https://youtu.be/_dtCO46O4ko کربلا کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس واقعے نے امت مسلمہ کو دو بڑے متحارب گروہوں میں تقسیم کر دیااور دونوں نے ہی ایک دوسرے کو گمراہ، بدعتی اور اصل اسلام سے دُور قرار دینا شروع کردیا۔ اسی تقسیم نے بعد میں سنّی و شیعہ اختلاف کی صورت اختیار کر لی اور یہ وہ خلیج ہے جو آج تک پُر نہ ہو سکی اورموجودہ حالات میں بظاہر اس کا پُر ہونا ممکن بھی دکھائی نہیں دیتاہے اسلام کے دور اول کی تاریخ کے بہت سے ابواب کی طرح، واقعہ کربلا بھی ایک ایسا المناک باب ہے جو صدیاں گزرنے کے باوجود متضاد روایات، جذباتی کہانیوں اور بعض اوقات انتہائی مبالغہ آمیز داستانوں کی نذر ہوچکا ہےاور قابل احترام ہستیوں کی عظمت میں اظہار عقیدت نے بعض مواقع پر واقعہ کی اصل تصویراور حقائق کو دھندلا دیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک نہایت دردناک اور دل خراش واقعہ تھا ، مگر اصل سانحہ اس سانحہ کے کرداروں کے متعلق رواج پانے والی داستانوں اورجذباتی باتوں کے دھندلکوں میں کھو سا گیا ہے۔لیکن یہاں معرکۂ کربلا کی عمومی تفصیلات میں جائے بغیر،اگر اس واقعہ کا ایک مختصر خاکہ قارئین کے سامنے رکھا جائے تو اس کی اصل حقیقت کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ سانحۂ کربلا کی قبل از اسلام بنیادیں قریش مکہ کے کئی قبائل اپنا نسب قُصَی بن کلاب سے جوڑتے تھے، جو اُن کے تین بیٹوں عبدالدّار، عبدِ مناف اور عبدالعُز ّیٰ کے ذریعے جاری رہا۔ عبدِ مناف اپنے والد کے بعد ان کے جانشین بنے۔جبکہ روایتی اصول کے مطابق بڑا بیٹا (عبدالدّار) وارث ہونا چاہیے تھا۔ یوں بڑے بیٹے کو جانشین بنانے کا اصول ٹوٹ گیا، لیکن یہ وصیتی فیصلہ خود قُصَی نے ہی اپنی وفات سے پہلے کردیا تھا۔ عبدِ مناف کے کئی بیٹے تھے، جن میں نوفل، ہاشم، عبد شمس اور مطلب جنہوں نے مکہ میں کعبہ کی تولیت میں اہم کردارادا کرنے کے باعث شہرت پائی۔ بنوامیہ اور بنو ہاشم کی باہمی عداوت قبیلے کے سردار کی وفات کے بعد اس کے سب سے بڑے بیٹے کو جانشین بنانے کا اصول ایک بار پھر اس وقت ٹوٹا جب ہاشم نے نہ صرف خود بلکہ اپنے بھائیوں کے وراثتی حقوق بھی حاصل کر لیےاور قریش کے سردار کے طور پر تسلیم کرلیے گئے۔ ہاشم کی قیادت پر اُن کے بھائیوں نے تو صاد کیا، لیکن اُن کا بھتیجا امیہ بن عبد شمس مدِّمقابل کے طور پر سامنے آیا ۔ تاہم امیہ کو اس بغاوت میں کوئی خاطر خواہ حمایت حاصل نہ ہو سکی۔چنانچہ وہ مکہ کے علاقہ سے نکل کر شام چلے گئے اور باقی زندگی وہیں بسر کی۔ ہاشم کی نسل سے ان کے بیٹے عبدالمطلب پیدا ہوئے، جن کے دو بیٹے عبداللہ اور ابو طالب تھے۔ انہی دو ہستیوں کی اولاد میں محمد بن عبد اللہ (ﷺ) اور علی بن ابو طالب پیدا ہوئے۔ جبکہ دوسری طرف امیہ بن عبد شمس کی اولاد میں حرب بن امیہ معروف ہوئے، جنہوں نے یہ وراثت اپنے بیٹے ابوسفیان بن حرب کو منتقل کی، جو کہ حضرت معاویہؓ بن ابو سفیان کے والد تھے۔ جب یزید بن معاویہ اور حضرت حسین بن علیؓ بالمقابل آئے تو یہ محض دو شخصیات کا تصادم نہ تھا، بلکہ اس کے پس منظر میں بنو امیہ کے لیے بنو ہاشم کی پرخاش بھی شامل تھی۔ بنوامیہ کا عروج روایات کے مطابق، اگرچہ ابو سفیان نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کرلیا تھا تاہم وہ مکہ کی سرداری کے کھو جانے پر خشمگیں رہے۔ اور کہا جاتاہے کہ حضرت ابوبکرؓ، جب بطور پہلے خلیفہ راشد منتخب ہوگئے، تب ابوسفیان اس انتخاب اور نئے نظام کو دل سے قبول کرنے میں تذبذب کا شکار رہے۔ گو حضرت ابوبکرؓ نے انہیں علاقہ نجران کا گورنر مقرر کیا اور بعد میں شام اور اس کے اطراف کے علاقوں میں سیاسی و معاشی مراعات بھی عطا کیں۔ ابو سفیان ملک شام کی فتح کا پیش خیمہ بننے والی مشہور جنگ یرموک میں بھی شریک تھے، اور اُن کے بیٹے یزید کو شام کا گورنر مقرر کیا گیا۔ اوریزید کی ناگہانی وفات کے بعد یہ عہدہ اُس کے بھائی امیر معاویہ کو منتقل ہوا۔ یوں بنو امیہ کی موروثی حکومت کی بنیاد شام اور اس کے گردونواح میں رکھ دی گئی۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ معاویہ نے حضرت علیؓ کی خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور جنگ صفین میں اُنہیں شکست دی، جس سے حضرت علیؓ کی سیاسی اور عسکری قوت اس قدر کمزور ہوگئی کہ وہ مختلف مخالف گروہوں کے حملوں کا آسان ہدف بن گئے۔اور بالآخر حضرت علیؓ ایک خارجی کےاچانک حملہ میں شہید ہوئے اور خلافت راشدہ کا دور اختتام کو پہنچا، اور اُن حالات میں امیر معاویہ کی خود ساختہ خلافت کے دور کا آغاز ہوا۔ شام اور حجاز کی باہمی کشمکش میں واقعہ کربلا کی بنیادیں امیر معاویہ نے اسلامی سلطنت کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ ارض حجاز کے حالات پربطور خاص گہری نظر رکھی، کیونکہ یہی خطہ نبی کریم ﷺ کے زمانے سے لے کر حضرت علیؓ کے دور تک مرکزِ اسلام رہا تھا۔ اگرچہ بعد میں حضرت علیؓ نے دارالخلافہ مدینہ سے کوفہ منتقل کر دیا تھا، مگر حجاز کی سیاسی و روحانی اہمیت برقرار رہی۔ حضرت نبی کریمﷺ کےکبار صحابہؓ، قریبی رشتہ داروں اور اہل بیت کی موجودگی کے باعث امیر معاویہ نے حجاز کے حالات و واقعات پر خاص نظر رکھی۔ انہوں نے ان شخصیات کو بظاہر مراعات اور سیاسی عہدے دے کر قریب رکھنے کی پالیسی اختیار کی۔ انہیں حجاز میں اعلیٰ مناصب دے کر ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جانے لگی تا کہ مکہ اور مدینہ میں کوئی سیاسی تحریک جنم نہ لینے پائے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ جیسے افراد پر خاص طور پر کڑی نظر رکھی گئی، جنہیں بعض لوگوں کی جانب سے خواہشمند کے طور پر دیکھاجارہاتھااورانہیں حجازمیں مقیم جلیل القدر صحابہ کرامؓ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ جب امیر معاویہ نے بنوامیہ کی خلافت اپنے بیٹے یزید کو منتقل کی، تو روایت ہے کہ انہوں نے اُسے چار افراد کے متعلق خاص طور پر خبردار کیا جن سے خطرہ لاحق ہو سکتا تھا: حسین بن علیؓ، عبداللہ بن زبیرؓ، عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ اور عبداللہ بن عمرؓ۔ یزید نے خلافت سنبھالتے ہی ان چاروں شخصیات کو اپنی بیعت پر مجبور کرنے کی کوشش شروع کی۔ اُس نے فوری طور پر والیٔ مدینہ ولید بن عتبہ کو پیغام بھیجا کہ وہ حسینؓ اور ابن زبیرؓ سے میری خلافت کی بیعت لیں، خواہ زبردستی ہی کرنی پڑے۔ دونوں شخصیات کو مدینہ میں گورنر کے دربار میں طلب کیاگیا، مگر دونوں نے حکمت سے معاملہ کو وقتی طور پر ٹال دیا تاکہ کوئی کھلا تصادم نہ ہو۔ طبری اور ابن عساکر کے مطابق، یہ وہ پہلا موقع تھا جب حضرت امام حسینؓ کا سر قلم کرنے کا مشورہ دیا گیا، مگر حجاز میں بغاوت کے خدشے کے پیش نظر اس پر عمل نہ کیا گیا۔ بلاذری، ابن قتیبہ اور دینوری بیان کرتے ہیں کہ حسینؓ اور ابن زبیرؓ رات کی تاریکی میں مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہ اقدام اس امر کی علامت تھا کہ وہ دونوں اموی عملداری میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے تھے اور یہ بھی جان چکے تھے کہ اسلامی سلطنت کے اُفق پر ایک اور خانہ جنگی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ مدعیانِ خلافت حضرت امام حسینؓ جب بحفاظت مکہ مکرمہ پہنچ گئے تو اُن کے اگلے اقدامات کے بارے میں کتب تاریخ میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ تاہم اس مرحلے پر ہمیں تین اہم کرداروں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے، جنہوں نے اُس تاریخی واقعہ جسے آج ہم واقعۂ کربلاکے نام سے جانتے ہیں، کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا: اول: یزید، جو خود خلافت کا مدعی تھا۔ دوم: عبداللہ بن زبیرؓ،جو خلافت کے خواہشمند کے طور پر دیکھے جارہےتھے۔ سوم: حضرت امام حسین بن علیؓ جنہیں اہل کوفہ کی حمایت حاصل تھی ۔ خلافت کے حصول کے لیے جاری اس سیاسی کشمکش کے کرداروں کا مزید جائزہ لیں تو یہ منظر ابھرتا ہے کہ یزید کے پاس ایک طاقتور اور منظم فوج تھی اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو خانہ کعبہ اور حجر اسود کی پناہ حاصل تھی جبکہ امام حسینؓ اہلِ کوفہ کی حمایت اور وفاداری پر پُرامید تھے۔ جب امام حسینؓ اپنے اہلِ خانہ اور قریبی ساتھیوں سمیت جن کی تعداد ۷۲؍بتائی جاتی ہے، کوفہ کی طرف روانہ ہوئے، تو راستہ میں یزید کی فوج نے ان کے قافلے کو آلیااور انہیں کوفہ کی طرف بڑھنے اور واپس مکہ یا مدینہ جانے کی اجازت نہ دی۔اسی سخت اور غیریقینی صورت حال میں، حضرت حسینؓ نے کربلا میں قیام کا فیصلہ کیا، جہاں یہ قافلہ ۲؍محرم الحرام ۶۱؍ہجری کو پہنچا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ اسلام کا ایک اندوہناک باب ہے جس کےتکلیف دہ نتائج آج تک محسوس ہوتے ہیں۔ سانحہ کربلا کے متفرق نقصانات واقعہ کربلا کا سب سے دردناک اور دل خراش پہلو تو نواسۂ رسول ﷺ حضرت امام حسینؓ کی دردناک شہادت ہے مگر جو پہلو اس سانحہ کو اور بھی تکلیف دہ بناتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ سانحہ دشمنان اسلام کے ہاتھوں نہیں بلکہ خود مسلمانوں کے ہاتھوں رونما ہوا۔ اور اتنا ہی کربناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس تصادم میں شامل دونوں طرف کے افراد یا تو خود صحابہؓ تھے یا اُن کی اگلی نسل تھی۔ کربلا کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس واقعے نے امت مسلمہ کو دو بڑے متحارب گروہوں میں تقسیم کر دیااور دونوں نے ہی ایک دوسرے کو گمراہ، بدعتی اور اصل اسلام سے دور قرار دینا شروع کر دیا ۔اسی تقسیم نے بعد میں سنّی و شیعہ اختلاف کی صورت اختیار کر لی اور یہ وہ خلیج ہے جو آج تک پُر نہ ہو سکی اورموجودہ حالات میں بظاہر اس کا پُر ہونا ممکن بھی دکھائی نہیں دیتاہے ۔ اس خونی تصادم کی جڑ خلافت کے دعووں سے شروع ہوئی اور یوں خلافت کا مسئلہ امت میں ایسا الجھاکہ آج تک حل نہ ہو سکا ۔واقعہ کربلا کی صورت میں ہونے والی خانہ جنگی نے امت کو صرف خلافت سے محروم نہیں کیا بلکہ ایک ایسا تاریک مستقبل بھی دیا جہاں ہر فرقہ اپنے اپنے ’’آخری نجات دہندہ‘‘ (یعنی مسیحؑ اور مہدی) کے بارے میں الگ نظریات رکھتا ہے۔ حضرت عیسیٰ ابن مریمؑ اور امام مہدی کے ظہور کے متعلق سنّی اور شیعہ گروہوں کے نقطۂ نظر میں کئی لحاظ سے فرق ہے۔یوں یہ بات طے شدہ ہے کہ چونکہ مہدی کی علامات میں دونوں فرقوں کا نظریہ مختلف ہے، اس لیے اگر کوئی شخص مہدی ہونے کا دعویٰ کرے گا بھی تو سنّی اُسے شیعہ قرار دے کر ردّ کردیں گے اور شیعہ اُسے سنّی کہہ کر قبول نہیں کریں گے۔یوں اگر دونوں میں سے کسی بھی طرف سے کوئی مدعی ظاہر ہوتا ہے تو اختلاف مزید گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ امام مہدی کی ایک علامت جس پر دونوں فریق متفق ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی نسل سے ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہےکہ اگر بالفرض کوئی ایسا شخص ظاہر بھی ہو جائے جو اپنا نسب حضرت نبی اکرمﷺ سے ثابت بھی کر دے، تو کیا ساری امت اُسے قبول کر لے گی؟ اب بظاہر تو امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی کیونکہ حضرت امام حسین بن علیؓ سے بڑھ کر کون ہو سکتا تھا جو حضرت نبی کریم ﷺ کی براہِ راست اور پاک نسل سے ہو؟ اگر انہیں نہ صرف بےدردی سے شہید کیا گیا، بلکہ ان کی نعشِ مبارک کی بےحرمتی کی گئی، اور اُن کاسر فتح کی علامت کے طور پر نیزوں پر اٹھایا گیا ۔تو اس دور میں کون ہوگا جو اپنا نسبِ سادات ثابت کرے اور امت کے لیے قابلِ قبول ٹھہرے؟ مگر یہ تصور توموجودہ حالات میں حقیقت سے کوسوں دُور معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص یا تو سنّی ہو یا شیعہ اس کا امکان تقریباً ناممکن ہےتو پھر یہ آخری امام کہاں سے آئے گا؟لہٰذا امام مہدی کا سنی اور شیعہ تقسیم سے بالاتر ہونا لازمی ٹھہرا۔ جب ہم ہر سال بطور خاص محرم کے مہینہ میں واقعۂ کربلا کو یاد کرتے ہیں، تو یہ سوال بھی اُبھرتا ہے کہ کیا ہمیں امت کے ماضی پر ماتم کرنا چاہیے، یا حال پر جس میں انتشار ہی انتشارہے، یا اُس مستقبل پر جو مزید تاریک نظر آرہا ہے؟اب دنیا میں شیعہ سنی دونوں گروہوں کے اندر نہ تو خلافت ہے نہ امامت نہ قیادت نہ اتحاد۔ توایک یہی سوال بنتا ہے کہ کیا ہم صرف بیٹھ کر مسلم اتحاد کے قتل پر نوحہ کریں، یا اُس آسمانی ہاتھ کی تلاش کریں جس پر اُمت مسلمہ کو پھر سے ایک کیا گیا ہے؟ مزید پڑھیں: سبط نبی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