https://youtu.be/K9AGj6vYaS0 ہر فرد راعی ہے ایک معروف حدیث کے حوالے سے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں گھر کےہر فرد کے راعی ہونے سے متعلق اہم نصائح فرمائیں۔ چنانچہ مردوں کے گھر میں سربراہ ہونے کی حیثیت سے دیگر افرادِ خانہ کی نگرانی سے متعلق حضور انور نے ارشاد فرمایا:’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔ امام نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گااور مرد اپنے اہل پر نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔ خادم اپنے آقاکے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاتھا کہ مرد اپنے والد کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گااور فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ (بخاری کتاب الجمعۃ۔ باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن) تو اس روایت میں مختلف طبقوں کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ اپنے اپنے ماحول میں نگران ہیں لیکن اس وقت میں کیونکہ مردوں کے بارے میں ذکر کر رہا ہوں اس لئے اس بارے میں تھوڑی سی وضاحت کر دوں۔ عموماً اب یہ رواج ہو گیا ہے کہ مرد کہتے ہیں کیونکہ ہم پر باہر کی ذمہ داریاں ہیں، ہم کیونکہ اپنے کاروبار میں اپنی ملازمتوں میں مصروف ہیں اس لئے گھر کی طرف توجہ نہیں دے سکتے اور بچوں کی نگرانی کی ساری ذمہ داری عورت کا کام ہے۔ تو یاد رکھیں کہ بحیثیت گھر کے سربراہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کے ماحول پر بھی نظر رکھے، اپنی بیوی کے بھی حقوق ادا کرے اور اپنے بچوں کے بھی حقوق ادا کرے، انہیں بھی وقت دے ان کے ساتھ بھی کچھ وقت صرف کرے چاہے ہفتہ کے دو دن ہی ہوں، ویک اینڈ ز پر جو ہوتے ہیں۔ انہیں مسجد سے جوڑے، انہیں جماعتی پروگراموں میں لائے، ان کے ساتھ تفریحی پروگرام بنائے، ان کی دلچسپیوں میں حصہ لے تاکہ وہ اپنے مسائل ایک دوست کی طرح آپ کے ساتھ بانٹ سکیں۔ بیوی سے اس کے مسائل اور بچوں کے مسائل کے بارے میں پوچھیں، ان کے حل کرنے کی کوشش کریں۔ پھر ایک سربراہ کی حیثیت آپ کومل سکتی ہے۔ کیونکہ کسی بھی جگہ کے سربراہ کو اگر اپنے دائرہ اختیار میں اپنے رہنے والوں کے مسائل کا علم نہیں تو وہ تو کامیاب سربراہ نہیں کہلا سکتا۔ اس لئے بہترین نگران وہی ہے جو اپنے ماحول کے مسائل کو بھی جانتا ہو۔ یہ قابل فکر بات ہے کہ آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اپنی ذمہ داریوں سے اپنی نگرانی کے دائرے سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں یا آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اپنی دنیا میں مست رہ کر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو مومن کو، ایک احمدی کو ان باتوں سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چاہئے۔ مومن کے لئے تو یہ حکم ہے کہ دنیا داری کی باتیں تو الگ رہیں، دین کی خاطر بھی اگر تمہاری مصروفیات ایسی ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے تم نے مستقلاً اپنا یہ معمول بنا لیا ہے، یہ روٹین بنا لی ہے کہ اپنے گردو پیش کی خبر ہی نہیں رکھتے، اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، اپنے ملنے والوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، اپنے معاشرے کی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے تو یہ بھی غلط ہے۔ اس طرح تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ معیار حاصل کرنے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرو اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرو۔ جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ: اے عبداللہ! جو مجھے بتایا گیا ہے کیا یہ درست ہے کہ تم دن بھر روزے رکھے رہتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو یعنی نمازیں پڑھتے رہتے ہو، اس پر میں نے عرض کی ہاں یا رسول اللہؐ۔ تو پھر آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو کبھی روزہ رکھو کبھی چھوڑ دو، رات کو قیام کرو اور سو بھی جایا کرو۔ کیونکہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری زیارت کو آنے والے کا بھی تم پر حق ہے۔‘‘ (بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم فی الصوم) تو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھر کے سربراہ کی حیثیت سے گھر والوں کے حقوق کس طرح ادا کیا کرتے تھے اس بارے میں حضرت اسودؓ کی روایت ہے، کہتے ہیں کہ: ’’ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر پر کیا کیا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا وہ اپنے اہل خانہ کی خدمت میں لگے رہتے تھے اور جب نماز کا وقت ہو جاتا تو نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الاذان) تو آپﷺ سے زیادہ مصروف اور آپﷺ سے زیادہ عبادت گزار کون ہو سکتا ہے۔ لیکن دیکھیں آپﷺ کا اسوہ کیا ہے کتنی زیادہ گھریلو معاملات میں دلچسپی ہے کہ گھر کے کام کاج بھی کر رہے ہیں اور دوسری مصروفیات میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ: تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں بہت اچھا ر ہے۔ اور آپﷺ نے فرمایا کہ:میں تم سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔ (ترمذی کتاب المناقب) ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم اس خوبصورت نمونہ پر، اس اسوہ پر عمل کرتے ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍جولائی ۲۰۰۴ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر، مسی ساگا، کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍جولائی ۲۰۰۴ء) (ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ ۱۷۸-۱۸۲) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: جماعت احمدیہ کی وجہ تسمیہ