https://youtu.be/vzNwBuL-AA8 ٭… جب آپؐ مکے میں داخل ہوئے تو لوگ آپؐ کی زیارت کےلیے آئے، عاجزی کی وجہ سے آپؐ کا سر اپنی اونٹنی کے کجاوے کو چھو رہا تھا ٭… دیکھو! ہمارے نبی کریم ﷺنے جب مکے کو فتح کیا تو آپ نے اسی طرح اپنا سر جھکایا اور سجدہ کیا جس طرح پر اُن مصائب اور مشکلات کے دنوں میں جھکاتے اور سجدے کرتے تھے جب اسی مکے میں آپ کی ہر طرح سے مخالفت کی جاتی اور دکھ دیا جاتا تھا۔ جب آپؐ نے دیکھا کہ مَیں کس حالت میں یہاں سے گیا تھا اور کس حالت میں اب آیاہوں تو آپؐ کا دل خدا تعالیٰ کے شکر سے بھر گیا اور آپ نے خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ کیا(حضرت مسیح موعودؑ) ٭… فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نےقریش سے فرمایا کہ اے قریش !تم کیا خیال کرتے ہو کہ مَیں تم سے کیا سلوک کروں گا۔ قریش نے کہا آپ جو کچھ کریں گے بہتر کریں گے، آپ معزز بھائی اور معزز بھائی کے بیٹے ہیں۔آپؐ نے فرمایا کہ جاؤ تم سب آزاد ہو۔لوگ عام معافی کا اعلان سن کر اس طرح نکلے جیسے اُسی وقت قبروں سے نکلے ہوں اور انہوں نے اسلام قبول کرنا شروع کردیا ٭… مکرمہ سیدہ لبنیٰ احمد صاحبہ اہلیہ سید مولود احمد صاحب اورمکرمہ نازمون بی بی زبیر صاحبہ اہلیہ محمد شفیع زبیر صاحب آف جرمنی کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۴؍جولائی ۲۰۲۵ء بمطابق ۴؍وفا ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۴؍جولائی ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: فتح مکہ کے ضمن میں مکے میں داخل ہونےکےحالات کاذکر گذشتہ خطبے میں ہوا تھا۔ اس کی مزید تفصیل اس طرح ہے، ابنِ اسحٰق نے لکھا ہے کہ ابو سفیان خداتعالیٰ کے لشکروں کا مشاہدہ کرکےواپس پہنچ گیا۔آنحضرتﷺ اپنے سبز پوش دستے کےساتھ آئے۔ ابن سعد نے لکھا ہے کہ آپؐ اپنی اونٹنی قصواء پر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت اسید بن حضیر ؓکے درمیان تھے۔ رسول اللہﷺاس وقت سورت فتح پڑھ رہے تھے۔ جب آپؐ مکے میں داخل ہوئے تو لوگ آپؐ کی زیارت کےلیے آئے،عاجزی کی وجہ سے آپؐ کا سر اپنی اونٹنی کے کجاوے کو چھو رہا تھا۔ آپؐ نے سیاہ رنگ کا عمامہ باندھ رکھا تھا، آپؐ کا پرچم بھی سیاہ تھا۔ آنحضورﷺ یہ کلمات فرما رہے تھے کہ اللّٰهُمَّ إنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الْآخِرَةِ اے اللہ! یقیناً اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ عدل و انصاف کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ آپؐ نے اپنے پیچھے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ کے بیٹے اسامہ بن زید ؓکو بٹھایا ہوا تھا۔ آپؐ ۲۰؍رمضان المبارک کو مکے میں داخل ہوئے، اس وقت سورج کچھ بلند ہوچکا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ یہ علو جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کو دیا جاتا ہے وہ انکسار کے رنگ میں ہوتا ہےاور شیطان کا علو استکبار سے ملا ہوا تھا۔ دیکھو! ہمارے نبی کریم ﷺنے جب مکے کو فتح کیا تو آپ نے اسی طرح اپنا سر جھکایا اور سجدہ کیا جس طرح پر اُن مصائب اور مشکلات کے دنوں میں جھکاتے اور سجدے کرتے تھے جب اسی مکے میں آپ کی ہر طرح سے مخالفت کی جاتی اور دکھ دیا جاتا تھا۔ جب آپؐ نے دیکھا کہ مَیں کس حالت میں یہاں سے گیا تھا اور کس حالت میں اب آیاہوں تو آپؐ کا دل خدا تعالیٰ کے شکر سے بھر گیا اور آپ نے خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ کیا۔ مکے میں داخل ہونے سے پہلے جب یہ سوال ہوا کہ مکے میں آپؐ کا قیام کہاں ہوگا تو آپؐ نے فرمایا کہ مکے میں عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا بھی ہے؟ پھر آپؐ نے فرمایا کہ ہمارا قیام خیف بنی کنانہ میں ہوگا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جب آپؐ مکے میں داخل ہوئے تو لوگوں نے آپؐ سے پوچھاکہ آپؐ کہاں ٹھہریں گے؟ آپؐ نے فرمایا کہ کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی مکان چھوڑا بھی ہے؟ یعنی میرے عزیز و اقارب نے میری تمام جائیداد بیچ کھائی ہے۔ پھر فرمایا کہ ہم خیف بنی کنانہ میں ٹھہریں گے۔یہ مکے کا ایک میدان تھا جہاں قریش اور بنی کنانہ نے مل کر قسمیں کھائی تھیں کہ جب تک بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب محمد(رسول اللہﷺ)کو پکڑ کر ہمارے حوالے نہ کردیں اور اُن کا ساتھ نہ چھوڑ دیں ہم ان کے ساتھ نہ شادی بیاہ کریں گے اور نہ خریدوفروخت کریں گے۔ آپؐ دن کا کچھ حصہ اپنے خیمے میں قیام پذیر رہے پھر آپؐ نے اپنی اونٹنی قصواء کو منگوایا اور آپؐ ہتھیار لےکر اور خود پہن کر اونٹنی پر سوار ہوئے۔ آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓتھے اور آپؐ ان کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ حضورﷺ جب مکے میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے اردگرد ۳۶۰؍بت نصب تھے۔ہبل ان میں سب سے بڑا بت تھا۔ آپؐ کے ہاتھ میں کمان تھی۔آپؐ جب کسی بت کے پاس سے گزرتے تو بت کی آنکھ میں اپنی کمان مارتے اور فرماتے جَآءَ الۡحَقُّ وَزَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا۔ یعنی حق آگیا اور باطل بھاگ گیا اور یقیناً باطل تو بھاگنے کےلیے ہی ہے۔ آپؐ خانہ کعبہ کے پاس پہنچ گئے اور اسے دیکھا، پھر آپؐ اپنی سواری کے ساتھ آگے بڑھے اور اپنی چھڑی کے ساتھ حجرِ اسود کو چھوا اور اللہ اکبر کہا۔ مسلمانوں نے بھی نعرہ تکبیر لگائے یہاں تک کہ مکہ کی فضا نعرہ تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھی اور آپؐ نے صحابہ ؓکو روکا۔ کفار پہاڑوں پر سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ آپؐ نے بیت اللہ کا طواف کیا حضرت محمد بن مسلمہؓ نے آپؐ کی اونٹنی کی نکیل پکڑی ہوئی تھی۔ آپؐ اپنی سواری سے اتر آئے۔ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے حضرت عمر بن خطاب ؓکو حکم دیا کہ وہ خانہ کعبہ میں جائیں اور اس میں موجود ہر تصویر کو مٹادیں۔ جب تک خانہ کعبہ سے ہر تصویر مٹا نہ دی گئی آپؐ اس میں داخل نہیں ہوئے۔ آپؐ مقامِ ابراہیم پر آئے اور دو رکعت ادا کیں۔پھر آپؐ زم زم کے پاس تشریف لے گئےحضرت عباس بن عبدالمطلبؓ یا حضرت ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلبؓ نے ایک ڈول آپؐ کے لیے نکالا۔آپؐ نے اس پانی کو پیا اورا س سے وضو کیا۔ صحابہ ؓجلدی جلدی آپؐ کے وضو کا پانی اپنی ہتھیلیوں پر لینے لگے۔صحابہؓ وہ پانی اپنے چہروں پرڈال رہے تھے۔ کفار یہ منظر دیکھ رہے تھے وہ متعجب ہوکر کہنے لگے ہم نے اتنے بڑے بادشاہ کے بارے میں نہ سنا ہے اور نہ دیکھا ہے۔ جب ہبل بت کو گرایا گیا تو حضرت زبیر بن العوامؓ نے ابو سفیان سے کہا کہ ہبل کو گرا دیا گیا۔ تم احد کے دن ہبل کا نام لےکر بڑے غرور سےدعوے کر رہے تھے۔ ابو سفیان نے کہا اے ابن عوام! اب ان باتوں کو جانے دو کیونکہ مَیں نے جان لیا ہے کہ اگر محمد(ﷺ) کے خدا کے سوا بھی کوئی معبود ہوتا تو وہ نہ ہوتا جو آج ہوا ہے۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ خانہ کعبہ کے ایک کونے میں بیٹھ گئے اور لوگ آپؐ کے ارد گرد جمع تھے۔حضرت ابوبکرؓ اس موقعے پر تلوار سونتے آپؐ کے ساتھ کھڑے تھے۔ حضورﷺنے عثمان بن طلحہ ؓکو بلایا اور فرمایا کہ میرے پاس خانہ کعبہ کی چابی لاؤ۔