https://youtu.be/CVQLdEWVjG8 (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍اپریل ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: جنگِ اُحد کے واقعات کے ضمن میں کچھ اَور واقعات پیش ہیں جس سے آنحضرتﷺ کی سیرت کے خوبصورت پہلوؤں کا مزید پتا چلتا ہے۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے قرض کی ادائیگی کی بابت کیا روایت بیان فرمائی ؟ جواب: فرمایا: حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ جب فوت ہوئے تو ان پر قرض تھا۔ مَیں نے نبیﷺ سے مدد طلب کی کہ آپؐ ان کے قرض خواہوں کو سمجھائیں کہ وہ ان کے قرض میں سے کچھ کمی کردیں تو نبیﷺ نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا مگر قرض دینے والوں نے کمی نہیں کی۔ تب نبیﷺ نے مجھے فرمایا کہ جاؤ اور اپنی کھجوروں کی ہر ایک قسم کو الگ الگ رکھو۔ مختلف قسم کی کھجوریں ہیں ان کے الگ الگ ڈھیر لگاتے جاؤ۔ کہتے ہیں عجوہ کھجور کی قسم کو علیحدہ رکھنا اور عِذْق بن زید کھجور کی قسم کو علیحدہ۔ پھر مجھے پیغام بھیجنا۔ چنانچہ مَیں نے ایسا ہی کیا اور رسول اللہﷺ کو کہلا بھیجا۔ آپﷺ تشریف لائے تو آپؐ کھجوروں کے ڈھیر پر یا ان کے درمیان بیٹھ گئے۔ پھر آپؐ نے فرمایا ان لوگوں کو ماپ کر دو۔ چنانچہ مَیں نے ان کو ماپ کر دیا یہاں تک کہ جو اُن کا حق تھا مَیں نے ان کو پورا دے دیا پھر بھی میری کھجوریں بچ گئیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان میں کچھ کمی نہیں ہوئی۔ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺکی شہدائےاحد کے لیے دعا اور پسماندگان کی دلجوئی کی بابت کیا بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا:(حضرت مصلح موعودؓ)فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے اپنی سواری رکوا کر جب بڑھیا کو دیکھا تو بڑھیا سے ان کے بیٹے کی شہادت کا افسوس کیا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ان واقعات پر غور کرو اور دیکھو کہ آپﷺ کو کتنا زیادہ احساس تھا کہ جس کسی کو تکلیف پہنچتی ہے اس کے ساتھ ہمدردی کی جائے۔ اس کے بعد آپؐ نے اس بڑھیا سے فرمایا تم بھی خوش ہو اور دوسری تمام بہنوں کو بھی جن کے رشتہ دارلڑائی میں شہید ہو گئے ہیں یہ خوشخبری سنا دو کہ ہمارے جتنے آدمی آج شہید ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان سب کو جنت میں اکٹھا رکھا ہے اور سب نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا! ہمارے پسماندگان کی خبر گیری رکھیو۔ یہ بتانے کے بعد آپﷺ نے خود بھی دعا کی کہ اے خدا! اُحد کے شہیدوں کے پسماندگان کے لیے اچھے خبرگیر پیدا فرما۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح آپؐ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی اُحد کے شہیدوں کے پسماندگان کی دلجوئی فرمائی اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور باوجود اس کے کہ آپؐ زخمی ہوچکے تھے، آپﷺ کے عزیز ترین رشتہ دار شہید ہو گئے تھے اور آپ کے عزیزترین صحابہ فوت ہو گئے تھے آپؐ برابر قدم بہ قدم مدینہ کے لوگوں کی دلجوئی فرما رہے تھے۔ آپؐ کو اپنی تکلیف کا ذرہ بھی احساس نہ تھا۔ آپؐ کے سوا ایسا کوئی شخص نہیں ہو سکتا جو اتنی تکلیفوں، اتنے دکھوں اور اتنی مصیبت کے وقت دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرے۔ ایسے وقت میں تو لوگ کسی کے ساتھ بات کرنے کےبھی روادار نہیں ہوتے چہ جائیکہ وہ کسی کے ساتھ ہمدردی کی باتیں کریں۔ سوال نمبر۴ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے آنحضرتﷺ کے ایک شہید کی بیوہ کو دعا دینے کی بابت کیا بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ جب آپؐ جنگ ختم ہونے پر مدینہ واپس تشریف لارہے تھے۔ مدینہ کی عورتیں جو آپؐ کی شہادت کی خبر سن کر سخت بے قرار تھیں اب وہ آپؐ کی آمد کی خبر سن کر آپؐ کے استقبال کے لیے مدینہ سے باہر کچھ فاصلہ پر پہنچ گئی تھیں ان میں آپؐ کی ایک سالی (حمنہ) بنت جحش بھی تھیں ان کے تین نہایت قریبی رشتہ دار جنگ میں شہید ہوگئے تھے۔ …’’رسول کریمﷺ نے جب انہیں دیکھا تو فرمایا اپنے مُردے کا افسوس کرو۔(یہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ مَیں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ تمہارا عزیز مارا گیا ہے۔)‘‘ تو ’’حمنہ بنت جحشؓ نے عر ض کیا یار سول اللہﷺ !کس مردے کا افسوس کروں ؟ آپؐ نے فرمایا تمہارا ماموں حمزہؓ شہید ہو گیا ہے۔ یہ سن کر حضرت حَمنہؓ نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن پڑھا اور پھر کہا اللہ تعالیٰ ان کے مدارج بلند کرے وہ کیسی اچھی موت مرے ہیں۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا اچھا اپنے ایک اَور مرنے والے کا افسوس کر لو۔ حَمنہؓ نے عرض کیا یارسول اللہﷺ !کس کا؟ آپؐ نے فرمایا تمہارا بھائی عبداللہ بن جحشؓ بھی شہید ہوگیا ہے۔ حمنہؓ نے پھر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن پڑھا اور کہا الحمد للہ وہ تو بڑی ہی اچھی موت مرے ہیں۔ آپؐ نے پھر فرمایا حمنہؓ! اپنے ایک اَورمردے کا افسوس کرو۔ اس نے پوچھا یار سول اللہﷺ !کس کا؟ آپؐ نے فرمایا تیرا خاوند بھی شہید ہو گیا ہے۔ یہ سن کر حَمنہ ؓکی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور اس نے کہا ہائے افسوس!! یہ دیکھ کر رسول کریمﷺ نے فرمایا دیکھو! عورت کو اپنے خاوند کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جب مَیں نے حمنہؓ کو اس کے ماموں کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے پڑھا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن۔ جب مَیں نے اسے اس کے بھائی کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے پھر بھی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن ہی پڑھا لیکن جب مَیں نے اس کے خاوند کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے ایک آہ بھر کر کہا ہائے افسوس! اور وہ اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکی اور گھبرا گئی۔ پھرآپؐ نے فرمایا: عورت کو ایسے وقت میں اپنے عزیز ترین رشتہ دار اور خونی رشتہ دار بھول جاتے ہیں لیکن اسے محبت کرنے والا خاوند یاد رہتا ہے۔اس کے بعد آپؐ نے حَمنہؓ سے پوچھا۔ تم نے اپنے خاوند کی وفات کی خبر سن کر ہائے افسوس کیوں کہا تھا؟ حمنہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! مجھے اس کے بیٹے یاد آگئے تھے کہ ان کی کون رکھوالی کرے گا؟ آپؐ نے فرمایا:مَیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی تمہارے خاوند سے بہتر خبر گیری کرنے والا کوئی شخص پیدا کر دے۔ چنانچہ اسی دعا کا یہ نتیجہ تھا کہ حَمنہؓ کی شادی حضرت طلحہؓ کے ساتھ ہوئی اور ان کے ہاں محمد بن طلحہؓ پیدا ہوا مگر تاریخوں میں ذکر آتا ہے کہ حضرت طلحہؓ اپنے بیٹے محمد کے ساتھ اتنی محبت اور شفقت نہیں کرتے تھے جتنی کہ حَمنہؓ کے پہلے بچوں کے ساتھ۔ اور لوگ یہ کہتے تھے کہ کسی کے بچوں کو اتنی محبت سے پالنے والا طلحہؓ سے بڑھ کر اَور کوئی نہیں اور یہ رسول کریمﷺ کی دعا کا نتیجہ تھا۔ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت حمزہ ؓکی شہادت اور نوحہ کی ممانعت کی بابت کیا بیان فرمایا ؟ جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے کہ ’’جب آپؐ مدینہ میں داخل ہوئے تو چونکہ زخموں کی وجہ سے آپؐ کو نقاہت زیادہ تھی اس لئے صحابہؓ نے سہارا دے کر آپؐ کو سواری سے اتارا۔ مغرب کی نماز کا وقت تھا۔ آپؐ نے نماز پڑھی اور گھر تشریف لے گئے۔ مدینہ کی ان عورتوں کو جن کے رشتہ دار جنگ میں شہید ہو گئے تھے ان کی خبریں پہنچ چکی تھیں انہوں نے رونا شروع کر دیا۔ آپؐ نے جب عورتوں کے رونے کی آوازیں سنیں تو آپؐ کو مسلمانوں کی تکلیف کا خیال آیا اور آپؐ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا لٰکِنْ حَمْزَةَ فَـلَا بَوَاکِی لَہٗ۔ ہمارے چچا اور رضائی بھائی حمزہ بھی شہید ہوئے ہیں لیکن ان کا ماتم کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ سن کر صحابہ ؓجن کو آپؐ کے جذبات اور احساسات کو پورا کرنے کی اتنی تڑپ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ آپؐ کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا جذبہ اور چھوٹے سے چھوٹا احساس بھی ایسا نہ رہ جائے جو پورا نہ ہو۔ وہ اپنے گھروں کی طرف دوڑے اور اپنی عورتوں سے جا کر کہا بس اب تم اپنے عزیزوں کو رونا بند کر دو اور رسول کریمﷺ کے مکان پر جا کر حمزہؓ کا ماتم کرو۔ اتنے میں رسول کریمﷺ چونکہ تھکے ہوئے تشریف لائے تھے آپؐ آرام فرمانے لگے۔ حضرت بلالؓ نے عشاء کی اذان دی مگر یہ خیال کر کے کہ آپؐ تھکے ہوئے آئے ہیں آپؐ کو نہ جگایا’’ سو گئے تھے۔ ‘‘جب ثلث رات گذر گئی تو انہوں نے آپؐ کو نماز کے لئے جگایا۔ آپؐ جب بیدار ہوئے تو اس وقت عورتیں ابھی تک آپؐ کے مکان پر حضرت حمزہؓ کا نوحہ کر رہی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا یہ کیا ہو رہا ہے؟ عرض کیا گیا یارسول اللہﷺ! مدینہ کی عورتیں حضرت حمزہؓ کی وفات پر رو رہی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ مدینہ کی عورتوں پر رحم کرے انہوں نے میرے ساتھ ہمددری کا اظہار کیا ہے۔ پھر فرمایا: مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ انصار کو مجھ سے بہت زیادہ محبت ہے۔ ساتھ ہی فرمایا: اس طرح نوحہ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ امر ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! ہماری قوم کی یہ عادت ہے اور اگر ہم اس طرح نہ روئیں تو ہمارے جذبات سرد نہیں ہو سکتے۔ آپؐ نے فرمایا مَیں رونے سے منع نہیں کرتا ہاں عورتوں سے کہہ دیا جائے کہ وہ منہ پر تھپڑ نہ ماریں۔ اپنے بال نہ نوچیں۔‘‘ نوحہ کرتی تھیں تو اپنے آپ کو بھی مارتی پیٹتی تھیں۔ اپنے بال نہ نوچیں منہ پر تھپڑ نہ ماریں ’’اور کپڑوں کو نہ پھاڑیں اور اگر یوں رِقّت کے ساتھ رونا آئے‘‘ قدرتی طور پر اگر رقت کے ساتھ رونا آتا ہے ’’تو بے شک روئیں۔‘‘ سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے دنیا کے عمومی حالات کی بابت احباب جماعت کو دعا کی کیا تحریک فرمائی ؟ جواب: فرمایا: دوسری بات جو عموماً مَیں تحریک کرتا رہتا ہوںوہ دعا کے لیے ہے۔ دعائیں جاری رکھیں۔ جیساکہ خیال تھا اور خدشہ تھا۔ ایران پر براہِ راست بھی اسرائیل نے حملہ کر دیا ہے۔ ہر ایک کو پتا ہی ہے۔ اس سے مزید حالات خراب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کے ان لیڈروں کو بھی عقل دے جو عالمی جنگ کو ہوا دینے کی مزید کوشش کررہے ہیں اور مسلم امہ کو بھی سمجھ اور عقل دے اور ان کو توفیق دے کہ وہ ایک بن کر پھر اپنے مقابل کا صحیح طرح مقابلہ کر سکیں اور حکمت اپنا سکیں۔ سوال نمبر۷:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کےآخرپرکن مرحومین کاذکرخیرفرمایا؟ جواب: فرمایا:۱۔ مکرم مولانا غلام احمد صاحب نسیم مربی سلسلہ۔ جامعہ احمدیہ ربوہ میں پروفیسر رہے۔ آجکل امریکہ میں تھے۔ گذشتہ دنوں یہ ترانوے(۹۳)سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن۔ ان کے والد کا نام صلاح محمد صاحب تھا جنہوں نے کسوف و خسوف کا نشان دیکھ کر مہدی کی تلاش شروع کی۔ سورج چاند گرہن کا نشان دیکھا تو اس وقت انہوں نے مہدی کی تلاش شروع کی اور اس میں کئی سال گزر گئے اور پھر ۱۹۰۱ء میں بیعت کی ان کو سعادت ملی۔ …[سورینام کے ایک]کلچرل سینٹر میں اسلام اور عصر حاضر کے مسائل پر لیکچر دیا۔ افراد جماعت کو مرکز سے باقاعدہ رابطہ رکھنے کی تلقین کی۔ یوں آپ کی مساعی سے ایک بکھری ہوئی جماعت دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی ہو گئی اور اللہ کے فضل سے بعد میں جانے والے مبلغین نے بھی اس کو مزید مضبوط کیا اور اب یہ مضبوط جماعت ہے۔ ۲۔ مکرم ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب سابق امیر جماعت امریکہ۔ گذشتہ دنوں ان کی اکاسی (۸۱) سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ایک لمبا عرصہ بطور مقامی صدر، نائب امیر جماعت امریکہ اور ۲۰۰۲ء سے ۲۰۱۶ء تک انہوں نے بطور امیر جماعت امریکہ خدمت کی توفیق پائی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی2024ء کے موقع پر مستورات کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز خطاب