لوگوں کوبتائیں کہ اللہ کی طرف آؤ ۔ ہمارا تو دنیا کو یہ بتانا مقصد ہے کہ دین کس طرح ملتا ہے اور خدا تعالیٰ کس طرح ملتا ہے اور اس جہان کے بعد اگلا جہان ہے ۔یہ زندگی تو عارضی اسّی ، نوّے یا سو سال کی ہے ۔ مستقل زندگی تو اگلے جہان میں جا کے ملنی ہے مورخہ۲۲؍جون ۲۰۲۵ء بروزاتوار امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس انصار اللہ ناروےکےایک وفدکو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہواجس میں نیشنل مجلسِ عاملہ مجلس انصار الله ناروے کے ممبران کے علاوہ دیگر انصار بھی شامل تھے۔ یہ ملاقات اسلام آباد(ٹِلفورڈ) یو کے میں منعقد ہوئی ۔مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےناروےسے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نے شرکا مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ سب سے پہلے حضورِانور نے صدر صاحب مجلس انصار الله سے مخاطب ہوتے ہوئے وفد کی بابت استفسار فرمایا تو اس پر انہوں نے عرض کیا کہ یہ وفد اراکینِ نیشنل مجلسِ عاملہ و دیگر انصار پر مشتمل ہے۔ ملاقات کا باقاعدہ آغاز دعا سے ہوا۔بعدازاں تمام شاملینِ مجلس کو حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں اپنا تعارف پیش کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔دورانِ ملاقات حضورِانور نے از راہِ شفقت اراکینِ نیشنل مجلسِ عاملہ کو ان کی مفوضہ ذمہ داریوں کے حوالے سے انتہائی بیش قیمت اور پُر معارف راہنمائی بھی عطا فرمائی۔ حضورِانور نے نائب صدر صفِ دوم سے دریافت فرمایا کہ کتنے انصار باقاعدگی سے سائیکلنگ اور دیگر جسمانی و ورزشی سرگرمیوں میں حصّہ لیتے ہیں۔ پھر حضورِانور نے قائد تعلیم القرآن و وقفِ عارضی سےاستفسار فرمایا کہ کتنے انصار وقفِ عارضی کرتے ہیں؟ جس پر انہوں نے عرض کیا کہ وقفِ عارضی کرنے والوںکی تعداد کم ہے۔ یہ سماعت فرما کر حضورِ انور نے شفقت بھرے مگر توجہ دلانے والے انداز میں فرمایا کہ کم کیوں ہے؟ اصل کام تو آپ کا یہی ہے۔ ساری عاملہ اور یہ جو انصار آئے ہوئے ہیں، ان سب کو وقفِ عارضی کروائیں۔ صرف باتیں کرنا کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات بھی ضروری ہیں۔ حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ ہر شریکِ مجلس کم از کم دو ہفتے وقفِ عارضی کے لیے دے۔ حضورِانور نے قائد وقفِ جدید اور بعد ازاں نیشنل سیکرٹری وقفِ جدید سے دریافت فرمایا کہ کیا تحریکات میں انصار کی مالی قربانی جماعت کی کُل مالی قربانی کا تقریباً ایک تہائی حصّہ بنتی ہے؟ جب انہوں نے عرض کیا کہ اس حوالے سے ان کے پاس فی الوقت معیّن اعداد و شمار موجود نہیں ہیں تو حضورانور نے تاکید فرمائی کہ ایسی تفصیلات سے مکمل آگاہی حاصل کرناضروری ہے۔ نیشنل سیکرٹری وصایا سے مخاطب ہوتے ہوئے حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ جماعت کے کُل باقاعدہ چندہ دہندگان میں سے کتنے فیصد افراد نے نظامِ وصیت میں شمولیت اختیار کی ہے اور اپنے عرصۂ خدمت کے دوران انہوں نے کتنے نئے افراد کو اس بابرکت نظام میں شامل ہونے کی ترغیب دی ہے؟ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ بعض درخواستیں اس وقت زیرِ کارروائی ہیں۔جس پر حضورانور نے ارشاد فرمایا کہ یہ امر یقینی بنایا جائے کہ وصیت کی درخواستوں پر ہمیشہ بروقت اور فوری کارروائی کی جائے۔ حضورِانور نےقائد ایثار سے دریافت فرمایا کہ خدمتِ خلق کے تحت کس حد تک امدادی کام سر انجام دیا گیا ہے؟ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ افریقہ میں ایک لاکھ نارویجین کرونرکی مالی امداد فراہم کی گئی ہے۔ تربیت اور تبلیغ کے شعبہ جات سے مخاطب ہوتے ہوئے حضورانور نے توجہ دلائی کہ ان شعبہ جات کو مزید فعّال ہونے کی ضرورت ہے۔ اسی تناظر میں حضورِانور نے قائد تربیت سے دریافت فرمایا کہ ناروے میں نماز سینٹرز یا مساجد کی کتنی تعداد ہے؟ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ ان کی تعداد تین ہے۔جس پر حضورِانور نے فرمایا کہ یہ تو صرف اوسلو (Oslo) شہر کی تعداد ہے۔ قائد تربیت نے وضاحت کی کہ انہوں نے سمجھا کہ سوال صرف اوسلو کے بارے میں تھا۔ اس پر حضورِانور نے یاد دہانی کروائی کہ آپ پورے ناروے کے قائد ہیں نہ کہ صرف اس کے دارالحکومت کے۔ اسی طرح حضورِانور نے اخلاقی اور روحانی تربیت کے ضمن میں نماز کی ادائیگی اور تلاوتِ قرآنِ کریم کی اہمیت کو اُجاگر فرماتے ہوئے توجہ دلائی کہ اگر انصار ہی نمازیں پڑھنی شروع کردیں تو سینٹر اور مسجدیں بھی آباد ہو جائیں ۔ ذرا اچھی طرح توجہ دلائیں۔اور نماز اورقرآنِ شریف ِپڑھنے کی طرف توجہ دلائیں۔ باقی اخلاق آپ ہی بڑھتا جائے گا۔ حضورِ انور نے قائد تبلیغ سے گفتگو کے دوران انہیں تبلیغ کے میدان میں نئے انداز اور مؤثر حکمتِ عملی اپنانے کی ضروت پر زور دیتے ہوئے تبلیغ کی اہمیت کو اُجاگر فرمایا کہ سٹال لگانے سے کچھ نہیں ہوتا، یہ پرانی ٹکسالی باتیں چھوڑیں۔ دیکھیں مزاج کس طرح ہے اور کس طرح ہم تبلیغ بہتر کر سکتے ہیں۔ نیا طریقہ اختیار کریں جس سے تبلیغ کے میدان کھلیں۔ یہ نہیں ہے کہ جو ایک لائحہ عمل میں لکھا ہوا تھا آج سے پچاس سال پہلے کسی بزرگ نے لکھ کے دے دیااسی پر ہم نے چلنا ہے اور لکیر سے آگے ہٹنا نہیں۔ حضورانور نے انصار کو متحرک اور فعاّل کردار ادا کرنے کی تلقین فرماتے ہوئے صفِ دوم کے انصار کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی طرف توجہ دلائی کہ آپ لوگ انصار بیشک ہو گئے ہیں، لیکن عمریں تو زیادہ نہیں، بیشک آپ کے سفید بال ہو جائیں، تو جوانوں کی طرح کام کریں اور صفِ دوم کوشامل کریں۔ دیکھیں نوجوان قسم کے انصار آپ کے پاس موجود ہیں۔ حضورِانور نے تبلیغ کے دائرہ کار کو وسعت دینے اور جدّت پر مبنی عملی لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ ایسا لائحہ عمل بنائیں کہ زیادہ سے زیادہ پیغام پہنچے ، تبلیغ کریں، لٹریچر دیں، لوگوں سے رابطے کریں، سیمینار کریں، لوگوں کو اکٹھے کریں اور مدد کریں ، جماعت والے لوگ آپ سے نمونہ حاصل کریں۔انصار تو تجربہ کار ہیں، تو اپنے تجربے سے لوگوں کو فائدہ پہنچائیں۔ پلان کریں۔ ایسا پلان بنائیں جو نئی قسم کا ہو۔ اب سوئے نہ رہیں۔ بعد ازاں شاملینِ مجلس کو حضور انورسے مختلف نوعیت کے متفرق سوالات پیش پوچھنے نیز ان کے جوابات کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک ناصر نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے عام جاری قانونِ قدرت کے تحت مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو جہاں ان کی محنت کا اجر دیتا ہے، وہاں دنیوی آزمائشوں کا بھی شکار ہوتے ہیں، نیز راہنمائی طلب کی کہ ظاہری طور پر دنیا میں اہلِ ایمان اور کافروں سے اللہ تعالیٰ کے سلوک کے فر ق کو کیسے دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے جو غیر مسلموں کو بھی دکھایا جا سکے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لا سکیں؟ اس پر حضورِانور نے تعلق بالله کے معیار بلند کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنا معیار اس حد تک لے کے جائیں کہ جہاں پتا لگے کہ آپ کا واقعی اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے ۔ یہ کہہ دینا کہ الحمدللہ، بسم اللہ ، بہت اللہ کا فضل ہے، مَیں مسلمان ہوں، تو اس طرح سے صرف کہنا تو کافی نہیں ہوتا۔ پانچ نمازیں فرض ہیں، وہ پانچ نمازیں تو پڑھتے نہیں، جو بنیادی چیز ہے۔ جو سچائی ہے، اس پر تو قائم نہیں رہتے، اکثریت مسلمانوں کا تو یہی حال ہے ۔ حضورِانور نے اللہ تعالیٰ کے اہل ایمان کو دُنیوی اور دینی دونوں طرح کے انعامات سے نوازنے کے حوالے سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ جو نیک لوگ ہیں ، مسلمان جو نیک ہیں ، عبادت بھی کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے بھی ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ دنیا داری کے انعامات سے بھی نوازتا ہے اور ان کا دین بھی ہے۔ اور پرانے زمانے میں جو صحابہ ؓتھے، ان کا یہی تھا کہ دیندار بھی تھے اور کروڑوں کے مالک بھی ان کو اللہ تعالیٰ نے بنایا تھا۔ اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’دست بکار و دل بایار ‘کہ ہاتھ کام کر رہے ہیں اور دل اللہ تعالیٰ کی طرف لگا ہوا ہے۔ حضورِانور نے دین سے دُور مسلمانوں اور محنتی غیرمسلموں کا موازنہ کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ ہمارا کیا ہوتا ہے کہ ہمارا دل بھی پیسے کی طرف لگا ہوتا ہے، دنیا کی طرف لگا ہوتا ہے، تو یہ ساری چیزیں جب ہوں گی تو کس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکی اس کو ملی ہوئی ہے اور بڑا دین دار آدمی ہے ۔اور اس کے مقابلے میں دوسرے لوگ جو لا مذہب بھی ہیں، لیکن بعض نیکی کی باتیں ان میں ہیں، محنت کی عادت ان میں ہے، تو ان کے اجر پھر ان کو اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ حضورِانور نے عملی مثالیں پیش کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ پہلے یہ کہیں کہ جو دیندار لوگ ہیں، ان کی یہ یہ مثالیں ہیں، ان کی مثالیں تلاش کریں ۔اگر آپ خود دیندار ہیں اور اللہ کے فضل ہیں اور دین پر بھی قائم ہیں تو کہیں کہ میرےپر یہ یہ اللہ کے فضل ہوئے کہ دین پر قائم رہتے ہوئے مجھے اللہ تعالیٰ نے دنیا داری سے بھی نوازا۔ حضورِانور نے فرمایا کہ ہاں! ایک دیندار شخص بھی ہے، ایک دنیادار شخص ہے، دونوں کے برابر کے کاروبار ہیں اور وہ جو دیندار ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کر رہا ہے، اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا کر رہا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے کام میں برکت ڈال دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیادار جو ہے گو وہ جتنا مرضی کما لے لیکن دنیاوی آزمائشوں میں پڑا ہوتا ہے۔ حضورِانور نے سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں ہدایت فرمائی کہ پہلی تو بات یہ بتائیں کہ اللہ کی طرف آؤ ۔ ہمارا تو دنیا کو یہ بتانا مقصد ہے کہ دین کس طرح ملتا ہے اور خداتعالیٰ کس طرح ملتا ہے اور اس جہان کے بعد اگلا جہان ہے ۔ یہ زندگی تو عارضی اسّی ، نوّے یا سو سال کی ہے ۔ مستقل زندگی تو اگلے جہان میں جا کے ملنی ہے۔ آپ کوشش کر رہے ہیں کہ ہم دنیا کو دین کے ساتھ کس طرح ملائیں۔ دین علیحدہ ہے، دنیا علیحدہ ہے۔اس کو پہلے اپنے دماغوں سے نکالیں۔پھر اپنے معاشرے میں بتائیں کہ دین کیا چیز ہے۔ آخر میں حضورِانور نے اللہ تعالیٰ کی موجودگی کے شواہد پیش کرنے اور ذاتی اصلاح کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ بہت سارے لوگ تو لا مذہب ہو چکے ہیں ، ان کو بتائیں کہ اللہ تعالیٰ ہے اور یہ یہ اس کے ہونے کے نشانات ہیں اور یہ میرا اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا تجربہ ہے۔ تم اللہ کو مانو تو پھر دیکھو کہ تمہاری دنیا بھی تمہیں ملے گی، دین بھی تمہیں ملے گا۔ اس طرح آپ نے پیغام پہنچانا ہے ، لیکن اس کے لیے پہلے اپنے حالات کو بہتر کرنا ہوگا۔ ایک شریکِ مجلس نے راہنمائی طلب کی کہ جب بچے بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں اور ان کی شادی ہوتی ہے تو عائلی زندگی کے متعلق ان کی کونسلنگ کی جاتی ہے، لیکن اگر والدین بعد میں کبھی انہیں عائلی معاملات میں کچھ نصائح کریں تو بعض بچے اسے اپنی زندگی میں مداخلت سمجھتے ہیں۔ اس پر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مداخلت نہ کیا کریں ۔ کس نے کہا ہے کہ کریں؟ سوال یہ ہے کہ اگر بچوں کی صحیح تربیت ہے، بچوں کو اسلامی تعلیم کا پتا ہے، بچوں کودین کا پتا ہے تو ان کو پتا لگنا چاہیے کہ ان کے کیا حقوق ہیں اور ان کی بیوی بچوں کے کیا حقوق ہیں۔ حضورِانور نے یاد دلایا کہ مَیں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں، مختلف خطبوں میں، تقریروں میں بلکہ جلسے کے دنوں میں مَیں نے مختلف حقوق دو ، تین سال سے بیان کیے ہیں۔ ان میں بیوی کے حقوق، بچوں کے حقوق، خاوند کے حقوق سب بیان کیے ہیں ۔ مزید برآں حضورِانور نے توجہ دلائی کہ ان سے کہو کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ تم ایک احمدی مسلمان ہو، تو تمہاری کونسلنگ تو ہو گئی ، تو چاہیے کہ تعلق رکھنے کے لیے اس پر تم عمل کرو۔ لیکن اس کے بعد اگر وہ دین پر چل رہے ہیں اور ماں باپ کہتے ہیں کہ نہیں! ہمارے مطابق تم چلو، جو ہم کہتے ہیں وہ کرو ۔ بیوی کو تم کہو کہ روز اُٹھ کے اپنی ساس کو سلام کیا کرے یا ساس کے گھر میں آ کے رہے، اپنے گھر میں نہیں رہنا، تو یہ غلط چیزیں ہیں۔ان کے معاملات میں دخل دینا نہیں چاہیے۔ اسی طرح حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ جب بچہ جوان ہو جائے تو اس کے معاملے میں کیوں دخل دیتے ہیں؟ آپ جب خود جوان تھے تو آپ کو بھی پسند نہیں تھا کہ ماں باپ آپ کے معاملے میں دخل دیں۔ بلکہ شادی نہ بھی ہو، ویسے ہی جب ایک انسان جوانی میں قدم رکھتا ہے اور اس معاشرے میں، جو کھلا معاشرہ ہے، یورپ یا مغرب کا، یا so calledترقی یافتہ لوگوں کا ہے، اس میں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم جوان ہو گئے، ہماری عمر اٹھارہ سال ہو گئی تو ہمارے معاملے میں دخل نہ دو، ہم آزاد ہیں جو مرضی کریں ۔ حضورِانور نے بچپن میں دینی تربیت کی بنیاد مضبوط رکھنے اور جوانی میں والدین کو غیر ضروری مداخلت سے گریزکرنے کی اہمیت پر خصوصی تاکید فرمائی کہ بچپن کی تربیت اگر ایسی ہے کہ وہ دین کی باتیں سنیں تو ان کو کونسلنگ کا بھی فائدہ ہوتا ہے۔ ہاں! ورنہ کونسلنگ ایک یاددہانی ہوتی ہے کہ یہ تمہارے حقوق اسلام نے رکھے ہیں، یہ تمہاری بیوی کے حقوق اسلام نے رکھے ہیں، ان پرتم عمل کرنے کی کوشش کرو۔ اور اس کے علاوہ بہت سارے ایسے ہیںجو اِن حقوق سے بڑھ کر حقوق ادا کرنے والے ہیں۔یہ تو نہیں ہے کہ ہمارا پورا ماحول ہی بگڑا ہوا ہے۔ چند ایک بگڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ تو ان کی تربیت بچپن سے صحیح ہو گئی ہوتو وہ نہیں بگڑیں گے اور اگر بچپن سے نہیں ہوئی تو پھر آپ کا جوانی میں جا کے ان کے معاملے میں دخل اندازی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو آپ مزید خراب کر رہے ہیں اور اپنے سے دُور لے کے جا رہے ہیں۔ وہ آپ سے بھی دُور جائیں گے اور دین سے بھی دُور جائیں گے۔ اس لیے ان کے معاملات میں دخل نہ دیں ۔ان کو ان کے حال پر چھوڑیں اور ان کے لیے دعا کریں۔ حضورِانور نے سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کی روشنی میں والدین کو بچوں کے لیے دعا کرنےکی اہمیت اور ذاتی نیک نمونے قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بچوں کے لیے بھی تم دعا کرو۔ تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ بچوں کے لیے دعا کرو اور سب سے بڑا ہتھیار یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیک تربیت کرے ۔اور اپنا نمونہ دکھاؤ۔ اگر آپ کا، میاں بیوی کا ، بچوں کے سامنے نمونہ نیک قائم ہوگا تو بچوں کے ایک مثال سامنے ہوگی۔ اگر نہیں ہوگا، تو وہ کہیں گے کہ اپنے آپ کو سنبھالیں، ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں۔ حضورِانور نے آخر پر اس نصیحت کا اعادہ فرمایا کہ ان کی تربیت کی بجائے، جب جوان ہو گئے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑیں ۔کونسلنگ ہو گئی، اب میاں بیوی کو اپنی زندگی گزارنے دیں۔آپ اپنی زندگی گزاریں اور اپنے نمونے قائم کریں۔بڑے ہو کے بھی اب جو ان کے سامنے آپ اپنی مثال قائم کریں گے تو وہ خود دیکھ لیں گے کہ یہ مثال ہمارے سامنے ہمارے ماں باپ کی ہے تو ہم نے اس طرح زندگی گزارنی ہے۔ حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں اس مجلس کا آخری پیش کیا جانے والا سوال نظام ِوصیت اور مقبرہ ٔموصیان سے متعلق تھا۔ سائل نے عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام رسالہ الوصیت میں فرماتے ہیں کہ واضح ہو کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ ایسے کامل ایمان والے ایک ہی جگہ دفن ہوں تا آئندہ کی نسلیں ایک ہی جگہ انہیں دیکھ کر اپنا ایمان تازہ کریں۔ اسی طرح نشاندہی کی کہ یورپ کے اکثر ممالک میں موصیان کے لیے اپنا قبرستان موجود نہیں ہے ،جس کونسل میں موصی وفات پاتا ہے، عموماً وہیں دفن کیا جاتا ہے۔ نیز اس تناظر میں راہنمائی طلب کی کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشاد کے مطابق جماعت کو ہر ملک میں مقبرۂ موصیان قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اس پر حضورِانور نے ارشاد فرمایا کہ بالکل کوشش کرنی چاہیے اور جہاں جہاں ہو سکتا ہے، کرتے ہیں۔ یو کے میں ہے، جرمنی میں ہے ، کوشش کر رہے ہیں اور جگہوں پر ہے۔ بہت بڑے وسیع ملک ہیں، تو مختلف شہروں میں مقبرہ ٔموصیان ہے اور آپ لوگوں کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ قائم ہو۔ جہاں مجبوری ہے کہ نہیں قائم ہو سکتا، تو وہاں مجبوری ہے ، وہاں آپ کیا کر سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو نیتوں کو جانتا ہے ، اللہ تعالیٰ ان کے جو لواحقین یا دوسرے لوگ ،دوست، احباب دعا کے لیے جائیں گے اور ان کے لیے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے درجات آپ کی دعاؤں سے وہیں بھی بلند کر سکتا ہے۔ لیکن بہرحال کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مقبرۂ موصیان ہر جگہ بن جائے، اور اس میں رسالہ الوصیت سے ہی استنباط نکلتا ہے کہ مقبرۂ موصیان اور جگہوں پر بن سکتے ہیں۔ قارئین کی معلومات کےلیے سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رسالہ الوصیت سے مذکورہ اصل الفاظ بھی درج کیے جاتے ہیں کہ ’’واضح ہو کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ ایسے کامل الایمان ایک ہی جگہ دفن ہوں تا آئندہ کی نسلیں ایک ہی جگہ اُن کو دیکھ کر اپنا ایمان تازہ کریں اور تا اُن کے کارنامے یعنی جو خدا کے لیے اُنہوں نے دینی کام کیے ہمیشہ کے لیے قوم پرظاہر ہوں۔‘‘(رسالہ الوصیت،روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ۳۲۱) ملاقات کے اختتام پر تمام شاملینِ مجلس کو حضورِانور کے ہمراہ گروپ تصویربنوانے اور بطورِ تبرک قلم کا تحفہ وصول کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا اور یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ سینیگال کے Thiès صوبےکے گورنر کی ملاقات