’’اِس فرقہ کا نام مسلمان فرقہ احمدیہ اس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ دوسرا احمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ …آخری زمانہ میں پھر اسم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہو گا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنی جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائے۔ تا اس نام کو سُنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقہ کوکچھ سروکار نہیں۔‘‘(حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) گذشتہ دنوں ایک مولوی صاحب،جو کہ اپنا تعارف بھی برصغیر کے ایک مشہور فرقہ سے کروا رہے تھے، سوشل میڈیا پر بیٹھے بڑے زور و شور سے اعتراض کر رہے تھے کہ جب خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ وَلَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران:۱۰۴) باہم فرقہ فرقہ نہ بنواورفرمایا ہے کہ وَلَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَاخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ ؕ (آل عمران: ۱۰۶) اور ان لوگوں کى طرح نہ ہو جو فرقہ فرقہ ہوگئے اور انہوں نے اختلاف کىا بعد اس کے کہ اُن کے پاس کھلے کھلے نشانات آچکے تھےنیزهُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ (الحج:۷۹) اُس (ىعنى اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا۔ اس لیے مرزا صاحب(علیہ السلام ۔فداہ ابی و امی) نے اپنی جماعت کا نام ’’فرقہ احمدیہ‘‘ رکھ کر اِن احکام قرآنی کی واضح خلاف ورزی کی ہے۔ جواب:یاد رہے کہ ایک ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کے ’’اوامر و نواہی‘‘ یعنی بعض اشیاء کو بجا لانے کے احکامات، اوربعض دیگر اشیاء سے اُن کے روحانی،جسمانی،اخلاقی یا تمدنی نقصانات کے پیش نظر،بچنے کی تلقین پر مبنی احکامات ۔ اور دوسرا ہوتا ہے عالم الغیب خدا کے ’’علمِ الہی ‘‘ کی بنیاد پر ’’خبرِ الٰہی‘‘ یعنی حکم خداوندی کے باوجود جن لوگوں نے اِن احکامات پر عمل کرنا ہے،یا جن لوگوں نے عملاً وہ احکامات بجا نہیں لانے ۔اِن آئندہ ہونے والے واقعات کی، اپنے پیاروں کے ذریعہ لوگوں کے لیے معلومات اور خبریں مہیا کرنا۔ مثلاً اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اُس نے بنى آدم کى صُلب سے، ان کى نسلوں کے مادّۂ تخلىق کو پکڑا اور خود انہىں اپنے نُفوس پر گواہ بنادىا (اور پوچھا) کہ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی… (الاَعراف: ۱۷۳) کىا مىں تمہارا ربّ نہىں ہوں؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس پر گواہ ہیں۔اِسی خدا کی کچھ پہچان اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی ذات کا علم دیتے ہوئے یہ دی ہے کہ هُوَاللّٰهُ أَحَدٌ (الاخلاص:۲) کہ وہ اللہ اىک ہى ہے، بے احتىاج ہے،نہ اُس نے کسى کو جنا اور نہ وہ جنا گىا، اور اُس کا کبھى کوئى ہمسر نہىں ہوا ۔تاہم اس ذات قدوس کے باوجود بکثرت لوگوں نے اپنے خود تراشیدہ بتوں کو خدا تعالیٰ کے بالمقابل معبود بنا یا ہوا ہے، اور اِس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے،اور اُن کی نیابت میں اِن انبیاء کی امتوں سے یہ پختہ عہد لیا تھا کہ جب بھی تمہارے پاس کوئی رسول آئے لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ (آل عمران: ۸۲)تو تم ضرور اس پر اىمان لاؤ گے اور ضرور اس کى مدد کرو گے۔ لیکن عملاً تاریخ ہمیں کیا بتاتی ہے ؟ فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَآ إِيْمَانُهَآ إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ (يونس: ۹۹) کہ کىوں قوم ىونس کے سوا،اىسى کوئى بستى والے نہىں ہوئے جو(خدا اور نبی وقت پر) اىمان لائے ہوں۔ حالانکہ حکم خدا تو یہ تھا کہ ایمان لانا ہے اور نصرت کرنی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ افسوس کا اظہا ر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ ۚؑ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ۔ (يٰس: ۳۱) وائے حسرت بندوں پر! ان کے پاس کوئى رسول نہىں آتا مگر وہ اس سے ٹھٹھا کرنے لگتے ہىں ۔ اِس بات کو سمجھانے کے لیے ’’مشتے از خروارے‘‘ تین عدد مزید مثالیں پیش ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تاکیدی ہدایت دی ہے کہ ہمیشہ قول سدید اختیار کریں،چنانچہ فرمایا قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا (الاحزاب:۷۱)صاف اور سىدھى بات کىا کرو ۔جبکہ اب اِس حکم خداوندی کے باوجو د مسلمانوں کی سچائی کی بابت، ناگفتہ بہ حالت، لائق مزید گفتگو نہیں۔ تاہم یاد رہے کہ اِس بات کا تذکرہ حضرت رسول اللہﷺ نے آج سے پندرہ سو سال قبل ہی فرما دیا تھاکہ خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَفْشُوْ الْکَذِبُبہترین لوگ میری صدی کے ہیں پھر دوسری اور پھرتیسری صدی کے۔ اس کے بعد جھوٹ پھیل جائے گا۔(ترمذی ابواب الشہادات باب ماجاء فی شہادۃ الزور) چنانچہ فرقہ دیوبند کے معروف عالم اشرف علی صاحب تھانوی اپنے ایک دوست کی بات کو لطیف بات قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:’’اگر سواد اعظم کے معنیٰ یہ بھی مان لئے جائیں کہ جس طرف زیادہ ہوں تو ہر زمانہ کے سواد اعظم مراد نہیں بلکہ خیرالقرون کا زمانہ مراد ہے جو غلبہ خیر کا وقت تھا ان لوگوں میں سے جس طرف مجمع کثیر ہو وہ مراد ہے نہ کہ ’’ثُمَّ یَفْشُوْالْکَذِبَ‘‘ کا زمانہ۔یہ جملہ ہی بتا رہا ہے کہ خیر القرون کے بعد شرمیں کثرت ہوگی۔‘‘ (ماہنامہ البلاغ کراچی جولائی ۱۹۷۶ء صفحہ۵۹) احراری لیڈر سید عطاء اللہ شاہ بخاری مسلمانوں کی اکثریت کو باطل پر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔’’ہم نام نہاد اکثریت کی تابع داری نہیں کریں گے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اکثریت باطل پر ہے۔‘‘(سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۱۱۶ از خان حبیب الرحمان خان کابلی) اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمیشہ حقیقت اسلام پر قائم رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہوَلَا تَمُوْتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (آل عمران:۱۰۳) تم ہرگز نہ مرنا، مگر اس حالت مىں کہ تم پورے فرمانبردار ہو۔اور اِس سے اگلی آیت ہی وہ ہے جو معترض پیش کر رہے ہیں کہ وَلَا تَفَرَّقُوا (آل عمران: ۱۰۴) یعنی باہم فرقہ فرقہ نہ بنو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس واضح ہدایت اور حکم کے باوجود کیا مسلمانوں نے باہم فرقہ فرقہ ہوجانا تھا؟ اور کیا اِس فرقہ بازی کی اطلاع اللہ تعالیٰ جو کہ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ(الحشر:۲۳) یعنی غىب اور حاضر کو جاننے والے خدا نے ہمیں اپنے ’’علم الغیب‘‘ سے بتائی تھی؟ قارئین! نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ باوجودیکہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو بنیادی یہی ہدایات دی تھیں کہ ایمانیات اور ارکان اسلام اور دیگر ہدایات کی ہمیشہ پابندی کرتے چلے جانا، ان ہدایات کے باوجود کہ باہم اختلاف نہ کرنا، مسلمانوں نے احکامات خداوندی کی نافرمانی کرتے ہوئے اختلاف کرنا تھا۔ اِسی لیے رسول اللہ ﷺنے بطور خبر بتلایاتھا کہ …إِنَّ بَنِي إسْرَائِيْلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً۔ قَالُوا وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي۔(ترمذی ابواب الایمان باب افتراق ھٰذہ الامۃ) بنی اسرائیل کے بہتر فرقے ہوگئے تھے اور میری امت کے تہتر فرقے ہوجائیں گے ان تہتر میں سے سوائے ایک فرقہ کے باقی سب فرقے دوزخ میں جائیں گے۔صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہﷺ یہ کون ہے؟تو آپﷺ نے فرمایا: جس طریق پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ جبکہ ایک دوسری حدیث میں اس پیاری جماعت کی نشانی یہ بیان فرمائی ہے کہوَهِيَ الْجَمَاعَةُ(سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن،بَابُ افْتِرَاقِ الْأُمَمِ۔حدیث نمبر۳۹۹۳)یعنی اس گروہ کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ واجب الاقتدا امام کی مقتدی جماعت ہے۔ اب صرف یہ دیکھنا ہے کیا یہ ’’اخبار غیب‘‘پر مبنی حضرت رسول اللہﷺ کی پیشگوئیاں پوری ہوگئی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ مولانا الطاف حسین حالی مرحوم نے ۱۸۷۹ء میں اپنی مشہور مسدس میں لکھا: رہا دین باقی نہ اسلام باقی اک اسلام کا رہ گیا نام باقی (مسدس حالی بند نمبر ۱۰۸) علامہ محمداقبال صاحب مسلمانوں کی موجودہ حالت کے متعلق خود گواہی دے کر چلے گئے ہیں کہ رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو (بانگ ِدرا زیر عنوان جواب شکوہ) اسی طرح جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:’’یہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے ۹۹۹ فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق وباطل کی تمیز سے آشنا ہیں۔نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے۔ باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے اس لئے یہ مسلمان ہیں۔‘‘(مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحہ ۱۳۰ مطبوعہ آرمی پریس دہلی) ضمناً عرض ہے کہ یہ سوال کہ پھر’’الجماعۃ‘‘ سے کیا مراد ہے؟اس بابت یاد رہے کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر مسجد میں سو آدمی اپنی اپنی نماز پڑھ رہےہوں تو کوئی نہیں کہتا کہ جماعت ہورہی ہے، لیکن اگر دو آدمی بھی نماز باجماعت پڑھ رہے ہوں تو ہر شخص کہے گا کہ جماعت ہو رہی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جماعت بغیر امام کے نہیں ہو سکتی اورحقیقی روحانی امام وہی ہو گا جو یا نبی ہو یا نبی کا خلیفہ ہو۔ نیز حضور ﷺ نے حضرت حذیفہ ؓ کو فرمایا تَلْزِمُوْ جَمَاعَةَ المُسْلِمِيْنَ وَإِمَامَهُمْ کہ اے حذیفہ! ہمیشہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ وابستہ رہنا۔ حذیفہؓ نے عرض کی فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ کہ یا رسول اللہ اگر کسی زمانہ میں نہ جماعت ہو اور نہ امام ہو تو پھر کیا کیا جائے۔ فرمایافَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا کہ پھر تمام فرقوں کو چھوڑ دینا۔(بخاری کتاب الفتن باب کیف الامر اذا لم تکن جماعۃ) جبکہ ایک اور حدیث میں یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ فَإِنْ رَأَيْتَ يَوْمَئِذٍ خَلِيفَةَ اللّٰهِ فِي الْأَرْضِ فَالْزَمْهُ، وَإِنْ نَهَكَ جِسْمَكَ وَأَخَذَ مَالَكَ۔