(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۲؍اگست ۲۰۱۴ء) جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رضا کارانہ خدمت کے جذبے کے تحت ہمارے جلسے کے انتظامات سرانجام پاتے ہیں اور اس حوالے سے جلسے سے ایک جمعہ پہلے مَیں کارکنان کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ بھی دلاتا ہوں۔ اس وقت اسی بارے میں چند باتیں میں کارکنان کے حوالے سے کارکنان کو کہوں گا۔ بلکہ مہمان نوازی سے متعلق جو باتیں ہیں ان کا تعلق صرف کارکنان یا جلسے کے رضاکاروں سے ہی نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص سے ہے جس کے گھر میں جلسے کے مہمان آ رہے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہمیں کہنا چاہئے کہ مہمان کا احترام، اس کی مہمان نوازی، اس کا عزت و احترام ہر مومن کو عام حالات میں بھی کرنا چاہئے اور یہ اس پر فرض ہے۔ بہرحال اس وقت مَیں کیونکہ جلسے کے مہمانوں کے حوالے سے توجہ دلانی چاہتا ہوں اس لئے ان باتوں کا محور جلسہ سالانہ ہی رہے گا۔ جلسہ پر آنے والے مہمان جیسا کہ مَیں نے کہا یہاں آتے ہیں اور جلسے کے لئے آرہے ہیں، خالص دینی غرض سے آتے ہیں اور جلسے میں شامل ہونے والوں کی یہی غرض ہونی چاہئے۔ اور جب یہ غرض ہو تو مہمان کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے میں شامل ہونے کی طرف خاص توجہ دلائی ہے اور اس جلسے کو خالص دینی اغراض کا حامل ٹھہرایا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا حامل ٹھہرایا ہے تو اس سے کس قدر اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ آنے والے کسی ذاتی مفاد کے لئے نہیں آتے۔ کسی دنیاوی رونق میں حصہ لینے کے لئے نہیں آتے۔ اگر کوئی اس غرض کے لئے آتا ہے تو اپنے ثواب کو ضائع کرتا ہے۔ پس یہاں آنے والے مہمان جن کی خدمت کے لئے مختلف شعبہ جات میں کام کرنے کے لئے مخلصین اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں یہ عام مہمان نہیں ہیں بلکہ زمانے کے امام کے قائم کردہ نظام پر لبیک کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خاطر جمع ہونے والے مہمان ہیں۔ پھر یو کے کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے آنے والے مہمان تو خاص طور پر وہ مہمان ہیں جو خاص تردّد سے، فکر سے اور بعض دفعہ بے انتہا خرچ کر کے، اپنی بساط سے زیادہ خرچ کر کے یہاں آتے ہیں اور بڑی دُور دُور سے اس لئے آتے ہیں کہ یہ سفر ہر لحاظ سے برکات کا موجب بن جائے۔ خلافت سے محبت ان کو یہ احساس دلا رہی ہوتی ہے کہ یہ سفر خلیفۂ وقت سے ملاقات کا بھی باعث بن جائے گا۔ دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ آتے ہیں۔ نو مبائعین بھی ہیں، پرانے احمدی بھی ہیں۔ ان آنے والوں کی آنکھوں میں جب مَیں خلافت سے محبت دیکھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے شکر سے جذبات بڑھتے جاتے ہیں کہ کس طرح وہ مومنین کے دل میں خلافت سے محبت پیدا کرتا ہے۔ یہ کسی انسان کی کوشش سے نہیں ہو سکتا۔ اور یہ صرف اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیج کر آپ کے بعد اس نظام کو جاری فرمایا اور اس لئے ہے تاکہ اسلام کی صحیح اور حقیقی تعلیم سے دنیا کو روشناس کرایا جائے۔ اس لئے کہ اسلام کے پیار اور محبت کے پیغام کو دنیا کو بتایا جائے۔ اس لئے کہ دنیا کو یہ بتایا جائے کہ حقیقی اسلام میں ہی اب دنیا کا امن ہے۔ پس یہ باتیں ہیں جن کو دیکھنے کے لئے، سننے کے لئے، سیکھنے کے لئے لوگ یہاں آتے ہیں اور یہی وجہ ہے جو خلافت سے محبت ہے۔ اب تو جرمنی میں بھی کئی ملکوں کی نمائندگی جلسے پر ہوتی ہے اور اچھی خاصی تعداد میں ہوتی ہے اس لئے کہ خلیفہ وقت سے ملاقات ہو جائے۔ برطانیہ کے جلسے پر تو خاص طور پر بہت لوگ اس لئے آتے ہیں کہ جلسہ کے روحانی ماحول سے بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ علمی تربیتی اور دینی پروگراموں میں بھی شامل ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے بھی وارث بنیں گے اور خلیفہ وقت سے ملاقات بھی ہو جائے گی۔ غرض کہ یہاں آنے والوں کا جذبہ ایسا ہے جو کسی دوسرے دنیاوی رشتے میں نہیں ہے اور اسی بات کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی شرائط بیعت میں توجہ دلائی ہے۔ پس یہاں آنے والے مہمان یا مہمانوں کا مقام ایک خاص مقام ہے اور ان کی اہمیت ہے۔ اور اسی وجہ سے ان مہمانوں کی خدمت کرنے والوں کی بھی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اور اس اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہی افراد جماعت رضاکارانہ طور پر مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ ایک دنیاوی لحاظ سے اچھے افسر کو، بڑے کمانے والے کو دیگوں پر کھانا پکانے، روٹیاں پکانے اور دوسرے مختلف کاموں پر لگا دیا جاتا ہے حتی کہ ٹائلٹس کی صفائی پر بھی کھڑا کر دیں تو وہ خوشی سے یہ کام کرتا ہے۔ اس لئے کہ ان مہمانوں کی خدمت سے وہ بے انتہا دعاؤں کا وارث بن رہا ہوتا ہے۔ اور پھر یہی کارکن غیر از جماعت مہمانوں کے لئے تبلیغ کا بھی باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ ایک بچہ بھی جب جلسہ گاہ میں پھر کر پانی پلا رہا ہوتا ہے تو وہ بھی ایک خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے۔ دنیا کو یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو دنیا میں فساد پیدا کرنے کے لئے نہیں آئے بلکہ دنیا کو مادی پانی بھی پلاتے ہیں، روحانی پانی بھی پلاتے ہیں۔ پس مہمان کی اہمیت میزبان کی اہمیت کو بھی بڑھا رہی ہوتی ہے اور یہ چیز دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آ سکتی۔ پس خوش قسمت ہیں وہ کارکن اور رضا کار جو ایسے مہمانوں کی خدمت کو انجام دینے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن رہے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے مہمانوں اور مہمان نوازی کی بہت اہمیت بیان فرمائی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقام اور خوبیوں کا جب ذکر فرمایا تو ان کے مہمان نوازی کے وصف کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔ پس وہ میزبان جو بے نفس ہو کر مہمان نوازی کرتے ہیں اور مہمان کو دیکھتے ہی کسی اور کام کے بجائے مہمان کی خدمت کی فکر کرتے ہوئے ان کے لئے تیاری شروع کر دیتے ہیں ایسے لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مقام ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مہمانوں کی اس خدمت سے اللہ تعالیٰ راضی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا ہی ان کے پیش نظر ہوتی ہے۔ کوئی خواہش، کوئی مطلب، کوئی شکر گزاری وصول کرنا ان کا مقصودنہیں ہوتا۔ …پس اس یاددہانی کو بھی بلا وجہ کی بات کو دہرانا یا repetitionنہیں سمجھنا چاہئے۔ بہت سے کارکنوں کو اس یاد دہانی سے ہی اپنی اہمیت کا اندازہ اور احساس ہوتا ہے۔ کوئی توجہ طلب بات پہلے سنی ہونے کے باوجود وہ بھول جاتے ہیں یا اتنی توجہ نہیں رہتی اور یاد دہانی سے پھر توجہ پیدا ہو جاتی ہے اور بعض اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہمیں توجہ پیدا ہوئی۔ …پس ہر وقت اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہم نے مہمانوں کی خدمت کرنی ہے اور حقیقی طور پر ایسی خدمت کرنی ہے جو ہمیں حقیقی خوشی پہنچانے والی ہو۔ پس ہمارے ہر آنے والے مہمان سے ہمیں اس طرح خوشی پہنچنی چاہئے جس طرح اپنے عزیز مہمان کو دیکھ کر ہوتی ہے، کسی قریبی کو دیکھ کر ہوتی ہے، اور جب ایسی خوشی ہو تو پھر ہی خدمت کا حق بھی ادا ہوتا ہے۔ اپنوں کی خدمت اور مہمان نوازی، قریبیوں کی خدمت اور مہمان نوازی یہ تو سب کر لیتے ہیں۔ زیادہ پیارے اگر کسی کے ہوں تو ان کے نخرے بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ اصل جذبۂ خدمت تو اس وقت پتا چلتا ہے جب کوئی خونی رشتہ نہ ہو۔ جب مہمان آتے ہیں تو سلامتی حاصل کرنے اور سمیٹنے کے لئے آتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ جلسے کے مہمان ہیں جن کے کوئی دنیاوی مقاصدنہیں ہوتے۔ پس ایسے مہمانوں کے لئے حتی المقدور سلامتی اور آسانیوں کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں کرنے چاہئیں۔ پھر مہمان نوازی کا یہ معیار ہمیں قائم کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنے تمام تر وسائل کے مطابق اور حالات کے مطابق جو بہترین مہمان نوازی کی سہولت ہم مہیا کرسکتے ہیں وہ کریں۔ انتظامیہ کو اس بارے میں ہمیشہ سوچتے رہنا چاہئے۔ پس اللہ تعالیٰ ہم سے اس قسم کی مہمان نوازی چاہتا ہے کہ بہترین سہولت مہیا ہو۔ مزید پڑھیں: جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۷ء کے متعلق چند غیراز جماعت احباب کے تاثرات