سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۴/ اپریل ۱۹۴۴ء کے خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’مجھ پر ایک الہام نازل ہوا جس نے میرے ہوش اڑا دیئے۔ وہ الہام یہ تھا جو خود ایک مصرعہ کی شکل میں ہے کہ روز جزا قریب ہے، اور رہ بعید ہے‘‘بڑے زور سے یہ الہام مجھ پر نازل ہوا۔اور بار بار اس کو دہرایا گیا۔اس الہام کے ا ور معنی بھی ہو سکتے ہیں مگرمَیں نے اس وقت جو اس الہام کے معنے سمجھے وہ یہ ہیں کہ وہ تغیرات عظیمہ جن کا پیشگوئیوں میں ذکر کیا گیا تھا اوروہ اسلام اوراحمدیت کے غلبہ کے ایام جن کی اللہ تعالی ٰکی طرف سے خبر دی گئی تھی بالکل قریب آپہنچے ہیں۔ روزِ جزا اب سر پر کھڑا ہے۔ قدرت کا زبردست ہاتھ اس دن کو اب قریب تر لا رہا ہے مگر رہ بعید ہے۔ جماعت نے اس آنے والےدن کے لئے ابھی وہ تیاری نہیں کی جو اسے کرنی چاہیئے تھی اور ابھی اس نے وہ مقام حاصل نہیں کیا جو اس عظیم الشان يوم جزا کے انعامات کا اسے مستحق بنانے والا ہو۔ اس کے لئے ابھی بہت بڑا اورلمبا راستہ پڑا ہے جسے اسے طے کرنا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’روز جزا قریب ہے۔‘‘یعنی وہ جو ہمارا کام تھا ہم نے اسے پورا کردیا اور ہم نے اس دن کو تمہارے سامنے لا کر رکھ دیا۔ جو تمہاری کامیابی… کا دن ہے گویا اللہ تعالیٰ اس الہام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو مخاطب کرتا اور اسے فرما تا ہے کہ اے احمدی جماعت! جو ہمارا حصہ تھا ہم نے اسے پورا کردیا جتنے سامان یوم جزا کو قریب تر لانے کے لئے ضروری تھے وہ ہم نے سب مہیا کر دیئے اور اسلام اوراحمدیت کی فتح کے سامان ہم نے جمع کر لئے پس اب قریب ترین زمانہ میں اس فتح کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جائیں گے… مگر ’’رہ بعید ہے‘‘ وہ راستہ جو ا بھی تم نےطے کرنا ہے اور جس پر چل کر تم نے اس روزِ جزا سے فائدہ اٹھانا ہے وہ ابھی بہت بعید ہے تم میں سے کئی ہیں جنہوں نے ابھی اس راستہ پر چلنا بھی شروع نہیں کیا اور کئی ایسے ہیں جو اس راستہ پر چل تو پڑے ہیں مگر انھوں نے سفر ابھی بہت کم طے کیا ہے…مجھے جب یہ الہام ہوا تو میں نے اس وقت سوچا کہ گو میں جماعت کو جلدی جلدی آگے کی طرف اپنا قدم بڑھانے کی تحریکات کررہا ہوں جس پر بعض لوگ ابھی سے گھبرا اٹھے ہیں کہ کتنی جلدی جلدی نئی سے نئی تحریکیں کی جاری ہیں… مگر اللہ تعالی ٰاس کو بھی نا کا فی قرار دیتا ہے اور فرما تا ہے تمہاریرہ بعید ہے یعنی ابھی تم نے کچھ بھی نہیں کیا سفر ابھی بہت باقی ہے اور تمہارا قدم خطرناک طور پر سست ہے… اس الہام کا ایک یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرما تا ہے۔ ہر شخص جو تم میں سے اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے کوشش کر رہا ہے۔ اس کی یہ کوشش اتنی تھوڑی اور اس قدر کم ہے کہ اس کی اس کوشش اور جدوجہد کے مقابلہ میں اس کی زندگی کے جس قدر ایّام ہیں ان میں ان کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا گویا تم میں سے ہر شخص جو کوشش آج اسلام اوراحمدیت کے غلبہ کے لئے کررہا ہے اگر مرتے دم تک وہ اسی رنگ میں کوشش اور جدوجہد کرتا رہے اور اپنا قدم تیز تر نہ کرے تو یہ کوششیں اس قدر کم ہیں کہ تمہارا یہ خیال کرنا کہ ان کی کوششوں کے نتیجہ میں تم اسلام کا غلبہ اپنی آنکھوں سےدیکھ سکو گے یہ نا ممکن ہے اگر تمہاری کوشش اور جدوجہد کی یہ رفتار رہی تو تم اپنی زندگی میں یوم جزا کو نہیں دیکھ سکو گےیہ معنی اگر لئے جائیں تو یہ بھی کوئی خوش کن معنے نہیں۔ مگر جو معنے اس وقت میں نے سمجھے تھےوہ یہی تھے۔کہروز جزا قریب ہےکا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم سے اسلام اوراحمدیت کےغلبہ کےمتعلق جو وعدے فرمائے ہیں ان کے پورا ہونے کا وقت آ گیا۔ آسمان پرفرشتوں کی فوجیں اس دن کو لانے کے لئے تیار کھڑی ہیں مگرجو کوشش تم کر رہے ہو وہ بہت ہی حقیر اور بہت ادنیٰ اور معمولی ہے۔ جب ہم نے اپنے فضل کا دروازہ کھول دیا، جب آسمان سے فرشتوں کی فوجیں زمین میں تغیر پیدا کرنے کے لئے نازل ہوگئیں، جب کفر کی بربادی کا وقت آپہنچا، جب اسلام کے غلبہ کی گھڑی قریب آگئی۔ تو اس وقت تم اگر پوری طرح تیار نہیں ہوگے۔ تم نے اپنے اندر کامل تغیر پیدا نہیں کیا ہو گا۔ تم نے اپنی اصلاح کی طرف پوری توجہ نہیں کی ہوگی،تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اس دن سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جاؤ گےاوراسلام کی دائمی ترقی میں روک بن جاؤگے۔کیا تم نہیں دیکھتے کہ جس پانی کو سنبھالا نہ جائےوہ بجائے فائدہ پہنچانے کے لوگوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ جس دودھ کو محفوظ نہ رکھا جائے وہ پھٹ جا تا ہے۔ وہ پانی فائدہ پہنچا تا ہے جس کو سنبھالا جائے اور وہی دودھ انسان کو طاقت بخشتا ہے جس کو پھٹنے سے محفوظ رکھا جائے۔پھٹا ہوا دُودھ کسی کام آسکتا ہے؟… اسی طرح اگر ہم نے اس دُودھ کو محفوظ نہ رکھا جو خدا نے ہمارے لئے نازل کیا ہے۔ اگر ہم نے اس کھانے کی حفاظت نہ کی جو خدا نے ہمیں دیا ہے۔ اگر ہم نے اس پانی کو نہ سنبھالا جو خدا نے آسمان سے ا تارا ہے تو یہ پانی اور یہ دودھ اور یہ کھانا ہمارے لیے ایک طعنہ کا موجب بن جائے گا کیونکہ ہمیں چیز تو ملی مگر ہم نے اُس کی قدر نہ کی۔پس میں آج پھر خدا تعالیٰ کے اس پیغام کو جماعت تک پہنچا تا ہوں۔ پہلے میری طرف سے ہی گھبراہٹ تھی اور میں جماعت کو بار بار کہتا تھا کہ جلدجلد بڑھو۔ جلد جلد اپنا قدم آگے کی طرف بڑھاؤ مگر اب خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی یہ گھبرا دینے والا پیغام آ گیا ہے۔کہ؎ روز جزا قریب ہے، اور رہ بعید ہے روز جزا قریب ہے، اور رہ بعید ہے۔‘‘ (الفضل ۲۷/ اپریل ۱۹۴۴ء،صفحہ ۱) مزید پڑھیں:فلسطین میں قیامِ امن کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ دو اہم نکات