اگر تو اس وقت زمین میں خدا کا خلیفہ دیکھے تو اس کے ساتھ چمٹ جانا خواہ تیرا جسم چھلنی کر دیا جائے اور تیرا مال تجھ سے چھین لیا جائے۔(مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر ۲۳۴۲۵ زیر عنوان حدیث حذیفہ بن الیمان ) اسی طرح قرآن کریم میں تذکرہ ہے کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ جس کا نظارہ کرکے روحیں کانپ جائیں، حتی کہ رسول نے بھی پکار اٹھنا تھا کہ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِیْ اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا۔ (الفرقان: ۳۱) اے مىرے ربّ! ىقىناً مىرى قوم نے اس قرآن کو پیٹھ کے پیچھے پھینکی ہوئی چیز کی مانند کر دیا ہے۔ اسی طرح ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کی صفتِ عالم الغیب اور علام الغیوب کے مظہر اَتم،جن کے متعلق فرمایا گیا ہے کہوَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍ(التکویر:۲۵)یعنی وہ غیب کے بیان پر بخیل نہیں۔ آپ کے بیان کردہ غیب کی خبریں جن پر شیعہ و سنی روایات متفق ہیں،ان میں سے ایک یہ تھی کہ ایک وقت آنے والا ہے جب اسلام صرف نام کا باقی رہ جائے گا وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُاور قرآن کے صرف الفاظ یعنی رسماً لکھا ہوا باقی رہ جائے گا،مساجد بظاہر آباد ہوں گی تاہم ہدایت سے خالی ہوں گی۔ (مشکوۃ۔کتاب العلم) اور یہی زمانہ تھا جس کی نسبت رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ يَقْرَءُوْنَ القُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ (بخاری، كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ۔بَابُ إِثْمِ مَنْ رَاءَى بِقِرَاءَةِ القُرْآنِ أَوْ تَأَكَّلَ بِهِ أَوْ فَخَرَ بِهِ۔حدیث نمبر: ۵۰۵۸)یعنی یہ لوگ تلاوت تو کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا۔ یہ کیفیات اور پیش گوئیاں کیا اب عملاً واقع ہوگئی ہیں یا نہیں؟ اس کے ثبوت کے لیے اہل حدیث عالم، نواب نورالحسن خاں صاحب آف بھوپال کا ۱۳۰۱ھ میں اپنی کتاب میں لکھا بیان ملاحظہ فرمائیں: ’’اَب اسلام کا صرف نام، قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے،مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہیں لیکن ہدایت سے بالکل ویران ہیں۔علماء اس امت کے بدتر ان کے ہیں جو نیچے زمین کے ہیں۔ انہیں سے فتنے نکلتے ہیں۔ انہیں کے اندر پھر کر جاتے ہیں۔ ‘‘(اقتراب الساعۃ ۱۲۔مطبع مفید عام ۔بادارۃ المنشی محمد خان ۔۱۳۰۱) اسی مضمون یعنی کہ ایک زمانہ آنے والا ہے جس میں قرآن صرف رسماً باقی رہ جائے گا۔ پر مشتمل روایات کتب شیعہ میں بھی موجود ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ لَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهٗ (الکافی کتاب الروضۃ صفحہ۱۴۴ زیر عنوان حدیث الفقہاء والعلماء) اور اس پیش خبری کے پورا ہونے کا اقرار کرتے ہوئے بہت بڑے شیعہ مجتہد علامہ علی حائری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے’’آثار و آیاتِ اسلام و قرآن منہدم وارکان دین وایمان باطرۃ منہدم شدہ می روند روزے رسد کہ مصداق صحیح لایبقی من القرآن الارسمہ، ولا من الاسلام الاّ اسمہ، بربسیار اھل ایں دیار صادق اید‘‘ (غایۃ المقصود جلد ۲صفحہ۴) پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے خود آخری زمانہ میں امت میں ظاہر ہونے والے فسادات کا جس تفصیل سے نقشہ کھینچا ہے اس سے انکار کرنے والا کمبخت خود کیا کہلائے گا؟جہالت اور حماقت جب کسی میں مرکب ہوجاتی ہیں تو وہ حملہ کرتے وقت یہ بھی نہیں سوچتا کہ اس کا رخ کس طرف ہے؟ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا تھا کہ اِس زمانہ اضطراب اور انتشار کے وقت جب لوگ اپنے علماء کے پاس راہ نمائی کی امید سے جائیں گے تو وہ انہیں بندروں اور سؤروں کی طرح پائیں گے۔تَكُوْنُ فِيْ أُمَّتِيْ فَزْعَةٌ فَيَصِيْرُ النَّاسُ إِلىٰ عُلَمَائِهِمْ فَإذَا هُمْ قِرَدَةٌ وَخَنَازِيْرُ(کنز العمال کتاب القیامہ من قسم الاقوال باب الخسف والمسخ حدیث نمبر ۳۸۷۲۷جلد ۱۴صفحہ ۲۸۰) اسی طرح کی پیش خبری پر مشتمل روایات شیعہ لٹریچر میں بھی ملتی ہیں کہ کوئی ایسی بات بنی اسرائیل میں واقع نہیں ہوئی جو اسی طرح میری امت میں نہ ہو گی۔…اللہ کی قسم! یہ بات بعید نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ مِنْ هَذِهِ الْاُمّةُ قِرَدَةً وَّ خَنَازِيْرَ اس امت میں بہت سے لوگوں کو بندر اور خنزیر بنادے۔( بحار الانوار۔ جلد ۱۰ صفحہ ۲۳۳۔دارالاحیاء التراث بیروت) اور بقول حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ’’اگر نمونہ یہود خواہی کہ بینی علماء سوء کہ طالبِ دنیا باشند…کأنّھم ھم‘‘(الفوز الکبیر مع فتح الخبیر فی اصول التفسیر باب اول صفحہ۱۰۔ مطبع مجتبائی دہلی) یعنی اگر آج آپ ان علمائے یہود کا عملی نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے اردگرد اُن علمائے سوء کو دیکھ لیں گویا کہ یہ وہی لوگ ہیں ۔ اسی طرح مشہور اہلحدیث عالم مولوی نور الحسن خان صاحب لکھتے ہیں:’’یہ بڑے بڑے فقیہہ، یہ بڑے بڑے مدرس، یہ بڑے بڑے درویش،جو ڈنکا دینداری،خدا پرستی کا بجا رہے ہیں ردّ حق،تائید باطل،تقلید مذہب وتقیدِ مشرب میں مخدوم عوام کالانعام ہیں۔ سچ پوچھو تو دراصل پیٹ کے بندے نفس کے مرید ابلیس کے شاگرد ہیں ۔‘‘(اقتراب الساعۃ صفحہ۸) جماعت احمدیہ کی وجہ تسمیہ بزبان بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام ہندوستان میں مردم شماری کے موقع پر حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے ۴؍نومبر۱۹۰۰ء کو ’’اشتہار واجب الاظہار ‘‘ کے نام سے ایک اشتہار شائع کیا جس میں آپؑ نے تحریر فرمایا : ’’ چونکہ اب مردم شماری کی تقریب پر سرکاری طور پر اس بات کا التزام کیا گیا ہے کہ ہر ایک فرقہ جودوسرے فرقوں سے اپنے اصولوں کے لحاظ سے امتیاز رکھتا ہے علیحدہ خانہ میں اس کی خانہ پُری کی جائے اور جس نام کو اس فرقہ نے اپنے لئے پسند اور تجویز کیا ہے وہی نام سرکاری کاغذات میں اس کا لکھا جائے۔ اس لئے ایسے وقت میں قرین مصلحت سمجھا گیا ہے کہ اپنے فرقہ کی نسبت ان دونوں باتوں کو گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں یاد دلایا جائے اور نیز اپنی جماعت کو ہدایت کی جائے کہ وہ مندرجہ ذیل تعلیم کے موافق استفسار کے وقت لکھوائیں۔ اور جو شخص بیعت کرنے کے لئے مستعد ہے۔ گو ابھی بیعت نہیں کی اس کو بھی چاہیئے کہ اس ہدایت کے موافق اپنا نام لکھوائے اور پھر مجھے کسی وقت اپنی بیعت سے اطلاع دے دے۔ …اور وہ نام جواِ س سلسلہ کے لیے موزون ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلمان فرقہ احمدیّہ ہے۔ اور جائز ہے کہ اس کو احمدی مذہب کے مسلمان کے نام سے بھی پکاریں۔ یہی نام ہے جس کے لئے ہم ادب سے اپنی معزز گورنمنٹ میں درخواست کرتے ہیں کہ اسی نام سے اپنے کاغذات اور مخاطبات میں اس فرقہ کو موسوم کرے یعنی مسلمان فرقہ احمدیّہ ۔