ساری تدابیر اختیار کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خدا کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائےاور عرض کیا: اَللّٰهُمَّ خُذْ عَلٰى أَسْمَاعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْ فَلَا يَرَوْنَا اِلَّا بَغْتَةً، وَلَا يَسْمَعُوْنَ بِنَا اِلَّا فَجْأَةً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریش نے وہ عہد اس امر کے لیے توڑا ہے جس کا ارادہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ اللہ کے رسولؐ! کیا اس میں بھلائی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں اس میں بھلائی ہے آپؐ کو خُزاعہ کے واقعہ کی خبر ملی تو فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مَیں ان کی ہر اس چیز سے حفاظت کروں گا جس سے میں اپنے اہل اور گھر والوں کی حفاظت کرتا ہوں آپؐ نے حضرت ضمرہؓ کو قریش کے پاس بھیجا اور تین امور میں سے ایک کو اختیار کرنے کے لیے کہا کہ یا تو وہ بنوخُزاعہ کے مقتولوں کی دیت ادا کر دیں یا بنونُفَاثَہ سے لاتعلقی کا اظہار کر دیں یا حدیبیہ کا معاہدہ ختم کر دیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کے مدینہ آنے سے پہلے صحابہؓ سے فرمایا: ابوسفیان تمہارے پاس آ رہا ہے وہ کہہ رہا ہے معاہدہ کی تجدید کر دو اور صلح میں اضافہ کر دو لیکن وہ ناراضگی لے کر واپس جائے گا۔ اس کی کوئی بات نہیں مانی جائے گی غزوۂ فتح مکہ کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا پُرمعارف بیاناَلْکُفْرُ مِلَّةٌ وَاحِدَہ ہو چکا ہے، کفار سب ایک ملّتِ واحدہ بن گئے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اُمّتِ واحدہ بننا پڑے گاتبھی ان کی بچت ہے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں حالیہ ایران اسرائیل تنازعہ کے پیش نظر دعاؤں کی تحریک خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍ جون 2025ء بمطابق13؍ احسان 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾ چند جمعے پہلے فتح مکہ کے حوالے سے ابتدائی ذکر کیا تھا آج اس حوالے سے مزید تفصیل بیان کروں گا۔ اس غزوہ کے سبب کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ اس غزوہ کا فوری سبب یہ ہوا کہ قریش نے اس معاہدہ کو توڑ دیا جو حدیبیہ میں ہوا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو بڑے تکبرانہ انداز میں کہہ دیا کہ ہم معاہدہ ختم کرتے ہیں اور ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کریں گے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپؐ نے مکہ کا رخ کیا۔ ان کی عہد شکنی کی تفصیل یوں ہے کہ جب صلح حدیبیہ ہوئی تو اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ قبائلِ عرب میں سے جو چاہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کر لے اور جو چاہے وہ قریش کے ساتھ معاہدہ کر لے۔ چنانچہ بنوبکر اور بنوخُزاعہ جو حرم کے ارد گرد آباد تھے ان میں سے بنوخُزاعہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کر لیا اور ان کے حریف قبیلے بنوبکر نے قریش کے ساتھ معاہدہ کر لیا اور دونوں قبائل آپسی لڑائی سے محفوظ ہو گئے۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 661 آرام باغ کراچی) (فتح مکہ از باشمیل صفحہ 90، 111 نفیس اکیڈمی کراچی) (غزوات و سرایا از محمد اظہر فرید صفحہ 445 فریدیہ پبلیشرز ساہیوال) دورِ جاہلیت میں بنوخُزاعہ اور بنوبکر کی لڑائی تھی جس میں بنوبکر نے ایک خُزاعی شخص کو قتل کیا اور بنوخُزاعہ نے بنوبکر کے تین آدمی حدودِ حرم میں قتل کیے تھے۔ بنوبکر اور بنوخُزاعہ اسی حالت میں تھے یعنی ان کی آپسی لڑائیاں چل رہی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی۔ آپؐ نے دعویٰ فرمایا تو لوگ اسلام کے بارے میں مصروف ہو گئے۔ نئی چیز ان کے سامنے آ گئی تو اس کے بارے میں باتیں ہونے لگیں اور ایک دوسرے سے رک گئے مگر وہ دلوں میں غیض و غضب چھپائے ہوئے تھے۔ جب شعبان آٹھ ہجری کا مہینہ آیا اور صلح حدیبیہ کو بائیس ماہ گزر چکے تھے تو بنوبکر کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہجو کی یعنی توہین آمیز شعر کہے۔ بنوخُزاعہ کے ایک نوجوان نے اس کو گاتے سنا تو اس نے اس شخص کو مارا اور اس کا سر پھاڑ دیا۔ اس واقعہ پر دونوں قبیلوں میں جھگڑا ہو گیا جبکہ پہلے سے ہی قبائلی دشمنی چلی آ رہی تھی اور عارضی طور پر بند تھی۔ بنوبکر کے جس شخص نے یہ توہین آمیز شعر لکھے تھے وہ بنوبکر کے خاندان بنونُفَاثَہکا فرد تھا۔ جب اس شاعر کو بنوخُزاعہ کے نوجوان نے زخمی کر دیا تو بنوبکر میں سے بنونُفَاثَہ نے قریش سے بنوخُزاعہ کے خلاف افراد اور اسلحہ کی مدد کی درخواست کی۔ قریش نے ان کی مدد کرنے کی حامی بھر لی سوائے ابوسفیان کے۔ اس سے نہ یہ مشورہ کیا گیا تھا اور نہ ہی اسے اس کا علم تھا۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کے ساتھ مشورہ کیا گیا تھا مگر اس نے اس کا انکار کر دیا یعنی کہ لڑائی کا انکار کر دیا لیکن اس کے باوجود قریش نے اسلحہ، گھوڑوں اور آدمیوں کے ساتھ ان کی مدد کی۔ ان سب نے رازداری کے ساتھ حملہ کیا تا کہ بنوخُزاعہ اپنا دفاع نہ کر سکیں۔ بنوخُزاعہ معاہدے کی وجہ سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے تھے اور غافل تھے۔ قریش، بنوبکر اور بنونُفَاثَہ نے وَتِیر کے مقام پر ملنے کا وعدہ کیا۔ یہ مکہ مکرمہ کا نشیبی علاقہ تھا جو مکہ کے جنوب مغرب میں حدودِ حرم پر مکہ سے سولہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بنوخُزاعہ کے گھر اسی جگہ تھے۔ یہ لوگ جو مخالفین تھےمقررہ وقت پر وہاں ملے۔ قریش کے رؤساء نے بھیس بدلے ہوئے تھے اور نقاب اوڑھ رکھے تھے۔ ان میں صَفْوَان بن اُمَیَّہ، عِکْرمہ بن ابی جہل، حُوَیْطَبْ بن عبدالعُزّٰی، شَیْبَہ بن عثمان اور مِکْرَز بن حَفْص تھے۔ ان سب کے ہمراہ ان کے غلام بھی تھے اور بنوبکر کا رئیس نوفل بن معاویہ بھی ساتھ تھا۔ بنوخُزاعہ غافل اور مطمئن ہو کر رات کو سوئے ہوئے تھے۔ ان میں زیادہ تر بچے اور خواتین اور کمزور لوگ تھے۔ قریش اور بنونُفَاثَہ نے ان پر حملہ کیا اور لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا یہاں تک کہ ان میں سے کچھ بھاگ کر حدودِ حرم میں پہنچ گئے اور بنوخُزاعہ نے بنوبکر کے قائد نوفل بن معاویہ سے کہا: اے نوفل! اب تو ہم حرم میں داخل ہو گئے ہیں تمہیں تمہارے معبود کا واسطہ ہے۔ تو نوفل نے بڑے تکبر سے کہا آج کوئی معبود نہیں اور حرم میں بھی انہوں نے قتل و غارت جاری رکھی۔ بنوبکر نےاس دن بنوخُزاعہ کے بیس آدمی قتل کیے۔ بہرحال بعد میں قریش اپنے اس فعل پر شرمندہ بھی ہوئے، پریشان ہوئے۔ انہیں علم تھا کہ ان کے اس فعل سے وہ معاہدہ ٹوٹ گیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مابین تھا۔ سُہَیل بن عمرو نے نوفل سے کہا ہم نے تمہارے ساتھ اور تمہارے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جو لوگوں کو قتل کیا ہے تُو اسے خوب جانتا ہے۔ تُو نے ان کا قتل عام کیا ہے اور بقیہ لوگوں کو بھی قتل کرنا چاہتا ہے لیکن ہم اس پر تیری اتباع نہیں کریں گے۔ انہیں چھوڑ دے۔ چنانچہ نوفل نے انہیں چھوڑ دیا اور وہ چلے گئے۔ حَارِث بن ہِشام اور عبداللہ بن ابی رَبِیعہ دونوں مل کر صَفْوَان بن اُمَیّہ، سُہَیل بن عمرو اور عِکْرِمَہ بن ابی جہل کے پاس گئے اور انہیں بنوخُزَاعہ کے خلاف بنوبکر کی مدد کرنے پر سخت ملامت کی کہ تم نے یہ کیا کیا ہے؟ تمہارا تو معاہدہ تھا۔ اور بتایا کہ تم نے جو کام کیا ہے وہ ہمارے اور محمدؐ کے درمیان معاہدے کو توڑنے والا ہے۔ (ماخوذ ازسبل الھدیٰ جلد5صفحہ 200-201دارالکتب العلمیۃ بیروت) (معجم المعالم الجغرافیۃ فی السیرۃ النبویۃ صفحہ 331دار مکۃ للنشر والتوزیع 1982ء) (الطبقات الکبریٰ جلد2صفحہ 102دارالکتب العلمیۃ بیروت) (سیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ 103دارالکتب العلمیۃ بیروت) (فتح مکہ از باشمیل صفحہ 98 نفیس اکیڈمی کراچی) (غزوات النبیؐ از محمد عبد الاحد صفحہ430مطبوعہ زاویہ پبلیشرز لاہور) (غزوات و سرایا از محمد اظہر فرید صفحہ 446فریدیہ پبلیشرز ساہیوال) حارث بن ہشام ابو سفیان کے پاس آیا اور بتایا کہ قوم نے کیا حرکت کی۔ ابوسفیان نے یہ سن کر کہا کہ یہ ایسا واقعہ ہے کہ میں اس میں شریک بھی نہیں ہوں لیکن اس سے بے تعلق بھی نہیں ہوں۔ یہ بہت ہی بُرا ہوا ہے۔ خدا کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اب یقیناً ہم سے جنگ کریں گے۔ ابوسفیان نے مزید یہ بھی کہا کہ مجھے میری بیوی ہند نے بتایا ہے کہ اس نے ایک بھیانک خواب دیکھا ہے۔ اس نے دیکھا کہ حَجُوْنْ جو کہ وادی مُحَصَّب کی طرف بیت اللہ سے ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ایک پہاڑ ہے اس کی طرف سے خون کا ایک دریا بہتا ہوا آیا اور خَنْدَمَہ تک پہنچ گیا۔ خَنْدَمَہ مِنٰی کے راستے میں مکہ کا ایک مشہور پہاڑ ہے۔ اور لوگوں نے اس کو ناپسند کیا۔(السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ103دار الکتب العلمیہ بیروت)(فرہنگ سیرت صفحہ100 ،116زوار اکیڈمی کراچی)یعنی وہ خون بہتا آ رہا ہے اس سے وہ لوگ بڑے ڈر گئے۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس واقعہ کا جو بنوخُزاعہ پر حملہ ہوا تھا کشفی طور پر علم اللہ تعالیٰ نے دیا۔ ام المومنین حضرت میمونہ بنت حارثؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس رات بسر کی۔ آپؐ نماز کے لیے وضو کرنے کے لیے اٹھے۔ آپؐ وضو کی جگہ پر تھے کہ مَیں نے سنا کہ آپؐ نے تین بار لَبَّیْک لَبَّیْک لَبَّیْک کہا یعنی مَیں حاضر ہوں، مَیں حاضر ہوں، مَیں حاضر ہوں۔ اور پھر تین بار ہی نُصِرْتَ نُصِرْتَ نُصِرْتَ بھی کہا یعنی تمہاری مدد کی گئی، تمہاری مدد کی گئی، تمہاری مدد کی گئی۔ جب آپؐ وضو کر کے تشریف لائے تو کہتی ہیں کہ مَیں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مَیں نے سنا کہ آپؐ نے تین بار لَبَّیْک کہا اور تین بار ہی نُصِرْتَ کہا۔ کیا آپ کے پاس کوئی شخص تھا جس سے آپؐ باتیں کر رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: بنوکعب بنوخُزَاعہ کی ایک شاخ کا ایک شخص تھا جو بنوبکر کے خلاف رجزیہ شعر کہتے ہوئے مجھے مدد کے لیے پکار رہا تھا۔ یہ کشفی رنگ تھا اور یہ کہہ رہا تھا کہ قریش نے ان کے خلاف بنوبکر بن وائل کی مدد کی ہے۔ حضرت میمونہ بیان کرتی ہیں کہ تین دن بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی تو میں نے کسی کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا: یَا رَبِّ اِنِّيْ نَاشِدٌ مُّحَمَّدًا حِلْفَ اَبِيْنَا وَ اَبِيْهِ الْاَتْلَدَا اے میرے ربّ! میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو معاہدہ یاد دلاتا ہوں جو ہمارے قدیم آباء اور ان کے آباء کے درمیان ہوا تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس رات کی صبح کو جس رات بنونُفَاثَہ اور بنوخُزَاعہ کا واقعہ وَتیر مقام پر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا: اے عائشہ! خُزاعہ میں کوئی واقعہ رونما ہوا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ؐ!کیا قریش اس عہد کو توڑنے کی جرأت کریں گے جو آپؐ اور ان کے مابین ہے جبکہ جنگوں نے انہیں پہلے ہی فنا کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے وہ عہد اس امر کے لیے توڑا ہے جس کا ارادہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ اللہ کے رسولؐ! کیا اس میں بھلائی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں اس میں بھلائی ہے۔ یعنی یہ تو اللہ کی مرضی تھی وہ عہد توڑیں اور پھر آگے ان کو اس کی سزا ملے۔ (ماخوذ ازسبل الھدیٰ جلد5صفحہ 201-202دارالکتب العلمیۃ بیروت) (شرح علامہ زرقانی جلد3صفحہ380، 381دار الکتب العلمیہ بیروت) بہرحال اسی واقعہ کا ذکر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کیا ہے۔ اپنے انداز میں وہ لکھتے ہیں کہ حضرت میمونہ فرماتی ہیں کہ ایک رات میری باری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں سو رہے تھے۔ جب آپؐ تہجد کے لیے اٹھے تو آپ وضو فرماتے ہوئے بولے اور مجھے آواز آئی کہ آپٔ فرما رہے ہیں لَبَّیْک لَبَّیْک لَبَّیْک۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: نُصِرْتَ نُصِرْتَ نُصِرْتَ۔ وہ کہتی ہیں جب آپؐ باہر تشریف لائے تو مَیں نے کہا کہ یا رسول اللہ ؐ! کیا کوئی آدمی آیا تھا جس سے آپؐ باتیں کررہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں میرے سامنے کشفی طور پر خُزاعہ کا ایک وفد پیش ہوا اور وہ شور مچاتے چلے جا رہے تھے کہ ہم محمدؐ کو اس کے خدا کی قسم دے کر کہتے ہیں کہ تیرے ساتھ اور تیرے باپ دادوں کے ساتھ ہم نے معاہدے کیے تھے اور ہم تیری مدد کرتے چلے آئے ہیں مگر قریش نے ہمارے ساتھ بدعہدی کی اور رات کے وقت ہم پر حملہ کر کے جبکہ ہم میں سے کوئی سجدے میں تھا اور کوئی رکوع میں ہم کو قتل کر دیا اب ہم تیری مدد حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں۔ غرض مَیں نے دیکھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں نے دیکھا کہ خُزاعہ کا آدمی کھڑا ہے۔ جب کشفی طور پر وہ آدمی مجھے نظر آیا تو میں نے کہا لَبَّیْک لَبَّیْک لَبَّیْک۔ یعنی میں تمہاری مدد کے لیے حاضر ہوں۔ تین دفعہ کہا۔ پھر میں نے کہا نُصِرْتَ نُصِرْتَ نُصِرْتَ یعنی تمہاری مدد کی جائے گی۔ یہ بھی تین دفعہ کہا۔ پھر حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اسی دن صبح کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور آپؐ نے فرمایا: خُزاعہ کے ساتھ ایک خطرناک واقعہ پیش آیا ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ خُزاعہ کے ساتھ خطرناک واقعہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ مکہ کی سرحد پر ہیں اور مکہ والے جن کا بنوبکر کے ساتھ معاہدہ ہے وہ خُزاعہ پر حملہ کر دیں۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ ؐ!کیا یہ ممکن ہے کہ اتنی قَسموں کے بعد قریش معاہدہ توڑ دیں اور وہ خُزاعہ پر حملہ کر دیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت وہ اس معاہدہ کو توڑ رہے ہیں۔ اور وہ حکمت یہی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حملے کی اجازت نہیں تھی اور معاہدہ ٹوٹنے سے اجازت مل گئی۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ ؐ!کیا اس کا نتیجہ اچھا نکلے گا؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ نتیجہ اچھا ہی نکلے گا۔ (ماخوذ از سیر روحانی ، انوار العلوم جلد 24صفحہ 251 تا 252) اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ بنوبکر اور قریش کی اس ظالمانہ کارروائی کے بعد عَمرو بن سالم بنوخُزاعہ کے چالیس سواروں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کرنے کے لیے نکلا۔ خُزاعہ قبیلے کا رئیس بُدَیل بن وَرْقَاءخُزَاعِی بھی اس جماعت کے ساتھ تھا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تفصیل بتائی کہ انہیں کس مصیبت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور قریش نے کس طرح ان کے خلاف اسلحہ، آدمی اور گھوڑوں سے بنوبکر کی مدد کی ہے اور کس طرح صفوان، عکرمہ اور قریش کے دیگر رؤساء نے اس قتلِ عام میں شرکت کی ہے۔ اس وقت آپؐ مسجد میں صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ جب وہ اپنی بات کہہ چکے تو عمرو بن سالم خُزاعہ کا سردار کھڑا ہوا تو اس نے چند اشعار پڑھ کر مدد طلب کی جن میں سے ایک شعر یہ بھی تھا کہ یَا رَبِّ اِنِّيْ نَاشِدٌ مُّحَمَّدًا حِلْفَ اَبِيْنَا وَ اَبِيْهِ الْاَتْلَدَا اے میرے ربّ! مَیں محمد کو وہ معاہدہ یاد دلاتا ہوں جو ہمارے آباء اور ان کے آباء کے درمیان ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمرو بن سالم تیری مدد کی جائے گی۔ (ماخوذ ازسبل الھدیٰ جلد5صفحہ 202-203دارالکتب العلمیۃ بیروت) ( سیرت الحلبیہ جلد 3صفحہ 103دارالکتب العلمیۃ بیروت) (فرہنگ سیرت صفحہ 56 زوار اکیڈمی کراچی) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ جب بنوخُزاعہ کا کارواں آپؐ کے پاس پہنچا تو آپؐ نے ان سے پوچھا: تمہارے خیال میں یہ ظلم کس نے کیا ہے؟ انہوں نے کہا: بنوبکر نے۔ آپؐ نے فرمایا: کیا سارے بنوبکر نے؟ انہوں نے کہا: نہیں، بنونُفَاثَہ نے جن کا سردار نَوفل بن معاویہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: یہ بنوبکر کا ہی ایک قبیلہ ہے۔ چنانچہ بنوخُزاعہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری باتیں بتا دیں تو آپؐ نے فرمایا علیحدہ علیحدہ ہو کر واپس چلے جاؤ۔ اب تمہاری واپسی ہے تو قافلے کی صورت میں اکٹھے نہ جانا بلکہ علیحدہ علیحدہ جانا۔ آپؐ نے یہ اس لیے فرمایا کہ کسی کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ آپؐ سے ملاقات کر کے آ رہے ہیں۔ اس معاملے کو خفیہ رکھا۔ چنانچہ بنوخُزاعہ علیحدہ علیحدہ ہو کر واپس چلے گئے۔ ان میں سے کچھ لوگ راستے میں ساحلِ سمندر کی طرف ہولیے اور بُدَیل بن وَرْقَاء سمیت بعض لوگ عام راستے سے گئے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپؐ بنوکعب یعنی خُزاعہ کے معاملے کی وجہ سے بہت غصہ میں آ گئے۔ میں نے آپؐ کو اتنے شدید غصہ میں کبھی نہیں دیکھا۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ کو خُزاعہ کے واقعہ کی خبر ملی تو فرمایا مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مَیں ان کی ہر اس چیز سے حفاظت کروں گا جس سے میں اپنے اہل اور گھر والوں کی حفاظت کرتا ہوں۔ (سبل الھدیٰ جلد5صفحہ 203،204دارالکتب العلمیۃ بیروت) (سیرت الحلبیہ جلد3صفحہ104دارالکتب العلمیۃ بیروت) اس غزوے کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے بھی بیان فرمائی ہے۔ اپنے انداز میں فرماتے ہیں کہ ’’آٹھویں سنہ ہجری کے رمضان کے مہینہ … میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آخری جنگ کے لیے روانہ ہوئے جس نے عرب میں اسلام کو قائم کر دیا۔ یہ واقعہ یوں ہوا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر یہ فیصلہ ہوا تھا کہ عرب قبائل میں سے جو چاہیں مکہ والوں سے مل جائیں اور جو چاہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جائیں اور یہ کہ دس سال تک دونوں فریق کو ایک دوسرے کے خلاف جنگ کی اجازت نہیں ہو گی سوائے اس کے کہ ایک دوسرے پر حملہ کر کے معاہدہ کو توڑ دے۔ اس معاہدہ کے ماتحت عرب کا قبیلہ بنوبکر مکہ والوں کے ساتھ ملا تھا اور خُزاعہ قبیلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ‘‘ مل گیا۔ ’’کفار عرب معاہدہ کی پابندی کا خیال کم ہی رکھتے تھے خصوصاً مسلمانوں کے مقابلہ میں۔ چنانچہ بنوبکر کو چونکہ قبیلہ خُزاعہ کے ساتھ پرانا اختلاف تھا، صلح حدیبیہ پر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے مکہ والوں سے مشورہ کیا کہ خُزاعہ تو معاہدہ کی وجہ سے بالکل مطمئن ہیں۔ اب موقع ہے کہ ہم لوگ ان سے بدلہ لیں۔ چنانچہ مکہ کے قریش اور بنوبکر نے مل کر رات کو بنی خُزاعہ پر چھاپا مارا اور ان کے بہت سے آدمی مار دیے۔ خُزاعہ کو جب معلوم ہوا کہ قریش نے بنوبکر سے مل کر یہ حملہ کیا ہے تو انہوں نے اس عہد شکنی کی اطلاع دینے کے لیے چالیس آدمی تیز اونٹوں پر فوراً مدینہ کو روانہ کیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ باہمی معاہدہ کی رو سے اب آپؐ کا فرض ہے کہ ہمارا بدلہ لیں اور مکہ پر چڑھائی کریں۔ جب یہ قافلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپؐ نے فرمایا: تمہارا دکھ میرا دکھ ہے۔ میں اپنے معاہدہ پر قائم ہوں‘‘ اور فرمایا کہ ’’یہ بادل جو سامنے برس رہا ہے۔ (اس وقت بارش ہو رہی تھی) جس طرح اس میں سے بارش ہو رہی ہے اسی طرح جلدی ہی تمہاری مدد کے لیے اسلامی فوجیں پہنچ جائیں گی۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20صفحہ 336-337) ایک روایت کے مطابق آپؐ نے حضرت ضَمْرَہؓ کو قریش کے پاس بھیجا اور تین امور میں سے ایک کو اختیار کرنے کے لیے کہا کہ یا تو وہ بنوخُزاعہ کے مقتولوں کی دیت ادا کر دیں یا بنونُفَاثَہ سے لاتعلقی کا اظہار کر دیں یا حدیبیہ کا معاہدہ ختم کر دیں۔ یہ تین باتیں ہیں۔ حضرت ضَمْرَہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کے طور پر ان کے پاس گئے۔ مسجد حرام کے دروازے کے پاس اونٹنی بٹھائی اور اندر چلے گئے۔ قریش اپنی اپنی جگہوں پر تھے۔ حضرت ضمرہؓ نے انہیں بتایا کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد ہیں اور انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دیا۔ قَرَظَہ بن عَبْدِ عَمْرو نے کہا کہ اگر ہم بنوخُزَاعہ کے مقتولوں کی دیت دے دیں گے تو ہمارے پاس نہ اناج رہے گا اور نہ ہی مویشی رہیں گے کیونکہ اتنے لوگوں کی دیت ادا کرنا ایک بھاری رقم کو چاہتا ہے۔ جہاں تک بنونُفَاثَہ سے لاتعلقی کا تعلق ہے تو اہلِ عرب کا کوئی قبیلہ نہیں جو ان کی طرح بیت اللہ کی تعظیم کرتا ہو۔ وہ ہمارے حلیف ہیں۔ ہم ان کی دوستی سے براءت کا اعلان نہیں کریں گے۔ ہم اس سے علیحدہ نہیں ہوں گے جب تک کہ ہمارے پاس کچھ موجود ہے۔ ہاں ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کریں گے۔ اس نے کہہ دیا ہم جنگ کریں گے۔ اس لیے ہم معاہدے ہی کو ختم کر دیتے ہیں یعنی حدیبیہ کا معاہدہ۔ حضرت ضمرؓہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ گئے اور قریش کی باتوں سے آپ کو آگاہ کیا۔ بہرحال بعد میں قریش کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہوا اور انہوں نے ابوسفیان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا۔ (سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 204-205دار الکتب العلمیہ بیروت) (فتح مکہ ازباشمیل صفحہ 111 نفیس اکیڈمی کراچی) اس کے آنے کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے بتا دیا تھا کہ ابوسفیان آ رہا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کے مطابق لوگوں کو بتایا تھا۔ چنانچہ ابوسفیان کی تجدید صلح کے لیے آمد ہوئی۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کے مدینہ آنے سے پہلے صحابہؓ سے فرمایا: ابوسفیان تمہارے پاس آ رہا ہے وہ کہہ رہا ہے معاہدہ کی تجدید کر دو اور صلح میں اضافہ کر دو لیکن وہ ناراضگی لے کر واپس جائے گا۔ اس کی کوئی بات نہیں مانی جائے گی۔ ایک روایت میں ہے کہ حارث بن ہشام اور عبداللہ بن ابی ربیعہ ابوسفیان کے پاس گئے انہوں نے کہا کہ اس امر میں صلح کرنا ناگزیر ہے۔ اگر یہ معاملہ حل نہ ہوا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سمیت تم پرحملہ آور ہوں گے۔ چنانچہ ابوسفیان اور اس کا غلام دو اونٹنیوں پر روانہ ہوئے۔ وہ جلدی جلدی چلا اور مدینہ پہنچا۔ وہ سب سے پہلے اپنی بیٹی ام حبیبہؓ کے پاس آیا جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں۔ ابوسفیان نے ارادہ کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھے مگر حضرت ام حبیبہؓ نے بستر لپیٹ دیا۔ ابوسفیان نے کہا: اے میری بیٹی !کیا یہ بستر میرے قابل نہیں یا میں اس کے قابل نہیں؟ حضرت ام حبیبہؓ نے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ہے۔ آپ ایک مشرک اور ناپاک شخص ہیں۔ میں پسند نہیں کرتی کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھیں۔ اس نے کہا کہ اے میری بیٹی!۔ ابوسفیان نے کہا کہ اے میری بیٹی! میرے بعد تمہیں شر نے آ لیا ہے۔ ام حبیبہؓ نے کہا نہیں بلکہ اللہ نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت دی ہے اور اے میرے باپ! آپ قریش کے رئیس اور سردار ہیں۔ آپ سے قبول اسلام میں تاخیر کیسے ہو سکتی ہے؟ انہوں نے ان کو تبلیغ کی۔ آپ بتوں کی پوجا کرتے ہیں جو نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں۔ ابوسفیان وہاں سے اٹھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا گیا۔ آپؐ اس وقت مسجد میں تھے۔ اس نے کہا: اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں صلح حدیبیہ کے وقت موجود نہ تھا۔ آپؐ اس معاہدہ کی تجدید کردیں اور ہمارے لیے مدت کو بڑھا دیں۔ آپؐ نے فرمایا: ابوسفیان! کیا تُو صرف اس لیے آیا ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہاری طرف سے کوئی بات ہوئی ہے؟ اس نے کہا: اللہ کی پناہ! ہم اپنی صلح حدیبیہ کے معاہدے پر برقرار ہیں۔ غلط بیانی کی اس نے۔ ہم نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم بھی اپنے معاہدہ اور صلح پر برقرار ہیں۔ ہم نے بھی کوئی تبدیلی نہیں کی۔ ہمارا معاہدہ ہوا تھا ٹھیک ہے۔ ہم نے بھی کوئی تبدیلی نہیں کی۔ ابوسفیان اپنی بات دہراتا رہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس گیا۔ ان سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرو یا اپنی طرف سے لوگوں میں پناہ کا اعلان کر دو۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا میری پناہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں ہے۔ ابوسفیان پھر حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور اسی طرح گفتگو کی جس طرح کی گفتگو حضرت ابوبکرؓ سے کی تھی۔ پھر حضرت عثمانؓ کے پاس گیا۔ ان سے کہا: لوگوں میں تم سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ صلح کی مدت میں اضافہ کر دو اور معاہدے کی تجدید کر دو۔ تمہارا ساتھی تمہاری بات کو نہیں ٹالے گا۔ انہوں نے کہا میری پناہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں ہے۔ پھر وہ وہاں سے ناکام ہوا تو حضرت علی کے پاس گیا اور کہا: اے علی! تم رشتہ داری میں میرے سب سے قریبی ہو۔ میں ایک ضروری کام کے لیے آیا ہوں لیکن خالی ہاتھ واپس نہیں جانا چاہتا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حضور میری سفارش کرو۔ انہوں نے کہا ابوسفیان تیرے لیے ہلاکت۔ حضرت علیؓ نے جواب دیا تیرے لیے ہلاکت۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی بات کا عزم کر لیں تو ہم میں استطاعت نہیں کہ ہم آپؐ سے اس پر گفتگو کر سکیں۔ پھر ہماری کوئی طاقت نہیں۔ اس نے حضرت علیؓ سے کہا: اے علی! معاملات مجھ پر شدت اختیار کر گئے ہیں مجھے کوئی مشورہ دو۔ حضرت علیؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میرے علم میں ایسی کوئی چیز نہیں جو تجھے فائدہ دے سکے لیکن تم بنوکِنَانَہ کے رئیس ہو۔ اٹھو اور لوگوں کے مابین پناہ کا اعلان کرو۔ پھر اپنے شہر لَوٹ جاؤ۔ ابو سفیان مسجد نبوی میں گیا اور کہا: اے لوگو! میں نے لوگوں میں امن کا اعلان کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے تم میرے عہد کو نہیں توڑو گے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! میں نے لوگوں کے درمیان امن کا اعلان کردیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اے ابوحَنْظَلَہ! یہ صرف تُو ہی کہہ رہا ہے یعنی ہم اس بارے میں کچھ نہیں کہہ رہے۔ یہ تیرا یکطرفہ اعلان ہے۔ پھر وہ اپنے اونٹ پر سوار ہو کر واپس چلا گیا۔ (سبل الھدیٰ جلد5صفحہ 205تا 207دارالکتب العلمیۃ بیروت) ایک روایت کے مطابق اس نے حضرت فاطمہؓ سے بھی بات کی تھی کہ وہ سفارش کر دیں لیکن انہوں نے بھی معذرت کرلی۔ (منتخب سیرت مصطفیٰ ﷺ، ازپروفیسر ڈاکٹرعبدالعزیز بن ابراہیم العمری، صفحہ 392 دار السلام) اوریوں ابوسفیان کسی بھی نئے عہد و پیمان یا اتفاق رائے کی کوشش میں ناکام و نامراد واپس لَوٹ آیا۔ جب ابوسفیان واپس اپنی قوم میں آیا اور ساری بات انہیں بتائی تو انہوں نے بھی ابوسفیان کو برا بھلا کہا کہ کوئی بھی بھلائی کی بات تم لے کر نہیں آئے۔ (خاتم النبیین ﷺ، جلد3صفحہ1190،ازابوزُہرۃ، دار التراث بیروت) حضرت مصلح موعودؓ نے بھی تاریخی لحاظ سے اس کو بیان فرمایا ہے۔ اس طرح لکھا ہے کہ مکہ والوں نے ’’ابوسفیان کو مدینہ روانہ کیا تا کہ وہ کسی طرح مسلمانوں کو حملے سے باز رکھے۔ ابوسفیان نے مدینہ پہنچ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر زور دینا شروع کیا کہ چونکہ صلح حدیبیہ کے وقت مَیں موجود نہ تھا اس لیے نئے سرے سے معاہدہ کیا جائے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا کیونکہ جواب دینے سے راز ظاہر ہو جاتا تھا۔ ابوسفیان نے مایوسی کی حالت میں گھبرا کر مسجد میں کھڑے ہو کر اعلان کیا اے لوگو! میں مکہ والوں کی طرف سے نئے سرے سے آپ لوگوں کے لیے امن کا اعلان کرتا ہوں۔ یہ بات سن کر مسلمان اس کی بیوقوفی پر ہنس پڑے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوسفیان! یہ بات تم یکطرفہ کہہ رہے ہو ہم نے کوئی ایسا معاہدہ تم سے نہیں کیا۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20صفحہ 337) ہمارے ریسرچ سیل والے اس بارے میں ایک نوٹ لکھتے ہیں کہ ابوسفیان کا یہ کہنا کہ میں صلح حدیبیہ کے وقت موجود نہ تھا۔ ان کے نزدیک یہ محل نظر ہے یا بعض لوگوں نے لکھا بھی ہو اس لیے انہوں نے اس نکتہ کو اٹھا لیا۔ عام سمجھنے والے کے لیے تو یہ ضروری نہیں ہے لیکن جو لوگ تاریخی معاملات میں گہرائی میں جانا چاہتے ہیں وہ شاید یہ سوال اٹھائیں کہ یہ کہنا کہ میں موجود نہیں تھا محل نظر ہے کیونکہ تاریخ و سیرت کی کچھ کتب میں اس موقع پر یعنی مدینہ آمد پر ابوسفیان کا یہ کہنا موجود ہے کہ میں صلح حدیبیہ کے وقت موجود نہ تھا لیکن اکثر کتب خاموش ہیں۔ اور مؤرخین کی اکثریت نے ابوسفیان کی اس بات کا ذکر نہیں کیا۔ تیسری بات یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے وقت کیا واقعی ابو سفیان موجود نہ تھا۔ واقدی کی کتاب المغازی، سیرت حلبیہ اور چند ایک اَور کتب میں یہ بیان ہے کہ وہ اس موقع پر موجود نہ تھا لیکن تاریخ و سیرت کی اکثر کتب میں یہ بیان ہوا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو مکہ بھیجا تھا تاکہ وہ ابوسفیان اور دیگر قریشی سرداروں کو بتائیں کہ ہم لڑائی کے لیے نہیں آئے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابوسفیان اس وقت موجود تھا۔ البتہ یہ قابل غور امر ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر وہ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے آیا اور نہ ہی معاہدہ کرنے کے لیے خود آیا حالانکہ قریش کا سردار وہ خود تھا اور نہ ہی اس معاہدے پر اس کے دستخط یا گواہی موجود ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ مدینہ میں جو اس نے یہ کہا کہ میں صلح حدیبیہ کے وقت موجود نہ تھا اس سے اس کی مراد یہ ہو کہ صلح نامہ کے موقع پر میں موجود نہ تھا یا واقعی میں وہاں موجود نہ تھا اور یہ بھی مدینہ میں آ کر کہا ہو۔ اور اسی بات کو اس نے دہرایا ہو کہ کیونکہ میرے دستخط نہیں۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہا یہ ریسرچ سیل والوں کا خیال ہے لیکن خود ہی یہ ساری تفصیل جو وہ بیان کر رہے ہیں اس کو، اپنے اس خیال کو ردّ بھی کر رہے ہیں کہ وہ معاہدہ میں شامل نہیں تھا کیونکہ معاہدے پر اس کے دستخط باوجود سردار ہونے کے نہیں ہیں۔ یہ لکھ رہے ہیں یہ۔ تو ابوسفیان نے اسی کو جواز بنایا ہو گا۔ اس لیے کسی شک میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کہ اس نے مدینہ آ کر یہ کہا کہ میں معاہدہ میں شامل نہیں تھا۔ یہ اس نے کہا تو ٹھیک کہا تھا۔ ہاں شامل ہونے اور موجود ہونے کے الفاظ کے بیان میں راوی کی غلطی ہو سکتی ہے لیکن واقعات اس بات کو زیادہ صحیح بتاتے ہیں کہ اس نے اپنے معاہدے کا حصہ نہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ یہی بات سامنے آتی ہے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی یہ بات لکھی ہے کہ اس نے یہ کہا اور آپؓ نے اس کو مانا ہے اور یہی صحیح لگتا ہے کہ وہ معاہدے میں شامل نہیں تھا اور اس کو ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد یہی ہے کہ میں موجود نہیں تھا۔ بہرحال یہ تو ایک تاریخی مسئلہ تھا اس کو میں نے بیان کر دیا۔ اس لیے اس میں کوئی ابہام کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ کوئی ایسا سوال اٹھتا ہے۔ یہ بات بڑی واضح ہے۔ بہرحال اس مہم پر جانے کی تفصیل کے بارے میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رازداری کے ساتھ سفر کی تیاری کرنا شروع کی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو سفر کی تیاری کا ارشاد فرمایا لیکن یہ نہیں بتایا کہ کہاں جانا ہو گا۔ ایسا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا سفر کے لیے میرا سامان تیار کر دو۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لے گئے تو حضرت ابوبکر اپنی بیٹی حضرت عائشہؓ کے پاس داخل ہوئے۔ اس وقت حضرت عائشہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان کو تیار کر رہی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی غزوے کے لیے جانے کا ارادہ ہے؟ حضرت عائشہؓ خاموش رہیں۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کہنے لگے کہ شاید رومیوں کی طرف جانے کا ارادہ ہو یا شاید اہلِ نجد کی طرف جانے کا ارادہ ہو یا شاید قریش کی طرف نکلنے کا ارادہ ہو لیکن ان کے ساتھ تو معاہدے کی میعاد ابھی باقی ہے۔ حضرت عائشہؓ ان کے ہر سوال پر خاموش رہیں اور کوئی جواب نہیں دیا۔ اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کہیں نکلنے کا ارادہ ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی کہ کیا آپؐ کا بنواصفر یعنی رومیوں کی طرف جانے کا ارادہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ کیا آپؐ کا اہلِ نجد کی طرف جانے کا ارادہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ شاید آپؐ کا قریش کی طرف جانے کا ارادہ ہے۔ تو آپؐ نےفرمایا: ہاں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ کیا آپ کے اور ان کے درمیان معاہدہ نہیں؟ یعنی صلح حدیبیہ۔ آپؐ نے فرمایا: تمہیں پتہ نہیں چلا کہ انہوں نے بنی کعب یعنی خُزاعہ قبیلے کے ساتھ کیا کیا ہے۔ (مغازی سیدنا محمدﷺ از موسیٰ بن عقبہ، جلد 3 صفحہ119-121) اس واقعہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے سیرت حلبیہ میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے آپ سے پوچھا: یا رسول اللہ ؐ!کیا آپ نے سفر کا ارادہ فرمایا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ تو پھر میںبھی تیاری کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ حضرت ابوبکرؓ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ؐ!آپؐ نے کہاں کا ارادہ فرمایا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: قریش کے مقابلے کا۔مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ابوبکر اس بات کو ابھی پوشیدہ ہی رکھنا۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تیاری کا حکم دیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس سے بے خبر رکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہاں جانے کا ارادہ ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہات اور ارد گرد کے مسلمانوں کو پیغامات بھجوائے اور ان سے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ رمضان کے مہینے میں مدینہ حاضر ہو جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کے مطابق قبائل عرب مدینہ آنے شروع ہو گئے۔ جو قبائل مدینہ پہنچے ان میں بنواسلم، بنوغفار، بنومزینہ، بنواشجع اور بنوجہینہ تھے۔ (السیرۃ الحلبیہ جلد 3صفحہ107۔108دارالکتب العلمیۃ بیروت) ایک روایت کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حضرت ابوبکر ؓکو بلا کر مشورہ کیا۔ پھر حضرت عمرؓ کو بلا کر مشورہ کیا اور پھر تمام مسلمانوں کو سفر کی تیاری کا ارشاد فرمایا۔ (سبل الہدیٰ،جلد5صفحہ208دار الکتب العلمیۃ بیروت) اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے یوں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی سے کہا کہ میرا سامان سفر باندھنا شروع کرو۔ انہوں نے رختِ سفر باندھنا شروع کیا اور حضرت عائشہؓ سے کہا کہ میرے لیے ستّو وغیرہ یا دانے وغیرہ بھون کر تیار کرو۔ اسی قسم کی غذائیں ان دنوں میں ہوتی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے مٹی وغیرہ پھٹک کر دانوں سے نکالنی شروع کی۔ دانے صاف کرنےشروع کیے۔ حضرت ابوبکر گھر میں بیٹی کے پاس آئے اور انہوں نے یہ تیاری دیکھی تو پوچھا: عائشہ! یہ کیا ہو رہا ہے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سفر کی تیاری ہے؟ وہ کہنے لگیں کہ سفر کی تیاری ہی معلوم ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کی تیاری کے لیے کہا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کہنے لگے کوئی لڑائی کا ارادہ ہے؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ مجھے تو کچھ پتہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرا سامان سفر تیار کرو اور ہم ایسا کر رہی ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا ہم تو سامان تیار کر رہے ہیں ۔کہاں جانا ہے کس لیے جانا ہے؟ ہمیں تو نہیں پتہ۔ دو تین دن کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو بلایا اور کہا دیکھو تمہیں پتہ ہے خُزاعہ کے آدمی اس طرح آئے تھے اور پھر بتایا کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور مجھے خدا نے اس واقعہ کی پہلے سے خبر دے دی تھی کہ انہوں نے غداری کی ہے اور ہم نے ان سے معاہدہ کیا ہوا ہے۔ اب یہ ایمان کے خلاف ہے کہ ہم ڈر جائیں اور مکہ والوں کی بہادری اور طاقت دیکھ کر ان کے مقابلے کے لیے تیار نہ ہوں۔ بہرحال ہم نے وہاں جانا ہے۔ تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: یا رسول اللہؐ! آپؐ نے تو ان سے معاہدہ کیا ہوا ہے اور پھر وہ آپؐ کی اپنی قوم ہے۔ مطلب یہ تھا کہ کیا آپؐ اپنی قوم کو ماریں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم اپنی قوم کو نہیں ماریں گے معاہدہ شکنوں کو ماریں گے۔ پھر حضرت عمرؓ سے پوچھا۔ حضرت عمرؓ کا تو اپنا مزاج تھا انہوں نے کہا: بسم اللہ۔ میں تو روز دعائیں کرتا تھا کہ یہ دن نصیب ہو اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں کفار سے لڑیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر بڑا نرم طبیعت کا ہے مگر قول صادق عمر کی زبان سے جاری ہوتا ہے۔ صحیح بات تو عمر نے کی ہے۔ فرمایا کہ تیاری کرو۔ پھر آپؐ نے ارد گرد کے قبائل کو اعلان بھجوایا کہ ہر شخص جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے وہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں مدینہ میں جمع ہو جائے۔ (ماخوذ از سیر روحانی(7) انوارالعلوم جلد 24صفحہ 260تا261) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفر کو پوشیدہ رکھنے کے لیے مختلف تدابیر اختیار فرمائیں۔ چنانچہ آپؐ نے سفر سے پہلے آٹھ آدمیوں پر مشتمل ایک پارٹی کو حضرت اَبُوقَتَادہ بن رِبْعِیؓ کی قیادت میں وادی اِضَم کی طرف، مکہ کی مخالف سمت بھیجا تا کہ گمان کرنے والا گمان کرے کہ آپؐ اس سمت جانے کا عزم کر رہے ہیں اور خبر نہ پھیل سکے۔ اِضم مدینہ سے چھتیس میل کے فاصلے پر مشرق کی طرف نجد میں ایک وادی ہے۔ (سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد نہم صفحہ 111 دار السلام) (فرہنگ سیرت صفحہ45زوار اکیڈمی کراچی) اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے آس پاس کچھ آدمی روانہ کر دیے اور ان سب کی ڈیوٹی یہ تھی کہ کوئی بھی اجنبی شخص مکہ کی طرف جا رہا ہو تو اس کو واپس لَوٹا دیا جائے۔ اس سارے کام کی نگرانی کے لیے حضرت عمرؓ کو مقرر کیا گیا جو بطور نگران چکر لگاتے رہے۔ یہ ساری تدابیر اختیار کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خدا کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور عرض کیا: اَللّٰهُمَّ خُذْ عَلٰى أَسْمَاعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْ فَلَا يَرَوْنَا اِلَّا بَغْتَةً، وَلَا يَسْمَعُوْنَ بِنَا اِلَّا فَجْأَةً۔ اے اللہ! قریش کے کانوں اور ان کی آنکھوں کو روک لے یعنی ان کے جاسوسوں اور مخبروں کو روک لے کہ وہ ہمیں نہ دیکھ سکیں مگر یہ کہ اچانک ہم ان تک جا پہنچیں اور نہ ہی وہ ہمارے متعلق کوئی خبر معلوم کریں سوائے اس کے کہ اچانک انہیں ہماری خبر پہنچے۔ (سیرت النبی ﷺ ازڈاکٹرصلابی ،مترجم،جلد3صفحہ384-385 ) (دائرہ معارف جلد9 صفحہ72 بزم اقبال لاہور) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اَور دعا بھی ملتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اَللّٰهُمَّ خُذِ الْعُيُوْنَ وَالْاَخْبَارَ عَنْ قُرَيْشٍ حَتّٰى نَبْغَتَهَا فِيْ بِلَادِهَا۔ اے اللہ! قریش کے جاسوسوں کو اور ان کے مخبروں کو روکے رکھ یہاں تک کہ ہم لوگوں کو ان کے علاقوں میں اچانک پا لیں۔ (تاریخ الطبری جلد 2صفحہ155دارالکتب العلمیۃ بیروت) اس کے بعد آپؐ نے سفر شروع فرمایا۔ یہ مزید تفصیل ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی چلے گی۔ اس وقت دنیا کے عمومی حالات کے لیے بھی مَیں کہنا چاہتا ہوں۔ اکثر کہتا ہوں دعائیں کرتے رہیں۔ جنگ کے پھیلنے کے امکانات بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کی تباہ کاری سے ہمیں محفوظ رکھے کیونکہ اب تو ایران پر اسرائیل نے حملہ کر دیا ہے اور یہ جنگ کی حالت خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے۔ اسرائیل کی حکومت کے یہ لوگ تو اب یہی چاہیں گے کہ ایک ایک کرکے تمام مسلمان ممالک کو نقصان پہنچائیں لیکن مسلمان ملک سوئے ہوئے ہیں۔ اور اپنی ترقی اور اپنی دوسری ترجیحات جو ہیں انہی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ان کو سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ کیا ہونا ہے۔ مسلمانوں کے نہ تو عمل رہے ہیں نہ ان کی دعا کی طرف توجہ ہے اور ایسی حالت میں پھر جو نقصان پہنچے گا اس کا یہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور یہ اس طرف توجہ کریں اور اپنی اکائی قائم کرنے کی کوشش کریں۔ یہ نہیں کہ فلاں فرقہ ہے، فلاں فرقہ ہے تو ہم اس کی مدد نہیں کر رہے۔ سب ملک خطرے میں ہیں کیونکہ اَلْکُفْرُ مِلَّةٌ وَاحِدَہ ہو چکا ہے، کفار سب ایک ملّتِ واحدہ بن گئے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اُمّتِ واحدہ بننا پڑے گا تبھی ان کی بچت ہے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر معصوم کو، ہر مظلوم کو بڑے نقصان سے بچائے۔ اور ہمیں دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ30؍ مئی 2025ء