جب اُمّتِ محمدیہ کے دلوں سے نورِ ایمان دھندلانے لگا تب رحمتِ باری نے ایک عاشقِ صادق، ایک روحانی مسیح کو مبعوث فرمایا جس کا دل سراپا آستانۂ محمد ﷺ پر فدا تھا جس کی بعثت کا اصل محورعشقِ مصطفوی ﷺ تھا جو سانس کی ہر جنبش میں محمد ﷺ کی خوشبو بکھیرتا تھا۔ بلاشبہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا وجود اس قرآنی آیت کی ایک زندہ تفسیر تھا۔قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ ( اٰل عمران :۳۲)تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رسولِ خدا ﷺسے بےپناہ محبت کااظہارآپؑ کی تحریرات کےہرہرلفظ سےہوتاہے۔ یہ زبانی دعویٰ نہیں تھابلکہ انہوں نے اپنی ہر سانس کو اس محبت کے رنگ میں رنگ دیا تھا۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا ہر لمحہ ایک طواف تھا جو عشقِ محمدی کے گرد گھومتا تھا جس کا اظہار اس شعر سے ہوتا ہے۔ ؎ اُس نُور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوںوہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے( درثمین صفحہ ۹۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا کے بعد اگر کسی وجود سے عشق تھا تو صرف حضرت محمد ﷺ کی ذات سے تھا۔ آپ ﷺ کی تحریرات ایسی روحانی مشعلیں ہیں جِن سے عشقِ رسول کی گرمی، چمک اور تابانی پھوٹتی ہے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:”ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں۔ یعنی وہی نبیوں کا سردار۔ رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفےٰ و احمد مجتبیٰ ﷺ ہے۔‘‘( سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۸۰)پنڈت لیکھرام کی اسلام دُشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی سفر میں ایک اسٹیشن پر گاڑی کا انتظار کر رہے تھے۔ پنڈت صاحب کا اُدھر سے گزر ہوا اور ہندوانہ انداز میں سلام کیا۔ آپؑ نماز کی تیاری میں مصروف تھے آپؑ نے سلام کا جواب نہ دیا تو کسی نے یہ خیال کرکے کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سُنا نہیں حضور علیہ السلام سے عرض کیا پنڈت لیکھرام آپؑ کو سلام کرنے آئے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی غیرت کے ساتھ فرمایا۔ ” ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے “ ( سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ ۲۵۴، مصنف عرفانی صاحب)حضرت مرزا بشیراحمدؓ اپنی کتاب سیرتِ طیبہ میں رقمطراز ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری زندگی کے مشاہدہ کا نچوڑ اس کے سِوا کچھ نہیں تھا کہ ” آنحضرت ﷺ کے ساتھ والد صاحب کو عشق تھا ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا “ ( سیرت طیبہ،صفحہ ۲۹)یہ اسی عشق کا نتیجہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہر وہ منظوم کلام جو آپؑ نے آنحضرت ﷺ کی شان میں رقم فرمایا ایسے شہد کے چھتے کا رنگ اختیار کر گیا تھا جس میں سے شہد کی کثرت کی وجہ سے عسلِ مصفّی ٰکے قطرے گرنے شروع ہو جاتے تھے۔ ایک نظم میں آپؑ فرماتے ہیں: ؎ تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمدؐتیری خاطر سے یہ سب بار اُٹھایا ہم نےتیری الفت سے ہے معمور مرا ہر ذرّہاپنے سینہ میں یہ اِک شہر بسایا ہم نے( درثمین صفحہ ۱۹) اِن اشعار میں جس محبت، عشق اور تڑپ کا جذبہ جھلک رہا ہے وہ کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’ آئینہ کمالاتِ اسلام ‘‘ میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی مدح میں ایک عربی قصیدہ بھی تحریر فرمایا۔ اِس کا ایک ایک مصرعہ آقائے دوجہاںﷺ کے لیے غلامِ صادق علیہ السلام کی لافانی محبت و کشش کا آئینہ دار ہے۔حضرت خلیفۃ المسيح الخامس ايدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸ ؍ دسمبر ۲۰۱۵ ء میں فرماتے ہیں:” تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰﷺ، سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اِس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اِس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ “( کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۳، الفضل انٹرنیشنل۸/ جنوری ۲۰۱۶ء)اللہ کرے کہ ہم بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع میں نبی کریمؐ سےسچیّ محبت کرنےوالےہوں۔اورآپؐ کےاسوۂ حسنہ پرعمل کرتےہوئےاپنی زندگیوں کوکامیاب بنانےوالےہوں۔آمین مزید پڑھیں:حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عشقِ رسولﷺ