(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم ستمبر ۲۰۱۷ء) ایک عربی النسل مسلمان دوست Khalid Myaz صاحب جو ریڈ کراس تنظیم کے ساتھ کام کرتے ہیں وہ اس سال جرمنی جلسہ میں شامل ہوئے۔ وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں جب اپنے غیر مسلم دوستوں کو اسلام پر اعتراض کرتے ہوئے سنتا تھا تو مسلمانوں کی باہمی منافرت اور جھگڑوں کی وجہ سے میں اسلام کا دفاع نہیں کر پاتا تھا۔ آج اس جلسہ میں آپ کی جماعت کے اجتماعی اور انفرادی امن و محبت اور باہمی یگانگت کو دیکھ کر اور آپ کے افراد میں خلیفہ کے لئے محبت اور اطاعت کا مشاہدہ کر کے میرا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے کہ میں نے ایک ایسی جماعت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے جس کے افراد پُر امن ہیں، جن کا اجتماع منظم ہے۔کہتے ہیں کہ اب میں اپنے غیر مسلم دوستوں کوآپ کی مثال بڑے اعتماد سے پیش کر کے ان کے اسلام پر اعتراضات کا دفاع کرسکتا ہوں۔ پھر ایک جرمن دوست Michael Fischer صاحب جلسہ میں شامل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ میں اس جلسہ میں شامل ہونے سے پہلے اخبار میں پڑھتا رہتا تھا کہ احمدی امن پسند لوگ ہیں لیکن میرے دل میں آتا تھا کہ امن کا دعویٰ تو اَور بھی بہت لوگ کرتے ہیں۔ اب یہاں آ کر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ امن کے دعوے اور عملی مطابقت کی گواہی صرف اس جلسہ میں ہی مل سکتی ہے جہاں لوگ پیار اور محبت سے خود بھی وقت گزار رہے ہیں اور آنے والے دیگر لوگوں کو بھی خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ اتنا بڑا اجتماع اور اتنا پُر امن ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ورنہ تو کہیں پانچ سو آدمی بھی اکٹھے ہوں تو لڑائی ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ میں جلسہ میں شامل ہو کر اور آپ کے اس پرامن ماحول کو دیکھ کر آپ کے امن کے دعویٰ کی تصدیق کرتا ہوں۔ پھر ایک جرمن خاتون Maraczogalla ہیں۔ جماعت کے ساتھ ان کا مستقل رابطہ ہے۔ جلسہ کے دوران انہوں نے بیعت کا پروگرام بھی دیکھا۔ وہ کہتی ہیں میرے سوال تو تقریباً سارے ایک ایک کر کے سارے حل ہو گئے ہیں۔ اب مجھے لگتا ہے کہ میں اب زیادہ دیر مہمان بن کر نہیں آؤں گی بلکہ اب میری خواہش ہے کہ میں خود بھی بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو جاؤں۔ پھر ایک خاتون Maria Josey ہیں۔ ان کا اصل تعلق جنوبی امریکہ سے ہے اور برلن میں طالب علم ہیں۔ پڑھنے کے لئے یہاں آئی ہوئی ہیں، وہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میرا اس سے پہلے اسلام یا احمدیت سے کوئی تعارف نہیں تھا۔ پیراگوئے کے مربی سلسلہ کی بیگم کے ذریعہ مجھے جماعت کے بارے میں علم ہوا اور مجھے پتا لگا کہ جرمنی میں جماعت احمدیہ کا جلسہ ہوتا ہے۔ چنانچہ میں جلسہ میں شرکت کے لئے آگئی۔ یہاں آ کر میں بہت حیران ہوئی کہ اتنی قوموں، نسلوں اور رنگوں کے لوگ ایسی یگانگت کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ہر طرف امن اور سکون کی فضا ہے۔ سب لوگ مطمئن ہیں۔ کسی کو بھی کوئی خوف نہیں۔ میرے لئے ایسے پُرامن اجتماع میں شرکت ایک نیا تجربہ ہے اور میری خواہش ہے کہ میں برلن واپس جا کر جماعت احمدیہ کی مسجد سے رابطہ کروں اور اس جماعت کے ساتھ مزید تعلق مضبوط کروں۔ مجھے آپ لوگوں میں شامل ہو کر ایک دلی اطمینان ملا۔ پھر میسی ڈونیا کی ایک سوشل ویلفیئر کی تنظیم میں کام کرنے والی تین خواتین وہاں آئی ہوئی تھیں۔ ایک کہتی ہیں کہ وہاں میسی ڈونیا میں ہمارے ارد گرد بہت سے مسلمان رہتے ہیں مگر اسلام کی یہ قسم اور اس کا ایسا معاشرتی مظاہرہ ہمارے لئے بالکل غیر متوقع ثابت ہوا۔ ہم نے آپ کے افراد اور آپ کی تعلیمات اور آپ کی لیڈر شپ کو دیکھا ہے اور ہم اس احساس کے ساتھ واپس جائیں گی کہ وہاں کے مسلمانوں کو آپ کی جماعت کا تعارف کروا سکیں۔ کہتی ہیں کہ یہ جماعت اور اس کے جلسے دیگر مسلمانوں کے لئے نمونہ ہیں اور ایسی پرامن تعلیم اور ایسی منظم جماعت اس قابل ہے کہ بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی نمائندگی کرے۔ کہتی ہیں اس دفعہ تو ہم کسی کی دعوت پر یہاں آئے ہیں مگر ہمیں امید ہے کہ آئندہ ہم مہمانوں کو ساتھ لے کر آئیں گی اور میسی ڈونیا جا کر ہم خود وہاں کے مسلمانوں کو آپ کی جماعت کا تعارف کرائیں گی۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ تبلیغ کے راستے کھولتا ہے۔ لیٹویاسے ایک عیسائی دوست Mykolas صاحب آئے ہوئے تھے۔ طالبعلم ہیں اور مذاہب پر تحقیق میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں مذہب میں گہری دلچسپی رکھتا ہوں اور اسی وجہ سے آپ کی جماعت کی تعلیمات کو میں نے پڑھا اور اب اس کا عملی اظہار دیکھ رہا ہوں۔ مجھے آپ کی تعلیمات اور آپ لوگوں کا طرز عمل مثبت اور پُرکشش لگتا ہے۔ میں نے جلسہ میں شامل ہونے والے لوگوں میں ایک روحانی لگن محسوس کی ہے۔ جلسہ میں شامل ہونے والے احمدیوں کا اب ہمیشہ یہ کام ہے کہ یہ لوگ جو روحانی لگن محسوس کرتے ہیں یہ ہم میں جلسہ کے دنوں کی لگن نہ ہو، عارضی نہ ہو بلکہ مستقل رہنے والی لگن ہو۔ لیٹویا سے ایک جرنلسٹ خاتون Augustine صاحبہ نے اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ میں گزشتہ چھ ماہ سے اسلام کے مختلف فرقوں پر ایک پراجیکٹ پر کام کر رہی ہوں۔ اس سلسلہ میں میں استنبول بھی گئی اور وہاں مختلف اسلامی فرقوں سے ملی ہوں لیکن یہاں امام جماعت احمدیہ کو دیکھ کر میرے دل کی جو کیفیت ہوئی اس کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میں نے ان سے ملاقات کے دوران پوچھا (انہوں نے مجھ سے سوال کیا تھا) کہ اس وقت مُلّائیت اور انتہا پسندی کا کیا علاج ہے؟ تو انہوں نے یہ کہہ کر دو لفظوں میں ہی اس مشکل سوال کا مکمل جواب دے دیا کہ مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ صحیح تعلیم و تربیت اور اسلام کی صحیح تعلیم دی جائے۔ کہتی ہیں کہ واقعی ان مسائل کا حل صحیح تعلیم ہی ہے اور اس زمانے میں ہمیں اس صحیح تعلیم کا اِدراک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق نے دیا ہے اور ہمیں یہ تعلیم بتائی ہے۔ پس ہر احمدی کو غیروں کے اس تأثر پر صرف فخر ہی نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیں ہر وقت اپنی عملی حالتوں کی بہتری کے لئے کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ لیٹویا سے قرطبہ یونیورسٹی کی پروفیسر لولی ڈیاس (Lolly Diaz) صاحبہ نے جلسہ میں شامل ہو کر اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ میں زندگی میں پہلی بار مسلمانوں کے اتنے بڑے جلسہ میں شامل ہوئی ہوں۔ میں نے امام جماعت احمدیہ کو پہلی مرتبہ جب قریب سے دیکھا تو میرے لئے ایک عجیب تجربہ تھا۔ اس کی کیفیت مجھے زندگی بھر یاد رہے گی۔ میرے جذبات اور میرے الفاظ میرے جذبات کا ساتھ نہیں دیتے۔ میرا یقین ہے کہ جماعت اور اس جماعت کے خلیفہ دیگر مسلمانوں سے بالکل مختلف ہیں اور میں اس فرق کو اپنی روح میں محسوس کرتی ہوں۔ ہر احمدی نے ان پر ایک اثر ڈالا جو وہاں شامل ہوا۔ اس سال بوسنیا سے چھیالیس افراد کا وفد جلسہ میں شامل ہوا۔ ان میں اٹھارہ احمدی تھے اور باقی تقریباً اٹھائیس زیر تبلیغ تھے۔ ایک مہمان یاسمین صاحبہ جو ایک این جی او(NGO) کی صدر بھی ہیں ان کا کچھ عرصہ پہلے جماعت سے تعارف ہوا اور جلسہ میں شامل ہوئیں۔ اپنی کار میں یہ خود ہی بارہ سو کلومیٹر سفر طے کر کے آئیں۔ کہتی ہیں کہ جلسہ کے اتنے بڑے انتظام کو دیکھ کر مجھے حیرانی ہوئی کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ جلسہ کے تمام انتظامات میں مجھے کہیں بھی نقص نظر نہیں آیا۔ پس یہ کارکنوں کی خدمت کا اثر ہے جو غیروں کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتا۔ پھر ایک مہمان نجاد صاحب بوسنیا کی رومَن کمیونٹی کے ایک معروف مشہور سیاستدان ہیں۔ دانشور کے طور پر جانے جاتے ہیں اور شہر ٹوزلا (Tuzla) کے کونسلر بھی ہیں۔ کہتے ہیں جلسہ کے تمام انتظامات بہت ہی احسن رنگ میں سرانجام دئیے گئے۔ میں نے اس سے قبل کبھی اس قسم کے پروگرام میں شرکت نہیں کی تھی۔ یہ جلسہ میرے لئے مختلف جہت سے سبق آموز تھا۔ کارکنان کا اخلاص دیکھ کر میں یہی سمجھا کہ یہ لوگ ایمان میں بہت مضبوط ہیں اور ان کے قول اور عمل میں مطابقت ہی ان کی ترقی کا راز ہے اور ان لوگوں میں اس حالت کو پیدا کرنے کی وجہ ان کی خلافت سے وابستگی ہے۔ مزید پڑھیں: حضرت خَبَّابْ بن اَرَتْ رضی اللہ تعالیٰ عنہ