اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے کہ وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (الذاریٰت:۵۷)ترجمہ:اور میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔اِس آیت سےیہ ثابت ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ کا اس کائنات کو تخلیق کرنے کا مقصد اور مدعا صرف اور صرف یہی ہےکہ اس کی تمام خلقت اسے پہچانے، اس کی عبادت کرے اور ہر رنگ میں اس کی اطاعت کرے۔ اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑفرماتے ہیں: ’’اس آیت وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِکی رُو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خداکی پرستش اور خداکی معرفت اور خداکے لئے ہو جانا ہے یہ تو ظاہر ہےکہ انسان کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرےکیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتاہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اورجس نے اسے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قویٰ اس کو عنایت کئے اسی نے اس کی زندگی کا ایک مدعا ٹھہرا رکھاہےخواہ کوئی انسان اس مدّعاکو سمجھے یا نہ سمجھے مگر انسان کی پیدائش کا مدعا بلا شبہ خداکی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا میں فانی ہوجانا ہی ہے۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد۱۰صفحہ۴۱۴) آج کل کی اس رنگین دنیا میں ہم اس قدر کھو چکے ہیں کہ ہم اپنے اصل مقصد حیات کو بھلا بیٹھے ہیں۔ ہمیں لگتاہےکہ ہم اس دنیا میں اچھا نام ،بڑا سا مرتبہ،بڑی گاڑی اور خوبصورت بنگلہ حاصل کرلیں تو ہماری زندگی مکمل ہو جائے گی اور اسی کو حاصل کرنا اپنا مقصد حیات سمجھتے ہیں۔ مگر یہی ہماری سب سے بڑی غلطی ہے۔ یہ چیزیں بیشک ہمارے لیے ضروری ہیں، مگر ضرورت کی حد تک۔ دیکھیں جب تک ایک کشتی پانی کے اوپر چل رہی ہوتی ہے تو وہ بالکل صحیح چلتی ہے لیکن جب پانی کشتی کے اندر آجاتاہے تو کشتی کو ڈبو دیتاہے۔ اسی طرح جب ہمارے اندر دنیوی چیزوں کی محبت حدّ سے زیادہ اتر جائے تو ہماری زندگی تلخ ہو جاتی ہے۔ پس یہی وجہ ہے کہ آجکل کے اس افراتفری کے دور میں لوگ تذبذب اور بے چینی کا شکار رہتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے دُور ہوکر دنیاکی رنگینیوں میں اپنے آپ کو رنگ چکے ہیں ۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’خد اتعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ جو اس اصل غرض کو مد نظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خرید لوں فلاں مکان بنا لوں فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے تو ایسے شخص سے سوائے اس کے خدا تعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلا لے اور کیا سلوک کیا جاوے انسان کے دل میں خدا کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شے ہوجاوے گا اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیھا کاہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پاکر وہ ہلاک جاوے گا ۔‘‘(البدر جلد ۴نمبر ۳ مورخہ ۲۰؍جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ۲) اس موضوع کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ بیا ن کرتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جب میں نے یہ کہا کہ میں نے انسان کو اپنی عبادت اور عبودیت کے لئے پیدا کیا ہے تو میرا یہ مطلب بھی ہے کہ انسان میری صفات کا رنگ اپنی صفات پر چڑھائے اور میری نقل کرےغیر اللہ کی نقل نہ کرے میری نقل میں اپنی بھلائی سمجھے اور پائے۔ میرے غیر کی نقل میں کوئی بھلائی نہ دیکھے اور نہ پائے نہ حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔ اب دیکھو اس نقطہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے دنیا میں کتنا فساد عظیم پیدا ہوگیا ہے اس وقت دنیا میں بعض ایسی قومیں پائی جاتی ہیں جو دنیاوی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں انہوں نے اپنی ساری کوششیں دنیا کے لیے وقف کر دیں ۔خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اس دنیا سے انہیں حصہ دے دیا اور ساتھ ہی یہ تنبیہ کردی کہ اخروی زندگی میں تمہیں کوئی انعام نہیں ملے گا۔‘‘(خطبات ناصر جلد ۲ صفحہ ۵۷۲) پس ان تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ انسان کی پیدائش کا مقصد عبادت الٰہی ہے جو ایک عظیم اور اہم مقصدہے اسی تصور عبادت کی بنیاد پر ایک انسان کو قرب الٰہی میسر ہوتاہے مگر جب انسان اصلی مقصد کو چھوڑ دیتا ہے اور گناہوں میں ڈوب جاتا ہے تو اپنے نیک مقاصدسے دُور ہو جاتاہے ۔ پس مختصراً یہ کہ اگر ہم اس دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی تخلیق کے اصل مقصدکو سمجھنا ہو گا اور اس دنیا کی مادی چیزوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکناہو گا۔تبھی ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور خدا اور اس کے رسولﷺکی رضاکو حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بنائے اور ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق دے آمین۔ (حدیقۃ الکبریٰ۔آئیوری کوسٹ) مزید پڑھیں: جماعت احمدیہ کی وجہ تسمیہ