اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ مَیں نے کہا دنیا کی مال و دولت اور دنیا کمانے سے منع نہیں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں پیدا کی ہیں یقیناً مومنوں کے لئے جائز ہیں بشرطیکہ جائز ذریعہ سے حاصل کی جائیں اور وہ دین کے راستے میں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنے کے راستے میں روک نہ بنیں۔ عبادتوں میں روک نہ بنیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمّت سے متعلق اس بات کی فکر تھی کہ جو پاک انقلاب آپؐ نے صحابہؓ میں پیدا کیا اور انہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی روح کو جس طرح سمجھا وہ آئندہ آنے والے مسلمانوں میں مفقودنہ ہوجائے، ختم نہ ہو جائے۔ چنانچہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں اپنی امّت کے بارے میں جس بات کا سب سے زیادہ اندیشہ کرتا ہوں (مجھے خطرہ ہے، خوف ہے یا فکر ہے۔ خوف تو نہیں فکر ہے) وہ یہ ہے کہ میری امّت خواہشات کی پیروی کرنے لگ جائے گی اور دنیاوی توقعات کے لمبے چوڑے منصوبے بنانے میں لگ جائے گی اور ان خواہشات کی پیروی کے نتیجہ میں وہ حق سے دُور چلی جائے گی۔ دنیا کمانے کے منصوبے آخرت سے غافل کر دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! یہ دنیا رختِ سفر باندھ چکی ہے اور آخرت بھی آنے کے لئے تیاری پکڑ چکی ہے۔ دونوں طرف سے سفر شروع ہے۔ دنیا اپنے انجام کی طرف جا رہی ہے۔ آخر قیامت آنی ہے اور آخرت میں بھی حساب کتاب ہونا ہے وہاں بھی تیاری شروع ہے۔ اور فرمایا کہ اور ان دونوں میں سے ہر ایک کے کچھ غلام اور بندے ہیں۔ دنیا کے بھی کچھ غلام ہیں۔ کچھ آخرت کی فکر کرنے والے بھی ہیں۔ فرمایا پس اگر تم میں استطاعت ہو کہ دنیا کے بندے نہ بنو تو ضرور ایسا کرو۔ تم اس وقت عمل کے گھر میں ہو اور ابھی حساب کا وقت نہیں آیا۔ مگر کل تم آخرت کے گھر میں ہو گے اور وہاں کوئی عمل نہیں ہو گا۔ (بحار الانوار از الشیخ محمد باقر مجلسی الجزء التاسع والستون کتاب الایمان والکفر حدیث 63 صفحہ 263-264 مطبوعہ الامیرۃ بیروت 2008ء) جو عمل ہونے ہیں جن کا نتیجہ ملنا ہے وہ اسی دنیا میں ملنا ہے۔ اس لئے اپنے اعمال ٹھیک کرو۔ پس یہ دنیا عمل کا گھر ہے اس دنیا کے اعمال اگلے جہان میں جزا یا سزا کا ذریعہ بنیں گے۔ پس کیا ہی خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اللہ تعالیٰ کی اس بات کو یاد رکھیں کہ یہ دنیا محض لہو و لعب ہے اور زینت کے اظہار اور ایک دوسرے پر اپنے مال اور اولاد کی وجہ سے فخر کرنا ہے۔ اور اس کی حیثیت کیا ہے؟ کسی سوکھے ہوئے گھاس پھوس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں۔ جو خشک ہوتا ہے اور چُورا چُورا ہو جاتا ہے اور ہوائیں اس کو اڑا کر لے جاتی ہیں۔ اصل چیز اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے اور یہی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے کہ نیک عمل کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنو۔ (خطبہ جمعہ ۵؍مئی ۲۰۱۷ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍مئی۲۰۱۷ء) مزید پڑھیں: ساحر خدا کے ایک نبی کے مقابلے پر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا