(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۰؍مارچ ۱۹۲۵ء) ۱۹۲۵ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے افغانستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم، غیروں کے اس پر اظہار افسوس اور اس کے متعلق جماعت احمدیہ کے ردعمل کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) روحانی تعلقات جو جسمانی تعلقات سے کہیں بڑھ چڑھ کر اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ جن کا ان مظلوموں کے ساتھ روحانی تعلق ہو وہ تو گھروں میں آرام سے بیٹھے رہیں لیکن دوسروں کے دل ان کے لئے بےقرار اور اضطراب میں ہوں تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:وہ تکلیف دہ اور صبر و قرار کو کھو دینے والے واقعات جو پچھلے چند مہینوں میں ہمیں پیش آئے۔ ان کے متعلق طبعی طور پر ہماری جماعت کے دلوں میں ایک بہت بڑا ہیجان اور جوش ہے اور ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر ان مظالم کے بعد جو کابل میں ہمارے مظلوم بھائیوں پر کئے گئے اور اس بیدردانہ سلوک کے بعد جو ہمارے بھائیوں کے ساتھ وہاں روا رکھا گیا۔ ہماری جماعت کے دلوں میں دکھ اور درد اور خاص جوش پیدا نہ ہوتا تو میں سمجھتا کہ ہماری جماعت کے دل نہ صرف برادرانہ محبت اور ہمدری سے خالی ہیں بلکہ ان کے دل انسانی دلوں سے بدل کر کچھ اور بنا دیئے گئے ہیں۔ پس ان واقعات اور حادثات کے بعد جو کابل میں ہمارے مظلوم بھائیوں کو پیش آئے۔ ہماری جماعت کے اندر جوش کا پیدا ہونا ایک طبعی امر ہے اور میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت کے دلوں میں اس بات کا بڑا بھاری احساس اورنہایت ہی گہرا اثر ہے۔ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے کچھ بھائی میدان وفا میں نہایت بہادری اور دلیری کے ساتھ اپنے سروں پر بازی کھیل کر بازی لے گئے ہیں۔ تو ہمیں بھی ضرور کچھ کرنا چاہیے۔ ہماری جماعت کا یہ جوش یہ احساس اور اپنے مظلوم بھائیوں کی مظلومیت پر ان کے دلوں کا یہ اضطراب نہایت قابل قدر ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسے موقعوں پر ایسا ہی ہوناچاہیے۔ پس اس جوش اور اس احساس کا طبعی نتیجہ یہ بھی نکلا ہے۔ اور نکلنا چاہیے تھا کہ ہم غور کریں ہم نے اپنے ان مظلوم بھائیوں کو جن کے ساتھ نہایت بے دردی کا معاملہ کیا گیا یا جن پر افغانستان میں ظلم ڈھائے جا رہے اور ہر طرح ان کو ستایا جاتا ہے۔ انہیں ان مظالم سے نجات دلانے اور دشمنوں کے شر سے بچانے کے لئے کیا کیا اور کیا کر رہے ہیں۔ اور آئندہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بیدردانہ سلوک پر جو کابل کی حکومت میں ہمارے بھائیوں کے ساتھ کیا گیا اور وہ اندوہ گیں اور المناک واقعہ جو ہمارے مظلوم بھائیوں کو نہایت بےکسی کی حالت میں پیش آیا۔ اس کا یہ لازمی نتیجہ تھا۔ کہ ہماری جماعت کے دلوں میں قدرتی طور پر اس سے خاص جوش اور اس کا خاص احساس پیدا ہوتا۔ اس لئے ہماری جماعت کا جوش اور اس صدمہ کا بڑا بھاری احساس اس وقت ایک طبعی امر ہے جو نہایت قابل قدر ہے۔ اور ایک زندہ جماعت کے افراد کی زندگی کا ثبوت ہے۔ کیونکہ ہر ایک ایسی جماعت جس کے افراد زندہ ہوں ان کا فرض ہے کہ انہیں اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی تکالیف کا احساس ہو۔ پس ہر ایک احمدی اس کا ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔ اور لازماً ہر ایک کے دل میں ایسے خیالات پیدا ہونے چاہیں۔ لیکن یہ واقعات ایسے المناک اور افسوسناک ہیں۔ کہ ہماری جماعت کے افراد تو ایک طرف رہے۔ وہ لوگ جو ہماری جماعت میں شامل نہیں لیکن ہماری جماعت سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ ان کے دلوں پر بھی ان واقعات کا بڑا اثر ہوا ہے۔ پھر وہ لوگ جن کو ہماری جماعت سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ وہ ہمارے دشمن ہیں۔ بلکہ وہ اسلام کے سخت ترین دشمن ہیں۔ ہمارے بھائیوں کی مظلوم حالت نے ان کے دلوں میں بھی حکومت افغانستان کی نسبت جذبات نفرت کی لہر پیدا کر دی ہے۔ حتٰی کہ بعض ان میں سے اپنے جذبات اور احساسات کو اتنی اہمیت دینے لگ گئے ہیں کہ وہ ہمارے جذبات اور احساسات کا صحیح اندازہ نہ کرتے ہوئے اور ہماری قلبی کیفیات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ خیال کرنے لگ گئے ہیں کہ وہ ہم سے بھی زیادہ اس صدمہ کو محسوس کرتے اور ہم سے زیادہ ہمارے مظلوم بھائیوں کے خیرخواہ ہیں۔ چنانچہ ان کے ہمارے پاس خطوط آئے ہیں اور وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم نے اپنے مظلوم بھائیوں کی اعانت اور مدد کے لئے کیا کچھ کیا اور کیا کریں گے۔ چنانچہ ابھی پچھلے دنوں جو میں ایک کام کے لئے اپنے ایک عزیز کو ملنے کے لئے باہر گیا اور لوٹتے ہوئے لاہور ٹھہرا تو وہاں میرے پاس چند آدمی ان لوگوں کی طرف سے جن کو ہماری جماعت کے لوگ پیغامی کہتے ہیں۔ اور وہ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں مجھے ملنے کے لئے آئے۔ (وہ جب تک اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں میں بھی ان کو احمدی ہی کہتا ہوں۔ گو عقائد کے لحاظ سے وہ ہمارے سخت مخالف ہیں۔) ان کی طرف سے میں اس لئے کہتا ہوں کہ ان کی گفتگو سے جو انہوں نے مجھ سے کی۔ میں نے یہ معلوم کیا کہ وہ ان میں ابھی شامل نہیں۔ ہاں ان کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں اور ہمارے ایک بھائی نے جو انہیں ساتھ لے کر آئے برسبیل تذکرہ بیان کیا کہ یہ لوگ کہتے ہیں جو کچھ کابل کے مظلوم احمدیوں کے متعلق مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء نے کیا ہے۔ قادیان والوں نے اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں کیا۔ مجھے یہ بات سن کر خوشی بھی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کا احسان ہے کہ ہمارے ان مظلوم اور بیکس بھائیوں کے ظالمانہ قتل کے خلاف جذبات ان لوگوں کے دلوں میں بھی پیدا ہو گئے ہیں جن سے آج تک سوائے سبّ و شتم کے ہم نے کبھی کچھ نہیں سنا۔ بلکہ ان واقعات کے بعد بھی انہوں نے کئی ایسی باتیں کی ہیں جن کی غرض صرف ہمیں چڑانے اور ہمارا دل دکھانے کے سوا کچھ نہ تھی۔ مگر بہر حال مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ان کے دلوں میں بھی یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ ہمیں اس فعل کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ میں ان کی اس آواز کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں لیکن ساتھ ہی مجھے اس بات پر تعجب اور حیرت بھی ہوئی اور پنجابی کی مثل یاد آگئی جو یہ ہے کہ جو ماں سے زیادہ چاہے پھپھےکٹنی کہلائے۔ بھلا انہوں نے کون سی ایسی عملی کارروائی کی۔ یا انہوں نے کون سی ایسی تجویز کی جس کے ذریعے انہوں نے اپنے وہم میں کابل کے احمدیوں کو آزادی دلائی۔ یا وہ اس کے ذریعے ان کو آزادی دلا بھی سکتے ہیں۔ پھر کون سی عقل اس واہمہ کو ایک منٹ کے لئے صحیح سمجھ سکتی ہے۔ کہ جن کے جسموں کے وہ ٹکڑے تھے اور جن کے خون کا وہ حصہ تھے۔ جن کے ساتھ ان کے دنیا کے جسمانی تعلقات سے بھی زیادہ روحانی تعلقات تھے ان کے دلوں میں تو اپنے بھائیوں کے قتل پر کوئی جذبہ اور جوش پیدا نہ ہو اور دوسرے اپنے اندر زیادہ ہمدردی اور جوش محسوس کریں۔ جب جسمانی تعلقات میں یہ بات نہیں ہوتی کہ جن کا کوئی رشتہ دار مصیبت میں ہو اور وہ خاموش گھروں میں بیٹھے رہیں۔ پس روحانی تعلقات جو جسمانی تعلقات سے کہیں بڑھ چڑھ کر اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جن کا ان مظلوموں کے ساتھ روحانی تعلق ہو وہ تو گھروں میں آرام سے بیٹھے رہیں لیکن دوسروں کے دل ان کے لئے بےقرار اور اضطراب میں ہوں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو فعل حکومت کابل نے کیا ہے۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ اس سے سب انسان کہلانے والوں کی طبیعتوں میں جوش اور جذبات پیدا ہوں۔ کیونکہ وہ فعل جو انسانیت کے خلاف ہوتا ہے اس کے خلاف سب کے دلوں میں جوش پیدا ہوتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ مظلوم کس مذہب اور فرقہ سے تعلق رکھتا ہو۔ مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں۔ جوش کے بھی حدود اور مدارج ہوتے ہیں اور اصلی طور پر جتنا جوش قریب ترین تعلق رکھنے والے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو سکتا ہے اتنا دوسرے لوگوں کے دلوں میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ اور احساسات کی وہ لہر جو قریب ترین تعلق رکھنے والوں کے دلوں میں پیدا ہو سکتی ہے وہ دوسروں کے دلوں میں نہیں ہوسکتی۔ میں عیسائیوں اور ہندوؤں کی اس ہمدردی کی بھی جس کا اظہار انہوں نے اس موقع پر کیا ہے ناشکری نہیں کرتا۔ بلکہ میں اسے قدر اور شکریہ کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ جو شخص انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔ وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے من لم یشکر الناس لم يشكر اللّٰه ۔ (مجمع بحارالانوار جلد ۲ باب السین) پس اس موقع پر جن لوگوں نے ہمارے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے خواہ وہ عیسائی ہوں۔ خواہ ہندو۔ خواہ پارسی۔ خواہ آریہ ۔ کسی مذہب کے ہوں۔ میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کے اس فعل کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے میرا دل اپنے اندر ان کی قدر کا خاص احساس پاتا ہے۔ اور جب کہ میں ان لوگوں کے اس ہمدردانہ فعل کا بھی شکریہ کرتا ہوں تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ جو مذہباً افغان گورنمنٹ کے ساتھ ہیں۔ ان کی اس ہمدردی کو ناقدری کی نگاہ سے دیکھوں جو انہوں نے ہمارے بھائیوں کو نہایت بے رحمی کے ساتھ قتل کئے جانے پر کی ہے۔ یقیناً میں ان غیر احمدی اصحاب کو بھی نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور ان کی ہمدردی کا اپنے اندر گہرا احساس پاتا ہوں اور اس کو ناقدری اور ناشکری کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ پھر جب کہ ان غیر احمدیوں کی ہمدردی جو ہمارے سخت مخالف ہیں۔ لیکن اس وقت خدا کے لئے اور انسانیت کے تقاضا سے وہ ہماری ہمدردی میں کھڑے ہوئے ہیں ان کی ہمدردی میرے دل پر اثر کرتی ہے۔ اور جب کہ وہ لوگ جو مذہب میں بھی ہمارے ساتھ شریک نہیں ۔ بلکہ وہ اسلام کے سخت مخالف ہیں ان کی ہمدردی کا شکر اور امتنان میرے لئے ممکن ہے اور میں ان کی قدر کر سکتا ہوں۔ تو پھر میرے لئے یہ کیونکر ممکن ہے کہ میں ان لوگوں کی جو کہ ہمارے سلسلہ سے متعلق ہیں۔ گو کتنا ہی بُعد رکھتے ہوں ان کی اس ہمدردی اور ان کوششوں کو جنہوں نے لوگوں کے جذبات یا خیالات میں ہیجان پیدا کر دیا ہو۔ شکر اور امتنان کی نظر سے نہ دیکھوں۔ میرے دل میں حاشا و کلا ایک منٹ کے لئے بھی کبھی ان کے متعلق بغض و عناد پیدا نہیں ہوا۔ اور نہ اب ہے۔ بلکہ میں ان کے اس فعل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں بلکہ میرے دل میں ان کا یہ فعل محبت کے جذبات بھی پیدا کرنے والا ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں میں سے نہیں بنایا جو اختلاف کو عداوت کی وجہ بنا لیتے ہیں۔ اور میرے نزدیک جو شخص اختلاف کو عداوت کی وجہ قرار دیتا ہے وہ عقل و دانش کو کھوتا ہے۔ پس خواہ وہ کتنا ہی ہم سے بُعد رکھتے ہوں اور خواہ مجھے ان سے کتنا ہی اختلاف ہو اور خواہ ان کی عداوت ہم سے کس قدر ہی بڑھی ہوئی ہو پھر بھی میں ان کے اس فعل کو جو کہ انہوں نے انسانیت اور شرافت کے تقاضے سے کیا ہے۔ نظر انداز نہیں کرسکتا۔ لیکن میں اس خیال کو بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ انہوں نے کوئی ایسا کام کیا ہے۔ یا وہ کوئی ایسا کام کر سکتے ہیں۔ جو ہم نےاپنے ان مظلوم بھائیوں کے لئے جن کو کابل میں ظالمانہ طور پر نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ نہ کیا ہو۔ مگر قطع نظر اس کے کہ انہوں نے کچھ کیا ہے یا نہیں۔ ہماری جماعت کے بعض لوگوں کے دلوں میں بھی یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ ہم نے اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے کیا کیا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوال ان کے دلوں میں بے شک پیدا ہونا چاہیے تھا۔ یہ کوئی قابل الزام بات نہیں۔ کیونکہ وہ بھی اس محبت اور ہمدردی سے کہتے ہیں جو کہ ان کو اپنے ان مظلوم بھائیوں کے ساتھ ہے۔ نہ اس وجہ سے کہ دوسرے لوگوں نے کوئی ایسا کام کیا ہے۔ جو ہم نے نہیں کیا۔ اور واقعہ میں ہمیں یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ اور لوگوں نے کچھ کیا ہے یا نہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم نے کیا کیا۔ اور لوگ کچھ کریں یا نہ کریں وہ قابل الزام نہیں۔ مگر ہم قابل الزام ہوں گے۔ کیونکہ آدمی ہمارے مارے گئے ہیں۔ وہ لوگ جو احمدی کہلاتے ہیں۔ (پیغامی) یا وہ لوگ جو غیر احمدی ہیں یا عیسائی ہیں۔ یا ہندو ہیں۔ انہوں نے کچھ کیا یا نہ کیا ۔ یا وہ ان مظالم کے متعلق پروٹسٹ کریں یا نہ کریں۔ مگر سوال یہ ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کیا۔ اگر ان میں سے کسی نے کوتاہی کی تو وہ ذمہ دار نہیں۔ مگر ہم نے اگر کچھ کوتاہی کی ہے تو ہم ذمہ دار ہیں۔ بعض نے مجھے خطوط لکھے ہیں کہ ہم نے اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے جو کچھ کیا ہے اس سے زیادہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے تھی۔ اب تک جو کچھ ہوا ہے سب زبانی ہے۔ چنانچہ اسی مضمون کا ایک عزیز نے مجھے خط لکھا ہے۔ گو اس نے اپنا نام خط پر نہیں لکھا۔ لیکن میں اس کے خط کو خوب پہچانتا ہوں۔ اس پر مجھے تعجب ہوا اور میں کوئی وجہ نہیں پاتا کہ اس عزیز نے کیوں اپنا نام نہیں لکھا۔ کیونکہ اس نے کوئی ایسی بات نہیں لکھی جس کے لکھنے پر نام چھپایا جاتا اور جو قابل الزام ہو اور اگر قابل الزام بھی ہوتی تو بھی ایک مومن کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ ایک تحریک کرے مگر اپنے آپ کو چھپائے۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ مَلِکِ النَّاسِ۔ اِلٰہِ النَّاسِ۔ مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ ۬ۙ الۡخَنَّاسِ۔ الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ (الناس) کہ تم کہو میں پناہ مانگتا ہوں ۔ رب الناس ، ملک الناس ، الہ الناس سے خناس کے وسوسے کے شر سے۔ پس اپنے آپ کو چھپا کر کسی قسم کی تحریک کرنا تو شیطان کا کام ہے۔ مومن ایک منٹ کے لئے بھی یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ وہ ایک تحریک کرے۔ اور پھر اپنے آپ کو چھپائے۔ ایک بات پیش کرے اور خود سامنے نہ آئے۔ یہ طریق خناس کا ہے کہ وہ ایک خیال پیدا کرتا ہے مگر آپ سامنے نہیں آتا۔ مومن کو ایسے طریق سے بچنا چاہیے۔ میں اگر صحیح سمجھا ہوں تو وہ ایک نیک اور مخلص نوجوان ہے۔ اس کا نام چھپانا میں ناپسند کرتا ہوں۔ اس عزیز نے بھی یہ لکھا ہے۔ ہم نے کابل کے مظالم کے انسداد کے لئے کچھ نہیں کیا اور جو کیا ہے وہ سب زبانی ہے۔ ہم نے اپنی جگہ ریزرویشن پاس کئے اور یہ ایک شور ہے جو دنیا میں پیدا ہو گیا۔ مگر عملی طور پر ہم نے کیا کیا۔ میرے نزدیک یہ سوال صحیح ہے کہ ہم نے اگر سب کچھ زبانی نہیں کیا تو کون سی حقیقی قربانی یا کوئی ایسا کام کیا ہے جس سے ہم ان مظالم میں جو ہمارے بھائیوں پر کئے گئے اور کئے جا رہے ہیں شریک ہو سکیں۔ یا کم از کم ان مظالم سے ان کو بچا سکیں۔ اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ وہ تجاویز اور وہ کوشش جو ہم نے اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے کی یا کر رہے ہیں۔ اس حد تک کہ قومی مفاد اور سلسلہ کے اغراض کے لئے ان کا بیان کرنا مضر نہ ہو۔ میں بیان کروں اور بتاوٴں کہ کیا کچھ ہم کر سکتے تھے اور کیا کچھ ہم نے کیا۔(باقی آئندہ) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: اللہ کی نعمت سے ہم بھائی بھائی بن گئے ہیں