… اور اِس فرقہ کا نام مسلمان فرقہ احمدیہ اس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ دوسرا احمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور اسم محمد جلالی نام تھا۔ اور اس میں یہ مخفی پیشگوئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان دشمنوں کو تلوار کے ساتھ سزا دیں گے جنہوں نے تلوار کے ساتھ اسلام پر حملہ کیا اور صد ہا مسلمانوں کو قتل کیا۔ لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے۔ سو خدا نے ان دوناموں کی اس طرح پر تقسیم کی کہ اوّل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکّہ کی زندگی میں اسم احمد کا ظہور تھا ۔ اور ہر طرح سے صبر اور شکیبائی کی تعلیم تھی اور پھر مدینہ کی زندگی میں اسم محمدؐ کا ظہور ہوا اور مخالفوں کی سرکوبی خدا کی حکمت اور مصلحت نے ضروری سمجھی لیکن یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اسم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہو گا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنی جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائے۔ تا اس نام کو سُنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقہ کوکچھ سروکار نہیں۔ سو اے دوستو آپ لوگوں کو یہ نام مبارک ہو اور ہر ایک کو جو امن اور صلح کا طالب ہے یہ فرقہ بشارت دیتا ہے نبیوں کی کتابوں میں پہلے سے اس مبارک فرقہ کی خبر دی گئی ہے اور اس کے ظہور کے لئے بہت سے اشارات ہیں۔ زیادہ کیا لکھا جائے خدا اس نام میں برکت ڈالے۔ خداایسا کرے کہ تمام روئے زمین کے مسلمان اسی مبارک فرقہ میں داخل ہوجائیں۔تا انسانی خونریزیوں کا زہر بکلِّی ان کے دلوں سے نکل جائے اور وہ خدا کے ہو جائیں اور خدا ان کا ہو جائے۔ اے قادر و کریم تو ایسا ہی کر۔ آمین۔ ‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ۱۳۷تا۱۴۶ ۔قادیان ایڈیشن اوّل:۲۰۱۹ء) ۔نیز تریاق القلوب۔روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۵۱۷ تا ۵۲۸) احمدی نام کیوں رکھا گیا ہے؟ ایک مولوی صاحب آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ خدا نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے۔آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھاہے؟ یہ بات هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ (الحج:۷۹) کے برخلاف ہے۔ اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ ا لسلام نے فرمایا ہے کہ ’’اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے۔لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہے اسلام کے ۷۳ فرقے ہوگئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔انہی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہ کو سبّ و شتم کرتے ہیں نبی کریم کے ازواجِ مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں اولیاء اللہ کو بُرا کہتے ہیں پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔ خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو بُرا کہتے ہیں اور پھر بھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔بلادِ شام میں ایک فرقہ یزیدیہ ہے۔جو امام حسین پر تبرّہ بازی کرتےہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں۔اسی مصیبت کو دیکھ کر سلف صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی، حنبلی وغیرہ تجویز کئے۔ آج کل نیچریوں کا ایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت، دوزخ،ملائک، وحی سب باتوں کا منکر ہے۔