https://youtu.be/-P2fN1iUybY اہلیہ چودھری سلطان احمد صاحب گوندل مرحوم خاکسار کی والدہ محمودہ بیگم صاحبہ ۱۹۲۰ء میں حضرت چودھر ی علی محمد صاحب گوندلؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر پیدا ہوئیں۔ ۱۹۴۰ء میں حضرت چودھری محمد خان صاحب گوندلؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے چھوٹے بیٹے چودھری سلطان احمد صاحب کے ساتھ شادی ہوئی۔ حضرت چودھر ی علی محمد صاحب گوندلؓ کی اولاد میں سات بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔ میری والدہ کا بہنوں میں چوتھا نمبر تھا۔ حضرت چودھری محمد خان صاحب گوندل ؓکی اولاد میں پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ میرے والد صاحب سب سے چھوٹے تھے۔ ان کی پیدائش ۱۹۱۶ء میں ہوی جبکہ ۱۹۹۹ء میں ۸۳؍سال کی عمر میں انہوں نے وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے والدین کو نمازوں کا پابند اور قرآن کریم کی تلاوت کرتے دیکھا۔ کسی نہ کسی رنگ میں دین کی خدمت کرتے دیکھا۔ نور نگر فارم ضلع میر پور خاص میں قیام کے دوران والدہ محترمہ صدر لجنہ تھیں۔ مجھے یاد ہے میری عمر سات یا آٹھ سال کی تھی، مجھے گھروں میں لجنہ کا چندہ لانے کے لیےبھیجا کرتی تھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓمع اہل خانہ سندھ میں زمینوں پر تشریف لاتے تو والدہ صاحبہ کو اور دیگر لجنہ ممبرات کو گھر میں بیبیوں کی خدمت کا موقع ملتا۔ تندور پرروٹیاں پکانا اور طرح طرح کے کھانے تیار کر کے پیش کرنا،ایک گھریلو ماحول بن جاتا تھا۔ ایک سال تھر میں بارشیں زیادہ ہونے کی وجہ سےخوشحالی تھی اور تھر سے مزدور کٹائی اور محنت مزدوری کے لیے نہیں آئے۔ جماعت کی زمینوں پر کپاس کی فصل کو وقت پر سنبھالنے کا انحصار ان مزدوروں پر ہوتا تھا۔ فصل تیار تھی۔ منشی محمود احمد صاحب نے والدہ صاحبہ سے ذکر کیا تو والدہ صاحبہ نے لجنہ کو تحریک کی کہ نکلیں اور کپاس کی چنائی کریں۔ والدہ صاحبہ خود سب سے آگے تھیں۔ اس طرح جماعت کی فصل جس کے خراب ہونے کا اندیشہ تھا وقت پر سنبھال لی گئی۔ والدہ صاحبہ کی کپاس کی گٹھڑی سب سے بڑی ہوا کرتی تھی۔ شام کو وزن کرنے کے وقت منشی محمود صاحب گٹھڑی دیکھ کر بتادیا کرتے تھے کہ یہ بہن محمودہ کی گٹھڑی ہے۔ سلسلہ کے مال کا بہت خیال کرتیں کہ خراب نہ ہو جائے۔ نورنگر فارم پر زمین ہموار کرنے کے لیے جماعت کا اپنا بلڈوزر آیا تو اس کے ڈرائیور محمد رفیع صاحب جنجوعہ تھے۔ شام کو جب کام کر کے آتے تو مٹی میں لت پت ہوتے۔ ہمیں کہہ کر ان کے لیے پانی کی بالٹیاں بھروا کر رکھتیں اور کھانا اپنے گھر سے بھجواتیں۔ پھر اتنی اپنائیت ہو گئی کہ مکرم رفیع صاحب والدہ کو بہن کہتے اور ہم ان کو ماموں کہتے تھے اور یہ تعلق مرتے دم تک قائم رہا۔ والدہ صاحبہ بہت مہمان نواز اور ہمدردی کا جذبہ رکھتی تھیں۔ تقسیم ہند کے وقت والد صاحب دو یتیم بچوں کو گھر لے آئے۔ ان کی پرورش اپنے بچوں کی طرح کی اور ان کی شادیاں کرائیں جن کی اولادیں مخلص احمدی ہیں۔ ۱۹۵۸ء میں ضلع حیدر آباد سندھ میں اپنی زمین خریدی تو اس زمین کے ساتھ ایک کچی سڑک گزرتی تھی جو اس وقت صرف پیدل چلنے والوں کی گزرگاہ تھی۔ رات کو دیر سے گزرنے والےقریب گاؤں دیکھ کر رات گزارنے کے لیے آجاتے۔ والد صاحب کا نام اس حوالے سے شہرت رکھتا تھا کہ گوٹھ چودھری سلطا ن احمد میں مسافروں کو کھانا بھی مل جاتا ہے اور بستر بھی۔ ہم نے اکثر والدہ کو رات دیر سے مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرتے بھی دیکھا۔ یہ خدمت ہمارے گاؤں کی نیک نامی کا باعث رہی ۔ ہمارے گھر میں چار سے چھ تک دودھ دینے والی گائے اور بھینسیں رہی ہیں۔ ان کا دودھ سنبھالنااور پھر مکھن نکالنا صبح کی نماز کی ادائیگی کے بعد شروع ہو جاتا تھا۔ گاؤں میں لیرے والے گھر جس گھر میں دودھ بلو کر مکھن اور گھی بنایا جاتا ہے اوردودھ اور لسی کی بہتات ہوتی ہے ضرورت مند لوگ دودھ اور لسی حسب ضرورت لے جاتے ہیں۔ میری والدہ ایسے لوگوں کو لسی کے ساتھ مکھن بھی دے دیا کرتی تھیں۔ رات کو کھانے کے بعد سب بچوں کو دودھ دیا جاتا تھا تاکہ ان کی نشو و نما بہتر رنگ میں ہوسکے۔ یہ سلوک گھر کے ملازموں کے ساتھ بھی یکساں رہا۔یاد پڑتا ہے ایک ملازم جو بہت محنتی تھےکبھی والد صاحب کے کوئی بات کہنے پر ناراض ہو جاتے تو کھانا کھانا چھوڑ دیتے اور کام پہلے سے زیادہ کرتے۔ اس کو بٹھا کر بچوں کی طرح سمجھاتیں کہ کھانے سے کیا ناراضگی ہے تو وہ سمجھ جاتے گویا ملازموں کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتیں۔ والدہ محترمہ کو سندھ میں مختلف جگہوں پر رہنے کا موقع ملا اور بطور صدر لجنہ ساٹھ سال سے زائد عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔ ۱۹۸۵ء کے بعد جماعتی پروگراموں میں مشکلات کا سامنا ہواتو کئی بار لجنہ کے ضلعی اجتماع اپنے گاؤں میں کرائے۔ بعض دفعہ پورے اجتماعات کا خرچ بھی خود ادا کیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒکی ہجرت پر افسردگی تھی۔اس وقت کچھ پنجابی اشعار بھی لکھے۔ ربوہ والیا موڑ مہار وے آ کے ربوہ نوں کر گلزار وے ساڈی جاندی نہیں کوئی پیش وے پیر بیٹھا وچ پردیس وے خاکسار جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر مختلف زبانوں کے تراجم پیش کرنے والی ٹیم جس کے مکرم منیر احمد صاحب فرخ مرحوم(سابق امیر ضلع اسلام آباد پاکستان) انچارج تھے میں شامل تھا۔ چنانچہ حضور ؒنے ہجرت کے بعد ارشاد فرمایا کہ یہ ٹیم اپنی ترجمانی کا سامان لے کر جلسہ سالانہ برطانیہ میں شامل ہو۔ اس طرح ہمیں جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۸۵ء میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ الحمدللہ۔ہر سال یہ ٹیم پاکستان سے آکر خدمت کی توفیق پاتی رہی۔ ۱۹۹۰ء میں والدہ صاحبہ نے جلسہ سالانہ برطانیہ میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تو خاکسار نے کوشش کرکے ویزا لگوایا۔ اس طرح والدہ صاحبہ کو جلسہ سالانہ برطانیہ میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ جلسہ سالانہ کے بعد جب حضورِانورؒ سے ملاقات ہوئی تو اس دوران کہا کہ حضور میں نے حضور کی ہجرت پر پنجابی میں اشعار لکھے ہیں اور سنانا چاہتی ہوں۔ حضور نے بخوشی اجازت عطا فرمائی تو والدہ صاحبہ نے ماہیے کی طرز پر اشعار سنائے۔ حضورؒ نے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: آپ شاعرہ نکلیں۔ اس پر کہا کہ حضور کی ہجرت نے شاعرہ بنا دیا ورنہ میں نے تو کبھی شعر نہیں کہے۔ اس وقت محترمہ امۃ الرشید صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ برطانیہ تھیں۔ اسلام آباد میں جلسہ کے موقع پر لجنہ کی ممبرات مع صدر لجنہ برطانیہ والدہ صاحبہ سے پنجابی نظمیں سنتیں اور محظوظ ہوتیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے والدہ صاحبہ خلافت رابعہ کے دور میں چار مرتبہ جلسہ میں شامل ہوئیں اور خلافت خامسہ میں تین جلسہ ہائے سالانہ برطانیہ میں شامل ہوئیں۔ الحمد للہ علیٰ ذٰلک۔ خلافت خامسہ میں حدیقۃالمہدی میں ہونے والے ایک جلسہ میں شدید بارش ہوئی تھی جلسہ کے بعد حضور انور سے ملاقات کی اور حضور سے کہا کہ حضور اس سال تو کُھب کُھب کر جلسہ دیکھا ہے جس پر حضور انور مسکرائے اور فرمایا: ہاں بارش بہت ہو گئی تھی۔ ہمارا گھر غیر احمدیوں کی مسجد کے سامنے تھا۔ اکثر خطبہ جماعت احمدیہ کے خلاف ہوتا۔ اس سے متاثر ہو کر دسمبر کے آخری ہفتہ کے روز جب خاکسار جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے گیا ہوا تھا گھر کے shedکو کسی شر پسند نے آگ لگا دی۔ ہماری بھینس لوہے کی مضبوط زنجیر سے بندھی ہوئی تھی اور زنجیر ایک کھونٹے سے۔ نہ زنجیر ٹوٹی اور نہ ہی کھونٹا۔ بھینس نے تڑپ تڑپ کر لوگوں کے سامنےجان دے دی۔ یہ عشاء کی نماز کے بعد کا وقت تھا۔ آگ کا ا لاؤ دیکھ کرلوگ اکٹھے ہو گئے مگر کسی نے مدد نہ کی۔ اسی طرح ایک رات تمام مرغیاں جن کی تعداد پندرہ تھی سب کی گردنیں اور ٹانگیں کاٹ کر ایک جگہ ڈھیر لگا دیا گیا۔ ہر دو موقعوں پر والدہ نے حوصلہ بڑھایااور دلاسا دیا کہ اس قسم کے امتحانوں پر صبر اور دعا کرنی چاہیے اور کافی دنوں تک دل جوئی کے لیے ہمارے پاس رہیں۔ والد صاحب نے ایک اَور بھینس بھجوا دی اور شر پسندوں کو خوش ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ گرمیوں کے موسم میں آموں کی فصل تیار ہونے پر والدہ صاحبہ بڑے پیمانے پر اچار تیار کرتیں۔ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو نیز جماعتی عہدیداروں کو بھجواتیں۔ ان کے ہاتھ کے اچار کی لذت ناقابل بیان تھی۔ اپنا باغ ہونے کی وجہ سے عزیزوں اور رشتہ داروں کو بلا بلا کر آم تحفۃً دیتیں۔ ہمارے گاؤں میں بجلی آنے پر جب ہم نے فریج خریدا تو ارد گرد کے گاؤں کی عورتیں ہمارے گھر آتیں کہ بی بی نے برف بنانے والی مشین خریدی ہے۔ گرمیوں میں مہمانوں کو ٹھنڈے مشروب پیش کرتیں۔ جب رمضان کا مہینہ آتا تو اس خیال سے کہ غریب لوگ شام کو اس امید سے آئیں گے کہ ہمیں ٹھنڈا پانی یا برف ملے تو کافی سارے برتن کچھ فریزر میں اور کچھ فریج میں ٹھنڈا کرنے کے لیے رکھتیں۔ شام کے وقت عورتیں اور بچے آتے تو کسی کو برف اور کسی کو ٹھنڈا پانی دیتیں کوئی خالی ہاتھ نہ جاتااور یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ بعد میں سڑکیں پختہ ہو گئیں اور شہر آنے جانے کی سہولت ہو گئی۔ انتہائی غریب پرور تھیں۔ ارد گرد کے گاؤں کی عورتیں مدد کے لیے آتیں تو کسی کو نقدی، کسی کو کپڑے، کسی کو آٹا یا گندم دے کر رخصت کرتیں۔ آنے والیاں بھی اسی امید سے آتیں کہ بی بی ہمیں خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گی۔ الحمدللہ ہم نے یہ سلسلہ ان کی ساری زندگی میں دیکھا۔مبلغین، معلمین اور ان کی فیملیز کا بہت احترام کرتیں۔ جماعتی عہدیداروں سے بہت احترام اور عزت سے پیش آتیں۔ جب بھی مبلغ یا معلم ملتا اسے کہتیں کہ اگلی بار آئیں تو اپنے بچوں کو بھی لے کر آنا۔ ضلع بھر میں بےبے جی کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ ان کی اولاد دراولاد دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی ہوئی ہے ان میں سے کوئی نہ کوئی پاکستان والدہ صاحبہ سے ملنے ضرور جاتا۔ آپ کے بچے، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اور اور آگے پڑپوتے اور پڑ نواسے ملا کر ڈیڑھ سو سے زائد ہیں۔ بعض کی وفات بھی ہو چکی ہے۔ کچھ وڈیروں نے ہماری زمین پر بھی نظر رکھی ہوئی تھی اور ہتھیانے کے لیے کئی قسم کے ہتھکنڈےاستعمال کیے یہاں تک کہ گاؤں پر ہوائی فائرنگ بھی کرائی۔ دھمکایا کہ شاید گاؤں چھوڑ جائیں۔ ہماری والدہ نے ہمیں اور گاؤں کے تمام لوگوں کو حوصلہ دیا۔ کہا کرتیں کہ کچھ فکر نہ کریں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔مخالف لوگوں کو پیغام بھجوایا کہ جب تک میں زندہ ہوں نہ ہم بھاگیں گے اور نہ ہی زمین فروخت کریں گے۔اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں سنیں اور اپنا فضل کرتے ہوئے امن قائم کر دیا۔ کوٹری میں مسجد تعمیر کرانے پر مولویوں نے خاکسار پر توہین رسالت کا کیس بنوایا۔ فروری ۱۹۹۲ء میں زیر دفعات ۲۹۸ اور ۲۹۵۔ج کا مقدمہ درج کروایا۔ میرے ساتھ دو انصار، سولہ خدام اور دو اطفال نامزد کیے گئے۔ اس موقع پر بھی کوٹری تشریف لائیں۔ حوصلہ بڑھایا اور کئی دن تک کوٹری میں رہیں۔ میں ہر سال لندن آتا تھا۔ یہاں رہ سکتا تھا۔ مجھے نصیحت کی کہ تمہارے ساتھ مقدمہ میں غریب اور مزدور طبقے کے لوگ ہیں برطانیہ میں رک نہ جانا۔ یہ لوگ محسوس کریں گے کہ ہمیں اکیلا چھوڑ گیا ہے۔ اس سے ان کی دل شکنی ہو گی۔کیس نے بہت طول پکڑا اوربالآخر خاکسار نے ۲۰۰۰ء میں ہجرت کی۔ اس میں والدہ صاحبہ کی رضامندی اور دعائیں شامل تھیں۔ خاکسار کو امیر صاحب برطانیہ کے دفتر میں خدمت کی توفیق مل رہی ہے اور یہ سب میری والدہ صاحبہ کی دعا ؤں کا پھل ہے۔جیسا کہ ابھی ذکر ہوا توہین رسالت کا کیس خاکسار کے خلاف درج تھا۔ چنانچہ ان حالات میں میرا پاکستان جانا خطرہ سے خالی نہ تھا۔ والدہ صاحبہ جب تک صحت سے تھیں برطانیہ جلسہ پر تشریف لاتیں، جلسہ میں شامل ہوتیں اور خاکسار کو ان کی خدمت کا شرف حاصل ہو جاتا۔ یہ جانتی تھیں کہ کس نوعیت کا کیس ہے۔مجھے کبھی نہ کہا کہ آ کر مل جاؤ۔ ۲۰۲۰ء میں کہنے لگیں کہ میری عمر سو سال ہے۔ خدا جانے کتنے دن باقی ہیں ایک بار آ کر مل جائیں۔ میرے دل میں بھی شدت سے ملاقات کا احساس پیدا ہوا۔ چنانچہ خاکسار نے بیس سال بعد پاکستان کے سفر کا ارادہ کیا۔ جب میرے پہنچنے کی اطلاع دیگر بہن بھائیوں کو ہوئی تو سب بہن بھائی برطانیہ اور جرمنی سے پاکستان پہنچ گئے۔ ہم گیارہ بھائی بہن اکٹھے اپنے آبائی گاؤں گوٹھ چودھری سلطان احمد میں والدہ صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔والدہ صاحبہ نے سب کو دیکھا توبہت خوش ہوئیں۔ ڈھیروں دعائیں دیں۔ اللہ تعالیٰ نے والدہ صاحبہ کی خوشی کے سامان پیدا کردیے۔ گھر میں عید کا سماں تھا۔ بڑے بڑے دیگچوں میں کھانے پکتے۔ تندور پر ایک لمبے عرصہ بعد روٹیاں پکائی جا رہی تھیں۔ کئی سال پہلے کے مناظر سامنے آ رہے تھے۔ ہمارا قیام قریباً چار ہفتے رہا۔ اس عرصہ میں والدہ صاحبہ کی خوشی ناقابل بیان تھی۔جب رخصت کیا تو سب سے باری باری دریافت کیا کہ پھر کب آؤ گے؟ وعدے کی پاسداری میں ہمیں بھی باری باری جانے کی توفیق ملتی رہی۔ گاؤں میں ایک بھائی اور ایک بہن کی موجودگی والدہ صاحبہ کے لیے بہت تسلی کا موجب تھی۔ میرا چھوٹا بھائی مظفر احمد جن کے پاس والدہ صاحبہ رہیں اور انہوں نے ہر طرح سے والدہ محترمہ کا خیال رکھا۔ اسی طرح میرے بھتیجے منور احمد نے بھی دادی اماں کی خدمت کرنے کا حق ادا کیا۔ ۲۰۲۳ء میں میرے بھائی مظفر احمد صاحب چند دن بیمار رہ کر بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ان کی وفات کا والدہ صاحبہ پر بہت اثر ہوا۔ بروزجمعہ ۱۱؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو رات کو حسب معمول سوگئیں۔ رات تین بجے میری بھاوج نماز تہجد کے لیے اٹھیں تو حسب عادت پہلے آ کر بےبے جی کو دیکھا تو کوئی حرکت محسوس نہ ہوئی۔ میری بھاوج نے گھر والوں کو بیدار کیا تو اندازہ ہو گیا کہ تھوڑی دیر قبل ہی وفات ہو گئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مورخہ ۱۴؍اکتوبر کو گوٹھ چودھری سلطان احمد میں نماز جنازہ حاضر ہوئی۔ جنازہ میں ضلع حیدر آباد، میر پور خاص اور ضلع عمر کوٹ سے کثیر تعداد میں احباب شامل ہوئے۔ ۱۵؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو دارالضیافت ربوہ میں نماز جنازہ کے بعد بہشتی مقبرہ دارالفضل میں تدفین عمل میں آئی۔ بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر (مبشر احمد گوندل۔ کارکن دفتر امیر صاحب یوکے) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: محترم سید میرمحمود احمد ناصر صاحب کا ذکرِ خیر