https://youtu.be/H5cKTGrWzTw محترم میر محمود احمد ناصر صاحب سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ اہلِ سادات میں سے ہونے کی وجہ سے جہاں سرورِ دو جہاں حضرت محمدِ عربی ﷺ کی آل سے تعلق رکھتے تھے وہاں آپ کو حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھتیجا اور حضرت مصلح موعود ؓکا داماد ہونے کے سبب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا حصہ بننے کا شرف بھی حاصل تھا۔ ایک شخص کے لیے یہ نسبتیں ہی کچھ کم اعزاز کا باعث نہیں مگر آپ نے تو اپنی ذاتی زندگی ایک ایسے عارف باللہ عالم باعمل کے طور پر گزاری کہ جواپنی مثال آپ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’مجھے تو کم از کم ان جیسی کوئی مثال ابھی نظر نہیں آتی۔‘‘(خطبہ جمعہ ۱۶؍مئی۲۰۲۵ء) آپ کی خدمات اور اعزازات کا تذکرہ الفضل انٹرنیشنل کی زینت بن چکا ہے۔ اس وقت آپ کی سیرت کے کچھ واقعات ہدیۂ قارئین ہیں۔ محترم میر صاحب طلبہ جامعہ احمدیہ کی تربیت میں سچائی اور دیانتداری پر ہمیشہ بہت زور دیا کرتے تھے۔ صرف زبانی نصیحت پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ یہ چیزیں عملی طور پر سکھاتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ جامعہ کی چھٹیاں گزار کر ہم طلبہ واپس جامعہ جا رہے تھے۔ اس وقت کئی علاقوں سے کوئی ٹرانسپورٹ براہِ راست ربوہ نہیں جاتی تھی اس لیے بہت سے طلبہ پہلے اپنے دیہات سے لاہور جاتے اور وہاں سے بس یا ریل گاڑی سے ربوہ جاتے تھے۔ میں بھی اپنے گاؤں ڈیریانوالا ضلع نارووال سے لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچا جہاں کئی طلبہ پہلے سے موجود تھے۔ جلد ہی ریل گاڑی آگئی اور طلبہ ریل گاڑی میں بیٹھ گئے۔ میں چونکہ ابھی ابھی پہنچا تھا اور مجھے ٹکٹ بھی لینا تھا۔ میں نے گاڑی میں سامان رکھااوراپنے ساتھی طلبہ سے کہا کہ میں جلدی سے ٹکٹ لے آؤں۔ دو تین طلبہ اور بھی ایسے تھے جنہوں نے ابھی ٹکٹ نہیں خریدا تھا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ہمارے لیے بھی ٹکٹ لے آنا۔ میں گیا تو ٹکٹ کی کھڑکی کے سامنے بہت سے لوگ کھڑے تھے جس کی وجہ سے معمول سے کچھ زائد وقت لگ گیا۔ آخر ٹکٹ خرید کر پلیٹ فارم پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ریل گاڑی روانہ ہوگئی ہے۔تقریباً پانچ بجے کا وقت تھا۔ اب تو ٹرانسپورٹ کے حالات بہت بہتر ہو گئے ہیں لیکن اُس وقت اسٹیشن سے لاری اڈے جانا اور وہاں سے چنیوٹ یا فیصل آباد کی بس یا ویگن لے کر رات دیر سے ربوہ جانا آسان نہ تھا۔ چنانچہ میں نے ٹکٹ واپس کیے اور شاہدرہ، لاہور میں واقع اپنے تایا جان کےگھر چلا گیا اور دوسرے دن علی الصبح بذریعہ بس وہاں سے روانہ ہوا اور کوئی ساڑھے گیارہ بجے جامعہ پہنچ گیا۔ میر صاحب کو اس واقعہ کی خبر ہو چکی تھی۔ حسبِ معمول میر صاحب جامعہ کی عمارت کے سامنے کرسی میز لگائے تشریف فرما تھے۔ دریافتِ احوال کے بعد فرمایا کہ اور کون سے طلبہ تھے جن کے ٹکٹ آپ نے خریدے تھے۔ میں نے نام بتائے تو ان سب طلبہ کو فوراً بلایا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں نے ٹکٹ خرید لیے تھے؟ بعض طلبہ نے اگلے اسٹیشن سے ٹکٹ لے لیے تھے مگر ایک طالبعلم ایسا تھا جس نے ٹکٹ نہیں لیا تھا۔ محترم میر صاحب نے اسے اسی وقت ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر بھیجا کہ وہاں سے لاہور کا ٹکٹ خریدے اور اسے چاک کر دے تاکہ سرکاری خزانے میں کرایہ کے پیسے چلے جائیں۔ یہ واقعہ اپنے اندر کئی سبق لیے ہوئے ہے۔ اس سے جہاں محترم میر صاحب کے اپنے تقویٰ کے اعلیٰ معیار کا اندازہ ہوتا ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کس طرح طلبہ کو عملی طور پر دیانتداری کا درس دیا۔ اسی طرح آپ نے طلبہ کو وطن سے محبت اور اخلاص کا درس بھی دیا۔ مگر افسوس کہ نادان اعدائے حق ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہم وطن کے وفادار نہیں۔ وہ جنہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ آپ نے قانون کی اس حد تک پابندی کرنی ہے کہ چاہے کوئی آپ کو دیکھ رہا ہو یا نہ آپ نے سڑک کا اشارہ تک نہیں توڑنا، کیا وہ ملک کے غدار ہو سکتے ہیں!؟ آپ کا حافظہ کمال کا تھا۔ خاکسار ۱۹۹۴ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخلے کے لیے آیا۔ اس وقت جامعہ میں داخلے کے خواہش مند طلبہ وکالتِ دیوان میں مقررہ تاریخ کو پہنچ کر رپورٹ کیا کرتے تھے جہاں سے انہیں ایک چٹ ملتی تھی۔ دوسرے دن وہ چٹ لے کرجامعہ جاتے جہاں پہلے ان کا تحریری امتحان ہوتا اور پھر زبانی جائزہ (انٹرویو) ہوتا تھا۔ اس کے ایک یا دو دن بعد تحریکِ جدید میں پھر ایک انٹرویو ہوتا تھا جس کے بعد امتحان اور انٹرویوز میں پاس ہونے والے طلبہ کو فضلِ عمر ہسپتال سے طبی معائنہ کروانے کی ہدایت کی جاتی تھی۔ خاکسار جب داخلے کا امتحان دینے جامعہ جا رہا تھا تو راستے میں یاد آیا کہ میری چٹ تو دار الضیافت میں رہ گئی ہے۔ فورًا واپس گیا اور چٹ لے کر جامعہ پہنچا، جہاں ہال میں تحریری امتحان شروع ہوچکا تھا اور ایک بزرگ ہال کے سامنے دالان میں ٹہل رہے تھے۔ یہ محترم میر صاحب تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اونچی آواز سے فرمایا: پہلے دن ہی لیٹ! جلدی اندر چلو۔ غالباً نصف سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ مجھے پرچہ دیا گیا۔ اس وقت جلدی میں جو ذہن میں آیا لکھ دیا۔ اس وقت تقریباً ۱۳۰؍طلبہ داخلے کے لیے آئے ہوئےتھے اور چند ایک کے سوا سب کے سب میر صاحب سے پہلی دفعہ ملے تھے۔ تحریری امتحان سب کا اکٹھا ہوتا تھا، اس کے بعدایک ایک کرکے زبانی انٹرویو ہوتا تھا جس میں تقریباً سارا دن لگ جاتا تھا۔ میری باری بھی بہت دیر بعد آئی۔ جب میں انٹرویو کے لیے کمرے میں داخل ہونے لگا تو میر صاحب نے دور سے ہی دیکھ کر فرمایا: تم وہی ہو ناں جو آج صبح دیر سے پہنچے تھے یہ میرے لیے بہت حیرت کی بات تھی کہ اتنے طلبہ میں مجھے کیسے یاد رکھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ میر صاحب تو نہ صرف جامعہ میں زیرِ تعلیم ایک ایک طالبعلم کو اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ فارغ التحصیل سینکڑوں طلبہ سے بھی بڑی گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ آپ طلبہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں کوبھی نوٹ کرتے اور مناسب رنگ میں توجہ دلاتے تھے۔ جامعہ میں داخلے کے بعد بالکل ابتدائی دنوں میں خاکسار نے ایک ساتھی طالبعلم کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ میر صاحب نے دیکھ لیا۔ پاس سے گزرتے ہوئے ہاتھ پکڑ کر نیچے کر دیا اور کان میں یہ سرگوشی کرکے گزر گئے کہ ایک واقفِ زندگی کے لیے یہ مناسب نہیں۔ بعد میں کئی ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں نوٹ کیں جن کی طرف آپ طلبہ کو توجہ دلایا کرتے تھے۔ مثلاً: دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہونا یا پاؤں زمین پر گھسیٹ کر چلنا یا ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پھرنایا کسی کو پیچھے سے اونچی آواز سےپکارنا وغیرہ امور کو ایک واقفِ زندگی کے شایانِ شان نہیں سمجھتے تھے۔ یہ عام بات ہے کہ جب انسان کو کسی بات پر غصہ آتا ہے تو اس کا اثر کچھ دیر قائم رہتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے تھے کہ میر صاحب ابھی کسی طالبعلم پر شدید غصہ ہو رہے ہیں اور دوسرے ہی لمحے مسکرا بھی رہے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ایک دن ہماری کلاس میر صاحب کے دفتر میں بیٹھی تھی اور آپ بڑے خوش گوار موڈ میں ہمیں پڑھا رہے تھے۔ کسی اور کلاس کےایک طالبعلم کو کسی غلطی کی وجہ سے میر صاحب نے بلایا ہوا تھا۔ وہ طالبعلم اسی دوران میں حاضر ہوگیا۔ میر صاحب نے اس کی شدید سرزنش کی اور تنبیہ کی کہ آئندہ ایسی غلطی نہ ہو۔ جونہی وہ طالبعلم دفتر سے نکلا۔ آپ نے اسی طرح مسکراتے ہوئے بات شروع کر دی۔ ہم میں سے ایک طالبعلم نے پوچھ لیا کہ میر صاحب ابھی آپ اتنے شدید غصے میں تھے اور ابھی مسکرا کر بات کر رہے ہیں جیسے کوئی غصہ تھا ہی نہیں۔ اپنا ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر فرمانے لگے: یہ غصہ یہاں (گردن) سے اوپر اوپر رہتا ہے، نیچے نہیں جاتا۔ یعنی دل میں کوئی رنجش نہیں ہوتی اور سینے میں کوئی کینہ نہیں ہوتا اس لیے غصے کا وہ اثر طبیعت پر نہیں ہوتا جو عام طور پر لوگوں کی طبیعت پر ہوتا ہے۔ آپ کا غصہ اصول کے تحت صرف ظاہری ہوتا تھا، دل بالکل صاف ہوتا تھا۔ خلافت سے غیرمعمولی محبت، اطاعت اور وفا کا تعلق تھا۔ ایک عجیب عاشقانہ رنگ تھا جو کسی اور میں نہیں دیکھا۔ خاکسار ۱۹۹۴ء میں جامعہ میں داخل ہوا اور اسی سال کے شروع میں ایم ٹی اے کا آغاز بھی ہوچکا تھا۔ اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا جو بھی پروگرام ایم ٹی اے پر براہِ راست نشر ہوتا وہ جامعہ میں براہِ راست سنا جاتا تھا۔ جامعہ میں تدریس ہو رہی ہو یا کھیل کا وقت ہو یا رات کو پڑھائی کا وقت ہویا سونے کا، یاکوئی اور پروگرام ہو وہ فوری طور پر معطل کرکے سب طلبہ جامعہ کے ہال میں جمع ہوتے اور خلیفۃ المسیح کا خطاب براہِ راست سنتے۔ یوکے اور پاکستان کےوقت کا چار یا پانچ گھنٹے کا فرق ہے۔ بعض دفعہ یوں بھی ہوا کہ رات دس گیارہ بجے خطاب سننے جامعہ کے ہال میں جمع ہوئے اور بارہ ایک بجے خطاب سن کر واپس ہوسٹل آئے، مگر جامعہ کے دیگر معمولات میں کوئی فرق نہیں آتا تھا۔ میر صاحب کا یہ ماننا تھا کہ جب خلیفۂ وقت خطاب فرما رہے ہوں اور ان کی آواز آپ تک پہنچ رہی ہو اُسی وقت وہ آواز سننا لازمی ہے۔ بعد میں خلیفۃالمسیح کی طرف سے ہی یہ ارشاد ہوا کہ اگر حضور کا کوئی پروگرام ایسے وقت میں آ جائے جس سے جامعہ کامعمول متاثر ہو رہا ہو تو اس پروگرام کو براہ راست سننے کی بجائے بعد میں سن لیا جائے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ اِدھر حضورِ انور کی طرف سے خطبہ میں کوئی تحریک ہوئی اُدھر میر صاحب نےفورًا اس پر عمل شروع کر دیا۔ مثلاً ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح نے کوئی مالی تحریک فرمائی۔ فورًا اس پر عمل کیا اور خطبہ ختم ہونے کے بعد سیدھا جامعہ پہنچے اور طلبہ کو اس تحریک پر لبیک کہنے کی ترغیب دی۔ اگرچہ حضور نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ آج ہی اس پر عمل کریں مگر میر صاحب اول المومنین کی صف میں شامل ہونے والے تھے اور یہی تعلیم جامعہ کے طلبہ کو بھی دیتے تھے کہ اول وقت میں خلیفہ کی آواز پر لبیک کہنا ہی اصل اطاعت ہے۔ بعد میں شامل ہونے کا وہ ثواب نہیں جو فوری اطاعت کا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت پوری جماعت میں جو خلافت سے محبت اور عشق ووفا کا ایک جذبہ ہے اگرچہ وہ خدا تعالیٰ نے مومنین کے دلوں میں پیدا فرمایا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے محترم میر صاحب کو اس جذبۂ عشق ووفا کو نشوونما دینے اور ساری دنیا میں پھیلانے کا وسیلہ بنایا تھا۔ جامعہ کے تمام اساتذہ و طلبہ نے اپنے سامنے جو عشق ووفا کا نمونہ میر صاحب کی صورت میں دیکھا اور آپ سے سیکھ کر ہر ایک نے اپنے اپنے ظرف کے مطابق اپنے اندر وہ جذبہ پیدا کیا اور پھر جامعہ سے فارغ التحصیل ہوکر ساری دنیا کی جماعتوں میں جا کر وہی جذبہ پیدا کیا۔ یوں ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلتا چلا گیا اور بموجب حدیث ’الدَّالُّ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِهٖ‘ محترم میر صاحب اس کارِخیر میں حصہ دار بنتے چلے گئے۔ یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ مبلغین سلسلہ کے توسط سے خلافت کےساتھ جماعت کےتعلق کو مضبوط بنانے میں میر صاحب کا بہت بڑا کردار ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی شخصیت سے بےحد متاثر تھے۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جس نے حضرت مصلح موعودؓ کو دیکھا نہیں وہ آپؓ کی شخصیت کا پوری طرح تصور نہیں کر سکتا اور الفاظ میں بیان کرنا محال ہے۔ اپنی بی بی(اہلیہ صاحبہ) سے ایک محبت اور احترام کا تعلق تھا، مگر اس میں احترام کا پہلو غالب تھا۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ حضرت مصلح موعودؓ کی صاحبزادی اور حضرت مسیح موعودؑ کی پوتی تھیں۔ آپ بتایا کرتے تھےکہ جیسے بھی مشکل حالات ہوں میں نے اپنے بچوں کو کبھی اُترن نہیں پہنائی۔ خود پہنی ہےمگر بچوں کو کسی کی استعمال شدہ چیز نہیں دی۔ اس لیے نہیں کہ یہ ناجائز ہے بلکہ اس لیےکہ یہ حضرت مصلح موعودؓ کے نواسے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کو حضرت مسیح موعود ؑکی نسل اور بطور خاص حضرت مصلح موعود ؓسے کتنی گہری عقیدت اور محبت تھی۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہؓ کا بھی بہت احترام کرتے تھے اور ان کے وجود کو باعثِ برکت سمجھتے تھے۔ طلبہ جامعہ احمدیہ کو بطور خاص صحابہؓ سے ملواتے تھے اور ان کے عظیم مقام سے روشناس بھی کروایا کرتے تھے۔ نوّے کی دہائی میں تقریبا ًسب صحابہؓ فوت ہو چکے تھے۔ سندھ کے ایک صحابی حضرت میاں جان محمد صاحبؓ تھے جو بتاتے تھے کہ ان کا آبائی گاؤں پھیروچیچی قادیان کے قریب ہی واقع تھا۔ وہاں سے وہ قادیان آتے جاتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھنے کا شرف بھی پاتے تھے۔ انہوں نے اس وقت بیعت کی جب وہ ابھی بچے یابالکل نوعمر لڑکےتھے۔ اس لحاظ سے ان کو بھی صحابی شمار کیا جاتا ہے کیونکہ امام بخاری نے صحابی کی یہی تعریف کی ہے کہ مَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ أَوْ رَآهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَهُوَ مِنْ أَصْحَابِهٖ کہ مسلمانوں میں سے جس نے نبی کی صحبت پائی یا آپؐ کو دیکھا تو وہ آپ کے صحابہ میں سے ہے۔(صحیح البخاری، باب فضائل اصحاب النبی ﷺ) حضرت میاں جان محمد صاحبؓ جب ربوہ آتے تو میر صاحب طلبہ جامعہ کو ان سے بھی ملواتے۔ وہ غالباً آخری صحابی تھے جو فوت ہوئے۔ اس کے بعد کوئی صحابی ایسا نہیں بچا تھا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پائی ہویا آپؑ کے دیدار کا شرف پایا ہو، تاہم ایک ملک محمد سلیم صاحب تھے جن کو شیرخوارگی کی عمر میں ان کے والد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس لے گئے تھے۔ یہ محترم مولانا جمیل الرحمٰن رفیق صاحب وکیل التصنیف ربوہ کے والدِ گرامی تھے۔ محترم ملک محمد سلیم صاحب کے بارے میں علم ہوا کہ بہت بیمار ہیں اور فضل عمر ہسپتال میں داخل ہیں تو میر صاحب فورًا طلبہ جامعہ کو ان سے ملوانے کے لیے لے گئے۔ خاکسار بھی ان طلبہ میں شامل تھا۔ مجھے یاد ہے محترم ملک صاحب بسترِمرگ پر تھے اور کچھ بولتے نہ تھے۔ محترم میر صاحب نے ہمیں بتایا کہ اگرچہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں دیکھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک نظریں ان پر پڑی ہیں۔ اس لیے جنہوں نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا ان کے لیے کسی ایسے وجود کو دیکھنا بھی غنیمت ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا ہو۔ اس قدر آپ کے دل میں صحابہؓ کی قدر ومنزلت تھی۔ یوں صحابہ سے ملاقات کراکے آپ نے جامعہ کے بہت سے طلبہ کو تابعی بنا دیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے والد ماجد کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کو ناظرِ اعلیٰ وامیر مقامی مقرر فرمایا تو میر صاحب آپ کو جامعہ میں تشریف لانے کی دعوت دیا کرتے تھے اور عمر میں بڑے ہونے کے باوجود غیرمعمولی احترام سے پیش آتے تھے۔ ہم نے میر صاحب کو کسی اور کے ساتھ ایسے احترام کا اظہار کرتے نہیں دیکھا۔ پھر آپ میاں صاحب سے مولیٰ بس کی مبارک انگوٹھی پہن کر طلبہ کو شرفِ مصافحہ بخشنے کی بھی درخواست کرتے تھے۔ اس طرح ہمیں کئی دفعہ حضور سے قبل از خلافت مصافحہ کرنے اور برکت حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ بھی میر صاحب کا طلبہ جامعہ پر بڑا احسان ہے کیونکہ بیشتر طلبہ ایسے ہیں جن کو اس کے بعد ابھی تک حضور کی زیارت نصیب نہیں ہوئی۔حضور کے لیے اس وقت آپ کے اس غیرمعمولی احترام اور محبت کو دیکھ کر ہمارے دل میں بھی حضور کا ایک خاص مقام پیدا ہوگیا۔ آج سوچتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے میر صاحب کو بتا دیا تھا کہ یہ وجود کون ہے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک طالبعلم نے میر صاحب سے پوچھا تھا کہ آج ہمیں مولانا راجیکی صاحبؓ جیسے بزرگ نظر نہیں آتے جن کو الہام ہوتا تھا۔ میر صاحب نےکچھ توقف کرکے فرمایا کہ اب بھی ایسے لوگ ہیں لیکن ہر کسی کو اظہار کا اذن نہیں ہوتا۔ آنحضرت ﷺ کی سنت پر عمل آپ کو وراثت میں ملا تھا۔ آپ کے والدِ گرامی حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ حدیث کے جید عالم تھے اور نہ صرف خود ہر چھوٹی سے چھوٹی سنت پر عمل کرتے تھے بلکہ اپنے بچوں کو بھی سنتِ رسولﷺ کی پابندی کرنی سکھائی۔ خاکسار ۲۰۰۱ء میں جامعہ سے فارغ التحصیل ہو کرمیدانِ عمل میں گیا اور باوا چک ضلع فیصل آباد میں مامور بر خدمت ہوا۔ وہاں سے ایک دفعہ ربوہ آیا تو میر صاحب سے ملنے جامعہ چلا گیا۔ ان دنوں میں وکالتِ تعلیم کے کہنے پرجامعہ کے تدریسی اوقات میں تبدیلی کی گئی تھی۔ ڈیڑھ دو بجے کی بجائے چار ساڑھے چار بجے تک تدریس ہوتی۔ یعنی نماز ظہر اور دوپہر کے کھانے کے بعد دوبارہ کلاسیں لگتی تھیں۔ میر صاحب سے ملا تو آپ نے فرمایا کہ میرے لیے دعا کریں۔ہمارے والد صاحب سنتِ رسولؐ کی پیروی پر بہت زور دیا کرتے تھے اور ایک سنت قیلولہ کی ہے جس پر ہمیں بچپن ہی سےعمل کروایا۔ اب جامعہ کے اوقات تبدیل ہو جانے کی وجہ سے ساٹھ ستر سالہ اس عادت کو چھوڑنا پڑا ہے، اس لیے میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمت اور توفیق دے۔ خاکسار نے محسوس کیا کہ میر صاحب بہت تکلیف میں ہیں مگر اس کا اظہار نہیں کیا اور نہ کوئی شکوہ شکایت کی۔ تکلیف برداشت کرتے رہے مگر اپنے فرض کی ادائیگی میں کوئی کمی نہیں کی۔ حدیث کے حوالے سے یاد آیا کہ میر صاحب کا اپنا اختصاص بھی علم الحدیث ہی میں تھا۔ جب آپ کا تقرر جامعہ میں بطور استاد ہوا تو آپ کا خیال یہی تھا کہ چونکہ میرا مضمون حدیث ہے اس لیے یہی مضمون پڑھانے کے لیے کہا جائے گا۔ مگر جامعہ میں آپ کو موازنۂ مذاہب پڑھانے کی ذمہ داری دے دی گئی۔ آپ نے ہمیں بتایا کہ مجھے موازنۂ مذاہب کا کوئی خاص علم نہ تھا مگر حکم کی تعمیل ضروری تھی۔ چنانچہ میں روزانہ لائبریری جاتا اور کتابوں کا ڈھیر لگا کر بیٹھ جاتا۔ نوٹس لیتا اور اپنا لیکچر تیار کرتا اور دوسرے دن جامعہ جا کر لیکچر دیتا۔ ایک لمبا عرصہ یہی سلسلہ چلتا رہا۔ اس واقعہ میں ہم واقفینِ زندگی کے لیے بہت اہم سبق ہے کہ ضروری نہیں کہ جس کام کو ہم اپنے لیے بہتر سمجھتے ہوں وہی کام ہم سے لیا جائے بلکہ ہمیں چاہیے کہ جو خدمت ہمیں تفویض کی جائے اُس کو احسن رنگ میں نبھانے کی پوری کوشش کریں۔ میر صاحب اگر اُس وقت یہ کہتے کہ میں تو موازنۂ مذاہب کا عالم نہیں، مجھ سے حدیث کی خدمت لی جائے تو کیا آج جماعت کو موازنۂ مذاہب کا ایسا عالم میسر آتا جس کا ثانی دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔ میر صاحب نے ایک دفعہ بتایا کہ غالباً امریکہ یا کسی اَور ملک میں ایک چرچ میں گئے تھے جہاں ایک پادری نے عیسائیت پر لیکچر دیا اور اس کے بعد سوالات کا موقع دیا گیا۔ میں کھڑا ہوا اور چند سوالات کیے جن کا پادری صاحب کے پاس کوئی جواب نہ تھا اور اس کو بہت سبکی اٹھانی پڑی۔ بعد میں ایک دفعہ اس علاقے میں جانا ہوا تب لوگوں سے اس چرچ اور پادری صاحب کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ چرچ ہی بند ہو گیا ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے آپ سے کسرِ صلیب کا کام لیا۔ عیسائیت ودیگر ادیان کے بارے میں آپ کے سینکڑوں مضامین رسالہ ’’موازنۂ مذاہب‘‘ اور الفضل کی زینت بن چکے ہیں۔ ایک دفعہ میر صاحب نے ہمیں بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے انہیں ایک خط میں تحریر فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جامعہ کے طلبہ کی علمی، تربیتی اور ادبی نشو ونما کی توفیق عطا فرمائے۔ میر صاحب نے کہا کہ ہم جامعہ میں علمی اور تربیتی نشوونما کے لیے تو کوشش کرتے ہیں مگر ادبی نشو ونما کے بارے میں مجھے بہت فکر تھی کہ کیسے کی جائے۔ چنانچہ آپ نے اس کے لیے دعائیں بھی کیں۔ چنانچہ اس کا سامان اس طرح سے کیا کہ جب بھی ربوہ میں جماعت کے معروف شعراء آتے آپ ان کو جامعہ آنے کی ضرور دعوت دیتے اور ان کے ساتھ بھرپور نشستیں ہوتیں۔ ان شعراء میں عبید اللہ علیم صاحب، رشید قیصرانی صاحب، عبد المنان ناہید صاحب، طاہر عارف صاحب اور عبد الکریم قدسی صاحب وغیرہ شامل تھے۔ ان نشستوں کی صدارت ہمیشہ محترم چودھری محمد علی صاحب فرمایا کرتے تھے۔ جامعہ کے طلبہ کا ادبی اور شعری ذوق بہت اعلیٰ ہو گیا تھا یہاں تک کہ ایک دفعہ علیم صاحب نے کہا کہ میں نے بہت سی مجالس میں کلام سنایا ہے لیکن جیسی موزوں داد مجھے جامعہ میں ملتی ہے کہیں اور نہیں ملی۔ یہ اس بات کی دلیل تھی کہ میر صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح کی اس خواہش کی بھی خوب تکمیل کی کہ جامعہ کے طلبہ کا ادبی معیار اور ذوق بلند ہو۔ ان شعراء کو سننے کے علاوہ جامعہ میں ہر سال ایک مقابلۂ نعت بھی ہوا کرتا تھا، جس میں جامعہ کے طلبہ کو دعوت دی جاتی تھی کہ وہ حضرت رسولِ کریم ﷺ کی شان میں منظوم نذرانۂ عقیدت ومحبت پیش کریں۔ اس مقابلے میں اول آنے والے طالبعلم کو نقد انعام بھی دیا جاتا تھا۔ چنانچہ ایسے طلبہ جن میں شعر کہنے کی صلاحیت اور استعداد تھی وہ نعتیں لکھتے۔ جس طالبعلم کی نعت اول آتی اسے دعوت دی جاتی کہ جامعہ میں منعقد ہونے والے جلسہ سیرت النبیﷺ میں اپنی نعت پیش کرے۔ اس طرح میر صاحب نے نہ صرف جامعہ کے طلبہ کا ادبی معیار بلند کیابلکہ ان میں لکھنے کی صلاحیت کو بھی ترقی دی اور جامعہ نے بہت اچھا کلام کہنے والے پیدا کیے۔ محترم میر صاحب خود بھی بہت اعلیٰ شعری ذوق رکھتے تھے اور اگرچہ بہت کم مگر شعر بھی کہتے تھے۔ ایک دفعہ ہماری کلاس میر صاحب کے دفتر میں بیٹھی تھی اور ایک جماعتی شاعر جامعہ میں آئے ہوئے تھے۔ آپ نے انہیں دفتر ہی میں بلوا لیا۔ انہوں نے اپنی چند نظمیں سنائیں۔ اس کے بعد خاکسار نے یوں ہی میر صاحب سے کہہ دیا آپ بھی اپنا کلام سنائیں۔ میر صاحب نے فرمایا کہ آپ کو کس نے کہا کہ میں شعر کہتا ہوں۔ میں کوئی شاعر واعر نہیں۔ آپ کے اس سوال میں انکار بھی تھا اور استفسار کا رنگ بھی تھا جیسے یہ جاننا چاہتے ہوں کہ کس نے مجھے میر صاحب کے اس راز سے آگاہ کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے یوں ہی بےتکلفی میں ایک بات کہہ دی تھی اور مجھے بالکل علم نہ تھا کہ آپ واقعۃً شعر کہتے ہیں۔ میں اپنی ناسمجھی کی وجہ سے بعض دفعہ کوئی جسارت کر جاتا تھا اور میر صاحب اپنے اعلیٰ ظرف کی وجہ سے ہمیشہ درگزر فرما دیتے تھے۔ اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد جامعہ میں حمدیہ مجلس تھی۔ اس میں میر صاحب نے پہلی دفعہ اپنا حمدیہ کلام پیش کیا جو بہت پُر تاثیر اور سچے جذبات کی عکاسی کرتا تھا۔ ہمیں یہ جان کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ آپ شعر بھی کہہ لیتے ہیں۔ اس حمدیہ کلام کا مطلع یہ تھا ؎ میرے دلبر ہو تم میرے دلدار بھی تم مرے یار ہو اور مرا پیار بھی برادرم مکرم محمد آصف محمود ڈار صاحب جامعہ کے ایک ہونہار طالبعلم تھے، شعر بھی کہتے تھے، مقابلہ نعت میں اول بھی آیا کرتے تھے اور محترم میر صاحب کو عزیز بھی تھے۔ انہوں نے میر صاحب سے یہ کلام طلب کیا۔ میر صاحب نے اس شرط پر انہیں یہ کلام دیا کہ وہ اسے کہیں شائع نہیں کرائیں گے۔ کچھ عرصے بعد مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے ڈار صاحب سے اس کلام کی نقل لے لی۔ انہوں نے کہا کہ میر صاحب نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ اس کی اشاعت نہیں کرنی۔ میں نے کہا کہ وعدہ آپ نے کیا تھا، میں نے تو نہیں کیا تھا، لیکن آپ فکر نہ کریں میر صاحب کو دکھائے بغیر میں کچھ نہیں کروں گا۔ میں یہ نظم خوش خط لکھ کر میر صاحب کے پاس لے گیا اور عرض کیا کہ مجھے آپ کا یہ کلام ملا ہے اس کو ملاحظہ فرما لیں کہ اس میں کوئی غلطی تو نہیں۔ فورًا بولے یہ کہاں سے لیا۔ میں نے بتایا کہ ڈار صاحب سے لیا ہے۔بہر حال میر صاحب نے دیکھ کر ایک دو جگہ درستی فرمائی۔ اس وقت محترم اسفند یار منیب صاحب رسالہ ’’خالد‘‘ کے مدیر تھے اور خاکسار ان کی مجلس ادارت کا حصہ تھا۔ خاکسار نے ان سے یہ کلام چھاپنے کی درخواست کی تو انہوں نے خوشی خوشی اسے رسالے کی زینت بنا دیا۔ یوں رسالہ ’’خالد‘‘ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس میں میرصاحب کا پہلا کلام چھپا۔ خاکسار کو بھی میر صاحب سے ایک دلی تعلق تو تھا مگر اپنی پُرحجاب طبیعت کی وجہ سے کبھی اس کا اظہار نہ کر سکا، مگر کبھی کبھی شاعری کو ذریعۂ اظہار بنا لیتا تھا۔ایک دفعہ میر صاحب امریکہ گئے اور وہاں سے جامعہ کے لیے غالب کا یہ شعر لکھ کر بھیجا جو جامعہ سے آپ کی محبت اور تعلق کی خوب ترجمانی کرتا ہے ؎ گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا اس کے جواب میں خاکسار نے میر صاحب کے نام جامعہ کی طرف سے ایک نظم لکھی جس کے دو شعر یہ ہیں: تجھ بن وجودِ جامعہ کامل نہیں رہا یا یوں کہو کہ آدمی میں دل نہیں رہا محوِ سفر بہ منزلِ جاناں ہے کارواں ’لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا‘ اسی طرح جب خاکسار کو علم ہوا کہ میر صاحب دوبارہ امریکہ جا رہے ہیں تو خاکسار نے آپ کے لیےیہ شعر لکھے ؎ آؤ! کم دل کا بار کرتے ہیں رازِ دل آشکار کرتے ہیں تجھ پہ ہم جاں نثار کرتے ہیں اِس قدر تجھ سے پیار کرتے ہیں تجھ پہ فضلِ خدا ہو سایہ فگن یہ دُعا نابکار کرتے ہیں یاد رکھنا ہمیں دعاؤں میں التجا بار بار کرتے ہیں اسی طرح ایک دفعہ جامعہ کے ہوسٹل میں کوئی پروگرام تھا اور خاکسار کو کہا گیا کہ میر صاحب کو اس میں شمولیت کی دعوت دیں۔ خاکسار نے جا کر عرض کی اور میر صاحب نے آنے کا وعدہ بھی کیا، مگر کسی وجہ سے آ نہ سکے۔ تب خاکسار نے کچھ شعر لکھ کر میر صاحب کی خدمت میں پیش کیے ؎ وعدہ کیا تھا آپ نے آنے کا ایک شام ہم منتظر تھے گھر میں چراغاں کیے ہوئے جی مانتا نہیں کہ وفا نہ کریں گے آپ عشّاق سے وہ وعدہ و پیماں کیے ہوئے تُو ہے کہ میرے عشق سے قطعاً ہے بے خبر میں ہوں کہ تیرے غم کو غمِ جاں کیے ہوئے اے کاش! کوئی پڑھ سکے احوالِ دل مرا ہے کس کا عشق مجھ کو سخن داں کیے ہوئے! آپ کی بڑی خواہش تھی کہ آپ کی اولاد میں سے کوئی وقف کرے اور جامعہ میں پڑھے لیکن بچوں میں سے کوئی جامعہ میں پڑھنے کے لیے نہ آیا۔ مگر پھر آپ کے بیٹے غلام احمد فرخ صاحب نے وقف کر دیا اور آئی ٹی کے شعبے میں خدمت بجا لانے لگے تو آپ بہت خوش ہوئے کہ آپ کی خواہش پوری ہو گئی۔ پھر جب آپ کے دوسرے بیٹے میرمحمد احمد صاحب نے امریکہ کی سیکیورٹی فورس میں ایک اچھی ملازمت ترک کرکے وقف کر دیا تو آپ کی خوشی دیدنی تھی۔مجھے یاد ہے اس دن آپ نے اپنی اس خوشی کا اظہار ہم طلبہ جامعہ کے سامنے بھی کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جس تاریخ کو محترم میر صاحب نے وقف کیا تھا بعینہٖ اسی تاریخ کو آپ کے بیٹے میر محمد احمدصاحب کا وقف منظورہوا تھا،جس سے آپ کی خوشی دوچند ہو گئی تھی۔ آپ کی بعض باتیں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ ایک واقفِ زندگی کو کبھی چھٹی نہیں ہوتی، محض کام کی نوعیت بدلتی ہے۔ اگر آپ ہفتے میں چھ دن درس وتدریس اور کھیل وغیرہ کےمعمولات پر عمل کرتے ہیں تو جمعہ کے دن جمعہ کی تیاری، کمروں اور کپڑوں وغیرہ کی صفائی کرتے ہیں اور نئے ہفتے میں پڑھائی کے لیے اپنے ذہن کو تازہ کرتے ہیں۔ آپ کے ذہن میں یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ ہم نے چھٹی کرنی ہے بلکہ یہی خیال ہونا چاہیے کہ مزید کام کے لیے تازہ دم ہونے اور دیگر متفرق کاموں کو نپٹانے کا موقع دیا گیا ہے۔ جامعہ احمدیہ میں ہر سال کھیلوں کے مقابلے ہوتے تھے جس میں شعبہ ریکارڈ واشاعت کی ذمہ داری کئی سال تک خاکسار کے پاس رہی۔ اس شعبہ کا کام یہ ہوتا تھا کہ کھیلوں کےنتائج کو ایک رجسٹر میں خوش خط لکھنا اور وائٹ بورڈپر نتائج کا اعلان کرتے رہنا اور تقریبِ تقسیمِ انعامات کے لیے فائنل رزلٹ شیٹ تیار کرکے دینا۔ اس میں محترم فرید احمد نوید صاحب کی تجویز پر ہم نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا تھا اور وہ یہ کہ کھیلوں سے متعلق مفید معلومات اور اہم ارشادات بھی وائٹ بورڈ پر لکھے جاتےیا نوٹس بورڈ پر آویزاں کیے جاتے۔ مثلاً سو میٹر دوڑ میں جامعہ کے طالبعلم کا ریکارڈ یہ ہے اور عالمی مقابلوں میں سومیٹر دوڑ کا عالمی ریکارڈ یہ ہے۔ اسی طرح یہ بتانا کہ فلاں کھیل فلاں ملک کا قومی کھیل ہے یافلاں علاقے کے لوگ کھیلتے ہیں یا یہ کہ فلاں کھیل کی تاریخ کیا ہے، کب، کہاں اور کیسےشروع ہوا وغیرہ۔ اسی طرح کھیلوں اور صحتِ جسمانی سے متعلق احادیث اور خلفائے کرام کے ارشادات بھی نشر کیے جاتے تھے۔ یہ اقدام طلبہ کی مزید دلچسپی اور معلومات میں اضافے کا باعث بنا۔ ایک دن کھیل کے میدان میں میر صاحب نے خاکسار کو فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کی وہ حدیث بھی وائٹ بورڈ پر لکھو جس میں آپؐ نے جیتنے والے اور پیچھے رہ جانے والے دونوں کے لیے برکت کی دعا کی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ وہ کس کتاب میں ملے گی۔ فرمایا: بخاری میں۔ خاکسار لائبریری گیا، بہت تلاش کی مگر کچھ نہ ملا۔ آکر عرض کیا کہ مجھے تو یہ حدیث نہیں مل رہی۔ فرمایا : عمدۃ القاری کی فلاں جلد لے کر آؤ۔ اس میں سے آپ نے فورًا نکال دی۔ میں نے عرض کیا کہ یہ تو شرح میں ہے، میں بخاری میں تلاش کر رہا تھا۔ فرمایا: یہ بھی بخاری ہی ہے۔ گویا آپ شرح کو بھی اصل کتاب کاجزو ہی سمجھتے تھے۔ اس سے ایک نقطہ یہ سمجھ میں آیا کہ بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بخاری میں لکھا ہے تو اس سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ اس کی کسی شرح میں یہ بات لکھی ہے۔ بہرحال وہ حدیث یہ تھی: ذكر ابنُ التين أنه سابق بين الخيل على حلل أتته من اليمن فأعطى السابق ثلاث حلل، وأعطى الثاني حلتين، والثالث حلة، والرابع دينارا، والخامس درهما، والسادس فضة، وقال بارك اللّٰه فيك وفي كلهم، في السابق والفسكل (عمدة القاري في شرح صحيح البخاري، باب القسمة وتعليق القنو في المسجد) ترجمہ:ابن التین نے ذکر کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے گھوڑوں کے درمیان دوڑ کرائی، جس کا انعام یمن سے آئے ہوئے کپڑوں کے جوڑے تھے۔ آپؐ نے پہلے آنے والے کو تین جوڑے کپڑے دیے، دوسرے کو دو جوڑے، تیسرے کو ایک جوڑا، چوتھے کو ایک دینار، پانچویں کو ایک درہم اور چھٹے کو چاندی دی۔ نیز فرمایا: اللہ تمہیں برکت دے۔ سبقت لے جانے والوں کو بھی اور پیچھے رہ جانے والوں کو بھی، سب کو برکت دے۔ اللہ تعالیٰ محترم میر صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آپ کے علمی وعملی فیض کو دوام بخشے اور خلافت کو آپ جیسے بہت سے سلطانِ نصیر عطا فرمائے، آمین۔ مزید پڑھیں: حضرت مصلح موعودؓ کا پیغام—جماعت کے نام