https://youtu.be/TlRDq2V8Img سورت آل عمران میں بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کے بعد الٓمَّٓ ۙ۔ اللّٰہُ… آتا ہے۔کسی نے پوچھا کہ یہاں کس طرح قراءت کرنی ہے، کیونکہ میم پر شد بھی ہے اور زبر بھی۔ خلاصۃً جواب یہ ہے کہ دوطرح سے اس کی قراءت ہو سکتی ہے: (الف)الٓمّٓ ۔ اَللّٰہُ… (اَلِفْ لَآمْ مِیْٓمْ ۔ اَللّٰہُ…) (ب) الٓمّٓ ۔ اَللّٰہُُ… (اَلِفْ لَآمْ مِیْمَ ۔ اللّٰہُ…) (نوٹ: بعض نے یہ صورت بھی جائز قرار دی ہے: الٓمَّٓ۔ اللّٰہُ…یعنی یوں پڑھا جائے : اَلِفْ لَآمْ مِیْمَ ۔ اللّٰہُ…مگر یہ صورت قواعدِ تجوید کے مطابق نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مدّ اس وقت آتی ہے جب زیر کے بعد ی ساکن ہو اور اس کے بعد بھی حرفِ ساکن ہو۔ مگر مِیْمَ میں ی ساکن کے بعد حرف ساکن نہیں بلکہ اس پر زبر ہے۔ پس یہاں مدّ نہیں آ سکتی) تفصیل:الٓمَّٓ ۔ اللّٰہُ… یہ اصل میں یوں ہے: الٓمّٓ ۔ اَللّٰہُ= الف لَآمْ مِیْمْٓ ۔ اَللّٰہُ۔ ایک قاعدہ ہے کہ ہمزہ متحرک سے قبل حرف ساکن ہو تو اُس ہمزے کی حرکت اُس ماقبل ساکن پر ڈال دینا جائز ہے، اس صورت میں ہمزہ کو حذف کر دینا واجب ہے۔ اب جب اَللّٰہ کے ہمزے کی زبر پچھلی میم ساکن پرڈالی تو اللہ کا ہمزہ حذف ہو گیا۔اور یوں بن گیا:الٓمَّ۔للّٰہُ…اب میم پر قاعدے کے مطابق مدّ نہیں آ سکتی۔لیکن قرآن کریم میں م پر مدّ بھی ہے اور آگے اللہ کا ہمزہ بھی موجود ہے۔اس کی کیا وجہ ہے؟ درحقیقت اس طرز تحریر میں دو قسم کی قراءت کو جمع کردیا گیا ہے۔ اور مقصد یہ ہے کہ اگر میم پر زبر پڑھنی ہے تو مدّ نہ پڑھیں اور اللہ کا ہمزہ بھی نہ پڑھیں۔ لیکن اگر میم پر زبر نہیں پڑھنی تو مدّ پڑھیں اور بعد میں اَللّٰہ کا ہمزہ زبر سے پڑھیں۔ لکھنے کا یہ طریق برصغیر کے چھاپوں میں ہے۔ عربی چھاپوں میں یوں لکھا ہے: الٓم۔ ٱ للّٰہُ…یعنی میم کو خالی چھوڑ دیا گیا ہے، اس پر نہ زبر ہے نہ شدّ اور نہ مدّ۔ اور اللہ کے ہمزے پر ہمزۃ الوصل کی علامت ص کا سرا (ٱ) ڈالی گئی ہے۔ اِس طرز تحریر سے بھی مذکورہ بالا دو طرز کی قراءت مراد ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ۱) الٓم۔اَللّٰہُ…میں قاری الٓم پر وقف کرنا چاہتا ہے تو میم پر شدّ بھی پڑھےاور مدّ بھی اور آگے اللّٰہ کے ہمزے پر زبر پڑھے۔یعنی اَللّٰہ پڑھے۔ گویا اس طرح قراءت کرے: الٓمّٓ۔ اَللّٰہُ… اور یہی پہلی طرز کی قراءت ہے جس کا اوپر ذکر ہوا تھا۔ ۲) اور اگر قاری الٓم کے بعد وقف نہیں کرنا چاہتا تو پھر میم پر شدّ اور زبر پڑھے مگر مدّ نہ ڈالے اور آگے اللّٰہ کے ہمزے کو کالعدم (حذف)سمجھے یعنی ادا نہ کرے۔ گویا یوں قراءت کرے: الٓمَّ۔ اللّٰہُ… اور یہی دوسری قسم کی قراءت ہے جس کا اوپر ذکر ہوا تھا۔ الٓم میں ہرصورت میں لام پر مدّ لازمی ہے اس لیے اسے لکھ دیا گیا ہے، قاری کی صوابدید پر نہیں چھوڑا گیا۔ یاد رہے کہ قرآن کریم لکھا ہوا نازل نہیں ہوا تھا، بلکہ قراءت کی صورت میں وحی ہوئی تھی۔مندرجہ بالا دونوں طریقوں سے قراءت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اِس زمانے میں لکھنے کا طریق بھی ایک حد تک بدل گیا ہے۔ اُس زمانے میں زبر، زیر، پیش، شدّ، مدّ وغیرہ نہ لکھی جاتی تھیں۔ یہ علامات بعد میں غیر عرب لوگوں کی سہولت کے لیے ایجاد کی گئیں تاکہ غیر عرب آسانی سے پڑھ سکیں۔ اِن سے اصل وحی کو صحت سے ادا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ چیز حفاظتِ قرآن کے خلاف نہیں۔ نوٹ: اگرچہ ہمزہ کی حرکت ماقبل ساکن پر ڈالنے کا قاعدہ جوازاً ہے وجوباً نہیں، مگر شاذ کے طور پر یہ قاعدہ لفظ یَریٰ میں وجوباً استعمال ہوتا ہے۔ یَریٰ اصل میں یَرْاَیُ تھا، بروزنِ یَفْعَلُ۔ ہمزہ کی زبر ما قبل ساکن ر پر ڈالی اور ہمزہ کو حذف کر دیا تو یہ لفظ یَرَیُ بن گیا۔ اب قاعدہ ہے کہ ی یا و مضموم ہو اور ما قبل مفتوح تو یہ و/ی الف میں بدل جائے گی۔ اس لیے یَرَیُ بن گیا یَرَا، جسے یَرٰی لکھتے ہیں تا کہ معلوم ہو کہ یہ الف اصل میں ی تھی۔ مزید پڑھیں: میدانِ کربلا:وحدتِ امت کی قتل گاہ