی حضورؒ تشریف لائے۔ راجہ محمد نواز صاحب حقیقی معنوں میں خلافت پر فدا تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خدمت میں جب بھی خط لکھواتے آخری فقرہ یہی ہوتا کہ دعا کریں میرا انجام بخیر ہو۔ آپ کی تہجدکی نماز دیکھنے اور سننے والی ہوتی تھی۔ کمرہ بند کرکے نماز تہجد ادا کرتے اور سجدے میں دعائیں کرتے ہوئے آپ کی آواز اونچی ہو جاتی اور بھرا جاتی۔ آپ اگرچہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد گھریلو حالات کی وجہ سے پڑھائی جاری نہ رکھ سکے تھے اور پرائمری کلاس بھی پاس نہ کرسکے تھےلیکن علم حاصل کرنے کی لگن زندگی بھر رہی۔ آپ کا مطالعہ وسیع تھا اور حلقۂ احباب میں علمی ادبی شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ محترم پروفیسر قاضی محمداسلم صاحب ایم اے (کینٹ) پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ نے ۱۹۶۳ء میں الفضل میں ایک مضمون میں لکھا کہ راجہ محمد نواز صاحب محکمہ آثارقدیمہ میں تعمیرات عامہ کے کنٹریکٹر ہیں۔ کاروبار کے ساتھ ساتھ اپنے علمی ذوق کی تشفی بھی کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ محکمہ آثارقدیمہ کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے کئی قسم کی دلچسپ اور قیمتی علمی اورمادی چیزیں ان کے ہاتھ لگتی رہتی ہیں۔ ان میں ایسے پتھر (فاسلز) بھی ہوتے ہیں جو کبھی کسی جانور یا کسی پودے کا حصہ تھے لیکن لمبے عرصہ تک دبے رہنے کی وجہ سے پتھر میں تبدیل ہو چکے ہیں۔علم حیات والے ایسے پتھروں کی بڑی قدر کرتے ہیں۔آپ کے پاس بعض قلمی کتابوں کا ذخیرہ بھی ہے جو سو سال یا اس سے کچھ زیادہ کی لکھی ہوئی ہیں۔ ان کتابوں سے علمی اور تاریخی مسائل کے حل کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ راجہ صاحب علاقہ نمک اور محکمہ کی کئی شخصیتوں کو جانتے ہیں اور پنجاب کی سول سروس کے ریٹائرڈ افسر بندوبست کے خصوصی ماہر راجہ علی محمد صاحب سے بھی ان کی ملاقات ہے جو سلسلہ کے بڑے مخلص اور علم دوست بزرگ ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ محترم راجہ علی محمد صاحب کو اپنے کام کے سلسلہ میں کئی علاقوں، قوموں اور قبیلوں کے حالات کو جانچنا پڑا تو انہوں نے مطبوعہ تاریخی کتابوں اور رسالوں سے مدد لینے کے علاوہ اپنی ذاتی تحقیق بھی کی جس کے نتائج کے ایسے نوٹس تیار کیے جن سے پنجاب اور یہاں کی قوموں کی تاریخ کے کئی ابواب تیار ہوسکتے ہیں۔ میں دوستوں میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ جہاں تک انہیں موقع ملے وہ بھی کاروباری مشاغل کے ساتھ کچھ نہ کچھ علمی ذوق وشوق شامل رکھیں اور علمی نوادر کو جہاں تک ہوسکے جمع کرتے رہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ راجہ صاحب اپنے پاس موجود تمام آثار اور قیمتی کتب بطور عطیہ کالج کو دے رہے ہیں۔ محترم راجہ صاحب کی ذاتی لائبریری میں جماعتی کتب کے علاوہ تاریخ کی مشہور کتب موجود تھیں۔ آپ نے کلرکہار میں کھدائی کرواکر بابر بادشاہ کے لگائے ہوئے اُس باغ کی چاردیواری کی بنیادیں بھی دریافت کی تھیں جو بابر نے چارسو سال قبل یہاں قیام کے دوران لگوایا تھا اور اس کا نام ’باغ صفاء‘ رکھا تھا۔ اس تحقیقی کام کو بہت سراہا گیا۔ جب کبھی الیکشن کا زمانہ آتا تو مقابلہ کرنے والے تمام گروہوں سے آپ کے یکساں تعلقات ہوتے۔ وہ دل سے آپ کی عزت کرتے اور آپ کے پاس کھانا بھی کھاتے۔ چیئرمین ضلع کونسل کے دفتر میں ہونے والی ایک میٹنگ میں جب مَیں موجود تھا تو آپ کے آنے کی اطلاع ملی۔ کمرے میں آپ کے پہنچنے سے پہلے حاضرین نے نہ صرف اپنے سگریٹ بجھادیے بلکہ چیئرمین نے کھڑکیاں وغیرہ بھی کھلوادیں تاکہ سگریٹ کا دھواں نکل جائے۔ اسی طرح صدر ایوب کا زمانہ تھا کہ اُن کی کابینہ کے رُکن سردار خضرحیات صاحب چکوال آئے۔ وہ مسلم لیگ کے پارلیمانی سیکرٹری بھی تھے۔ دو تین سو افراد سردار صاحب کے سامنے کرسیوں پر بیٹھے تھے جب خاکسار والد صاحب کے ہمراہ وہاں پہنچا اور سردار صاحب نے راجہ صاحب کو دیکھا تو فوراً اُٹھ کر آئے، احتراماً راجہ صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاکر عزت دی۔ پھر اپنے کمرے میں لے جاکر معافی چاہتے ہوئے کہا کہ بھائی جی! مَیں بھول گیا تھا، ابھی کمشنر کو آپ کے کام کے لیے فون کرتا ہوں۔ (دراصل والد صاحب نے سردار صاحب کو کوئی کام کہا تھا جو اُن کو آپ کو دیکھتے ہی یاد آگیا۔) آپ ایک غیرسیاسی شخصیت تھے، ہر کسی کی مدد کے لیے تیار رہتے لیکن کسی کے ساتھ زیادتی پسند نہیں کرتے تھے۔ پاکستان کے ایک سابق وزیرخزانہ چودھری محمدعلی صاحب نے چوآسیدن شاہ میں جلسہ کرنا تھا۔ وہ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ جو ریسٹ ہاؤس انہوں نے بُک کروایا تھا اُس کی بکنگ منسوخ کردی گئی ہے اور جہاں جلسہ کرنا تھا وہاں پانی چھوڑ دیا گیا ہے۔ جب راجہ صاحب کو علم ہوا تو آپ نے اُن کو پیغام بھیجا کہ رات میرے ہاں قیام کرلیں اور جلسے کا انتظام بھی کردیا جائے گا۔ چنانچہ چودھری محمدعلی صاحب آپ کے گھر آگئے۔ اگلے روز اُن کے جلسے کا انتظام سکول کی گراؤنڈ میں کروادیا گیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ راجہ صاحب اور چودھری محمدعلی صاحب اس سے قبل ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔ جب بات چیت شروع ہوئی تو چودھری صاحب نے احمدیوں کے خلاف کوئی بات شروع کی اس پر وہاں بیٹھے ہوئے ایک مقامی دوست نے اُن سے کہا کہ جس شخص نے آپ کو اپنے گھر میں ٹھہرایا ہے وہ احمدی ہے اور جنہوں نے آپ کے جلسے کی گراؤنڈ میں پانی چھوڑا ہے وہ آپ کے مسلمان ساتھی ہیں، آپ اخلاق کا موازنہ خود کرلیں۔ احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیے جانے کے بعد کسی دوست کے کام کے سلسلے میں محترم راجہ صاحب لاہور گئے۔ کسی اَور دوست کو بھی علم ہوا تو وہ فون کے ذریعے آپ کو تلاش کرنے لگ گئے۔ میزبان نے فون اٹینڈ کیا تو آواز پہچان کر کہا کہ اگر آپ نے غیرمسلم سے بات کرنی ہے تو وہ عشاء کی نماز پڑھ رہے ہیں اور اگر مسلمان سے بات کرنی ہے تو مَیں حاضر ہوں۔ ۱۹۸۷ء کے جلسہ سالانہ لندن میں شرکت کے بعد آپ ۲۲؍اکتوبر کو واپس پاکستان پہنچے تو ایئرپورٹ پر پہنچتے ہی مجھے گلے لگاکر کہا کہ مجھے جہلم میں دفن کرنا۔ مَیں نے جواباً کہا: بہت اچھا۔ پھر آپ نے کسی پراجیکٹ کے بِل کی ادائیگی کے متعلق پوچھا تو مَیں نے بتایا کہ دس بارہ یوم تک رقم مل جائے گی۔ فرمایا: جب رقم مل جائے تو اس میں سے چندہ ادا کردینا، چارپانچ ہزار روپے مسجد بیت الحمد کے لیے دے دینا اور کچھ جہلم شہر کی مسجد کی تعمیر پر خرچ کردینا۔ اس کے بعد فرمایا کہ کچھ دنوں سے میری ایسی روحانی حالت ہے جس کو الفاظ میں بیان کرنے کے لیے موزوں الفاظ نہیں ملتے، بس عجیب مزیدار سی کیفیت ہے اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی شدید خواہش ہے۔ پھر روزانہ یہی فقرات دہرایا کرتے کہ میری روح جلد سے جلد اپنے مولیٰ کے پاس حاضر ہونے کے لیے شدّت سے منتظر ہے اور عجیب لذت اور سرور کی کیفیت ہے، دعا کرو کہ یہ کیفیت آخر تک برقرار رہے۔ ایک روز کہنے لگے کہ مَیں نے بہت غور کیا ہے کوئی خواہش باقی نہیں، کوئی کام بقایا نہیں، ہر ذمہ داری ادا کرچکا ہوں، حضور سے الوداعی ملاقات بھی کر آیا ہوں بس اپنے مولیٰ حقیقی کے حضور حاضر ہونے کا منتظر ہوں۔ آخر ۲۹؍اکتوبر۱۹۸۷ء کو آپ اسی لذّت و سرور کی کیفیت میں صبح ساڑھے تین بجے انجام بخیر کو پہنچے۔ اسی روز بعد نماز عصر احمدیہ قبرستان جہلم میں امانتاً تدفین کی گئی اور ۱۶؍جنوری۲۰۰۳ء کو جسدخاکی کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں منتقل کردیا گیا۔ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ سے آپ کو قلبی تعلق تھا اور وفات سے قبل اُن کی کتاب ’’تحدیث نعمت‘‘ کا وہ حصہ زیرمطالعہ تھا جس میں مغفرت الٰہی کا بیان ہے۔ ………٭………٭………٭……… حضرت امام ابوعبداللہ قرطبیؒ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۹؍جنوری۲۰۱۴ء میں عظیم محدّث حضرت امام ابوعبداللہ قرطبیؒ کا تذکرہ روزنامہ ’’دنیا‘‘ ۲۷؍مئی۲۰۱۳ء سے منقول ہے (مرسلہ مکرم طلحہ احمد صاحب) آپؒ مسلم ہسپانیہ کے شہر قرطبہ میں اُس دَور میں پیدا ہوئے جب اسلامی حکومت زوال کا شکار تھی اور عیسائی متحد ہوکر مسلمانوں سے برسرپیکار تھے۔ آپؒ کے والد ایک کسان تھے جو ۱۲۳۰ء میں ایسے ہی ایک حملے میں مارے گئے تو مالی وسائل نہ ہونے کی بِنا پر آپؒ کو تعلیم کے ساتھ ساتھ کمہاروں کے برتن بنانے کے لیے مٹی ڈھونے کا کام بھی کرنا پڑا۔ جب قرطبہ پر عیسائیوں نے قبضہ کرلیا تو آپؒ مصر کے شہر سکندریہ آگئے اور پھر قاہرہ میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔ قرطبیؒ اپنے دَور کے عظیم مفسر اور محدّث تھے۔ آپؒ حضرت امام مالکؒ کے مسلک پر تھے۔ آپؒ کی شہرۂ آفاق تفسیر بیس جلدوں پر مشتمل ہے۔ آپؒ کی تصانیف میں تزکیۂ نفس اور خواہشات پر قابو پانے کا بہت تذکرہ ہے۔ درویش صفت اور نام و نمود سے دُور قرطبیؒ ۱۲۷۳ء میں وفات پاگئے اور منیہ ابی الخوسب میں دفن کردیے گئے۔ لیکن آپؒ کے علم کا شہرہ ایسا پھیلا کہ ۱۹۷۱ء میں آپؒ کا جسد خاکی لاکر قاہرہ کی بڑی مسجد کے پہلو میں دفن کیا گیا جس پر عظیم الشان مقبرہ بھی تعمیر کیا گیا۔ حدیث میں امام مالکؒ کے مسلک پر قائم لوگ حدیث کے معاملے میں بہت محتاط ہیں اور روایات کا دارومدار مدینہ کے مسلمانوں پر رکھتے ہیں اس لیے قرطبیؒ کی درج شدہ احادیث پر بھی بحث کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۶؍ستمبر۲۰۱۴ء میں مکرم عبدالکریم قدسی صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے جو جناب حفیظ جونپوری کے ایک شعر پر تضمین ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: راہ پردیس میں سورج سے ٹھنی ہوتی ہےچھاؤں آلودہ مگر دھوپ چھنی ہوتی ہےنہرِ شیریں یونہی آباد نہیں ہوجاتیدلِ فرہاد ہو تب کوہ کنی ہوتی ہےپہلے پردیس میں ملتا نہیں ہمدم کوئیاور ملتا ہے تو پھر جاں پہ بنی ہوتی ہےریت بستر پہ بچھی ہوتی ہے بےقدری کیسر پہ محرومی کی چادر سی تنی ہوتی ہےیوں تو سستانا مقدّر میں نہیں قدسیؔ ، مگر’’بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہےہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے‘‘ مزید پڑھیں: جماعت احمدیہ کی وجہ تسمیہ