(یہ نظم ۱۷؍جون ۱۹۹۰ء کی شام مشاعرہ منعقد درمرٹن ہال میں پڑھی گئی) اللہ کرے کوئی اُنہیں جا کے بتا دے عزت اسے ملتی ہے جِسے میرا خُدا دے سورج کی طرح حق بھی چمکتا ہے جہاں میں گو کوئی اسے لاکھ ہی پردوں میں چُھپا دے مظلوم کی آہیں کبھی خالی نہیں جاتیں جا کرکوئی انصاف کے پُتلوں کو بتا دے دنیا نے ہے انصاف کی توقیر گھٹا دی یا رب تو مرا حوصلہٴ ضبط بڑھا دے یوں ہی سہی لو فاتحۂ خیر تو پڑھ دیں انصاف کہاں دفن ہے کوئی یہ بتا دے فرزانے ہی فرزانے ہیں فرزانے ہیں ہر سو دیوانہ بنا دے مجھے دیوانہ بنا دے اے فہمِ رسا ٹھہر ذرا بند نہ کرنا! ’’دیوانوں کی فہرست میں اک نام بڑھا دے‘‘ مظلوم تیری گود میں پلتے ہیں ہمیشہ ظالم کو بھی کُچھ فہم و ذکاء دے تُو حیا دے تاریخ سے ظالم نے نہیں سیکھا ہے کچھ بھی طاقت کے نشے میں ہے تُو ہی اُس کو سُجھا دے ستّار ہے غفّار ہے قہّار ہے مولیٰ چاہے جسے بخشے تُو جسے چاہے سزا دے تقدیر تیری بندی ہے تو مالک تقدیر! چاہے جسے رکھے تُو جسے چاہے مِٹا دے ہے واسطہ رحمت کا تیری رحم مجسّم بیمار خطاکار ہیں ہم سب کو شفا دے تیری ہی محبت کے لیے وقف رہے دل غفلت میں کوئی اِس کو نہ بُت خانہ بنا دے آباد رہے صبح و مسا حمد سے تیری ایسا نہ ہو کوئی اسے وِیرانہ بنا دے اے احمدیؔ یہ نظم تیرے پیاروں نے سُن لی بِن داد نہ تُو جائے تجھے داد خُدا دے (چودھری عنایت اللہ احمدیؔ) مزید پڑھیں: خلافت ہی تو دینِ حق کی سچی ترجماں ہے آج