یہاں تک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سن کر یہ قصے لکھ دیئے ہیں۔غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے واسطے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا۔ حضرت یہ تقریر کر رہے تھے کہ اس مولوی نے پھر سوال کیا کہ قرآن شریف میں تو حکم ہے کہ لَاتَفَرَّقُوْا ( اٰلِ عمران:۱۰۴) اور آپ نے تو تفرقہ ڈال دیا۔ حضرت نے فرمایا۔ہم تو تفرقہ نہیں ڈالتے بلکہ ہم تفرقہ دُور کرنے کے واسطے آئے ہیں۔اگر احمدی نام رکھنے میں ہتک ہے تو پھر شافعی حنبلی کہلانے میں بھی ہتک ہے۔مگر یہ نام ان اکابر کے رکھے ہوئے ہیں جن کو آپ بھی صلحاء مانتے ہیں۔وہ شخص بد بخت ہوگا جو ایسے لوگوں پر اعتراض کرے اور ان کو بُرا کہے صرف امتیاز کےلیے ان لوگوں نے اپنے یہ نام رکھے تھے۔ہمارا کارو بار خدا کی طرف سے ہے اور ہم پر اعتراض کرنے والا خدا پر اعتراض کرتا ہے۔ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔ اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو۔خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتّب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہو سکتی۔ امام شافعی اور حنبل وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہوگئی تھیں۔اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہو سکتی۔ہزار ہا گندے آدمی ملے جلے رہتے۔یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے۔اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہوجاتا ہے کہ بدعتی اور غیر بدعتی میں تمیز نہ ہو سکتی۔اب بھی ایسا زمانہ آگیا ہے کہ گھر گھر ایک مذہب ہے۔ہم کو مسلمان ہونے سے انکار نہیں مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھا گیا ہے۔پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت والوں سے اختلاف کیا اور عام نظروں میں ایک تفرقہ ڈالنے والے بنے۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تفرقہ خود خدا ڈالتا ہے۔جب کھوٹ اورملاوٹ زیادہ ہوجاتا ہے تو خدا خود چاہتا ہے کہ ایک تمیز ہوجائے۔ مولوی صاحب نے پھر وہی سوال کیا کہ خدا نے تو کہا ہے کہ هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ (الحج:۷۹) فرمایا۔کیا اس میں رافضی اور بدعتی اور آجکل کے مسلمان شامل ہیں؟ کیا اس میں آجکل کے وہ لوگ شامل ہیں جو اباحتی ہو رہے ہیں؟ اور شراب اور زنا کو بھی اسلام میں جائز جانتے ہیں۔ہرگز نہیں۔اس کے مخاطب تو صحابہ ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ قرونِ ثلاثہ کے بعد فیج اعوج کا زمانہ ہوگا جس میں جھوٹھ اور کذب کا افشا ہوگا۔آنحضرتؐ نے اس زمانہ کے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے لَیْسُوْا مِنِّیْ وَ لَسْتُ مِنْـھُمْ نہ ان کا مجھ سے کوئی تعلق ہے نہ میرا ان سے کوئی تعلق ہے۔وہ لوگ مسلمان کہلائیں گے مگر میرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں۔میں کوئی بدعت نہیں لایا۔جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمد کے نام میں اسلام اور اسلام کے بانی احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتصال ہے۔اور یہ اتصال دوسرے ناموں میں نہیں۔احمد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے۔اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے۔(ملفوظات حضرت مسیح موعودؑ۔جلد ہشتم ۔صفحہ۲۴تا ۲۷۔ایڈیشن ۲۰۲۲ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: نبوت اور خلافت کے متعلق جماعت احمدیہ کا موقف