https://youtu.be/PQQ5RnHfKgc اگر کوئی خدا کا مخلص اور سچا طالب خدا کو پکارے اور اپنی پکار اور طلب میں پوری عاجزی کرے اور خدا کے دروازہ پر گڑگڑائے اور سر جھکاوے تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ خدا کی جگہ شیطان اس کو ایسا جواب دے جس کو وہ خدا کا جواب سمجھتا رہے اس امر کو ممکن کہنا نہ صرف ولایت اولیاء یا نبوت انبیاء میں خلل ڈالتا ہے بلکہ خدا کی خدائی کو بٹہ لگاتا ہے اور اُس کی وصف ربوبیت و قیومیت کو مٹاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے وعدہ کو باوجود قدرت پورا اور سچا نہیں کرتا یا وہ اُس وعدہ کو پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا شیطان کو اس کے نیک بندوں اور مخلص طالبوں پر اس سے زیادہ قدرت و تصرف ہے۔ تعالیٰ اللّٰہ عما یقول الظلمون علوا کبیرًا۔ براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میں ابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو اعتراض سوم کا جواب دلیل دوم متقی و نیکو کار (نہ فاسق و بدکار) خدا کے مخلص بندوں سے ہے اور مخلص بندۂ خدا کے الہام میں گو شیطانی وسوسہ کا امکان ہے مگر یہ ممکن نہیں کہ وہ اُسی وسوسہ میں مبتلا رہے اور شیطان کو اُس پر ایسا تسلط ہو جائے کہ وہ اس کو اس وسوسہ سے نکلنے نہ دے پھر جن الہامات پر خدا اپنے متقی اور مخلص بندوں کو بتکرار و تاکید قائم و دائم رکھے وہ القاء شیطانی کیونکر ہوسکتے ہیں۔ اس دلیل کا بھی پہلا مقدمہ ظاہر الثبوت ہے۔ دوسرے مقدمہ پر دلائل بہت سی آیات قرآن ہیں۔ از انجملہ وہ آیات جن میں یہ بیان ہے کہ وَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ۔ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ۔ قَالَ ھٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ۔ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ۔ (حجر ع ۳) خدا کے مخلص بندوں پر شیطان کا تسلط نہیں ہوتا۔ اِنَّمَا سُلْطَانُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہٗ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ مُشْرِکُوْنَ (نحل ع ۱۳) اس کا تسلط انہی لوگوں پر ہوتا ہے جو اس کے دوست ہیں (یعنی خدا کے دشمن) اور شیطان کو خدا کا شریک بنانے والے۔ اور از انجملہ وہ آیات قرآنی (جو اب قرآن میں پڑھی نہیں جاتیں اور وہ مشہور قرأتوں میں نہیں ہیں۔ صرف بعض صحابہؓ ابن عباس و ابن مسعود وغیرہ کی وہ قرأت ہے لہٰذا اس کا رتبہ استدلال میں حدیث کا ساہے۔) جس میں یہ بیان ہے کہ قال ابن عباس من نبی و لا محدث۔(صحیح بخاری صفحہ ۵۲۱) قولہ قال ابن عباس من نبی و لا محدث ای فی قولہ تعالیٰ و ما ارسلنا من قبلک من رسول و لا نبی الا اذا تمنی الایۃ کان ابن عباس زاد فیھا و لا محدث اخرجہ سفیان بن عیینہ فی اخر جامعہ اخراجہ عبد بن حمید من طریقہ و اسنادہ الی ابن عباس صحیح فلفظ عن عمرو بن دینار قال کان ابن عباس یقول و ما ارسلنا من قبلک من رسول و لا نبی و لا محدث ۔(فتح الباری شرح صحیح بخاری)ہم نے تجھ سے پہلے (اے رسول) کوئی نبی یا رسول یا محدث (یعنی ملہم) ایسا نہیں بھیجا کہ اس کی بات میں شیطان نے بات نہ ملا دی ہو۔ پر خدا شیطان کی ملائی ہوئی بات کو مٹا دیتا ہے اور اپنی اصلی آیات (یعنی الہامات) کو محکم (ثابت ) رکھتا ہے۔ اور از انجملہ وہ آیت جس میں ارشاد ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طَآئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ھُمْ مُّبْصِرُوْنَ۔ وَ اِخْوَانُھُمْ یَمُدُّوْنَھُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ۔ (اعراف ع ۲۴)پرہیزگاروں کو جب شیطان وسوسہ ڈالتا ہے تو وہ ہوشیار ہو جاتے ہیں اور اس وسوسہ کو جان لیتے ہیں اور جو لوگ شیطانوں کے بھائی ہوتے ہیں ان کو شیطان گمراہی میں کھینچتے ہیں پھر وہ ڈھیل نہیں دیتے۔ اور ظاہر ہے کہ جو شخص ہمیشہ وسوسہ میں مبتلا رہے اور اس وسوسہ شیطانی کو الہام رحمانی سمجھتا رہے وہ ہوشیار اور سمجھدار نہیں کہلاتا شیطان کا بھائی کہلانے کا مستحق ہے۔ اور از انجملہ وہ آیات جن میں خدا تعالیٰ نے بندوں سے وعدہ کیا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا۔(انفال ع ۴) یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ وَ یَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ۔(حدید ع ۴) اگر وہ پرہیزگار ہوں گے تو ان کو حق باطل (جس میں الہام رحمانی اور وسوسہ شیطانی بھی داخل ہے) کی تمیز عطا کرے گا اور ان کو نور مرحمت فرمائے گا جس سے وہ سیدھی راہ چلیں۔ اور ظاہر ہے جو شخص ہمیشہ وسوسہ شیطانی میں مبتلا رہے اس کو صاحب تمیز اور اہل نور نہیں کہا جا سکتا۔ اور از انجملہ وہ آیت جس میں ارشاد ہے کہ قُلْ اِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَھْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ اَنَابَ۔(رعد ع ۴)جو شخص خدا کی طرف رجوع کرتا ہے خدا اس کو اپنی طرف راہ دکھاتا ہے۔ اور از انجملہ وہ آیت جس میں ارشاد ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۔(عنکبوت ع ۷)جن لوگوں نے ہماری راہ (کی طلب) میں کوشش کی ان کو ہم اپنی راہ دکھاتے ہیں اور خدا نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جوشخص ہمیشہ شیطان کے وسوسہ میں مبتلا رہا اس کو خدا نے راہ نہ دکھایا اور نہ خدا اُس کے ساتھ ہوا۔ اور از انجملہ وہ آیت جس میں خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ۔(مومن ع ۶)تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار سنوں گا یا میں خود تم کو جواب دوں گا (یعنی تمہاری دعا قبول کروں گا۔) اور ظاہر ہے کہ شیطان کے جواب کو خدا کا جواب نہیں کہا جا سکتا پس اگر کوئی خدا کا مخلص اور سچا طالب خدا کو پکارے اور اپنی پکار اور طلب میں پوری عاجزی کرے اور خدا کے دروازہ پر گڑگڑائے اور سر جھکاوے تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ خدا کی جگہ شیطان اس کو ایسا جواب دے جس کو وہ خدا کا جواب سمجھتا رہے اس امر کو ممکن کہنا نہ صرف ولایت اولیاء یا نبوت انبیاء میں خلل ڈالتا ہے بلکہ خدا کی خدائی کو بٹہ لگاتا ہے اور اُس کی وصف ربوبیت و قیومیت کو مٹاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے وعدہ کو باوجود قدرت پورا اور سچا نہیں کرتا یا وہ اُس وعدہ کو پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا شیطان کو اس کے نیک بندوں اور مخلص طالبوں پر اس سے زیادہ قدرت و تصرف ہے۔ تعالیٰ اللّٰہ عما یقول الظلمون علوا کبیرًا۔ ان دلائل قرآنیہ سے مقدمہ دوم دلیل دوم ثابت ہوا۔ اور ان دو دلیلوں سے ہمارا دعویٰ اوّل ثبوت کو پہنچا۔ اور ثابت ہوا کہ اولیاء اللہ اپنے اُن الہامات میں (جن پر وہ قائم اور دائم رہیں) تلبیس ابلیس سے محفوظ ہوتے ہیں۔ اس مقام میں شاید ہمارے وہ معاصرین (جو باوجود دعوے ترکِ تقلید تقلیدِ سابقین کے خوگر ہیں اور بلا واسطہ سابقین کسی آیت یا حدیث سے تمسک نہیں کرتے اور جو بلا واسطہ سابقین کسی آیت یا حدیث سے استدلال کرے اس کو تعجب کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔) یہ سوال کریں کہ تم سے پہلے کسی نے ولی غیر نبی کو معصوم و محفوظ کہا ہے؟ اور اس دعوے پر ان آیات سے تمسک و استدلال کیا ہے؟ لہٰذا بپاس خاطر اِن حضرات کے اس مقام میں چند اقوال علماء سابقین پیش کئے جاتے ہیں۔ اور چونکہ اِس سوال کا اندیشہ زیادہ تر مجھے اپنے ہی عینی بھائیوں (اہلحدیث) سے ہے جو ذرا سے اختلاف کے سبب سنیوں کو بدعتی اور اہلحدیث کو حنفی بنا دیتے ہیں۔ اس لئے ان ہی علماء کی نقل اقوال پر اکتفاء کیا جاتا ہے جن کو اس گروہ اہلحدیث سے زیادہ تعلق ہے تا کہ اس فرقہ ناجیہ کی نو خیز مجتہد اس دعوے کے سبب ہم کو بدعتی بناتے ہوئے شرمائیں اور یہ خیال فرمائیں کہ اس صورت میں اس مذہب کے مجتہد و مجدد اور اس ملک میں اس کے مروج سبھی بدعتی ہو جائیں گے پھر ہم اہل حدیث کس منہ سے کہلائیں گے۔ پس واضح ہوا کہ ازانجملہ ایک عالم نبیل فاضل جلیل مولانا محمد اسمعیل شہید ہیں جو رسالہ منصب امامت و صراط مستقیم میں کاملین اولیاء اللہ کو ہر قول و فعل الہام و اعتقاد میں معصوم بتاتے (حاشیہ: تو ہم نے تو احتیاط کے ساتھ قیدیں لگا کر ان کو محفوظ بتایا تھا مولانا مرحوم نے ان قیدوں کا بھی اظہار نہیں فرمایا۔) اور اس حصہ عصمت میں ان کو وارث انبیاء ٹھہراتے ہیں۔ آپ کے رسالہ منصب امامت کو صفحہ ۳ سے ۴۲ تک ناظرین ملاحظہ فرماویں گے تو ہمارے اِس دعوےٰ بلکہ سبھی دعاوی بلکہ کتاب براہین احمدیہ کے اس قسم کے سبھی مطالب کا اس کو مؤید پاویں گے۔ ہم اس مقام میں تشویق ناظرین کے لئے اُن چالیس۴۰ صفحہ کا چند سطور میں خلاصہ بیان کرتے ہیں۔ اور جو عصمت اولیاء کے باب میں خاص کر انہوں نے فرمایا ہے اس کو بعینہٖ معرض نقل میں لاتے ہیں۔ اس رسالہ کے صفحہ ۳ میں اصول کمالات انبیاء پانچ وصف بیان کئے ہیں۔ (۱) وجاہت (۲) ولایت (۳) بعثت (۴) ہدایت (۵) سیاست۔ پھر فرمایا کہ وجاہت کی تین شاخیں ہیں۔ (۱) محبوبیت حضور رب العالمین میں (۲) عزت ملائکہ مقربین میں (۳) سیاست یا سیادت بندوں میں۔ پھر صفحہ ۶ میں فرمایا ہے ولایت کی تین شاخیں ہیں اوّل (معاملات صادقہ (الہام۔ تعلیم۔تفہیم غیبی حکمت وغیرہ) دوم مقامات کاملہ (محبت۔ خشیت۔ توکل رضا۔ تسلیم۔صبر۔ استقامت۔ زہد قناعت۔ تفرید۔ تجرید) سوم اخلاق فاضلہ (علو ہمت۔ وفور شفقت۔ حلم۔ حیا۔ محبت۔ وفا۔ سخاوت۔ شجاعت) پھر فرمایا یہ ولایت سبھی خواص بندگان خدا کو حاصل ہوتی ہے مگر کاملین خواص کو ان دو صفتوں کے ساتھ (۱) عبودیت (۲) عصمت۔ پھر بصفحہ ۷ فرمایا ’’و معنی عصمت آنست کہ آنچہ بایشان تعلق میدارد اقوال و افعال و عبادات و عادات و معاملات و مقامات و اخلاق و احوال آن ہمہ را حق جل و علی از مداخلت نفس شیطان و خطا و نسیان بقدرت کاملہ خود محفوظ میدارد و ملائکہ حافظین را بر ایشان مے گمارد تا غبار بشریت دامن پاک ایشان را نہ آلاید و نفس بہیمی بہ بعضے مکنونات خود امر نفرماید و اگر احیانا چیز یکہ خارج از قانون رضامندی حضرت حق باشد ازیشان بطریق شذو زو ندرت صادر میگردد فی الفور حافظ حقیقی ایشان را بآن آگاہ مے فرماید و عصمت غیبیہ طوعاً و کرھاً ایشان را کشان کشان براہ راست مے آرد و این ولایت مذکورہ کہ رنگین باشد برنگ عبودیت و عصمت آنرا ولایت النبوۃ میگویند پس ولایت النبوۃ غیر منصب نبوت ست چہ منصب نبوت مخصوص است بانبیاء و این ولایت النبوۃ اگرچہ بالاصالت در انبیاء یافتہ مے شود فاما بعضے اکابر اولیا را ہم بہ تبعیت انبیا ازاں نصیبے بدست مے آید چنانچہ دلائل این دعوی از کتاب و سُنّت عنقریب مذکور خواہد گردید انشاء اللّٰہ تعالیٰ۔‘‘ پھر بصفحہ ۸ بعثت کی ظاہری صورت اور حقیقت بیان فرمائی ہے۔ پھر بصفحہ ۱۲ ہدایت کے پانچ طریق بیان فرمائے ہیں۔ (۱) نزول برکت۔ (۲) عقد ہمت (۳) فیض صحبت (۴) خرق عادت (۵) اظہار دعوت اور ہر ایک کی شرح فرمائی ہے۔ پھر بصفحہ ۲۲ سیاست ایمانی کو خاصہ انبیاء ٹھہرا کر اُس کے چار قسم بیان کئے ہیں۔ (جاری ہے) مزید پڑھیں: حضرت امام حسنؓ و حسینؓ کا عظیم الشان مقام و مرتبہ