وہ اپنی والدہ کے پاس گئے تو اس نے چابی دینے سے انکار کردیا حضرت عثمان بن طلحہؓ نے اسے کہا کہ اگر تم چابی نہیں دوگی تو یہ تلوار میری پیٹھ کے آرپار ہوگی۔ بہرحال ان کی والدہ نے چابی دےدی۔ وہ چابی لے کر آنحضرتﷺ کے پاس آئے تو آپؐ نے چابی انہیں واپس دے دی اور انہوں نے دروازہ کھولا۔ آنحضرتﷺاسامہ بن زیدؓ اور بلال بن رباح ؓکو ساتھ لے کر خانہ کعبہ کے اندر تشریف لےگئے۔ خانہ کعبہ کا کلیدبردار عثمان بن طلحہ ؓبھی ساتھ تھا۔ آپؐ نے کعبہ کا دروازہ بند کردیا اور دیر تک اندر رہے اور وہاں دو رکعت نماز ادا کی۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ یہ بات بحضورِدل یاد رکھو کہ جیسے بیت اللہ میں حجرِ اسود پڑا ہوا ہے اسی طرح قلب سینہ میں پڑا ہوا ہے۔ بیت اللہ پر بھی ایک زمانہ آیا ہوا تھا کہ کفار نے وہاں بت رکھ دیے تھے، ممکن تھا کہ بیت اللہ پر یہ زمانہ نہ آتا مگر نہیں! اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک نظیر کے طور پر رکھا۔ قلبِ انسانی بھی ایک حجرِ اسود کی طرح ہے اور اس کا سینہ بھی بیت اللہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ ماسوا اللہ کے، خیالات وہ بت ہیں جو اس کعبے میں رکھے گئے ہیں۔ مکہ معظمہ کے بتوں کا قلع قمع اس وقت ہوا تھا جب ہمارے رسول کریم دس ہزار قدوسیوں کی جماعت کے ساتھ وہاں جاپڑے تھے اور مکہ فتح ہوگیا تھا۔ ان دس ہزار صحابہ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھا ہےاور حقیقت میں ان کی شان ملائکہ ہی کی سی تھی۔ انسانی قویٰ بھی ایک طرح پر ملائکہ کا ہی درجہ رکھتے ہیں کیونکہ جیسے ملائکہ کی یہ شان ہے کہ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ اسی طرح پر انسانی قویٰ کا یہ خاصہ ہے کہ جو حکم انہیں دیا جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نےقریش سے فرمایا کہ اے قریش !تم کیا خیال کرتے ہو کہ مَیں تم سے کیا سلوک کروں گا۔ قریش نے کہا آپ جو کچھ کریں گے بہتر کریں گے، آپ معزز بھائی اور معزز بھائی کے بیٹے ہیں آپؐ نے فرمایا کہ جاؤ تم سب آزاد ہو۔لوگ عام معافی کا اعلان سن کر اس طرح نکلے جیسے اُسی وقت قبروں سے نکلے ہوں اور انہوں نے اسلام قبول کرنا شروع کردیا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ …تمام کفار گرفتار کرکے آپؐ کے سامنے پیش کیے گئے تو کفار نے خوداپنے منہ سےاس وقت اقرار کیا کہ ہم بباعث اپنے سخت جرائم کے واجب القتل ہیں اور اپنے تئیں آپ کے رحم کے سپرد کرتے ہیں تو آپؐ نے سب کو بخش دیا۔ بقیہ تفاصیل آئندہ بیان کیے جانے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے درج ذیل دو مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا: ٭…محترمہ سیدہ لبنیٰ احمد صاحبہ اہلیہ سید مولود احمد صاحب مرحوم۔ گذشتہ دنوں ۷۱؍سال کی عمر میں ان کی وفات ہوگئی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ مرحومہ بڑاصبرکرنے والی، دوسروں کا خیال رکھنے والی، سادہ مزاج، ہر طرح کے حالات میں گزارہ کرنے والی، سسرال کا حق نبھانے والی تھیں۔ ٭…مکرمہ نازمون بی بی زبیر صاحبہ اہلیہ محمد شفیع زبیر صاحب آف جرمنی۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوگئی ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ ماریشس کی تھیں۔ مرحومہ غیرمتزلزل ایمان اور عاجزی کا نمونہ تھیں۔ کبھی کوئی شکوہ شکایت نہ کرتیں۔ بیماری میں بھی بہت حوصلے سے کام لیتیں۔ نمازوں کی پابند، لوگوں کے کام آنے والی، خلافت سے گہرا تعلق رکھنے والی، خطبات غور سے سننے والی، اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق رکھنے والی، صاحبِ کشف و رؤیا تھیں۔ حضورِانورنے مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍ جون 2025ء