میرا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کے اشغال چھوڑ دو۔خدا تعالیٰ نے دنیا کے شغلوں کو جائز رکھا ہے کیونکہ اس راہ سے بھی ابتلا آتا ہے اور اسی ابتلا کی وجہ سے انسان چور، قمار باز، ٹھگ، ڈکیت بن جاتا ہے اور کیا کیا بُری عادتیں اختیار کرلیتا ہے مگر ہر ایک چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔دنیوی شغلوں کو اس حد تک اختیار کرو کہ وہ دین کی راہ میں تمہارے لیے مدد کا سامان پیدا کرسکیں اور مقصود بالذّات اس میں دین ہی ہو۔پس ہم دنیوی شغلوں سے بھی منع نہیں کرتے اور یہ بھی نہیں کہتے کہ دن رات دنیا ہی کے دھندوں اور بکھیڑوں میں منہمک ہوکر خدا تعالیٰ کا خانہ بھی دنیا ہی سے بھر دو۔اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ محرومی کے اسباب بہم پہنچاتا ہے اور اس کی زبان پر نرا دعویٰ ہی رہ جاتا ہے۔الغرض زندوں کی صحبت میں رہو تاکہ زندہ خدا کا جلوہ تم کو نظر آوے۔ (ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۴۷۹، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) کوئی یہ نہ سمجھ لیوے کہ انسان دنیا سے کچھ غرض اور واسطہ ہی نہ رکھے۔میرا یہ مطلب نہیں ہے اور نہ اللہ تعالیٰ دنیا کے حصول سے منع کرتا ہے بلکہ اسلام نے رہبانیت کو منع فرمایا ہے۔یہ بزدلوں کا کام ہے۔مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں کیونکہ اُس کا نصب العین دین ہوتا ہے اور دنیا اُس کا مال و جاہ دین کا خادم ہوتا ہے۔پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا مقصود بالذّات نہ ہو۔بلکہ حصولِ دنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جاوے کہ وہ دین کی خادم ہو۔جیسے انسان کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کے لئے سواری یا اور زادِ راہ کو ساتھ لیتا ہے تو اس کی اصل غرض منزلِ مقصود پر پہنچنا ہوتا ہے نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات۔اسی طرح پر انسان دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ: ۲۰۲) اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے لیکن کس دنیا کو؟ حسنۃ الدّنیا کو جو آخرت میں حسنات کی موجب ہوجاوے۔اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حسنات الآخرۃ کا خیال رکھنا چاہیے اور ساتھ ہی حسنۃ الدّنیا کے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آگیا ہے جو ایک مومن مسلمان کو حصول دنیا کے لئے اختیار کرنے چاہئیں۔دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو۔نہ وہ طریق کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسانی کا موجب ہو۔نہ ہم جنسوں میں کسی عاروشرم کا باعث۔ایسی دنیا بے شک حسنۃ الاٰخرۃ کا موجب ہوگی۔ (ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۴۹۴، ۴۹۵، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: رسولوں اور نبیوں کی یہ شان نہیں ہوتی کہ ان پر جادو کا کچھ اثر ہو سکے